گریٹ لیپ فارورڈ ۔۔۔ 1962-1958
جب دسمبر 1949 میں چین کی انقلابی افواج نے معروف کمیونی لیڈز ماؤ زیدونگ کی کمان میں چیانگ کائی شیک کی جمہوری فورسز اور حکومت کو حتمی شکست سے ہمکنار کرتے ہوئے چین کو مغربی پروردہ کرپٹ حکومت سے بازیاب کرواتے ہوئے بحیثیت ریاست آزادی دلوائی تو اس وقت چین دنیا کے غریب ترین و پسماندہ ترین ممالک میں سے ایک تھا ۔۔۔ جس کی وجوہات کچھ یوں تھیں :
1- چین دوسری جنگ عظیم میں سب سے روس کے بعد سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان اٹھانے والا ملک تھا ۔
2- کئی صدیوں سے چین باضابطہ اکائی کے بجائے ہزاروں چھوٹے بڑے زمیندار و جاگیرداروں و عسکری کمانداروں کے تسلط میں رہا تھا اور جدید دور کی ترقی و معاشی اصلاحات چین کو چھو کر بھی نہ گزری تھیں ۔
3- چیانگ کائی شیک کی مغرب نواز حکومت دنیا کی کرپٹ ترین حکومتوں میں سے ایک ثابت ہو چکی تھی جس نے تمام رہی سہی کسریں بھی پوری کر چھوڑی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ 1949 میں چین کی آزادی کے بعد ماؤ زیدونگ نے چین میں معاشی اصطلاحات کا آغاز کردیا۔
سب سے پہلے تمام زرعی زمینوں کو جاگیرداروں سے واگزار کروا کر مزارعوں اور عوام میں تقسیم کیا گیا ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ چند سال بعد تمام زمینوں کو عوام سے بھی بحق سرکار ضبط کرلیا گیا ۔
کیونکہ ماؤ ، سوویت اتحاد کی ترقی سے متاثر تھا اور سٹالین کی طرز پر چین میں کمیونی طرز معیشت کو لاگو کرنا چاہ رہا تھا ۔
۔۔۔
کمیون کی پیدائش :
تمام ملکی وسائل اور زمینوں کو قومیانے کے بعد اگلا مرحلہ چین بھر میں ہزاروں کمیونز کی تشکیل تھی۔
کمیون سے مراد ایک ایسی کمیونٹیز تھیں کہ جہاں تمام لوگ، خواتین و حضرات اپنی استطاعت و ہنر کے مطابق حکومت کے لیے کام کرتے ہیں چاہے وہ زراعت ہو صنعت و حرفت ، کنسٹرکشن یا محنت مزدوری کا کام۔۔۔۔۔۔ تمام زرعی و صنعتی پیداوار حکومت کی ملکیت ہوتی ہے۔۔۔۔۔ تمام ورکرز کو ان کی محنت اور کام کی نوعیت کے مطابق حکومت معاوضہ دیتی ہے۔۔۔۔ سب لوگوں کی خوراک ، رہائش ، بچوں کی تعلیم اور دیگر سہولیات کو پورا کرنا حکومت کے ذمے ہوتا ہے ( یہ چین کے متروک کمیون سسٹم کی بات ہورہی ).
