بادلوں پہ کیا بھروسہ دھوپ کا کیا اعتبار
آدمی کو چاہیے دریا کا دھارا دیکھنا
گفتار خیالی کو ہم سے بچھڑے ساتواں برس بیت چکا (وفات 23 ستمبر 2006)، آپ فطری طور پر ایک شاعر تھے وقت کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری کے رنگ بھی بدلتے رہے اور ان کے علمی وادبی ذوق کو مطالعہ اور مشاہدہ نکھارتا چلا گیا، سچے فنکار کے دل میں تخلیق کی لگن بجھ نہیں سکتی، فن تخلیق کرنا تو اپنے اندر قیامت تک الاؤ لگا لینے کا نام ہے، گفتار خیالی جو دائرہ دین پناہ جیسے ایک پسماندہ اور افتادہ قصبہ کے باسی تھے، ایک قابلِ فخر کردار کے طور پر جانے جاتے تھے، ان کی شاعری میں حسن، لطافت، اقدارِ حیات کی سربُلندی، ذاتی تجربات ومشاہدات، خلوص وصداقت، جذبات واحساسات کی شدت، معاشرتی نا ہمواریوں کا شکوہ، انسان کی بے چہرگی کا ماتم، انسان دوستی کا جذبہ، غمِ ذات وکائنات، فکری بصیرت، انسانی وآفاقی رشتوں کی تلاش بہت ہی نمایاں تھی، ان کی غزلیں مخصوص خد وخال، مزاج اور لب ولہجہ کی نمائندگی کرتی ہیں، جبکہ نظموں میں تسلسل، ربط، تاثراتی شدت اور شیرینی بدرجہ اتم موجود ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ گفتار خیالی کی ذات وقارِ آدم کا انمول سراپا تھی، ان کے قہقہے روح کو وجدان بخشتے، آپ ولی نہیں تھے، مگر ان کا قلب، ان کی نظر ولیوں سے کم نہ تھی، گفتار خیالی صاحب آج تیرے خستہ دل غمخوار، عزیز واقارب، اہلِ خانہ، دوست احباب تیری یادوں کی راہگزر پر برسی کا دیا روشن کیے بیٹھے ہیں، تڑپا دینے والی چٹان پر بیٹھے آپ کو موت کی وادی سے واپس لوٹنے کے لیے صدائیں دے رہے ہیں، آپ کے ننھے پوتے، نواسے، نواسیاں، بیٹے، بیٹیاں، دل گرفتہ بھائیوں کی کُرلاٹیں اور درد بھری صدائیں صدائے گنبد کی طرح گونج کر سوز میں تبدیل ہوجاتی ہیں، آپ کے بغیر آپ کے اشعار آپ کی دردمند فطرت بے قرار دل اور مضطرب روح کا حال سنا رہے ہیں، آپ کی یادوں کے روشن چراغ ہمارے لیے فانوسِ راہ کا کام دے رہے ہیں، جب تک آپ کا کلام زندہ ہے، ادب اور فن زندہ ہے، انسانیت، دردمندی، مروت، حسنِ اخلاق اور وسعتِ قلب ونظر زندہ ہے اس وقت تک آپ بھی زندہ ہیں، آپ کا نام آپ کا کلام بھی زندہ ہے۔
پتھر بھی آج موم کی صورت پگھل گیا
گفتار کے کلام کا اعجاز دیکھنا
گفتار خیالی مرحوم کے متعلق ملک بھر کے نامور شعراء ادباء، نقاد اور ہمعصر شعراء کی آراء پیشِ خدمت ہیں: ظہیر کاشمیری کی رائے ہے کہ گفتار خیالی نوجوان نسل کے شاعروں میں اپنا ایک علیحدہ اور منفرد مقام رکھتے ہیں، خارجی حالات کی جبریت کے خلاف ردِ عمل کے طور پر دوسرے شاعروں کی طرح اپنی ذات کی ٹوٹ پھوٹ اور اکیلے پن کا نوحہ نہیں لکھتے بلکہ اسلوب کے خلاف نبرد آزما ہونے کا رزمیہ تحریر کرتا ہے، وہ شرفِ انسانی اور اعلی اقدار کا ترجمان ہے اور تقدیر پرستی کے فلسفہ کے خلاف غلاموں، پسماندہ طبقوں کو جہادِ حریت کا پیغام دیتا ہے، وہ عمل وتغیر کا وظیفہ خواں ہے اور مبنی بہ انصاف معاشروں کی بنیاد پر عالمی امن کا خواب دیکھتا ہے، اُس کا اُسلوبِ بیان اُس کا اپنا ہے، وہ لفظوں کی تراش خراش کے مفہوم سے آگاہ ہے اور واضح اور مناسب اندازِ بیان کے ذریعہ قاری تک اپنے جذبات کی ترسیل کرتا ہے۔
