دادا کا لیمپ ( 1942 … おじいさんのラ )
( Grandfather’s Lamp )
نینکیچی نیمئی
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
( یہ کہانی نینکیچی نیمئی کی موت سے ایک سال قبل 1942 ء میں پہلی بار سامنے آئی ۔ اس کا جو انگریزی ترجمہ یہاں اصل ٹیکسٹ کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے وہ ٹونی پیرن نے 2016 ء میں کیا ۔ یہ اس سے پہلے بھی انگریزی میں دو یا تین بار ترجمہ ہو چکی ہے ۔ اس کہانی کا اصل ٹیکسٹhttp://www.aozora.gr.jp پر موجود ہے ۔ )
توئچی گودام میں اپنی چھپنے والی جگہ سے ایک لیمپ ہاتھ میں لئے باہر نکلا ۔
یہ لیمپ اپنی بناوٹ کے اعتبار سے عجیب تھا ؛ پہلی نظر میں تو یہ لیمپ لگتا ہی نہ تھا ۔ اس کا پیندا موٹے بانس کا بنا ہوا تھا اور اس کا قُطر لگ بھگ اَسی سینٹی میٹر کا ہو گا جس کے اوپر بتی کے لئے ایک چھوٹی سی جگہ والے اس لیمپ کی چمنی گول نازک شیشے کی تھی ۔
” یہ تو کوئی پرانی بندوق لگتی ہے۔ ہے نا ؟ “ ، ' سوکی چی ' نے کہا ۔ سوکوچی چھپن چھپائی کے کھیل میں ' توئچی ' کا ساتھی تھا ۔ توئچی کے دادا کو یہ سمجھنے میں کچھ وقت لگا کہ اصل میں معاملہ کیا تھا ۔ اس نے لیمپ کو اپنی عینک کے ساتھ غور سے دیکھا اور جب ایک منٹ کے توقف سے اسے احساس ہوا کہ یہ کیا تھا تو اس نے بچوں کو ڈانٹنا شروع کر دیا ۔
” ذرا دیکھو تو سہی کہ تم کس کام میں پڑ گئے ہو ۔ آج کل کے بچوں کو ذرا اکیلے چھوڑ دو تو کِسے معلوم ہے کہ وہ کِس طرح کی شرارتوں میں مصروف ہو جائیں گے ۔ مجھے تم پر نظر رکھنا پڑے گی ورنہ تم تو مجھے اندھا جان کر لُوٹ لو گے ۔ یہاں سے باہر نکلو اور کہیں باہر جاﺅ ! ’ ریڈ روور‘ کھیلو یا کچھ اور کرو ، مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے ۔ “
جب بچوں نے ڈانٹ کھا لی تو انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے کچھ غلط کر دیا تھا ۔ تب توئچی اور آس پاس کے بچے سڑک پر نکل گئے ۔ احساس جرم ، ان کے چہروں سے صاف عیاں تھا ۔
باہر ، دوپہر میں موسم بہار کی چلتی ہوا سڑک کی گرد اڑا رہی تھی ۔ سفید تتلیاں ایک بیل گاڑی کے پیچھے پیچھے اڑے جا رہی تھیں ۔ کھیلنے کے لئے یہ جگہ بہت ہی موزوں تھی لیکن بچوں کو وہاں کھیلنا کچھ اچھا نہ لگا ۔ انہوں نے سوچا کہ وہ یہاں کھیلتے ہوئے احمق لگیں گے کیونکہ ایک بزرگ نے انہیں خصوصی طور ایسا ہی کرنے کو کہا تھا ۔
چنانچہ بچوں نے کھیلنے کی بجائے ’ پلازہ ‘ کا رخ کیا ۔ وہ راستے بھر بوتلوں کے ڈھکنوں کو ٹھوکریں مارتے رہے اور جلد ہی لیمپ کے بارے میں سب کچھ بھول گئے ۔
جب سورج غروب ہونے لگا تو توئچی گھر لوٹا ۔ اس نے لیمپ کو رہائشی کمرے کے ایک کونے میں پڑا پایا ۔ وہ اس کے بارے میں کچھ نہ بولا ۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ اپنے دادا کے غصے کو پھر سے ہوا نہ دے بیٹھے ۔
توئچی نے اپنی میز کے ساتھ کمر لگائی اور اس کی درازوں کی دستیوں کو بجانے لگا ۔ یہ شام میں کھانے کے بعد کا وقت تھا جب اس پر اکتاہٹ نے غلبہ پانا شروع کر دیا تھا ۔ وہ نیچے سٹور میں گیا اور زراعت کے ایک پروفیسر کی طرح ایک ایسی کتاب کو دیکھنے لگا جس کا عنوان لمبا سا تھا جیسے کہ ’ تھیوری اور عمل؛ لال مولیوں کی کاشت کیسے کی جائے؟ ‘
جب توئچی اس سے بھی اکتا گیا تو وہ واپس رہائشی کمرے میں واپس آیا ۔ اس نے ادھر ادھر دیکھ کر تسلی کی کہ اس کا دادا وہاں موجود نہ ہو ۔ اس نے احتیاط سے لیمپ کو اٹھایا ۔ اس کی چِمنی الگ کی ۔ اور سِکے کے سائز کے پیچ کو کھولا ۔ اس نے بتی کو پہلے باہر نکالا اور پھر واپس لگا دیا ۔
ابھی وہ اپنی پڑتال کے وسط میں ہی تھا کہ اس کا دادا وہاں آ گیا ۔ لیکن اس بار اس نے اُسے ڈانٹ نہ پلائی ۔ اس کے دادا نے خادمہ سے چائے کی ایک پیالی لانے کو کہا اور اپنا ’ پائپ ‘ بھرا ۔
” توئچی ، یہ لیمپ میرے لئے بہت اہم ہے ۔ مجھے اس کا خیال عرصے سے نہیں آیا تھا ۔ اب جبکہ تم نے اسے گودام سے باہر نکالا ہے تو یہ مجھے گئے وقتوں میں لے گیا ہے ۔ تم بھی جب اپنے دادا کی طرح بوڑھے ہو جاﺅ گے تو تمہیں بھی پرانی اشیاء خوشی کا احساس دلائیں گی ۔ “