۔
ایک کمیون میں 2 ہزار سے 20 ہزار تک افراد رہائش پذیر ہو سکتے تھے ۔
کمیون کی زندگی کچھ یوں تھی کہ منہ اندھیرے سبھی ورکرز کو جاگ کر اپنے اپنے کاموں کا آغاز کردینا ہوتا تھا ، تمام پبلک پراپرٹیز کے انضباط کی وجہ سے مرد و خواتین کی رہائش کے لیے الگ الگ بڑی عمارات تعمیر کی گئی تھیں ۔۔۔جہاں وہ رات کے وقت سوتے ، وہیں ان کے میس تھے جہاں دن میں 2 سے 3 مرتبہ کھانا پکایا اور سرو کیا جاتا تھا ۔۔۔ ان دنوں مزدوروں و کاریگروں کو معاوضہ ” فوڈ پوائنٹس ” میں دیا جاتا تھا یعنی محنت کے عوض خوراک ۔۔۔ گویا زیادہ کام کرنی پر اچھی اور وافر خوراک ۔۔۔ کام میں سستی کرنے ، غیر حاضری یا ناقص کارکردگی کے مظاہرے پر کھانے کا ٹوکن یا تو نہیں دیا جاتا تھا یا محض ابلے چاولوں کے ایک پیالے تک اس کی خوراک محدود ہو جاتی ۔
بچوں کو والدین کے ساتھ نہیں رکھا جاتا تھا بلکہ ان کے لیے الگ سرکاری کنڈر گارٹنز قائم تھے جہاں ان کی پرورش، تعلیم اور تربیت کا انتظام موجود تھا ۔
کمیون کے نگران کیمو••نسٹ پارٹی کے سرکردہ افراد ہوتے تھے جنہیں کیڈرے Cadre کہا جاتا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
گریٹ لیپ فارورڈ کیا ہے ؟
ملک بھر میں کمیونز کی تشکیل کے بعد اب ماؤ زیدونگ یہ چاہتے تھے کہ :
✓ ملک کی زرعی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کیا جائے تاکہ اضافی اناج کو روس کو فروخت کرکے اس کے عوض روس سے صنعتی مشینری ، پرزہ جات اور دیگر ضروری سامان حاصل کیا جاسکے۔
✓ جدید صنعتی دور میں سٹیل یعنی فولاد کو کلیدی حیثیت حاصل تھی سٹیل ناصرف مقامی کھپت کے لیے بھاری مقداروں میں درکار تھی بلکہ ماؤ کا پلان مغربی ممالک کو سٹیل کی برآمد کا بھی تھا ۔۔۔ لیکن۔۔۔ اس مقصد کے لیے بڑے پیمانے پر سٹیل کی پیداوار ضروری تھی اور اس کام کے لیے بھاری افرادی قوت ، خام مال اور پیداواری صلاحیت سے لیس فرنسز کی بھی اشد ضرورت تھی ۔
گویا ۔۔۔ ماؤ زیدونگ کا معاشی منصوبہ چین کی اناج و سٹیل کی پروڈکشن کو سینکڑوں گنا بڑھاتے ہوئے چین کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماؤ کی چڑی مار مہم :
1958 میں گریٹ لیپ فارورڈ کے تحت نافذ کی جانے والی ماؤ کی نئی اصلاحات میں ” چار دشمن مارو مہم” بھی شامل تھی ۔
ماؤ حکومت کے تخمینہ کے مطابق مکھی ، مچھر ، چوہا اور یوریشیائی شجری چڑیا ، چار ایسے دشمن جاندار تھے کہ جو بیماریاں پھیلانے ، اناج کو کھانے اور خراب کرنے کی وجہ سے ہر برس ناقابل تلافی حد تک بھاری جانی و مالی نقصان کا باعث بن رہے تھے ۔۔۔ چنانچہ پورے ملک میں ان چاروں کے خاتمے کی مہم کا آغاز ہوگیا ۔۔۔سکول کے بچوں سے لے کر نوجوانوں اور خواتین تک کو چار دشمن مارو مہم پر تعینات کردیا گیا۔۔۔مردہ چوہے و چڑیاں پیش کرنے پر حکومت کی طرف سے شہریوں کو باقاعدہ انعامی رقم یا اناج دیا جاتا تھا ۔۔۔