زمین گرم ہو رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ گرین ہاوٗس گیسز کے تناسب کا فضا میں ہونے والا اضافہ ہے۔ لیکن یہ گرین ہاوٗس گیسز ہیں کیا؟
گرین ہاوٗس گیسز خود بری نہیں بلکہ بہت ضروری ہیں۔ ویسے ہی جیسے جسم میں کولیسٹرول ضروری ہے۔ جسم کو اس کی ضرورت ہے دماغ کے خلیوں پر غلاف چڑھانے کے لئے اور کچھ ہارمونز اور وٹامنز کو بنانے کے لئے۔ لیکن جب ان کی سطح زیادہ ہو جائے تو مسئلہ شروع ہو جاتا ہے۔ گرین ہاوٗس گیسز کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔
دھوپ زمین تک پہنچتی ہے۔ زمین کی سطح پر پڑتی ہے اور اس کو گرم کرتی ہے۔ زمین سے کچھ حرارت نکل کر خلا کی طرف انفراریڈ روشنی کی صورت میں جاتی ہے۔ اگر ہوا میں صرف نائیٹروجن اور آکسیجن ہی ہوتے تو ان کے دو ایٹموں پر مشتمل مالیکیول اس کو جذب نہ کرتے۔ بڑے مالیکول والی گیس جیسا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ یا میتھین اس کو آسانی سے جذب کر سکتی ہیں۔ جب حرارت ہوا میں جذب ہو جائے تو درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ ان گیسوں کے بغیر جو درجہ حرارت ہوتا، اس کا سیارے کے درجہ حرارت سے فرق گرین ہاوس ایفیکٹ کہلاتا ہے۔ مریخ پر کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہوا کا باریک غلاف پانچ درجے سینٹی گریڈ کا اضافہ کرتا ہے۔ زہرہ پر پانچ سو درجے جبکہ زمین پر پینتیس درجے۔ اگر یہ ایفیکٹ نہ ہوتا تو زمین انتہائی سرد ہوتی۔
سب سے اہم گرین ہاوٗس گیس پانی ہے۔ یعنی آبی بخارات۔ دو تہائی اثر ان کی وجہ سے ہے۔ یعنی بیس درجے سینٹی گریڈ اضافہ اس وجہ سے ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور باقی گیسز مل کر پندرہ درجے اضافہ کرتے ہیں۔
سب سے زیادہ الزام کاربن ڈائی آکسائیڈ پر کیوں لگایا جاتا ہے؟ کیونکہ اس میں ہونے والے اضافے کی رفتار بہت تیز ہے۔ پچھلی صدیوں میں اس کا لیول کتنا تھا؟ اس کو برفانی علاقوں میں برف کی تہوں میں پھنسے ہوا کے بلبلوں کی تجزئے سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ انسانی تاریخ میں اس کا لیول 280 مالیکیول فی دس لاکھ رہا تھا۔ پھر صنعتی انقلاب آ گیا۔ بڑے پیمانے پر ہائیڈروکاربن جلنا شروع ہو گئے۔ یہ 1950 میں 312 تک پہنچ گیا تھا اور اب 400 سے زائد ہو جکا ہے۔
برطانیہ کے سٹیل کنگ ہنری بسمر نے 1882 میں لکھے خط میں فخریہ کہا تھا کہ صرف برطانیہ میں سالانہ اتنا کوئلہ جلایا جا رہا ہے جن سے غزہ کے بڑے اہرامِ مصر کو 55 مرتبہ بھرا جا سکتا ہے یا دیوارِ چین سے ساڑھے تین سو لمبی دیوار تعمیر کی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت تک ابھی گاڑیاں، جدید شپنگ یا پٹرولیم انڈسٹری کا آغاز نہیں ہوا تھا۔
پچھلے پچاس سال میں ہوا میں ایک ہزار ٹریلین کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ داخل ہو چکی ہے۔ ہر سینکڈ میں اس میں ساڑھے سات لاکھ کلوگرام کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اعداد چھوٹے نہیں۔
یہ اعداد مزید خراب اس وقت ہو جاتے ہیں جب ہم دوسری گیسوں کو دیکھنا شروع کرتے ہیں۔ میتھین کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں پچیس گنا زیادہ حرارت جذب کرتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ذریعہ مویشیوں سے نکلی گیسیں ہیں۔ ایک گائے روزانہ 570 لیٹر میتھین کا اخراج ڈکار کی صورت میں اور کُل چھ سو لیٹر اخراج کرتی ہے۔ دنیا میں سالانہ اسی ارب کلوگرام میتھین گیس کا اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں سے ایک حصہ قدرتی طور پر ڈیکے ہو جاتا ہے لیکن تمام نہیں۔
