“میں شہ رگ کے پھٹنے کو خون نکلنا نہیں کہوں گا!
میں پستان کو دودھ کی بند ڈبیا کہنے سے بہتر ہے لکھنا چھوڑ دوں!
میں قتل کو رضائے الٰہی سے آنے والی موت نہیں مانتا!
میں کم سن کلیوں کی رانوں پر لکیر بناتے خون کی لائن کو رنگ نہیں کہنے والا!
میں بھوک کو روز مرہ کی ضرورت کہنے سے بہتر ہے مذھب کہوں!
میں پیٹ کو دین، نوالے کو کلمہ لکھوں گا!!”
عام فہم بات ہے اگر میں کہوں:
”عورتیں اپنی گود میں بچہ اٹھائے اس بات کی دلیل پیش کررہی ہیں کہ وہ ماں بننے جیسے عظیم و بلند مرتبے پر فائز ہیں“
یہی بات تلخ ہوجاتی ہے جب میں لکھتا ہوں کہ!
”چوک چوراہوں پر اپنے سینے سے بچہ لگائے چلتی عورت اس بات کا ثبوت دے رہی ہے کہ اس کا پردہ بکارت زائل ہوچکا ہے“
عین ممکن ہے تم کہو:
”میں خود کو فی زمانہ منٹو ثابت کرنے میں لگا ہوا ہوں“
مگر میری بات کے پسِ منظر میں ایک واقعہ ہے:
”یہیں کہیں کراچی کی ایک یونیورسٹی کے پچھلے حصے میں بنے کھلے گراؤنڈ کی دیوار کے ساتھ ہلکی گھنی جھاڑیوں میں ایک مرد ایک چادر میں لپٹی عورت کے ساتھ جنسی معاملات کے دوران رنگے ہاتھوں پکڑا گیا
نوجوان لڑکوں نے انھیں پولیس کی حراست میں تھانے منتقل کیا
عورت کی تلاشی کے دوران اس کے پاس سے ایک تھیلی برآمد کی گئی
سپاہیوں نے بہت کوشش کی، مگر وہ عورت تھیلی دینے پر آمادہ نہیں تھی۔
بقول حوالدار کے اسے لگا:
اس تھیلی میں منشیات ہیں جسے یہ عورت ممکنہ حد تک یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کو فراہم کرتی ہے
چھینا جھپٹی کے دوران وہ تھیلی پھٹ گئی
اور اس میں سے تین روٹیاں نکلیں۔۔۔۔
وہ کہتی ہے:
اس نے بہت سے لوگوں کو روٹی سالن دلانے کا کہا،
وہ خود بھوکی ہے،
اس کا ایک بچہ بھی دو روز سے بھوکا ہے،
وہ روٹیاں تو مانگ کر حاصل کرچکی ہے مگر اس کے پاس سالن کے پیسے نہیں تھے
دیوار سے لگی،
چادر میں لپٹی عورت کا سالن کے حصول کے لیے وہ فیصلہ، میری کہانی اور میری بات کو منٹو کی ننگی باتوں کی یاد تو دلا سکتا ہے
مگر اس عمل کے دوران اگر وہ حاملہ ہو جاتی
اور وہ پھر سے ایک بچہ جنتی
اور کسی روز وہ چوک چوراہے پر گود میں بچہ اٹھائے گزرتی
تو کیا اس کا بچہ یہ دلیل ہے کہ
”وہ ماں جیسے عظیم مرتبے کو پہنچ چکی ہے؟؟
یا یہ بچہ پردہ بکارت کے زائل ہونے کا اتم اشارہ ہے؟؟“
میں مانتا ہوں!
میرے الفاظ تلخ ہیں،
میں نے اس پاگل عورت کا بھی رمضان کے اوائل میں لکھا تھا،
جو تم شاید پڑھ چکے ہوگے
وہ عورت جو چھ سال سے مکمل طور پر پاگل تھی اور کسی نامعلوم فرد نے اسے حاملہ کردیا تھا،
عین ممکن تھا کہ وہ بچہ بھی جنتی!
تو کیا وہ سمجھ پاتی اس کے ساتھ یہ سب کیا ہوا ہے؟
مانا! میں بے حس ہوں مگر مجھے خوشی ہوئی جب میں نے یہ جانا کہ رمضان میں وہ پاگل عورت مع اپنے حمل کے وفات پا گئی،
اس کے مرجانے کا مجھے افسوس نہیں ہوا، میں خوش تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
کوئی بھی یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ!
”میں فحش گو ہوں“
”میری عبارتیں ننگی ہیں“
کوئی بھی یہ سوچ سکتا ہے کہ!
”میں عورتوں کی تکریم کا قائل نہیں ہوں، کہ عورتوں کے پوشیدہ معاملات کو الف ننگا پیش کرنے مِیں ذرا بھی نہیں گھبراتا،
تم کہ سکتے ہو!