اور ان جانوروں کو مارنے کے باقاعدہ مقابلے ہوتے تھے کہ فلاں کمیون کے لوگوں نے اتنے جانور مارے اور فلاں نے اس سے کم یا زیادہ ۔۔۔ زیادہ ‘دشمن’ مارنے والے کمیونوں کی تعریفی اسانید سے نوازا جاتا اور ان کا نام اخبار میں شائع ہوتا ۔۔۔۔ اس مہم کا سب سے زیادہ نشانہ بننے والا جانور یوریشیائی چڑیا تھی۔۔۔۔۔ سرکاری اندازے کے مطابق ہر یوریشیائی چڑی سالانہ 4 کلو اناج کھا جاتی تھی اور اس طرح ہر برس لاکھوں ٹن اناج چڑیوں کی خوراک بن جاتا تھا۔۔۔
شہریوں نے اس مہم کے دوران چڑیوں کے گھونسلے توڑ دیے ، انڈوں کو ضائع کردیا گیا اور چڑی کے بچوں تک کو مار ڈالا گیا ۔۔۔ لوگ ہمہ وقت لاٹھیاں اور ڈھول وغیرہ لے کر چڑیوں نے پیچھے دوڑتے تھے اور انہیں نہ کہیں بیٹھنے دیتے تھے نہ ہی انہیں سونے کو جگہ مل پاتی چنانچہ نیند کی کمی اور تھکاوٹ کے باعث چڑیاں آسمان سے گر گر کر مرنے لگیں ۔۔۔ چڑیوں کی نسل کشی اس قدر بھیانک تھی کہ بچی کھچی کچھ چڑیوں نے چین میں واحد محفوظ مقام یعنی دیگر ممالک کے سفارت خانوں میں بسیرا کر لیا ۔۔۔ یہاں تک کہ چڑیوں کو حوالے نے کرنے پر چینی شہریوں نے پولینڈ کے سفارت خانے پر حملہ تک کردیا تھا ۔
اس مہم کے نتیجے میں مکھیوں و مچھروں کو تو کوئی قابل ذکر نقصان نہ پہنچا کیونکہ انہیں بغیر پیسٹیسائیڈز کے محض ہاتھوں ، ہتھیاروں سے ختم کرنا ناممکنات میں سے ہے ۔۔۔۔ اور چوہے کیونکہ زمین کے اندر پناہ لے سکتے تھے چنانچہ وہ بھی نسل بچا گئے تاہم اس مہم نے چین سے یوریشیائی چڑیوں کا تقریباً خاتمہ ہی کر ڈالا ۔۔۔ لیکن اتنا ہی نہیں ۔۔۔ دیہاتیوں ، مزارعوں اور سکولی بچوں کو چڑیوں کی مختلف قسموں میں فرق کرنا نہ آتا تھا چنانچہ یوریشیائی چڑیا کے ساتھ ساتھ دیگر درجنوں اقسام کے چھوٹے پرندے بھی سخت نسل کشی سے گزرے اور ان کی آبادیوں کو بھی بھاری نقصان پہنچا ۔
۔۔۔۔۔
افرادی قوت کی تقسیم :
سٹیل کی پروڈکشن کے انقلابی منصوبے کے تحت دسیوں لاکھ نوجوانوں کو کاشت کاری کے کام سے ہٹا کر سٹیل کی پروڈکشن پر لگا دیا گیا ۔۔۔ یہ نوجوان شروع سے ہی کاشتکاری کے شعبہ سے منسلک تھے اور ان کے پاس سٹیل کی پروڈکشن کی بابت نہ تو کوئی تعلیم تھی اور نہ ہی کوئی تجربہ ۔
۔
ساتھ ہی ماؤ نے پورے ملک میں چھوٹے پیمانے کی بلاسٹ فرنسز کی تعمیر کا حکم دے دیا ۔
ہر کمیون کو اپنی اپنی فرنسز کی تعمیر کے احکامات جاری کردیے گئے ۔۔۔
لیکن۔
پورے ملک میں بیسیوں ہزار فرنسز کی تعمیر کے لیے بلڈنگ میٹریل کہاں سے آتا ؟
چنانچہ ۔۔۔ فرنسز کی تعمیر کے لیے مٹی اور پتھر کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ لیکن مٹی سے بنائی گئی فرنسز کیونکہ کمزور ہوتیں تو ماہرین کے مشورے پر گارے میں انسانی بال شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ گارے میں بال شامل کرنے سے ، خشک ہونے پر وہ معمول سے زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے ۔
