(Last Updated On: )
گورکی کا ’’ماں‘‘ ذہنوں پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا ناول سمجھا جاتا ہے. دنیا بھر کی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوچکے ہیں. گورکی اتنا بڑا رائٹر تھا کہ اس کی کتابوں کے اردو میں سعادت حسن منٹو، اختر حسین رائے پوری اور محمد حسین عسکری جیسے اکابرین نے بھی ترجمے کئے.
گورکی کے ناول” ماں ” کا ماسکو سے شائع ہونے والا سید محمد مہدی کا ترجمہ بہترین سمجھا جاتا ہے. پھر اس کی ایڈیٹنگ ظ. انصاری جیسے روسی اور اردو کے ماہر نے کی.
اس وقت میرے سامنے اس ناول کا بلاشبہ بہترین اردو ایڈیشن موجود ہے. اس میں حسن پیدا کرنے میں اگرچہ اخراجات بڑھے ہوں گے اور قیمت زیادہ رکھنی پڑی لیکن یہ ایک عمدہ تحفہ بن گیا ہے.
اس کے ناشر بک کارنر جہلم اکثر رعایتی سکیمیں چلاتے رہتے ہیں، ہوسکتا ہے آپ کو بھی خاصے ڈسکاؤنٹ کے ساتھ مل جائے.
ناول ’’ماں‘‘ کی کہانی ایک مزدور پافل ولاسوف، اس کی ماں، اس کے دوستوں اور کچھہ خواتین کے گرد گھومتی ہے۔ ماں اپنے بیٹے اور اس کے مقصد یعنی انقلاب کے لیے سختیاں برداشت کرتی ہے اور اپنے بیٹے کی گرفتاری کے بعد خود ایک انقلابی بن جاتی ہے۔ بوڑھی، ان پڑھ ماں انقلاب کے فلسفے سے قطعی لاعلم ہے،غربت میں پلی بڑھی، سیدھی سادی مظلوم عورت کی زندگی تشدد اور ظلم سہتے ہوئے بسر ہوئی۔ اس نے اپنے خاوند اور سماج کے ستم برداشت کیے ۔ اسے اپنے بیٹے پافل سے بہت پیار ہے۔
پافل اپنے باپ کی وفات کے بعد فیکٹری میں ملازم ہو جاتا ہے۔جہاں انقلابی ذہن رکھنے والے دوستوں سے بحث مباحثے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ صرف مزدور ہی ہیں جو نظام میں ایک تبدیلی لا سکتے ہیں۔ وہ سوشلسٹ دوستوں کے ساتھہ مطالعاتی نشستوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ کتابوں کے مطالعے سے اس کے ذہن میں انقلاب جڑیں پکڑ لیتا ہے۔ پافل سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہوتا ہے اور گھر کتابیں لانا شروع کرتا ہے۔ گھر میں پافل کے دوستوں کی مجلس جمنا شروع ہوتی ہے۔ پافل کی ماں پہلے پہلے تو بیٹے کے منہ سے نکلے الفاظ سمجھنے سے قاصر ہے لیکن آہستہ آہستہ اسے وہ باتیں اچھی لگنا شروع ہوتی ہیں جو پافل دوستوں سے کرتا ہے اور پھر بوڑھی ماں اپنے آپ کو ان جوان لڑکوں کا حصہ سمجھنا شروع کر دیتی ہے جو سوشلزم کا پرچار کر رہے ہیں اور انقلاب لانا چاہتے ہیں۔
پافل کی ماں کے علاوہ اس ناول میں اور بھی کئی نسوانی کردار ہیں۔ ساشا (Sasha)، لڈمیلا (Ludmilla)، صوفیا (Sophia) اور نتاشا (Natasha) اپنے رشتے داروں اور گھر والوں کو چھوڑ کر انقلابیوں کے لیے سب کچھہ ٹھکرا دیتی ہے۔ ساشا کا کردار ایک لحاظ سے ہیروئین کا ہے۔ وہ پافل سے محبت کرتی ہے۔ جدوجہد کے دوران جیل جاتی ہے۔ جیل کا وارڈن اس سے ہتک آمیز رویہ اختیار کرتا ہے۔ ساشا بھوک ہڑتال کر دیتی ہے اور معافی نہ مانگنے تک ہڑتال جاری رکھتی ہے۔ آٹھہ دن تک کچھہ نہیں کھاتی۔ وارڈن معافی مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
پافل کی ماں صرف پافل کی ماں نہیں اس کے دل میں سب کا مریڈز کے لیے محبت ہے۔ اسے پافل کے ایک دوست سے بہت پیار ہے جو یوکرائن کا رہنے والا ہے۔ وہ ہمیشہ اسے نیکو کہہ کر بلاتا ہے جو یوکرائن کی زبان میں ’’ماں‘‘ کو کہتے ہیں۔ پافل کی ماں کا غصہ اس وقت دیکھنے کے قابل ہوتاہے جب فیکٹری کی انتظامیہ علاقے کی بہتری کے لیے ہر مزدور کی تنخواہ سے ایک کوپک کاٹنا شروع کر دیتی ہے۔ پافل اس زیادتی کے خلاف احتجاج کرتا ہے اور ایک جلوس نکالنے کی تیاری کرتا ہے لیکن اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ پافل کی ماں کا اب ایک اور روپ سامنے آتا ہے۔ فیکٹری کے اندر سوشلزم کا لٹریچر لے جانے پر پابندی ہے۔ وہ اپنے کپڑوں میں چھپا کرپمفلٹ اندر لے جاتی ہے اور مزدوروں کو خبریں پہنچاتی ہے۔
یومِ مئی کا واقعہ ناول میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ پافل پر مقدمہ چلتا ہے۔ وہ عدالت میں جج کے سامنے زور دار تقریر کرتا ہے اور کہتا ہے: ’’ہم اس نظام کیخلاف ہیں جس نظام کی حفاظت کے لیے تمہیں کرسی پر بٹھایا گیا ہے۔ تم روحانی طور پر اس نظام کے غلام ہو اور ہم جسمانی طور پر۔ ہمارے اور تمہارے درمیان میں نظام کی تبدیلی تک کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔‘‘ اندر بیٹا تقریر کر رہا ہے اور باہر ماں کو لوگ بیٹے کی جرأت کی داد دے رہے ہیں۔
پافل کو سائبیریا جلا وطنی کی سزادی جاتی ہے۔ ماں لوگوں کے سامنے تقریر کرتی ہے اور کہتی ہے: ’’اگر ہمارے بیٹے جو ہمارے دل کے ٹکڑے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کے لیے جان دے سکتے ہیں تو ہم اپنی جانوں کی قربانی کیوں نہیں دے سکتے‘‘۔ ناول کا یہ حصہ بہت جذباتی اور متاثر کن ہے۔ پافل کو سائبیریا روانہ کیا جانے والا ہے۔ ماں اس کی تقریر چھپوا کر لوگوں میں بانٹنا چاہتی ہے۔ چنانچہ وہ چوری چھاپہ خانے میں جاتی ہے۔ پافل کی تقریر سائیکلو سٹائل کراتی ہے۔ اسٹیشن پر جاتی ہے اور لوگوں میں بانٹتی ہے۔ زارِ حکومت کے سپاہی اسے مارتے ہیں، اس کے بال نوچتے ہیں، ٹھڈے مارتے ہیں، وہ مار کھاتی رہتی ہے اور چلاتی رہتی ہے ’’خون کا ایک سمندر بھی سچ کو نہیں ڈبو سکتا !‘‘