توئچی نے اپنے دادا کو خالی خالی نظروں سے دیکھا ۔ اس کا تو خیال تھا کہ ڈانٹ کا مطلب ہی یہ تھا کہ اس کا دادا اس سے ناراض تھا لیکن اس کے برعکس وہ تو اس لیمپ کو دیکھ کر خوش تھا ۔
” یہاں بیٹھ جاﺅ اور میں تمہیں اس کے بارے میں بتاتا ہوں ۔ “ ، اس کے دادا نے کہا ۔
توئچی کو اچھی کہانیاں سننا ہمیشہ سے پسند تھا چنانچہ وہ اپنے دادا کے پاس بیٹھ گیا ۔ اسے معلوم تھا کہ اسے ایک لمبا بیانیہ سننا پڑے گا ، اس لئے اس نے زیادہ آرام دہ انداز اختیار کیا ۔ جیسے ہی اس کے دادا نے کہانی شروع کی ، وہ الٹا لیٹ گیا اور اپنی ٹانگیں اوپر اٹھا لیں ۔ بیچ میں وہ کبھی کبھار ، اپنے پیروں کو جوڑ بھی لیتا ۔
یہ اب سے پچاس سال پہلے کی بات ہے ۔ اس وقت ہم روس کے ساتھ جنگ کی حالت میں تھے ۔ اُس وقت قصبہ ’ یانابی‘ میں ایک لڑکا تھا ۔ اس کا نام ’ مینُوسوکی ‘ تھا ۔
مینوسوکی کی ماں نہیں تھی ، باپ بھی نہ تھا اور کوئی بہن بھائی بھی نہ تھے ۔ وہ صیحح معانوں میں ’ یتیم ‘ تھا ۔ وہ ایک گھر کے لئے پیغام رساں بچہ تھا ، دوسرے گھر کے لئے بچے سنبھالنے والا اور کسی اور کے لئے چاول بھی لگاتا تھا ۔ مینوسوکی جیسا کوئی بھی لڑکا جو کام کر سکتا تھا ، وہ سب مینوسوکی بھی کرتا تھا ۔
لیکن اگر سچی بات کی جائے تو مینوسوکی کو یہ بات پسند نہ تھی کہ وہ قصبے کے لوگوں کی خدمت گزاری کرکے زندہ رہے ۔ وہ اکثر سوچتا کہ اگر اس نے بچوں کی نگہداشت ہی کرنی تھی ، چاولوں کے چھلکے ہی اتارنے تھے تو اس کا پیدا ہونا ہی بے معانی تھا ۔
ایک نوجوان آدمی کو کامیابی سے ہمکنار ہونا ہی چاہیے ۔ لیکن سوال یہ تھا کہ مینوسوکی اس سے کیسے ہمکنار ہو ؟ اُسے تو بمشکل دو وقت کا کھانا ہی کھانے کو ملتا تھا ۔ وہ ایک کتاب بھی نہیں خرید سکتا تھا اوراگر وہ خرید پاتا تو اس کے پاس وقت ہی کہاں تھا کہ وہ اسے پڑھ سکے ۔
اندر ہی اندر ، البتہ ، مینوسوکی موقع کے تلاش میں تھا ۔ اور پھر گرمیوں کی ایک دوپہر مینوسوکی کو رکشہ چلانے کی نوکری کی پیش کش ہوئی ۔
ان دِنوں یانابی میں دو یا تین رکشے ہی تھے جبکہ ’ ناگویا‘ سے وہاں آنے والے لوگ بہت تھے جو صحت یابی کے لئے سمندر میں تیرنے کے لئے وہاں آتے تھے ۔ یہ عام طور پر’ ہنڈا ‘ تک ریل گاڑی میں آتے اور وہاں سے رکشہ لیتے اور ’ جزیرہ نما ‘ کے مغربی ساحل پر عام طور پر ’ اونو‘ یا پھر ’ شِن مئیکو‘ جاتے ۔ اور رکشہ لینے کے لئے ' یانابی ' سب سے موزوں جگہ تھی ۔
رکشہ چلانا ایک سست رو کام تھا ۔ اونو اور یانابی کے درمیان چٹانی علاقہ تھا جو اسے مزید سست بنا دیتا تھا ۔ اس پر طرہ یہ تھا کہ اس زمانے میں رکشہ کے بڑے پہیے دھات کے ہوا کرتے تھے ۔ یہ بھاری ہونے کے ساتھ ساتھ زمین کے ساتھ رگڑ کی آواز بھی پیدا کرتے تھے ۔ چنانچہ ایسے گاہک جنہیں جلدی ہوتی وہ اپنی پالکیاں کھینچنے کے لئے دو ڈرائیور اجرت پر لیتے ۔ ایسی ہی ایک گرمیوں کے ایک گاہک نے مینوسوکی کو اجرت پر رکھا ۔
رکشے کے بَموں سے بندھی رسی اس کے کندھوں کے گرد لپٹی ہوئی تھی ۔ وہ اپنی پوری طاقت سے رکشہ کھینچتا گرمی اور گرد سے اٹی سڑک پر اترتا چلا گیا ۔ یہ ایک صبر آزما کام تھا جس کی عادت ہونے میں کچھ وقت لگنا تھا لیکن مینوسوکی نے اس سخت کام کو اپنے تیئں آسان ہی جانا ۔ اس پر تجسس حاوی تھا ۔ جہاں تک اسے یاد تھا وہ اپنے گاﺅں سے کبھی باہر نہیں گیا تھا ۔ اسے قصبے کا کچھ پتہ نہ تھا اور نہ ہی یہ معلوم تھا کہ چٹانی علاقے کے لوگ کیسے تھے ۔
جب سورج غروب ہوا اور سورج کی روشنی میں زرد نظر آنے والی شکلیں شام کے نیلگوں جھٹ پٹے میں چمکنا شروع ہوئیں تو رکشہ ’ اونو‘ کی بستی میں پہنچا ۔
مینوسوکی نے وہاں پہلی بار بہت سی چیزیں دیکھیں ۔ اس کے لئے بڑی دکانوں کی ساتھ ساتھ جڑی عمارات کا نظارہ انوکھا تھا ۔ ’ یانابی ‘ میں جبکہ صرف ایک ہی تاجر تھا ۔ وہاں مقامی مٹھایاں ، جوتے ، کھڈیاں ، مرہمیں ، آنکھوں میں ڈالنے والے قطرے اور دیگر اشیاء سب اسی تاجر کی دکان پر ملتے تھے ۔