چاند کی تارے کی جگنو کی نہ تتلی کی طلب
تیسری دنیا کے بچوں کو ہے روٹی کی طلب
ظلم حد سے بڑھ گیا اتنا کہ اب مظلوم بھی
گھر کے برتن بیچ کر کرتا ہے برچھی کی طلب
ملک کے نامور شاعر ادیب، نقاد ممتاز افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی کا خیال ہے کہ: گفتار خیالی کے اندر تخلیقِ فن کا جو شعلہ بے قرار ہے وہ ملک کے ادبی وتہذیبی مراکز سے دوری کے باوجود بجھنے نہیں پاتا، اس کی دوری کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ گفتار خیالی کے اسلوبِ اظہار اپنی ایک واضح انفرادیت رکھتا ہے اس کا تخلص گفتار ہے، لیکن اگر خوش گفتار کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔
ہم ہیں سورج ہمارے ساتھ چلو
ہم جہاں ہوں گے شب نہیں ہوگی
ملک کے نامور شاعر، ادیب امجد اسلام امجد کہتے ہیں: گفتار خیالی جدید نسل کے شعراء میں ایک جانا پہچانا نام ہے، ان کے کلام میں بے ساختگی، جذبے کے وفور اور احساس کی شدت کی جگہ تفکر، سنجیدگی اور اپنے امیج کو بنائے رکھنے کا احساس نمایاں ہوجاتا ہے، لیکن گفتار خیالی کے ہاں یہ واردات ہوتے ہوتے رہ گئی، گفتار خیالی کی نظموں اور غزلوں میں ایک مخصوص انداز کی ہمواریت کا احساس ہوتا ہے، وہ نظم میں غزل اور غزل میں نظم کے پینترے بڑی بے تکلفی سے استعمال کرتے ہیں، اس کی فکر ایک جدید اور حساس ذہن کی آئینہ دار ہے، ان کے کلام کو پڑھ کر خوشی محسوس ہوتی ہے۔
فکر پر فالج گرا اور ذہن مردہ ہوگیا
شدتِ اظہار سے ہر لفظ گونگا ہوگیا
مدتوں سورج کی گردش پر رہی جس کی نظر
روشنی کے شوق سے آنکھوں سے اندھا ہوگیا
نامور شاعر شبنم رومانی کا خیال ہے: گیت روحانی سگندھ اور روحانی سمبندھ کا نام ہے، اور جب گیت سے یہ دونوں چیزیں الگ کردی جائیں تب اس کے صراطِ نظم کہنے کی واردات سے جا ملتے ہیں جس سے گیت کی رنگ ارپنا خائف اور رنگ درپنا غائب ہوجاتی ہے، گیت کے لیے کسی عروضی ہیئت کی قید نہیں ہے، گفتار خیالی مزاجاً غزل کے ساتھ ساتھ گیت ہی کے شاعر ہیں، یہ گیت فوری طور پر غزل سے مماثل ہے مگر گیت کی یہ صورت بھی بڑی اثر انگیز ہے، اس کا آہنگ شروع سے آخر تک اپنی طرف متوجہ رکھتا ہے، یہی اس کی کامیابی ہے۔
میرے قدموں کو زمیں بھی چومتے تھکتی نہ تھی
خاک پر بیٹھا ہوا تھا لا مکاں آنکھوں میں تھا
