اس تھیٹر کا نام سن کر چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے لیکن اصل میں یہ ایک سنجیدہ، ریڈیکل اور سفاک تھیٹر ہے۔ اس کو اردو زبان میں " چھاپہ مارر تھیٹر"بھی کہ سکتے ہیں۔ اس کا مزاج ہندوستانی " نکڑ ناٹک" سے قریب ہے۔ میں نے ۸۰ کی دہائی میں سان فرانسسکو کی ایک بند گلی میں جنوبی امریکہ کے ملک " پیرو" کے ایک ڈرامائی کلب کا " گوریلا تھیٹر دیکھا تھا۔ جو ابھی تک میری یادوں میں موجود ہے۔ جس میں یسساریت پسندی کا احتجاج اور مزاحمت بھری ہوئی تھی۔ " گوریلا تھیٹر" کو یوں بیاں کیا جاسکتا ہے کہ' یہ ڈارامے کا شوخ وچنچل سیاسی، معاشرتی پراپگنڈہ میں استعمل ہونے والا احتجاجی، ریڈیکل پیمانہ یا حربہ ہے جو پر ہجوم علاقوں کی سڑکوں پر کھیلا جاتا ہے۔'
" گوریلا تھیٹر" ۱۹۶۵ میں امریکی شہر سان فرانسسکو میں ایک طائفہ نے ایک ریڈیکل ڈرامائی کے گروپ کے طور پر تشکیل دیا ۔ جو کیوبا کے گوریلا انقلابی رینما چی گویرا کی تعلیمات اور نظریات سے متاثر ہوکر بنایا گیا تھا۔ اسی سبب اس کو " گوریلا تھیٹر" کہا گیا اور ڈرامائی مطالعوں اور اسباق میں اس کو " گوریلا تھیٹر"کی اصطلاح کے تحت مطالعہ کیا گیا۔ جو بنیادی طور پر احتجاجی مزاحمتی اور حد درجے سیاسی اور معاشرتی مزاج کا جارحانہ تھیٹر ہے۔ جس میں بھید بھاو کے بغیر اسٹبلشمنٹ کے خلاف ایک انتہا پسندانہ رویہ دکھائی دیتا ہے۔ جو ویٹ نام کی جنگ اور سرمایہ داریت کے بڑھتے ہوئے عفریت کو نشانہ حقارت بنا یا تھا۔ اور اس کی شدید مذمت کی گئی۔ اس تھیٹر میں فحاشی، عریانیت، تحقیر، تحریمیات کا منفی مزاج افسوسناک اور عام ناظرین کے لیے قابل قبول نہیں تھا اور معاشرتی، سیاسی اور ثقافتی ڈھانچے پر سنجیدہ اور حساس سوالات اٹھاکر اس کو نیا بیانیہ، مخطابہ رائج کرکے اس کی نت نئی تاویلات پیش کی گئی۔ جس میں عوام کی زندگیوں کا عکس دکھائی دیتا ہے۔
" گوریلا" کو ہسپانوی زبان کی تھیٹریکل اصطلاح میں " چھوٹی جنگ" کہا جاتا ہے۔ یہ تھیٹر کو عوامی مقامات پر اسٹیج ہوتا تھا۔ ڈرامہ شروع ہونے سے قبل سماج اور با لخصوص امریکہ کے معاشرتی و سیاسی احوال کو ناظریں کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ جس میں طنزیہ اور زہریلا اظہار عوام کو متوجہ ہی نہیں کرتا تھا۔ بلکہ وہ ان مسائل پر سوچنے کی دعوت بھی دیتا تھا۔ جسکو گوریلا تھیٹر کی اصطلاح میں CARNIVALEQUE کہتے ہیں۔ جس پر ۶۰۔۷۰ کی دہائی میں پروان چڑھنے والے ریڈیکل سیاسی اور معاشرتی احتجاجی نظرئیے کا گہرا اثر ہے۔ اگر " گوریلا تھیٹر" کا گہرائی سے مطالعہ اور تجزیہ کیا گیا تو یہ بات سامنے آتی ہے تو اس کے ڈانڈے ۱۹۳۰ کے AGITPROP تھیڑسے ملتے ہیں ۔ کہتے ہیں یہ تھیٹر گوریلا تھیٹر کو ڈاڈا ازم کے تھیتر کے ہتکھنڈوں سے دور رکھتی ہے۔ مئی ۱۹۶۲ میں ڈیوس نے سان فرانسسکو کے ایک پارک میں گوریلا تھیڑ کے تحت اپنا پہلا ڈرامہ " کومیدیا ۔۔۔ دی ڈوکری "/ COMMEDIA: THE DOWRY پیش کیا۔ مگر ۱۹۶۰ میں ڈیوس نے اپنی دوست منڈ وھو کے ساتھ شادی کرکے اس گروپ سے علحیدہ ہوگئے۔ اورانھون نے بائین بازو کے جریدے " دی لیفٹ" کی معاونت بھی کی۔
۱۹۶۵ میں " گوریلا تھیٹر" کی اصطاح سب سے پہلے پیٹر برگ /PETER BERG نے وضع کی۔ ۱۹۶۶ میں آر۔جی ڈیوس نے مائم طائفہ کے تحت " گوریلا تھٹڑ " پر ایک مضمون لکھا۔ جوکیوبا کے انقلابی رہنما چی گورا کے نظریات پر مبنی تھا۔ جس سے پیٹر برگ متاثر تھے۔ ان کے خیال میں گوریلا جنگ لڑنے والوں کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس میں انتہا پسندی بھری ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ استبدادی نظام کے خلاف ہوتا ہے وہ ظالم، عوام اور اسٹمبلشمنٹ دشمن ہوتا ہے۔ آر۔جی ڈیوس نے ۱۹۵۰ میں رقص کی تربیت حاصل کی اور مائم طائفے کے بیس/ ۲۰ اداکارون اور کارکنوں کو توڈ کر COMMEDIADELL'ARTE نامی تھیٹریکل گروپ تشکیل دیا۔ اس گروپ کو انھوں نے DIGGERS کا نام دیا۔ جو اصل میں سترھویں صدی کا ایک انگلستانی انتہا پسند/ ریڈیکل گروپ تھا۔ ساٹھ/ ۶۰ کی دہائی کے وسط میں یہ تھیتر " نیو لیفٹ ازم " کی تحریک میں شامل ہوکر جنگ شکن تحریک کا سب سے اھم تھیڑیکل گروپ بن گیا۔ اس تھیٹر نے نے انسانی حقوق کی سیاہ فام تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