پورے ملک میں خواتین کو حکم دیا گیا کہ مردوں کے ساتھ ساتھ وہ بھی اپنے بال ، فرنسز کی تعمیر کے لیے عطیہ کر دیں۔
۔۔۔ اب سوال تھا خام مال کا۔
خام مال خریدنے کے لیے بھاری رقم کی ضرورت تھی اور اس وقت چین غربت کے دور سے گزر رہا تھا اور خام مال کی خریداری کے لیے ماؤ کے پاس کوئی سرمایہ موجود نہ تھا ۔
بڑے پیمانے پر سٹیل کی پیداوار کے لیے چین کے پاس نہ تو خام مال تھا اور نہ ہی ایندھن اس پر مستزاد یہ کہ چین کے پاس ان دنوں ہر دو ضرورت خریدنے کے لیے کوئی سرمایہ بھی موجود نہ تھا ۔
چنانچہ ماؤ حکومت نے 2 احکامات جاری کیے :
1- تمام گھروں میں موجود لوہے کی ہر چیز کو کمیونز کے حوالے کردیا جائے تاکہ انہیں پگھلا کر فولاد کی پیداوار کا آغاز کیا جاسکے ۔
2- ایندھن کے لیے لاکھوں درختوں کی کٹائی اور ترسیل کا حکم ۔۔۔ اس کے علاؤہ فرنیچر سے لے کر گھروں کے دروازوں تک کو ایندھن کے لیے حوالگی کے احکامات جاری کر دیے گئے۔
عوام کی رہائش و خوراک کا انتظام اب حکومت کے ذمہ تھا گویا انہیں گھروں میں برتن اور دیگر اشیاء کی اب پہلے جتنی ضرورت نہ تھی ۔۔۔لیکن۔۔۔ پھر بھی اس بڑے پیمانے پر عوام کے گھروں سے سامان کی انضباطی ان کے لیے انتہائی پریشان کن امر تھا ۔
تاہم ان کے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا۔۔۔۔
اس طرح مٹی و پتھر سے بنی بیسیوں ہزار فرنسز میں لوہے کی اشیاء کو ، لکڑی کے ایندھن کی مدد سے پگھلا کر سٹیل کی تیاری کا کام شروع ہوگیا ۔
لیکن ۔۔۔۔
ماؤ نے ان تمام متعلقہ ماہرین کی رائے کو نظر انداز کردیا کہ جنہوں نے انتباہ کیا تھا کہ ” اس طرح معیاری سٹیل نہیں بنائی جا سکتی۔۔۔”۔
چنانچہ ایسے ہی ہوا۔۔۔
ان پرانے طرز کی بھٹیوں میں، نا تجربے کار کسانوں کی طرف سے پگھلائے گئی بھانت بھانت کی آہنی اشیاء سے سٹیل نہیں البتہ پگ آئرن ہی بن پایا اور وہ بھی غیر معیاری نوعیت کا ۔
یہ سیٹ بیک بہت بھیانک تھا ۔۔۔۔ لاکھوں درخت، لاکھوں ٹن سازوسامان صَرف کرنے اور دسیوں لاکھ کسانوں کو زرعی شعبے سے نکال کر ان صحت شکن زہریلے ماحول والی فرنسز پر متعین کردینے کے باوجود بھی چین اپنا مقصد یعنی فولاد نہیں حاصل کر پایا ۔
اور۔۔۔۔۔
دوسری طرف زرعی پیداوار بھی اب کی بار خطرناک ترین حدوں تک کم ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چڑی مار مہم کے اثرات :
جیسا کہ میں نے گزشتہ حصے میں ماؤ کی ” چار دشمن مارو مہم” اور چین سے یوریشیائی چڑیوں کی نسل کے صفائے کے بارے میں بتایا ۔۔۔ ہونا تو کچھ یوں چاہیے تھا کہ اگلی فصل گزشتہ برس کی نسبت لاکھوں ٹن زیادہ پیدا ہوتی ۔
مگر ۔۔۔۔۔
1959 میں زرعی پیداوار خطرناک حد تک کم ہوئی ۔
جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ یوریشیائی چڑیاں اناج کے ساتھ ساتھ درجنوں اقسام کے فصل دشمن کیڑوں کو بھی کھایا کرتی تھیں جس کی وجہ سے ان کیڑوں کی آبادی کنٹرول میں رہتی اور ان کے سبب فصلوں کو پہنچنے والا نقصان بھی محدود ہوتا ۔
لیکن اب چڑیوں کے بغیر فصل دشمن کیڑوں کی آبادی قابو سے باہر ہوگئی اور اب کی بار انہیں روکنے کا کوئی زریعہ نہ تھا ۔۔۔ نتیجتاً لاکھوں ایکٹر زمین کے مساوی فصلیں تباہ ہوگئیں اور جہاں جہاں کچھ بچت بھی ہوئی وہاں بھی زرعی پیداوار بہت کم تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیگر وجوہات :
زرعی پیداوار میں اس بھیانک حد تک کمی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دسیوں لاکھ کسانوں کو ماؤ کی نئی پالیسی کے تحت کاشتکاری سے ہٹا کر فولاد سازی میں لگا دیا گیا تھا ۔
۔
اور زرعی پیداوار میں کمی کی ایک اہم ترین وجہ یہ بھی تھی کہ سبھی کمیونز کی سربراہی ان کادروں Caders کے ہاتھ تھی کہ جنہیں نہ تو کاشتکاری کا کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی کوئی علم کہ کونسی فصل کس طرح کی زمین میں کاشت کرنی ہے ، کتنا بیج ڈالنا ہے ، آبپاشی کب کرنی ہے ۔۔۔ یہ کاردے وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے جنگ آزادی کے دوران ماؤ کا ساتھ دیا تھا اور اب ماؤ کے نزدیک یہ لوگ سب سے زیادہ قابل اعتماد انقلابی لوگ تھے ۔
لیکن ۔۔۔
زراعت میں ان کی کم علمی اور نا تجربے کاری نے ہزاروں ایسے غلط فیصلوں کو جنم دیا کہ جس نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
قحط:
اب چین تاریخ انسانی کے بھیانک ترین قحط سے گزر رہا تھا ۔ عوام کی اکثریت کے پاس یا تو خوراک کی شدید قلت تھی یا پھر ان کے پاس خوراک سرے سے موجود ہی نہ تھی۔
ان تباہ کن حالات میں بھی ماؤ نے اناج کی برآمد سے ہاتھ کھینچنے سے انکار کردیا اور روس سے قرض میں حاصل کی گئی فیکٹریز و صنعتی سامان کے عوض روس کو گندم کی کھیپیں روانہ کرنے کا سلسلہ جاری رہا ۔
جبکہ چین کے دیہاتی و نیم دیہاتی علاقوں میں حالت کچھ یوں ہوچکی تھی کہ لوگ درخت کی چھال ، جڑیں ، گھاس ، پتے ، کیڑے مکوڑے ، چوہے ، بلیاں اور مٹی تک کھا کر اپنا پیٹ بھرنے کی کوشش کررہے تھے ۔
روزانہ ہزاروں افراد بھوک و قحط کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر رہے تھے اور پورے ملک پر غربت و افلاس کے ڈیرے تھے ۔
۔۔۔۔
ماؤ کی بےحسی :
ایک طرف جہاں پورا چین بھوک کے ہاتھوں بھیانک جانی نقصان جھیل رہا تھا تو دوسری طرف پیکنگ اور شنگھائی جیسے بڑے شہروں کی رونقیں اور ہر چیز کی فراوانی پہلے جیسے ہی تھی ۔
ماؤ حکومت نے پورے ملک میں غیر ملکی صحافیوں کی طرف سے کسی بھی کوریج پر پابندی عائد کر رکھی تھی ۔۔۔ غیر ملکی صحافی صرف چینی اہلکاروں کی سخت نگرانی میں بڑے شہروں میں روزانہ کی بنیاد پر منعقد کی جارہی پارٹیز و دیگر تقاریب کی کوریج کر سکتے تھے۔