مینوسوکی کو جس شے نے سب سے زیادہ حیران کیا وہ ایک بڑی دکان میں اس کا اپنا رنگ برنگا شیشے کا لیمپ تھا ۔ اس کے گاﺅں میں ، رات میں اکثر گھر تاریکی میں ڈوب جاتے تھے ۔ اس کے گاﺅں کے لوگوں کو ایک اندھے آدمی کی طرح پانی کا جگ یا ہاون دستہ ٹٹول ٹٹول کر ڈھونڈنا پڑتا تھا ۔ نسبتاً خوشحال گھرانوں میں ایک سادہ سی لالٹین ہوتی ۔ ۔ ۔ جس میں ایک ہی تیل میں ڈوبی بتی جلتی ۔ اس کے گرد ا گرد کاغذ لپٹا ہوتا ۔۔۔ یہ لالٹین بھی عام طور پر شادی ہی کا تحفہ ہوتا ۔ اس چھوٹی سی بتی کا ننھا سا شعلہ اپنے گردا گرد کے کاغذ کو گرمائش والی مدہم نارنجی روشنی مہیا کرتا جو آس پاس کے ماحول کو ہلکا سا روشن کر دیتی لیکن ان لالٹینوں کے شعلے کسی طور بھی ان لیمپوں کے شعلوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے جو مینوسوکی نے ’ اونو‘ میں دیکھے ۔
یہ سب شیشوں والے لیمپ تھے جو اس کے گاﺅں میں ناپید تھے ۔ یہ کاغذی لالٹینوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ نفیس تھے اور داغوں ، جل جانے اور پھٹنے کی قباحتوں سے آزاد تھے ۔
یہ سارے لیمپ اونو کی سادہ سی بستی کو ایک ایسی آبادی کا روپ دے رہے تھے جیسی ’ پری ‘ کہانیوں میں ہوتی ہیں ۔ مینوسوکی گھر واپس لوٹنا نہیں چاہتا تھا ، ویسے ہی جیسے ہم روشنی کو دیکھ کر تاریکی میں واپس جانے کی تمنا نہیں کرتے ۔
اس نے اپنے مسافروں سے بخشیش لینے کے بعد اپنا رکشہ ایک طرف چھوڑا اور آبادی میں ہکا بکا گھومنے لگا ۔ اسے سمندر کی لہروں کی آواز مسلسل آ رہی تھی ۔ وہ اجنبی دکانوں میں گھستا اور حیرانی سے ، بس ، خوبصورت لیمپوں کو گھورتا رہتا ۔
بزاز کے کارندے نے اپنے لیمپ کے نیچے ’ کیمیلا کے پھولوں والے چھاپے والا کپڑا لٹکا رکھا تھا تاکہ اس کے گاہک اسے دیکھ سکیں ۔ پرچون کی دکان میں کام کرنے والے لڑکے نے ’ ایڈزوکی ‘ لوبیے کی لڑیاں لیمپ تلے لٹکا رکھی تھیں ۔ اسی طرح ایک اور دکان میں تسبیح کے دانے لیمپ تلے پڑے تھے ۔ لیمپوں سے چھن کر آتی مدہم روشنی میں عام آدمی ایسے حسین لگ رہے تھے جیسے ’ پری ‘ کہانیوں کے کردار ہوں یا یہ سب ایک متحرک تصویر کا حصہ ہوں ۔
مینوسوکی نے یہ سن رکھا تھا کہ مغرب کے ساتھ رابطے میں آنے کے بعد جاپان خاصا بدل گیا تھا لیکن اسے اس بات کا کوئی علم نہ تھا کہ اس کا مطلب کیا تھا ۔
مٹر گشت کے دوران ، مینوسوکی ایک ایسی دکان کے پاس پہنچا جس کے باہر بہت سے لیمپ لٹکے ہوئے تھے ۔ یہ یقیناً ایک ایسی دکان تھی جس میں لیمپ بِکتے تھے ۔
مینوسوکی اس دکان کے باہر بخشیش میں ملے چند سکوں کو مٹھی میں بھینچے کچھ دیر تو تذبذب میں کھڑا رہا، پھر وہ اعتماد کے ساتھ دکان میں داخل ہوا ۔
” میں ان میں سے ایک خریدنا چاہتا ہوں ۔“ ، مینوسوکی نے لٹکے ہوئے لیمپوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ ان کو کیا کہا جاتا تھا ۔
دکاندار نے وہ لیمپ نیچے اتارا ، جس کی طرف مینوسوکی نے اشارہ کیا تھا ، لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ اسے خرید سکتا ۔
” قیمت کچھ تو کم کرو ۔“ ، مینوسوکی نے اصرار کیا ۔
” میں اس کی قیمت کم نہیں کر سکتا ۔“ ، دکاندار نے جواب دیا ۔
” بھئی میرے لئے ’ ہول سیل‘ والی قیمت لگاﺅ۔ “ ، مینوسوکی ، اکثر تیلیوں سے جوتیاں بناتا تھا اور انہیں یانابی کی دکان پر بیچتا تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ ہر شے کی ایک ’ ہول سیل‘ قیمت ہوتی ہے جبکہ پرچون کی قیمت الگ ہوتی ہے اور یہ کہ ’ ہول سیل‘ کی قیمت پرچون کی قیمت سے سستی پڑتی ہے ۔ مثال کے طور پر مینوسوکی کی بنائی جوتیاں ۔۔۔ تاجر انہیں ڈیڑھ ’ سین‘ میں خریدتا اور رکشہ چلانے والوں کو ڈھائی ’ سین‘ میں بیچتا تھا ۔
اب دکاندار کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ کس سے مخاطب تھا ، اس نے مینوسوکی کو کچھ دیر تو حیرت سے دیکھا اور پھر کہا؛
” میں تمہیں ’ ہول سیل‘ قیمت پر بیچ سکتا ہوں بشرطیکہ تم لیمپوں کے تاجر ہو تے۔ ہر ایرے غیرے کو ’ ہول سیل‘ قیمت پر چیزیں نہیں بیچی جا سکتیں ۔“
” تو تم لیمپوں کے تاجر کے لئے ’ ہول سیل ‘ قیمت لگا سکتے ہو ۔“
” ہاں ، یقیناً ، میں ایسا ہی کروں گا ۔“
” اچھا تو یہ بات ہے ۔ تو تم مجھے لیمپوں کا تاجر ہی سمجھو ۔“
دکاندار ، جس نے لیمپ ابھی بھی ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا ، قہقہہ مار کر ہنسا ۔ ” تم ؟ لیمپوں کے سوداگر ہو ؟“
” میں قسمییہ کہتا ہوں ! میں لیمپوں کا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہوں ۔ ابھی تو تم مجھے’ ہول سیل‘ قیمت پر ایک اچھا اور مضبوط لیمپ دو ۔ اگلی بار میں تم سے بہت سے لیمپ خریدوں گا ۔“