ڈاکٹر انور سدید اپنی رائے میں کہتے ہیں: گفتار خیالی بادِ نو بہار میں ٹہلتے اور گُلوں میں رنگ بھرتے بھرتے کارسازِ حیات میں شمشیرِ برہنہ لے کر کود پڑے اور غزل کے ساتھ نظمیں بھی کہنے لگے، غزل ہو یا نظم گفتار خیالی زندگی کے نشیب وفراز کی پرواہ کیے بغیر پُرخار راہ پر گامژن رہتے، پھولوں کی معیت میں رہنا ان کی فطرت تھا لیکن وہ کانٹوں سے لہو لہان ہونے کا حوصلہ بھی رکھتے، گفتار خیالی نے مضافات میں رہنے کے با وجود تمام معیاری رسائل میں چھپ کر اپنی شاعری کا سکہ تسلیم کرایا۔
کون اس ہجر زدہ عمر کو تنہا کاٹے
دشتِ غربت ہے مجھے لمحہ بہ لمحہ کاٹے
بہاروں کے خدا اتنی گزارش ہے میری
پھول مرجھائے نہ پتجھڑ کوئی شاخا کاٹے
مرتضی برلاس فرماتے ہیں: گفتار خیالی کی شاعری میں جذبہ وفکر کی آمیزش نے گہرے تاثرات کو جنم دیا، یہ تاثر ان کے اکثر اشعار میں بکھرا پڑا ہے، ان کی شاعری محبوب کے اس روایتی تصور سے پاک ہے جو عشق کی گہری معنویت سے تہی ہے اسی لیے تو کہتے ہیں:
شعور گفتار آگیا ہے نہ میرے لہجے میں زہر گھولو
مجھے اب اپنی زباں ملی ہے میں بے زباں تھا تو تم کہاں تھے
رئیس امروہوی کی رائے ہے کہ: گفتار خیالی غزل کے لیے تخلیق ہوئے ہیں، اور غزل کی تخلیق ان کی سرشت، شاعرانہ طبعی فریضہ ہے، ان کی شاعری میں عجیب نوع کا جمال اور جمال امتزاج پذیر ہوتا نظر آیا ہے، گفتار خیالی کی غزل تغزل کی جدید نشات ثانیہ کا دل نواز نمونہ ہے، ان کے کلام کی سب سے بڑی خوبی برجستگی اور روانی ہے، شعر ملاحظہ ہو:
اندھیری رات میں روشن ستارہ ہونے والا ہے
سفر میں یوں مسافت کا اشارہ ہونے والا ہے
وہ جلوے بے تحاشہ بانٹتا پھرتا ہے راہوں میں
وہ سورج کا زمیں پر استعارہ ہونے والا ہے
سید نصیر شاہ اظہارِ خیال کرتے ہیں: گفتار خیالی کو اپنے ہی قبیلہ کا فرد سمجھتا ہوں، وہ ایک چھوٹے سے شہر دائرہ دین پناہ )مظفر گڑھ( کا باشندہ جبکہ میں بھی میانوالی جیسے دور افتادہ اور معمولی شہر کا باسی ہوں، دونوں پر پسماندگی کے بدصورت سائے لرزاں ہیں، اور پھر ہم دونوں تیسری دنیا کے تہی مایہ قلم کار ہیں، ہماری ٹوٹی ہوئی شکستہ دل بانسریوں سے لہو کے سُر پھوٹتے ہیں، جہاں تک گفتار خیالی کا تعلق ہے، وہ فن برائے فن اور فن برائے زندگی کے اس تال میل سے واقف ہے، اس کی شاعری میں غمِ دوراں بھی ہے اور غمِ جاناں بھی، مگر اس حسنِ تناسب سے کہ قاری کے ذہن پر کسی ایک افراطِ بار نہیں ہوتی، وہ زندگی کا شاعر ہے اور زندگی کی یہ دھنک رنگی ہی تو محسوسات کو تخلیق بناتی ہے، گفتار خیالی کے پاس دلداریء گفتار بھی ہے اور حسن وجمالِ خیال بھی، گفتار خیالی کی غزل، نظم، ترقی پسندانہ سوچ حکمت ودانش سے بھرپور ہے۔
اگر ایثار کا پہلو ستمگر سے نکلتا ہے
مجھے تسلیم ہے دریا سمندر سے نکلتا ہے
کبھی زرخیز مٹی سے لہو کی فصل اگتی ہے
کبھی نشونما کا حسن پتھر سے نکلتا ہے
