گوشت خوری طاقت کی ضامن یا کمزور سماج کی علامت: نئی سائنسی تحقیق ہمیں اس متعلق کیا بتاتی ہے؟
عام طور پر تو یہی کہا جاتا ہے کہ جہاں ایک طرف گوشت سے پروٹین ملتی ہے اور اس کے کئی دیگر فوائد بھی ہیں، وہیں ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ گوشت اعتدال سے کھانا چاہیے کیونکہ ضرورت سے زیادہ گوشت صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
پاکستان سمیت دیگر ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی گوشت کھانے والوں کی بڑی تعداد ہے اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی غذا سے گوشت کم کرنا آٹھ ملین کاروں کو سڑک سے ہٹانے جیسا ہے یعنی ماحول پر اس قدر اتنی سی بات کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
یہ ایک نئی تحقیق کے نتائج کا ایک پہلو ہے، جس کے بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہم جو کچھ کھاتے ہیں اس کا کرہ ارض پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کا ابھی تک سب سے زیادہ قابل اعتماد حساب کتاب یہی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی نئی تحقیق گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں زیادہ اور کم گوشت والی خوراک کے فرق کی نشاندہی کرنے والی پہلی تحقیق ہے۔
گوشت سے جڑی صنعت سے وابستہ تاجروں نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ یہ تجزیہ گوشت کھانے کے اثرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔
اس نئی تحقیق والی ٹیم کی قیادت کرنے والے آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر پیٹر سکاربورو نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہمارے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ اگر برطانیہ میں زیادہ گوشت خوری کرنے والے اپنی غذا سے گوشت کی مقدار کو کم کر دیں تو اس سے واقعی بہت بڑا فرق پڑے گا۔‘
تاہم انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ’آپ کو اپنی خوراک سے گوشت کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
پروفیسر سکاربورو، جو لائیو سٹاک انوائرمنٹ اینڈ پیپل پروجیکٹ کا حصہ ہیں، نے ایسے 55,000 لوگوں کو اپنے سروے میں شامل کیا ہے جو زیادہ گوشت خور ہیں۔
ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو روزانہ سو گرام سے زائد گوشت کھاتے ہیں۔ اس سروے میں شامل کم گوشت کھانے والوں کا مطلب روزانہ 50 گرام یا اس سے کم گوشت کھانے والے تھے۔ سروے میں شامل ان افراد میں مچھلی اور سبزی خور بھی شامل ہیں۔
پروفیسر سوسن جیب کے مطابق اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ گوشت کی پیداوار میں پودوں سے حاصل ہونے والی خوراک (پھل، سبزی) سے زیادہ ماحولیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں، لیکن اس کا کبھی اتنی تفصیل سے حساب نہیں لگایا گیا۔
پروفیسر سوسن فوڈ سٹینڈرڈز ایجنسی کی سربراہ ہیں اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں دنیا کی معروف نیوٹریشن سائنسدان ہیں۔ واضح رہے کہ وہ خود اس تحقیق کا حصہ نہیں تھیں۔
اس تحقیق کے نتائج سے متعلق بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’اس تجزیے کو جو چیز مختلف بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں حقیقی طور لوگوں کی خوراک کو اس تحقیق کا حصہ بنایا گیا ہے اور یہ ہمارے پاس موجود مختلف پیداواری طریقوں پر مبنی ہے۔‘
ان کے مطابق محققین نے کھائی جانے والی اس خوراک کے ماحولیاتی اثرات کا بہت گہرائی میں مطالعہ کیا ہے۔
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ گوشت کھانے والے شخص کی خوراک اوسطاً 10.24 کلوگرام کرہ ارض کو گرم کرنے والی گرین ہاؤس گیسیں پیدا کرتی ہے۔
اسی طرح کم گوشت کھانے والا 5.37 کلوگرام یومیہ میں تقریبًا اس سے نصف پیدا کرتا ہے۔ اور سبزی خوروں کے لیے یہ 2.47 کلوگرام فی دن رہ جاتی ہے۔