پہلے تو دکاندار ہنستا رہا لیکن پھر وہ مینوسوکی کی باتوں سے متاثر ہو کر بولا ؛ ” ٹھیک ہے ، صرف اس بار ، میں تمہیں ایک لیمپ ’ ہول سیل‘ قیمت پر دے دوں گا ، لیکن تمہارے پاس تو اس کی یہ قیمت بھی دینے کے لئے کافی پیسے نہیں ۔ لیکن مجھے تمہارے جذبے نے متاثر کیا ہے ۔ اب ، اگر تم اس کاروبار میں، سنجیدہ ہو ، تو میں یہ چاہوں گا کہ تم میرے لیمپ باہر لے جا کربیچو ۔“
دکاندار نے مینوسوکی وہ لیمپ دیا اور اسے سمجھایا کہ اسے کیسے استعمال کرنا تھا ۔
مینوسوکی نے لیمپ جلایا ۔ ۔ ۔ یہ کاغذی لالٹین سے کہیں زیادہ روشن تھا ۔ ۔ ۔ اور گھر کی طرف روانہ ہوا ۔
مینوسوکی نے لیمپ کو اپنے رکشہ پر ایسے لٹکایا جیسے وہ موسم گرما کا ایک پھول ہو۔ اسے جھاڑیوں ، جنگلوں اور چٹانی علاقے سے بالکل خوف نہ آیا جو سب تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے ۔
مینوسوکی کے اندر بھی ایک اور روشنی چمک رہی تھی ۔ وہ ان لیمپوں کو اپنے تاریک گاﺅں میں بیچ سکتا تھا جو اس مغربیت سے پرے ابھی بھی اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔ وہ ان انوکھے لیمپوں سے اپنے ہمسایوں کی زندگی کو منور کر سکتا تھا ۔
شروع شروع میں ، مینوسوکی کی یہ کاروباری مہم کچھ زیادہ کامیاب نہ ہوئی ۔ تمہیں پتہ ہونا چاہیے کہ چھوٹی آبادیوں کے کسان نئے خیالات اور چیزوں کے کچھ زیادہ شوقین نہیں ہوتے ۔
مینوسوکی کافی غور و خوض کے بعد گاﺅں کے دکاندار کے پاس گیا اور لیمپ اس کے حوالے کیا کہ وہ لوگوں کو ترغیب دے کہ وہ اسے، مفت ، ایک رات کے لئے اپنے گھر لے جائیں اور اسے جلائیں ۔
گاﺅں کا دکاندار جو ایک بوڑھی عورت تھی پہلے تو تذبذب کا شکار ہوئی لیکن پھر اس نے ، اسے لیمپ کو اپنی دکان میں چھت کے ساتھ لٹکا نے دیا ۔
کچھ دنوں بعد جب مینوسوکی کچھ جوتیاں بیچنے اس دکان پر گیا تو بوڑھی عورت کا چہرہ مسکراہٹ سے کھلا ہوا تھا ۔ وہ بولی ؛ ” مینو! یہ لیمپ تو بہت روشنی دیتا ہے ۔ اسے دیکھنے تو گاہک رات میں بھی آتے ہیں اور میں پیسے بھی واضح طور پر دیکھ کر گِن سکتی ہوں ۔ کیا تم یہ لیمپ مجھے بیچ سکتے ہو ۔ اور اب جبکہ گاﺅں کے لوگ یہ جان چکے ہیں کہ یہ کتنا کار آمد ہے تو میرے پاس تین اور لیمپوں کی خریداری کی درخواستیں آ چکی ہیں ۔ “ ، یہ سن کر مینوسوکی پر سرمستی چھا گئی ۔
اس نے جوتیوں اور لیمپ کی رقم جیب میں رکھی اور ’ اونو‘ کی طرف دوڑا ۔اس نے لیمپ بیچنے والے کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا ، اپنے پاس موجود رقم اس کے حوالے کی ، کم پڑے پیسوں کا ادھار کیا اور تین لیمپ لا کر یانابی میں گاہکوں کو بیچ ڈالے ۔ تب سے مینوسوکی کے لیمپ مقبول ہونے لگے ۔
پہلے پہل تو مینوسوکی ’ آرڈر‘ ملنے پر ’ اونو‘ جاتا اور لیمپ بیچنے والے سے لیمپ لا کر آگے بیچ دیتا لیکن بعد ازاں جب اس کے پاس کافی پیسے ہو گئے تو اس نے کچھ لیمپ ’ سٹاک ‘ میں رکھنے شروع کر دئیے ۔
مینوسوکی نے بچے سنبھالنے اور چھوٹے موٹے کام کرنا بند کر دئیے اور سارا وقت لیمپ بیچنے میں صرف کرنے لگا ۔ اس نے ایک چھکڑا خریدا جس پرلمبے دھاتی کھمبے لگے ہوئے تھے ۔ وہ ان پر لیمپ اور چِمنیاں لٹکاتا اور اپنے گاﺅں کے علاوہ آس پاس کے دیہاتوں میں جا کر انہیں بیچتا ۔ جب وہ اس چھکڑے پر جا رہا ہوتا تو یہ لیمپ اور چِمنیاں آپس میں ٹکرا کر جھنکار بھی پید کرتیں ۔
مینوسوکی اب جوان ہو چکا تھا ۔ اس کا اپنا کوئی گھر نہ تھا ؛ اب تک وہ گاﺅں کے مکھیا کی ملکیتی زمین پر ایک چھجے تلے رہتا تھا ۔ اس نے پس انداز کی ہوئی کچھ رقم سے اپنے لئے ایک گھر بنایا اور شادی بھی کی ۔
ایک روز وہ ایک نزدیکی قصبے میں آوازیں لگا رہا تھا ؛ ” اگر بندہ ان لیمیوں میں سے ایک کے نیچے بیٹھ جائے اور اخبار پڑھنا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے ۔“ ، مینوسوکی نے یہ بات اپنے گاﺅں کے مکھیا سے سنی تھی ۔ ایک گاہک نے اس سے پوچھا ؛ ” کیا یہ واقعی سچ ہے ؟ “ ، مینوسوکی کو چونکہ جھوٹ سے نفرت تھی چنانچہ اس نے سوچا کہ اسے پہلے خود اس کا تجربہ کرنا چاہیے ۔ اس نے گاﺅں کے مکھیا سے کچھ پرانے اخبار لیے اور انہیں لیمپ کی روشنی میں دیکھا ۔