پروفیسر جیلانی کامران کی رائے ہے: گفتار خیالی کی غزل آئینہ اور خواب کا اس روایت کے مطابق ذکر کرتی ہے جو ہمارے شعری تمدن کو شعور دیتی ہے، لیکن یہ دونوں استعارے اسی دنیا میں ایسی جہت دکھاتے ہیں جو انسانوں کے غیر انسان میں بدل جانے سے رونما ہوتی ہے، گفتار خیالی نے دل اور دوراں دونوں کے ساتھ اپنے جس شعری رشتہ کو قائم کیا ہے اس نے ایک نہایت پُر تاثیر غزل کو رونما کرنے میں مدد دی ہے، معلوم نہیں آئیندہ سفر میں شاعر کی طبیعت کس رخ کو اختیار کرے گی تاہم اس وقت وہ جس نشانِ منزل پر ہے اس کی بے چینی اور قرب ایسا ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا، میرے خیال میں شاعر کی اصل طبیعت وہ ہے جہاں وہ بڑے بڑے موضوعات اور خارج کے ساتھ رابطوں سے ہٹ کر اس انداز میں کلام کرتا ہے۔
روپ سروپ کا سارا درپن بول اٹھے
چپ رہنے پہ دل کی دھڑکن بول اٹھے
رت پلٹے اک بستہ ہو اک تختی ہو
اک مکتب ہو جس میں بچپن بول اٹھے
ظفر اقبال کہتے ہیں: گفتار خیالی کافی عرصہ سے دائرہ دین پناہ جیسی چھوٹی غیر معروف اور دور افتادہ آبادی میں ایک تسلسل کے ساتھ شعر گوئی میں مصروف ہیں، اور اکثر دیگر ہم عصروں کی طرح اس نے بھی غزل ہی کو اپنا ذریعہء اظہار بنایا ہے جبکہ اس کے اظہارِ فن کی بلوغت اسے پختہ کار شعراء میں شامل کرنے کے لیے کافی ہے، اور صنفِ غزل کے ساتھ ساتھ اس کی کمٹمنٹ اسے ایک اور امتیاز عطا کرتی ہے، چنانچہ دور دراز کے پسماندہ قصبات میں شعر وادب کی قندیل کو ایک لگن کے ساتھ ساتھ روشن رکھنا بجائے خود ایک قابلِ تعریف عمل ہے، جبکہ گفتار خیالی کے موضوعات اور طرزِ ادا میں جدید طرزِ احساس کی طرح جُست بھرنے کی ایک واضح کوشش صاف طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔
زبان خشک تھی اور آنکھ میں سمندر تھا
میرا وجود بھی کرب وبلا کا منظر تھا
میں جس کے خوف سے خود کو نہ رکھ سکا سالم
وہ ایک چور تھا جو میرے دل کے اندر تھا
ڈاکٹر پروفیسر شاہین مفتی کی رائے ہے کہ: گفتار خیالی کی غزل موضوعات کے اعتبار سے جدید اور قدیم سلسلہ ہائے فکر کا سنگم ہے، انہوں نے اپنی نظموں میں اکیسویں صدی کے اُن مسائل پر روشنی ڈالی ہے جو امنِ عالم کے دشمن ہیں۔
شیر افضل جعفری کا خیال ہے کہ: گفتار خیالی سوچِ سنسار کا سارا سرس ہے، اس کی سونہاری ٹہنیوں پر غزل کنول اور نظم پھول کھلتے ہیں جن میں سندھ کی سوندھ سسی کا سوز اور ریت کی رتنا ہوتی ہے، اس جذبہ نے جوگ جپ سے جو جنپ لیا ہے اس کی الار پر بے اختیار پیار آتا ہے، میں نے تھل کے اس راول بنجارے کو کئی بار غزل منڈل میں سیر ہوکر سنا ہے، رسالوں اور اخباروں کے پتروں رج کے پڑھا ہے، پنچھی پنجاب کا یہ ہنل جھٹ لکھنے اور پٹ چھپنے کے باوجود پل پل پیارا ہوتا جا رہا ہے، اتنی خوبیوں اور اس قدر محبوبیوں کا سیٹھ ساہوکار ہوکر بھی اس کے مزاج میں فروتنی چھائی رہتی ہے، مٹ سمٹ کے جیے جانے کا یہ چلن ہی تو اس فن مدن کے لیے شبھ شگن ہے۔
طبقہ حارہ میں بھی قطبین کے اثرات تھے
جسم کا خون برف تھا خورشید میں تابش نہ تھی