”میں یہ لطف لینے اور لطف دینے کے لیے لکھتا ہوں“
تم مان بھی لو کہ!
میری بے با کی میری جان بوجھ کر پیدا کردہ ہے،
مگر!
میرے گھر میں بھی ایک ماں ہے،
ایک ہمشیرہ ہے،
وہ بھی جنسِ مؤنث میں سے ہیں۔۔۔۔۔
میں سچ مچ اپنی سطروں اور اپنے لکھے کا جواب دہ ہوں،
مگر میں دیوار سے لگی، چادر میں لپٹی، سالن کی تلاش میں نکلی عورت کا ننگ نہیں دکھا رہا۔۔۔۔۔۔۔!
میں جواب دہ ہوں گا۔۔۔۔
اگر میں نے آنکھیں موند لیں
اور کہا کہ یہ تو روز کا معمول ہے،
کوئی اور بات کرو۔۔۔۔۔
تم باآسانی یہ کہ سکتے ہو کہ
”اس پاگل عورت کو گھر سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہیے تھا تاکہ کوئی اسے حاملہ نا کر پاتا،
مگر! تم جواب دہ ہو،
اگر اس نے خدا سے سوال کر لیا کہ
”یہ میرے پیٹ میں کیا چیز ہے جو دھڑک رہی ہے؟
یہ کس کا نطفہ ہے؟“
یہ تو معاشرے کا طمانچہ ہے!
یہ تمہاری اور میری سیاہ صورت ہے جس سے میں اور تم منہ موڑ رہے ہو۔
تم ہی مجھے بتاؤ!
اب تک کتنی کم سن بچیوں کی پھٹی شلواروں کے کیس حل ہوئے ہیں؟
لواطت کے فعل سے کتنے حسین لڑکے مجھے اور تمہیں دیکھ کر گھن کھاتے ہیں؟
خواجہ سراؤں پر تمہاری اور میری کَسِی گئی باتیں، سیٹیاں اور تالیاں، کیا خدا کی ناکارہ تخلیق کا مذاق ہے؟؟
”تم اور میں دونوں جواب دہ ہیں۔“
اس لڑکی کا کیا قصور ہے؟ جس کے والدین جہیز کا انتظام نہیں کر سکے
اس عورت نے کیوں خودکشی کی جو بس بیٹیاں جن رہی تھی؟
اس دوشیزہ کا دوش بتاؤ!
جس کی عمر 50 سال ہو چکی ہے اور وہ کنواری ہے کیونکہ برادری سے باہر رشتے نہیں کیے جا سکتے!
اس بیوہ کے سوالات کے جوابات کون دے گا؟ جس کا شوہر یوٹیلیٹی سٹور کی لائن میں لگنے گیا تھا اور اندھی گولی کا نشانہ بن کر لاش کی صورت آیا ہے!
مجھے بتاؤ!
اندرونِ سندھ کی عورتیں، کیا لڑکیاں جننا اس لیے چھوڑ دیں کہ وڈیرے کا بیٹا اُسے لازمی استعمال کرے گا؟
کیا ”بانجھ عورت“ کا لفظ گالی نہیں ہے؟
آخر پولیس کانسٹیبل عورت نے خودکشی سے پہلے سرخی سے ڈریسنگ کے شیشے پر یہ کیوں لکھا؟
کہ!
”میری بیٹیاں کسی اچھے (انسان) کے ساتھ بیاہی جائیں“
کیا کوٹھوں میں تمھارے اور میرے ہر طرح کے لباس نہیں اترتے ہیں؟
تو پھر منٹو کے افسانے کھول دو! پر تمھارے عضو کیوں حرکت کرتے ہیں؟
آخر اُس کے چہرے پر تیزاب ہی کیوں پھینکا گیا ہے؟
آئے روز پنجاب و ملک بھر میں خواجہ سرا تشدد کے بعد کون قتل کررہا ہے؟
ریاست ماں ہے تو ماں ننگی اور بے حس کیوں ہے؟
عالی جاہ!
میرے بچے بھوکے ہیں،
میں دونوں آنکھوں سے نا بینا ہوں اور میرے نکاح میں ایسی عورت دی گئی ہے جس میں پیدائشی طور پر ایک ہاتھ کے نہ ہونے کا نقص ہے۔
عالی جاہ!
کیا وہ کسی شہزادے کا سپنا نہیں دیکھ سکتی تھی؟
عالی جاہ!
اس کے اتنے سے نقص کی یہ سزا کہ اسے ایسے شخص سے بیاہا گیا ہے جو کبھی اس کی خوبصورتی کو دیکھ ہی نہیں سکتا!
عالی جاہ!
آپ سن رہے ہیں؟؟
آپ کبھی بھی کچھ نہیں بولتے !!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...