مکھیا کی بات بالکل درست تھی ۔ مینوسوکی لیمپ کی روشنی میں اخبار کے صفحے پر حروف کو باآسانی دیکھ سکتا تھا ۔ ” کاروبار میں جھوٹ کی کوئی کنجائش نہیں ہوتی ۔ “ ، وہ منہ میں بُڑبُڑایا ۔ بہرحال ، مینوسوکی ، گو کہ اخبارمیں حروف کو واضح طور پر دیکھ سکتا تھا لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا ۔ سیدھی بات تھی ، ہم ابھی کچھ زیادہ ترقی نہیں کر پائے تھے ۔ مینو سوکی حروف کو دیکھ تو سکتا تھا لیکن انہیں پڑھ نہیں سکتا تھا ۔
تب سے وہ ہر رات گاﺅں کے مکھیا کے پاس جاتا جو اسے حروف پڑھنا سکھاتا ۔
مینوسوکی اب اپنی زندگی کے عروج پر تھا ۔ اس کے دو بچے تھے ۔ ” لوگ کہہ سکتے ہیں کہ اب میں خود مختار ہو گیا ہوں ، اس کا جو بھی مطلب ہو، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ میں ایک کامیاب آدمی ہوں ۔“ ، وہ کبھی کبھار قناعت بھرے انداز سے سوچتا ۔
اور تب ، ایک دن جب وہ اونو میں لیمپوں کی بتیاں خریدنے گیا ،اس نے پانچ چھ کارکنوں کو سڑک کے اطراف میں زمین میں گڑھے کھودتے اور ان میں لکڑی کے کھمبے گاڑتے دیکھا ۔ ان کھمبوں کے اوپرلے حصے پر لکڑی کے دو دو تختے تھے جن پر کچھ ایسی اشیاء تھیں جیسے چینی مٹی کے بنے ہوئے گولے ہوں ۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ یہ پیچیدہ اشیاء کیا تھیں ، وہ دوسری سڑک پر جا پہنچا ۔ اس پر بھی اسی طرح کے عجیب کھمبے لگے ہوئے تھے اور ان پر جڑے لکڑی کے تختوں پر چڑیاں بیٹھی ہوئی تھیں ۔
یہ کھمبے سڑکوں پر پچاس پچاس میٹر کی دوری پر ایک قطار میں ایستادہ تھے ۔
مینوسوکی سے نہ رہا گیا ، اس نے بالآخر ایک بندے سے پوچھا جو دھوپ میں ’ نوڈلز‘ سکھانے کے لئے انہیں لٹکا رہا تھا ۔
” ہمارے ہاں ۔ ۔ ۔ جسے وہ بجلی کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ آ رہی ہے ۔ باورچی نے جواب دیا ۔ ” اب ہمیں لیمپوں کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ “
یہ مینوسوکی کے لئے ایک ہلا دینے والی خبر تھی ۔ اسے بجلی کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا ۔’ لیکن اگر یہ لیمپوں کی جگہ لے رہی ہے تو اس کا تعلق یقیناً روشنی سے ہو گا اور یہ گھروں میں بھی برتی جا سکے گی ۔ ‘، اس نے سوچا ، ’ بہرحال یہ بیہودہ کھمبے اس کے چھوٹے سے گاﺅں میں تو نہیں لگ رہے ۔‘
اگلے مہینے ، جب ، مینوسوکی دوبارہ ’ اونو‘ گیا تو اس نے دیکھا کہ سارے کھمبے تاروں سے جڑے ہوئے تھے اور یہ تاریں چینی مٹی کے گولوں کے گرد لپٹی سب کھمبوں کو ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے تھیں ۔ لگتا تھا کہ یہ ہمیشہ کے لئے لگائی گئی تھیں ۔
مینوسوکی نے جب زیادہ غور سے دیکھا تو اسے نظر آیا کہ کچھ تاریں کھمبوں سے ہٹ کر گھروں کی دیواروں تک بھی جا رہی تھیں ۔
” ہونہہ ، تم تو سمجھ رہے تھے کہ بجلی تو روشنی یا کچھ ایسی ہی شے کے لئے ہے لیکن ابھی تو یہ پرندوں کے بیٹھنے کی جگہ ہیں ۔“ ، یہ سوچ کر اس نے ناک چڑھائی ۔
لیکن جب وہ اپنے ایک جاننے والے کے شراب خانے میں گیا تو وہاں کمرے کے وسط میں پڑی میز کے اوپر چھت سے جو بڑا لیمپ لٹک رہا ہوتا تھا ، اب دیوار کے ساتھ لگا پڑا تھا اور اس کی جگہ ایک بڑی ’ لائٹ‘ لٹک رہی تھی جسے مٹی کے تیل کی ضرورت نہ تھی ۔ اس سے ایک موٹی تار جڑی ہوئی تھی ۔
”چھت سے یہ کونسی بیہودہ شے لٹک رہی ہے ۔“ ، مینوسوکی نے پوچھا ، ” کیا لیمپ کے ساتھ کچھ گڑبڑ ہے ؟ “
” او ہ ، یہ بجلی کی ایک ’ لائٹ ‘ ہے “ ،مئے خانے والے نے جواب دیا ، ” یہ تو ایک چمتکار ہے ۔ میں تمہیں بتاتا ہوں ۔ اس سے آگ لگنے کا کوئی خطرہ نہیں ، یہ زیادہ روشن ہے اور اسے جلانے کے لئے دیا سلائی کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔“
” لیکن یہ تو خوفناک حد تک بیہودہ ہے ۔ یہ دیکھنے میں احمقانہ لگتی ہے اور میری مانو کہ اس سے تمہارے کئی گاہک ٹوٹ جائیں گے ۔“
یہ جانتے ہوئے کہ مینوسوکی لیمپ بیچنے کے کاروبار میں تھا ، مئے فروش لیمپوں کی اچھائی برائی کے بارے میں کچھ نہ بولا اور مینوسوکی بھی خاموش رہا۔