ڈاکٹر خیال امروہی کی رائے ہے کہ: گفتار خیالی مردِ درویش اور بے غرض تخلیق کار تھے، بلکہ ہمیشہ رہیں گے، وہ 1966ء سے 2006ء تک تا دمِ مرگ میرے ساتھ رہے، اس طویل عرصہ میں مرحوم نے بڑے بڑے ادبی معرکے سر کیے، ایوارڈ حاصل کیے، اس کی شاعری میں انسانی درد، معاشرتی شکست وریخت اور لفظ ومعنی کی لطافتیں اس کثرت سے بصورتِ آمد دکھائی دیتی ہیں جن کی روشنی میں اسے تخلیقی شاعر کے عنوان سے عہد ساز متفکر ومفکر کہنا چاہیے، شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ فطرت کی جانب سے عطا کردہ صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے انسان، خدا اور کائنات کے اسرار ورموز کو سمجھے اور حتی الوسع انہیں فنکارانہ انداز سے بھی بیان کرے، گفتار خیالی نے اپنی درویش منش معروضت حقائق سے مخصوص لب ولہجے کو کام میں لاتے ہوئے فنی اسرار ورموز کے کئی خوبصورت دائرے اور زاویے تراشے، گفتار خیالی نے عوامی زبان میں بہت کچھ کہا، ہیئت وابلاغ کے بے شمار اور خوبصورت تجربے کیے، بلکہ اس کی بعض غزلوں اور نظموں میں ان کا لہجہ ایسا ہے کہ یہ لہجہ تا حال مجھے بھی نصیب نہیں ہوا، ان حقائق کو موجودہ بے ادب اور بد ذوق کیا جانیں، یہ بات ایسی نہیں جس سے تشخص ملیا میٹ ہوجائے، فن ایک بحرِ ناپید وکنار ہے، اس کی امواج اور قطرات سے اپنے دریا بناتے رہنا چاہیے۔
ظلمت شب کے مکینوں سے یہ کہہ دے کوئی
خون کے دیپ جلیں گے تو سحر دیکھیں گے
ڈاکٹر مختیار ظفر اظہارِ خیال کرتے ہیں: گفتار خیالی شعر برائے شعر گفتن کے نہیں بلکہ مقصدی شاعری کے قائل تھے، اور ترقی پسند شاعروں کی طرح اپنے جذباتی ذریعہء اظہار کو اصلاح، تعمیر اور ترقی کے لیے بروئے کار لانا شاعری کا مقصد سمجھتے تھے، اسی لیے وہ اپنی شاعری کے بارے میں کہتے ہیں:
بن جائے گی جو نغمہء جاں سوز ودل گداز
وہ آتشیں نوا کی لپک چھوڑ جاؤں گا
گفتار جس کی روشنی دن کا ثبوت دے
میں تیرگی میں ایسی مہک چھوڑ جاؤں گا
ڈاکٹر پروفیسر فوزیہ چوہدری کی رائے ہے کہ: گفتار خیالی جہاں غزل کے اچھے شاعر ہیں وہاں نظم کے بھی کامیاب شاعر ہیں، انہوں نے غزل کا شاعر ہوتے ہوئے نئی نظم قبول کرنے سے ہرگز گریز نہیں کیا، اور نظم میں بھی اپنے خیالات اسی سہولت سے بیان کرنے پر قادر ہیں جو غزل میں ان کا خاصہ ہے، ان کی خصوصیت ایک بار پھر انہیں جدید شاعر ثابت کرتی ہے جو ایک صحت مند رجحان ہے، یہ رویہ گفتار خیالی کے خیالات کی ارتقاء پذیری میں بھی ممد ومعاون ثابت ہے، اپنی اس فکر کی وسعت پذیری کی بدولت وہ اپنے وقت کے شاعر تو ہیں ہی اپنے بعد آنے والے وقت کے بھی شاعر رہیں گے۔
اگر ایثار کا پہلو ستمگر سے نکلتا ہے
مجھے تسلیم ہے دریا سمندر سے نکلتا ہے
کبھی زرخیز مٹی سے لہو کی فصل اگتی ہے
کبھی نشو نما کا حسن پتھر سے نلکتا ہے