گوریلا تھیٹر پروپگنڈہ/ QGITPROP کی تھیڑیکل ہیت، کارنیوال، گشت، / مارچ، سیاسی احتجاج، فن، عصری ، تاریخی واقعات اور ڈاڈا ازم کا ملغوبہ نظر آتا ہے۔ ایک عرصے تک " گوریلا تھیٹر" امریکی نصابی اور کمرہ جماعت میں بہت مقبول رہا۔ مگر یہ بات بہت افسوسناک ہے کی اس نادر تھٹریکل اور رجحان پر بہت کم تنقیدی اور تحقیقی کام ہوا نہ ہی اس کی ڈرامائی دستاریز کو محفوظ کیا گیا اور گوریلا تھیٹر پر مواد ڈھونڈنے پر بھی بہت مشکل سے ملتا ہے۔ گوریلا تھیٹر ساتھ کٹھ پتلی تھیٹر اور ALCAMPES INO کا تھیٹر بھی جڑا ہوا تھا۔ جس کی جڑیں' ایلن کوورو' کے واقعات سے منسلک ہیں۔ یہ گروپ اپنے ساتھ " گوریلا لڑکیوں" کی اصطلاح بھی استعمال کرتا تھا۔ اور فنکاروں کے متحرک افراد نے اس تھیٹر میں لڑکیوں کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے آرٹ گیلیریوں اور عجائب خانوں میں ناٹک پیش کئے اور انھوں نے" گوریلا آرٹ" کو متعارف کروانے کے لیے ۱۹۸۵ میں نیویارک میں نئے ملبوسات، اظہاری حسیت اور فنکارانہ تکنیک کو متعارف کرواتے ہوئے کئی معروف ناموں کو سامنے لایا گیا۔ جو آگے چل کر شو بزنس اور تھیڑیکل دینا میں " افسانوی کرداروں' کے طور پر معروف ہوئے۔
" گوریلا تھیٹر" کے ڈراموں کے مکالمے مضحکہ خیز ہوتے ہوئے لایعنیت سے بھی قریب ہیں۔ جس میں تناقص کی فضا قائم ہے۔ نمونے کے طور پر گوریلا تھیٹر میں پیش ہونے والے ایک ڈرامے میں پویس والے اور کٹھ پتلی کا مکالمہ دیکھیں:
* پولیس : ہم نے تمھیں پہلے ہی خبردار کیا تھا۔ یہ عوام کی گذرگاہ ہے۔ اگر تم یہاں سےدور نہیں ہوئے
۔۔ تو تم کو راستوں کو مسدود کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا جائے گا ۔
** کٹھ پتلی : کون عوامی ہے؟
* پولیس: میں پروا نہیں کرتا ۔ چلو میں تم کو لے کر چلتا ہوں۔۔۔۔ اب چلو ۔۔۔۔۔۔۔
** کٹھ پتلی : میں اپنے آپ کو عوام کہتا ہوں، سڑک " عوام" ہے۔ سڑک آذاد ہوتی ہیں۔
یہ " گوریلا تھیتر" ایک عیب تماشا ہے۔ جو سطحی بھی لگتا کے، اس کے اظہار میں ابہام بھی زیادہ ہے۔جس میں خواب اور حقیقت کا جمالیاتی تصادم ہونے کے ساتھ ساتھ عوام سے دردمندی بھی جھلکتی ہے۔
"گوریلا تھیٹر" ستاون ۵۷/ سال ہوچکے ہیں مگرمیں نے آج تک میں نے اردو کے کسی ادبی رسالے یا کتاب میں اس کے متعلق نہیں پڑھا ہے اور نہ ہی کسی اردو کے محقق ، نقد نگار اور ڈرامہ نگار سے اس تھیڑیکل تحریک کے متعلق سنا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اردو میں ڈرامےکی روایت دیگر اصناف کے مقابلے میں بہت کمزرو ہے۔ اور اس سے اغماض برتا جاتا ہے۔ امریکہ میں ' گوریلا تھیٹر' اس لیے پنپ نہیں سکا کہ یہ " واشگٹن شکن" تھا اور اس میں کمیونزم کی بو آتی تھی:
اس وقت دینا میں "گوریلا تھیٹر گروپ" کے تیرہ /۱۳ گروپ فعال ہیں:
ACT UP
Billionaires for Bush
Billionaires for Wealthcare
Bread and Puppet Theater
The Church of Euthanasia
Circus Amok
Clandestine Insurgent Rebel Clown Army
El Teatro Campesino
Free Southern Theater
Reclaim the Streets
Reverend Billy and the Church of Stop Shopping
San Francisco Mime Troupe
Vietnam Veterans Against the
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