۔
یوں تو ایسا کوئی بڑا بحران چل رہا ہو تو پوری دنیا سے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امدادی سامان ارسال کیا جاتا ہے تاہم ماؤ امداد لینا تو دور کی بات دنیا کے سامنے اس قحط کی حقیقت کا اعتراف کرنے سے بھی گریزاں تھے ۔۔۔ کیونکہ وہ دنیا کے سامنے چین کو ایک تیزی سے ترقی کررہی کمیو••نسٹ جنت ظاہر کرنا چاہ رہے تھے ۔۔۔۔ چنانچہ غیر ملکی امداد کے زریعے دسیوں لاکھ جانیں بچا لینے کا موقع بھی ضائع ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
کادروں کی اجارہ داری :
جنگ ختم ہوچکی تھی اور ملک آزاد ہو چکا تھا لیکن کادروں کی جنگجو ذہنیت اور لپاڈگی جوں کی توں برقرار تھی ۔
ان کے نزدیک وہ لوگ برتر تھے کیونکہ انہوں نے طویل و خونریز جدوجہد کے بعد چین کو آزادی کا پروانہ بخشا تھا ۔۔۔ اور غریب کسان ، کاریگر ، مزدور ان کے نزدیک ‘غیر انقلابی’ اور کاہل طبقہ تھا ۔
چنانچہ ایک طرف انہوں نے کمیون کے ممبران پر بےجا سختی و جبر کا معاملہ برتنا شروع کردیا تو دوسری طرف بحیثیت سربراہ کمیون ، انہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کردیا ۔
۔
چین میں چل رہی تاریخ کی بھیانک ترین قحط کے دوران خوراک کے ذخیرہ و تقسیم کے تمام تر اختیارات بھی کادروں کے پاس تھے ۔
لیکن ۔۔۔ انہوں نے بچی کھچی خوراک کے محدود ذخائر کو بھوک سے زمین بوس ہورہے عوام میں منصفانہ طور پر تقسیم کرنے کے بجائے اس سے خود کو ، اپنے خاندان ، رشتے داروں ، دوستوں ، ساتھی کادروں اور قرابت دار افسروں کو نوازنا شروع کردیا ۔۔۔۔ بےایمان کادروں کی آمرانہ ذہنیت مزید دسیوں لاکھ انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنتی چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔
اموات :
1958 تا 1961 جاری رہنے والی اس خوفناک قحط نے نہ تو چند لاکھ نہ ہی چند ملین بلکہ 4 کروڑ 50 لاکھ افراد کی زندگیوں کے چراغ گل کردیے ۔
اور یہ سب صرف ایک انسان کی ناقص معاشی پالیسیوں اور ان پر ڈٹے رہنے کے باعث ہوا یعنی ماؤ زیدونگ ۔
۔۔۔۔۔۔
گریٹ لیپ فارورڈ کا اختتام :
آخر کار چین کی آبادی کے ایک حصے کے صفایا کے بعد 1962 میں ماؤ زیدونگ نے گریٹ لیپ فارورڈ پالیسی کو ختم کردیا ۔۔۔ سٹیل کی غیر معیاری پیداوار کو منسوخ کردیا گیا ۔
کئی کاردوں کو معطل کردیا گیا۔
روس سے 2 لاکھ 50 ہزار چڑیاں منگوا کر انہیں چین میں چھوڑ دیا گیا تاکہ چار دشمن مارو مہم کے دوران چڑی کی نسل کو پہنچے شدید نقصان کی تلافی کی جاسکے ۔
کئی کمیونز کو بند کردیا گیا تاہم دیگر کمیونز کسی نہ کسی حالت میں 1986 تک چلتے رہے۔
اس طرح تاریخِ انسانی کے اس سیاہ باب کا اختتام ہوگیا ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...