” اب تم میری بات سنو ! چھت کی طرف دیکھو! جہاں پرانا لیمپ عرصے سے لٹک رہا تھا ۔ اس نے کالک سے چھت کو کالا کر دیا تھا۔ اب یہ وہاں نہیں رہا اس کی جگہ ’ لائٹ‘ نے لے لی ہے ۔ یہ قدرت کی مہربانی نہیں تو اور کیا ہے اور سوچو کہ لیمپ اس کے سامنے کیا ہے؟ “
اس وقت رات پڑ چکی تھی اور شراب خانے میں کسی کے پاس ماچس نہیں تھی ۔ مئے فروش نے یک لخت ’ لائٹ‘ جلا کر اس جگہ کو دن کی مانند روشن کر دیا ۔ مینوسوکی نے گھوم کر دیکھا اور اسے ایک دھچکہ لگا ۔
” مسٹر مینوسوکی ، یہ ہے بجلی ۔ ۔ ۔“
مینوسوکی نے دانت بھینچے ، بجلی کی روشنی کو ایسے گھورا جیسے وہ اس کی دشمن ہو ۔ یہ اتنی روشنی پھیلا رہی تھی کہ اسے آنکھوں میں چبھن کا احساس ہونے لگا ۔
” مسٹر مینوسوکی یہ بجلی کا کوئی اچھا مظاہرہ نہیں ہے ۔ باہر جاﺅ اپنے ارد گرد دیکھو تمہیں اندازہ ہو جائے گا کہ بجلی کیا کر سکتی ہے ۔“
خوفزدہ مینوسوکی نے دروازے سے جھانک کر باہرسڑک پر دیکھا ۔ شراب خانے میں لگی ’ لائٹ‘ جس نے اسے اُجلا دیا تھا ، کی طرح ہر گھر روشن تھا ، ہر دکان میں دن کا سا سماں تھا ۔ گھروں کے اندر کی روشنیاں باہر گلی کو بھی روشن کر رہی تھیں ۔ مینوسوکی ، جو لیمپوں کا عادی تھا ، کے لئے یہ سب بہت حیران کن تھا ۔ وہ پریشانی کے عالم میں دیر تک بجلی کی روشنیوں کو گھورتا رہا ۔
’یہ تو میری بہت ہی خوفناک دشمن ہے ۔‘ ، اس نے سوچا ۔ گو وہ جاپان کی جدیدیت کے بارے میں بہت بولتا تھا لیکن اسے بجلی کی روشنی کے بارے میں کچھ علم نہ تھا جو لیمپوں کی روشنی سے کئی درجہ آگے کی بات تھی ۔ اسے احساس ہوا کہ وہ جو خود کو ایک کرخندار سمجھتا تھا ، اپنے متروک ہونے پر پریشان تھا اور اسے یہ بھی لگا کہ وہ غلطی پر تھا ۔
اس دن سے مینوسوکی کو یہ خطرہ لاحق رہنے لگا کہ ایک نہ ایک روز یانابی کے لوگ بھی بجلی کی روشنیوں کی زد میں آنے والے ہیں اور اس کے گاﺅں کے لوگ بھی لیمپوں کو ویسے ہی طاق میں رکھ دیں گے جیسا کہ شراب بیچنے والے نے کیا تھا یا وہ اسے گودام میں یا پھرکسی چھجے تلے رکھ دیں گے ۔ تب نہ لیمپوں کی ضرورت ہو گی اور نہ ہی انہیں بیچنے والوں کی ۔
ساتھ ہی ساتھ اسے یہ خیال بھی آتا کہ جس طرح یانابی کے لوگ پہلے پہل لیمپوں کے بارے میں شک و شبہ رکھتے تھے ویسے ہی وہ بجلی کی روشنی کو بھی ملعون شے سمجھیں گے۔
زیادہ عرصہ نہ ہوا اور اس نے یہ بات سنی کہ گاﺅں کی اگلی پنچائت میں یہ معاملہ زیر بحث آنے والا تھا کہ آبادی میں بجلی کی تاریں بچھائی جائیں یا نہیں ۔ اس کی پرانی دشمن بالآخر اپنا بڑا سا سر لئے وہاں پہنچ گئی تھی ۔ مینوسوکی کو لگا جیسے کسی نے اس کے سر پر ضرب لگائی ہو ۔
وہ خاموش نہ رہا اور اس نے گاﺅں کے ان باسیوں کو اکٹھا کیا جو بجلی کے حق میں نہ تھے ۔ ” بجلی کا مطلب ہے ساری آبادی میں تاروں کا جال بچھ جائے ۔ تمہیں پتہ ہے کہ یہ تاریں کہاں سے آ رہی ہیں ؟ دور پہاڑوں میں سے ۔ جس کا مطلب ہے کہ لومڑ اور اسی طرح کے دوسرے جانور ان کے سہارے رات کی تاریکی میں یہاں تک آ سکتے ہیں اور ہماری چاولوں کی فصلوں کو اجاڑ سکتے ہیں ۔ “
جب وہ یہ سب کہہ رہا تھا تب بھی وہ دل میں شرمندہ تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ وہ اپنے طرز زندگی کو بچانے کی خاطر اول فول باتیں کر رہا تھا ۔ چنانچہ جب اس نے یہ سنا کہ گاﺅں کی پنچائت نے آبادی کو بجلی مہیا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو یہ اس کے لئے ایک بہت بڑا دھچکہ ثابت ہوا ۔ اسے بجلی نے اس بری طرح ہرایا تھا کہ اسے خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں وہ بیمار نہ پڑ جائے ۔
جلد ہی اس کا یہ خوف حقیقت کا روپ دھار گیا ۔ جس روز پنچائت نے بجلی لگانے کا فیصلہ کیا اس کے تیسرے روز وہ بستر پر منہ سر لپیٹ کر پڑ گیا اور جب وہ اٹھا تو پاگل ہو چکا تھا ۔
مینوسوکی کے دل میں ہر اس بندے کے خلاف بغض بھر گیا جو بجلی لگائے جانے کے حق میں تھا ، یہاں تک کہ وہ مکھیا کے بھی خلاف ہو گیا جس نے پنچائت کی صدارت کی تھی ۔ اس نے مکھیا کے خلاف بہت سی ایسی باتیں سوچ لیں جنہیں وہ اس کے خلاف استعمال کرتا ۔ مینوسوکی ویسے تو ایک سمجھدار شخص تھا لیکن اپنے کام کے ختم ہونے نے اسے منطق کے ساتھ سوچنے سے عاری کر دیا اور وہ لوگوں سے ناراض رہنے لگا جیسے وہ اس کے بیری ہوں۔