یہ تجزیہ دوسرے ماحولیاتی اقدامات پر خوراک کے تفصیلی اثرات کو مجموعی طور پر دیکھتا ہے۔ یہ زمین کا استعمال، پانی کا استعمال، پانی کی آلودگی اور مختلف جنگلی انواع و اقسام کے نقصان کا جائزہ لیتا ہے۔
تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ دوسرے گروپس کے مقابلے میں زیادہ گوشت کھانے والوں کی وجہ سے نمایاں طور پر زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
برطانیہ میں گوشت کی پیداوار کے کچھ انتہائی پائیدار طریقے ہیں۔ اور یہ شعبہ تقریباً ایک لاکھ افراد کو ملازمت دیتا ہے، جو برطانیہ کے لیے سالانہ ساڑھے نو بلین پاؤنڈ کی کمائی کا ذریعہ ہیں۔
’برٹش میٹ پروسیسرز ایسوسی ایشن‘ کے سی ای او نک ایلن کا کہنا ہے کہ اس قسم کے جائزے ادھورے ہیں۔
ان کے مطابق ’اس طرح کی رپورٹ کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے یہ صرف مویشیوں کی پیداوار سے ہونے والے اخراج کو دیکھتی ہیں۔ یہ اس بات کو مدنظر نہیں رکھتیں کہ کاربن سرسبز چراگاہوں، درختوں اور کھیتوں میں جذب ہو جاتی ہے۔ اگر وہ ان پہلوؤں کو مدنظر رکھتے تو شاید آپ کو ایک مختلف تصویر نظر آتی۔
اس اعتراض کے جواب میں پروفیسر سکاربورو نے کہا کہ متعدد مطالعات، جن میں ایک یہ بھی شامل ہے، اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہرے بھرے کھیتوں کا مطلب کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اثرات کی کمی کی واضح ثبوت ہے۔
نیچر فوڈ میں سنہ 2021 میں شائع ہونے والی ایک علیحدہ تحقیق نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ خوراک کی پیداوار کا تمام عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک تہائی حصہ بنتا ہے۔
اور محکمہ برائے ماحولیات خوراک اور دیہی امور کے ایک آزاد جائزے میں سنہ 2032 تک گوشت کی کھپت میں 30 فیصد کمی کا مطالبہ کیا گیا تا کہ برطانیہ کے خالص صفر کے ہدف کو پورا کیا جا سکے۔
پروفیسر سوسن جیب کے مطابق اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بہت کم کام کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’برطانیہ میں ابھی تک اس بات کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے کہ ہم اتنی مقدار میں گوشت کھا رہے ہیں، جو ہمارے ماحولیاتی اہداف سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کے مطابق ’اس وقت بات یہ نہیں ہے کہ ہم یہ کیسے کریں گے، اہم یہ ہے کہ کیا یہ واقعی ضروری ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’موٹاپے کے معاملے میں لوگ جانتے ہیں کہ انھیں بہت شوگر والے کیک اور بسکٹ نہیں کھانے چاہئیں۔ وہ شاید یہ سننا نہیں چاہتے، لیکن وہ جانتے ہیں کہ یہ سچ ہے۔ تاہم گوشت کے بارے میں وہ پوری طرح سے قائل نہیں ہیں۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ لوگوں کو اپنی خوراک تبدیل کرنے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ حکومت کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ تبدیلی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ کسانوں کی گزر بسر کو یقینی بنانے کے لیے ان کی مدد کرے۔
ان کے مطابق ’بہت سے دیگر ممالک کے مقابلے میں ہمارے کسان پائیدار ترقی حاصل کرنے کے لیے کافی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے باوجود ہم برطانیہ میں اپنے کسانوں پر تبدیلی کے لیے زیادہ دباؤ ڈال رہے ہیں۔‘
جواب میں محکمہ برائے ماحولیات خوراک اور دیہی امور کے ترجمان نے کہا کہ ’لوگوں کو اپنے کھانے کے بارے میں اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں۔‘
ان کے مطابق ’صفر اخراج کے ہدف کو حاصل کرنا اس حکومت کی ترجیح ہے جبکہ خوراک کے انتخاب کا گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر اثر پڑ سکتا ہے۔‘
ترجمان کے مطابق اچھی طرح سے منظم لائیوسٹاک بھی ماحولیاتی فوائد فراہم کرتے ہیں، جیسے کہ حیاتیاتی تنوع کو سپورٹ کرنا، دیہی علاقوں کی حفاظت کو یقینی بنانا اور دیہی برادریوں کے لیے بڑی آمدنی کا اہم ذریعہ بننا۔
یہ تحقیق نیچر فوڈ میں شائع ہوئی ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...