اس سے بھی زیادہ اثر رکھنے والی نائیٹرس آکسائیڈ ہے (ہنسانے والی گیس)۔ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ سے تین سو گنا زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ کلوروفلوروکاربن ہیں جو کہ نہ صرف اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کئی ہزار گنا زیادہ حرارت جذب کرتے ہیں۔ اربوں مالیکول میں سے صرف چند حصے ہونے کے باوجود ان کا بڑا کردار ہے۔
سب سے برا مسئلہ کلوروفلوروکاربن نہیں۔ پانی ہے۔ جو مثبت فیڈ بیک کے ذریعے اس سائکل کو آوؐٹ آف کنٹرول کر سکتا ہے۔ بڑھتا درجہ حرارت زیادہ آبی بخارات پیدا کرتا ہے۔ جو مزید حرارت جذب کرتے ہیں اور درجہ حرارت کے سائیکل کو تیزرفتاری سے الٹا سکتا ہے۔ مثبت فیڈ بیک کا لوپ کسی بھی سسٹم کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہوتا ہے۔ چھوٹی تبدیلیوں کے بڑے نتائج اسی وجہ سے ہوتے ہیں۔
اگر موسم میں بڑی تبدیلیاں آ جائیں تو کیا زندگی چلتی رہے گی؟ ہاں۔ زمین پر بہت سی تبدیلیاں آتی رہی ہیں، درجہ حرارت بہت زیادہ رہے ہیں مگر زندگی چلتی رہی ہے۔ ہاں، “انسانی” زندگی باقی رہ جانے کی گارنٹی نہیں۔ جب درجہ حرارت زیادہ ہوا کرتے تھے تو انسانی زندگی موجود نہیں تھی۔
اس سے پہلے ہم مل جل کر عالمی تعاون سے کلوروفلورکاربن، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائیٹروجن آکسائیڈ کے مسائل پر قابو پا چکے ہیں۔ اوزون گیس اور تیزابی بارشوں کا حل ڈھونڈ چکے ہیں۔ گلوبل وارننگ ان سے زیادہ مشکل مسئلہ ہے۔
یہ مسئلہ انسانوں کے کئی رخ کو سامنے لے کر آ رہا ہے، جن میں بدترین رخ خودغرضی اور قلیل مدت سوچ ہے۔ ہم مجموعی طور پر نامعقول اور شارٹ ٹرم سوچ رکھنے والے ہیں۔ خطروں سے مل کر مقابلہ کرنے کے بجائے آپس میں لڑنا پسند کرتے ہیں۔ جب تک تباہی سامنے اور واضح طور پر دکھائی نہ دے، ہم کچھ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ (اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے انسان پسند نہیں۔ میرے بہترین دوست انسان ہی ہیں)۔ جب نظر آ جائے تو پھر اس کو حل کرنے میں لگ جاتے ہیں، لیکن وقت پیچھے نہیں مڑتا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ جہاں دنیا کے بڑے حصے کو نقصان پہنچائے گی، وہیں پر چند ممالک کو فائدہ بھی۔ اس لئے مشکل فیصلوں کے لئے عالمی تعاون لینا آسان نہیں۔ (مثلا، سائبیریا سے برف پگھل جانا اور آرکٹک راستے سے جہاز رانی شروع ہو جانا روس کے لئے انتہائی فائدہ مند ہو گا)۔
اس کا ایک حل تو مل بیٹھ کر عالمی آلودگی کے مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھ کر اقدام کرنے کی شکل میں ہے۔ یہ کسی حد تو شاید ہو بھی جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے بڑے اقدامات کرنا جہاں ضروری ہے، وہاں صرف یہی کافی نہیں۔ اس مسئلے کو تسلیم کر کے رہن سہن اور خوراک سے لے کر دوسری تبدیلیاں کرنے میں سست رفتاری کی بڑی وجہ انسانی فطرت ہے۔ نئی تبدیلیوں کے ساتھ رہنے کے لئے حل بھی تلاش کرنے ہیں۔ اور اس کے علاوہ کچھ اور حل بھی درکار ہوں گے۔
موسم وہ سسٹم ہے جس کو ہم ٹھیک طرح نہیں سمجھتے لیکن اگر حالت ڈسپریشن تک آ گئی تو شاید کچھ تجربے کرنے پڑیں۔ وہ تجربے جو پوری دنیا کو متاثر کریں گے اور نتائج کا ہمیں ٹھیک علم تجربے کے بعد ہی ہو سکے گا۔ اس کے تمام طریقے متنازعہ ہیں اور یہ شعبہ علم کلائمیٹ انجنیرنگ یا جیو انجینرنگ کہلاتا ہے۔
ممکن ہے کہ زمین کے کولسٹرول کا مقابلہ کرنے کی دوائی ایک اور زہریلی گیس، سلفر ڈائی آکسائیڈ ہو۔ (ہر دوا اپنے سائیڈ ایفیکٹ بھی رکھتی ہے)