یہ ایک گرم رات تھی ۔ اوپر آسمان پر چاند روشن اور چمک رہا تھا ۔دور سے بہار کے میلے میں بجنے والے ڈھولوں کی آواز سنائی دے رہی تھی ۔
مینوسوکی سڑک استعمال نہیں کرتا تھا ۔ وہ زمین دوز نالیوں کے چوہوں کی طرح انہیں میں ہی رینگتا یا جنگلی کتوں کی مانند جنگلوں میں گھومتا رہتا ۔ لوگ ایسا ہی کرتے ہیں ، جب وہ چاہتے ہیں کہ انہیں کوئی نہ دیکھ پائے ۔
مکھیا کا گھر اب لمبے عرصے سے اس کی پسلی میں چبھا ایک کانٹا تھا ۔ اسے اس بات کا اچھی طرح علم تھا ۔ جب سے اس نے یہ گھر چھوڑا تھا ، اسے معلوم تھا کہ آگ لگانے کے لئے بھینسوں کا باڑہ ،جس کی چھت بھوسے کی بنی ہوئی تھی ، سب سے مناسب جگہ تھی ۔
گھر میں خاموشی کا ڈیرہ تھا ۔ بھینسوں کے باڑہ سے بھی کوئی آواز نہ آ رہی تھی ۔ وہ تو دن میں بھی خاموش رہتیں اور یہ امکان نہ تھا کہ وہ اس کی راہ میں رکاوٹ بنتیں ۔
ماچس کی بجائے ، کینوسوکی اپنے ہمراہ چقماق کے پتھر لے کر گیا تھا ۔ جب وہ گھر سے نکلا تو اس نے چولہے کے پاس ماچس تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اسے مل نہ پائی ۔ ہاں البتہ اسے چقماق کے پتھر مل گئے ۔
اس نے ان پتھروں کا رگڑا اور بھوسے کو آگ لگائی ، لیکن بھوسے نے آگ نہ پکڑی ، شاید یہ زیادہ نم آلود تھا ۔’ یہ آگ جلانے کا ایک قدیمی طریقہ ہے ‘، اس نے سوچا ۔ شعلے تو بھڑک نہ سکے البتہ چقماق کے پتھروں کی رگڑ کی آواز سے گھر میں سوئے لوگ جاگ گئے ۔
” بہت برا ہوا۔“ ، وہ بڑبڑایا ، ” مجھے ماچس لانی چاہیے تھی ۔ یہ طریقہ اب قصہ پارینہ ہو چکا ۔“
مینوسوکی نے اپنے کہے الفاظ پھر سے دہرائے ، ” یہ طریقہ اب قصہ پارینہ ہو چکا ۔ ۔ ۔ ۔ یہ طریقہ اب قصہ پارینہ ہو چکا۔ ۔ ۔ “
جس طرح چاند تاریک رات میں روشنی لاتا ہے اسی طرح اِن الفاظ نے مینوسوکی کے دماغ کو صاف کر دیا ۔ اس پر یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ کہاں پر غلط تھا ؛ ’ لیمپ بھی اب گزرے وقت کا حصہ ہیں ۔ بجلی کی روشنی جدید دور کی ایک کار آمد شے ہے ۔ دنیا میں اسی طرح تبدیلی آتی ہے ۔ اور دنیا آگے سے آگے بڑھتی جاتی ہے ۔ مجھے ایک جاپانی کی حیثیت سے فخر کرنا چاہیے کہ یہ ملک کہاں تک آ پہنچا ہے ۔ اور میں ہوں کہ اُس بندے کا گھر جلانے جا رہا تھا جس نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا ۔ میں کس قسم کا آدمی بن گیا ہوں؟ میرا پیشہ اگر متروک ہوا ہے تو یہ ترقی کی نشانی ہے ۔ زمانہ بدل چکا ہے اور مجھے بھی اس کے ساتھ خود کو بدلنا ہو گا ۔ مجھے اپنا پیشہ چھوڑ کر کچھ اور کرنا ہو گا ۔۔۔‘، یہ سوچ کر مینوسوکی گھر چلا گیا ۔ اس نے اپنی بیوی کو جگایا اور گھر میں موجود سارے لیمپوں میں تیل بھرنے لگا ۔
اس کی بیوی نے اس سے پوچھا کہ وہ اتنی رات گئے یہ سب کیوں کر رہا تھا ۔ اس نے یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کی بیوی کا مقصد اسے روکنا تھا ، وہ آگے سے کچھ نہ بولا ۔
اس کی پاس مختلف سائز کے لگ بھگ پچاس لیمپ اور ان کے لئے تیل موجود تھا ۔ جب وہ انہیں تیل سے بھر چکا تو اس نے ان سب کو چھکڑے پر لٹکایا ، ویسے ہی جیسے وہ روز تیاری کرتا تھا ، اور گھر سے نکل پڑا ۔ اس دفعہ اس نے خاص طور پر ماچس ساتھ رکھی ۔
چٹانی علاقے کو جاتی مغربی سڑک ’ ہنڈا ‘ تالاب کے پاس سے گزرتی تھی ۔ موسم بہار میں جب اس میں پانی زیادہ ہو جاتا تو کناروں کی جھاڑیاں اوربید کے پودے اس میں ڈوب جاتے اور چاند کی روشنی میں اس کی سطح سے بھاپ اٹھتی ۔
وہاں کوئی بندہ نہیں ہوتا تھا ۔ مینوسوکی نے یہ جگہ اسی وجہ سے چُنی تھی ۔
مینوسوکی نے باری باری ہر لیمپ کو جلایا اور جب وہ جل گئے تو اس نے انہیں درخت کی ان شاخوں پر لٹکا دیا جو تالاب پر جھکی ہوئی تھیں ۔ جب ایک درخت مزید لیمپوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہا تو وہ انہیں دوسرے پر لگانے لگا ۔ یوں اس نے تین مختلف درختوں پر سارے لیمپ لٹکا دئیے ۔
اس ساکت رات میں نہ تو لیمپ ہلے اور نہ ہی ان کے شعلے پھڑپھڑائے ۔ ان کی روشنی سے یہ علاقہ یوں روشن ہو گیا جیسے دن میں دوپہر کا وقت ہو ۔ پانی میں مچھلیوں نے اوپر ابھرنا شروع کیا اور پانی کو چاقو کی طرح کاٹنا شروع کر دیا ۔ وہ اچھل اچھل کر روشنی کے ہالے کو پکڑنے کی کوشش کرتیں ۔