تنویر شاہد محمد زئی کا خیال ہے کہ: گفتار خیالی کا فکری عجز وانکسار، جمالِ پُر جلال کو حاوی نہیں ہونے دیتا، شعلہ مزاجی انہیں چھو کر بھی نہیں گزری تھی، متانت، سنجیدگی ان کی شخصیت کا خاصہ تھی جو مشتعل فطرت پر شبنم کی ٹھنڈی پھوار بن کر گرتی اور ہونٹھوں سے جھڑتی چنگاریوں سے نرم مٹی میں تبدیل کردیتی ہے، وہ خوبیاں تھیں جو زندگی بھر انہیں مختلف طبقوں اور حلقوں میں ہر دلعزیز بنائے رہیں، ان کی قلندرانہ بے نیازی نے انہیں ہر محفل میں مقام وعزت وافتخار عطا کیا، شہرت، ناموری، شاعری دست بدستہ ان کی ذات کا طواف کرتی رہی۔
اعظم یاد کی رائے ہے کہ: گفتار خیالی شعر وادب کے حوالے سے ایک با شعور انسان کے مقام پر تھے جو تیرگی اور روشنی کے درمیان باریک لکیر کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے، جذبات کے پُر تموج ندی کو یکساں بحر، قافیہ، ردیف کے سانچوں کو شناخت کر کے مرحلہء شوق کو منزل دینے کی قدرت ان کی ہر شعر میں نظر آتی ہے، بلا شبہ گفتار خیالی ان شعراء کی صف میں شامل تھے جن کا کلام دیکھ کر ان کے بے ساختہ چھلک جانے کا احساس ہوتا ہے، المختصر گفتار خیالی کو زمانہ یاد کرتا ہے، آئیندہ نسلیں بھی اسے یاد کریں گی، کیونکہ اس کی درویش مزاجی اخلاص ومروت ومحبت سبھی کچھ ان کی ذات میں جمع ہوگئے تھے، آہ کیا انسان تھے، نہ صلہ کی پرواہ، نہ ستائش کی تمنا، 23 ستمبر 2006ء ان کی مرگِ ناگہانی کا ایک دلخراش منظر، حادثہ سامنے ہوتا ہے جس کی نمائندگی درجِ ذیل شعر سے ممکن ہے:
اس کو نا قدریء عالم کا صلہ کہتے ہیں
مر گئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
نمونہء کلام ملاحظہ فرمائیں:
عمر کا آدھا حصہ بیت گیا خوش فہمی میں
لوگ نہ جانے کیسے اپنی کڑیل عمریں کاٹتے ہیں
پیڑ وہ کیسے پھل لائیں گفتار خیالی دانش کے
عقل کے اندھے مالی جن کی کومل شاخیں کاٹتے ہیں
اگر تھا خوف کا پہلو مکاں تبدیل کر لیتے
جو قاتل کو پتہ تھا وہ نشاں تبدیل کر لیتے
پروں کو کاٹ لینے کی جہاں پر رسم جاری ہو
تخیل کے پرندے وہ جہاں تبدیل کر لیتے
محبت کے تقاضوں میں غلط فہمی کا امکاں تھا
مناسب تو یہی تھا رازداں تبدیل کر لیتے
جب آنگنوں میں رات کی خموشیاں مہکتی ہیں
دلوں میں تیری یاد کی سولیاں مہکتی ہیں
کبھی جو ہم نے چھو لیا تیرے خیال کا بدن
اس عطرِ بیز لمس سے پھر انگلیاں مہکتی ہیں
فرید کے دیار میں جو کوئی ہوکے آگیا
فراقِ دردِ یار میں جو قافیاں مہکتی ہیں
طبیب بن کر جو آگئے ہو میں نیم جاں تھا تو تم کہاں تھے
تمہاری الفت کی بے حسی پر میں نوحہ خواں تھا تو تم کہاں تھے
ہر ایک گُل تھا خزاں رسیدہ کہ آگ ہر سو لگی ہوئی تھی
بہار آئی تو آگئے ہو یہاں دھواں تھا تو تم کہاں تھے
لہو سے میں نے دیے جلائے تو پھر کہیں یہ سحر بھی آئی
اندھیرا ہم پہ طویل راتوں کا حکمراں تھا تو تم کہاں تھے
فلک سے گفتار بے تحاشا ستم کے شعلے برس چکے ہیں
جھلستے صحرا میں کوئی سایہ نہ سائباں تھا تو تم کہاں تھے
“