” میں اس طرح اپنے کاروبار کو اختتام دیتا ہوں ۔ “ ، مینوسوکی نے خود سے کہا ۔ لیکن وہ انہیں وہاں چھوڑ کر نہ جا سکا اور دیر تک وہیں کھڑا لیمپوں سے لدے اور اس کی طرف جھکے درختوں کو دیکھتا رہا ۔
وہ ان لیمپوں کو اچھی طرح جانتا تھا ۔ وہ ان سے مانوس ہو چکا تھا یہ اس کے پیارے لیمپ تھے جن کا انجام المناک تھا ۔
” میں اس طرح اپنے کاروبار کو اختتام دیتا ہوں ۔ “ ، یہ کہتا ہوا وہ تالاب کی دوسری طرف گیا ۔ وہ اسے وہاں سے بھی جھلملاتے ہوئے نظر آئے ۔ پچاس کے لگ بھگ اور مزید اتنے ہی پانی کی سطح پر ۔ وہاں بھی وہ کافی دیر تک رکا انہیں دیکھتا رہا ۔
ان پیارے لیمپوں کو ، جن کا انجام المناک تھا ۔
کچھ دیر بعد مینوسوکی جھکا اور اس نے اپنے پیروں کے پاس سے ایک پتھر اٹھایا اور سب سے بڑے لیمپ کا نشانہ لے کر پوری طاقت سے اس پر پتھر دے مارا ۔ ٹوٹنے کے ساتھ اس کا جھلملاتا شعلہ بجھ گیا ۔
” تمہارا وقت اب گزر چکا ۔ دنیا اب آگے بڑھ چکی ہے ۔ “ ، مینوسوکی نے کہا ۔ پھر اس نے دوسرا پتھر اٹھایا اور دوسرا بڑا لیمپ بھی ٹوٹ کر بجھ گیا ۔
” دنیا آگے نکل چکی ہے اور اب بجلی کا زمانہ ہے ۔“ ، جیسے ہی تیسرا لیمپ ٹوٹا ، مینوسوکی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور وہ دھندلا گئیں ، اتنی کہ اس سے مزید نشانہ نہ لگایا گیا ۔
مینوسوکی نے یوں اپنے اس پیشے کا اختتام کیا ۔ اس کے بعد وہ بستی میں واپس گیا اور اس نے ایک نیا کاروبار شروع کیا ۔ اس نے کتابوں کی دکان کھول لی ۔
”مینوسوکی اب بھی کتابوں کی دکان کا مالک ہے “ ، توئچی کے دادا نے اپنی بات مکمل کی ۔ ” لیکن اب وہ بہت بوڑھا ہو چکا ہے اس لئے اب اس کا بیٹا اس دکان کو چلا رہا ہے ۔ “ ، اس نے اپنی چائے کی چسکی لی جو کہ ٹھنڈی ہو چکی تھی ۔ توئچی نے کچھ دیر اپنے دادا کی طرف دیکھا ۔ پھر وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور اپنے دادا کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر بولا ؛
” اچھا ، تو باقی سنتالیس لیمپوں کا کیا بنا ؟ “
” کون جانتا ہے ؟ شاید یہ اگلے روزراہ گیروں کو مل گئے ہوں ۔“
” تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے پاس گھر میں کوئی لیمپ نہیں ہے ۔ “
اس لیمپ ، جسے توئیچی نے گودام سے ڈھونڈ نکالا تھا ، کو دیکھتے ہوئے اس کے دادا نے کہا ، ” ایک ہے ۔“
” باقی تو فضول ضائع ہو گئے ۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی نہ کوئی انہیں ضرور خرید لیتا ۔“
” ہاں یہ ضائع گئے ۔ اب ، جب میں یہ سوچتا ہوں ، تو مجھے بھی خیال آتا ہے ۔ میں انہیں سستے داموں بیچ سکتا تھا ۔ یانابی میں بجلی آنے کے باوجود میں پچاس کے پچاس بھی آسانی سے بیچ سکتا تھا ۔ جنوب کی جانب ابھی بھی ’ فوکودانی ‘ نامی ایک چھوٹا سا گاﺅں ہے جہاں آج بھی لوگ لیمپ استعمال کرتے ہیں ۔ اور بھی کئی گاﺅں ایسے تھے جہاں بہت دیر تک لیمپ استعمال ہوتے رہے ۔ لیکن میرا خون ان دنوں کچھ زیادہ ہی جوش کھا گیا تھا ، میں نے یہ سب نہیں سوچا ۔
” خیر ، یہ خاصی احمقانہ بات تھی ۔“ ، توئیچی نے بچگانہ معصومیت سے کہا ۔
” ہاں ، یہ خاصی احمقانہ بات ہی تھی ۔ لیکن توئچی ۔ ۔ ۔ “ ، دادا نے پائپ پکڑے پکڑے اپنے پوتے کے ہاتھوں پر ہاتھ مارا ۔ ” میں نے جس طرح اس وقت کیا وہ واقعی احمقانہ بات تھی لیکن اس طریقے سے اپنے کاروبار کو الوداع کہنا ہی شاندار تھا ۔ میں تمہیں جو بتانا چاہ رہا تھا وہ یہ ہے کہ اگر کوئی کاروبار جاپان کے لئے کارآمد نہ رہے کیونکہ وہ آگے نکل چکا ہے ، تو اِسے بھی جانے دو ۔ جب کوئی کسی قدیمی بوسیدہ پیشے سے چمٹا رہتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ یہ پرانے وقتوں میں کتنا اچھا تھا ، تو وہ ترقی کے عمل کی مخالفت کرتا ہے جس سے اسے اپنے لئے کوئی تعریف و توصیف نہیں ملتی ۔“
توئچی نے اپنے دادا کی طرف دیکھا جس کا چہرہ ، گو چھوٹا تھا لیکن ہشاش بشاش اور شیفتگی لئے ہوئے تھا ۔ پھر وہ بولا ؛ ” میرا خیال ہے کہ آپ نے ٹھیک ہی کیا ۔“ ، تب اس نے اپنی آنکھوں ، جو اب کچھ زیادہ کھل چکی تھیں ، سے پرانے لیمپ کی طرف دیکھا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