اِس گورے کی اردو، ہم اہلِ اردو کے ہم پلہ ہے، بلکہ شاید ہم میں سے بہت سوں سے سیکڑوں درجہ بہتر ہو گی۔ مزید یہ کہ میکس بروس نے اردو سیکھ کر شاعری بھی کر ڈالی۔ اِس سلسلے میں وہ اپنا تخلص ”نادر“ استعمال کرتا ہے۔
جب 2012ء میں بھارتی شہر پتنہ کی ایک محفل میں اُس نے درست اردو لہجہ میں اپنی غزل سنائی..
بھری محفل میں تنہائی بہت ہے
کسی کی یاد پھر آئی بہت ہے
تیرے حصے میں ہر قطرہ ہے دریا
میرے حصے میں پیاس آئی بہت ہے
سرابوں میں سفر کرتے ہوئے بھی
حقیقت کی سزا پائی بہت ہے
چلو نادر سنا ہے آسماں پر
صداقت کی پذیرائی بہت ہے
اب اِن آنکھوں میں تصویر اپنی آ دیکھ
تمنا رنگ پھر لائی بہت ہے
….تو پوری محفل حیران پریشان ہو کر تالیاں پیٹنے پر مجبور ہو گئی۔ سب حیراں تھے کہ یہ ایک ایسا گورا ہے جس نے 22 برس کی عمر میں ہندوستان کی جانب سفر کیا اور لکھنؤ میں اردو سے متاثر ہو گیا۔ واپس امریکا جا کر اُس نے یونیورسٹی اوف کیلیفورنیا کے ایشیئن سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں اردو کی تعلیم جاری رکھی۔ صرف 6 برس کے قلیل عرصہ میں وہ نہ صرف اردو صرف و نحو اور لہجہ میں ماہر ہو گیا بلکہ شاعر بھی بن گیا۔ شاعری کی بنیادیں سیکھنے کے لیے وہ دو برس کے لیے لکھنؤ آ گیا۔ لکھنؤ میں اُس نے اردو اور فارسی کے معلمین سے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ اُس کا کہنا تھا کہ اردو کی مٹھاس نے اُسے جکڑ لیا تھا۔ اُسے میر اور غالب پر کافی عبور حاصل ہو چکا ہے۔ اب جب بھی اُس کے انٹرویو ہوتے ہیں، وہ کئی کئی گھنٹے انگریزی کا ایک بھی لفظ بولے بغیر اردو میں بات کرتا ہے۔ یہ خاصیت اب اہلِ اردو میں بھی خال خال ہی نظر آتی ہے۔
اگرچہ…
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
بھارت کے چوٹی کے اردو شعراء میکس بروس نادر کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ بلکہ نادر کے متعلق یہاں تک کہا جاتا ہے کہ وہ واحد سفید فام غیر ملکی ہے جس نے اردو سیکھ کر بہترین شاعری بھی کی۔ یاد رہے کہ بھارت میں اردو قدرے بہتر حالات میں ہے۔ شاید یہ بات زیادہ پاکستانیوں کو معلوم نہ ہو۔ اردو صرف پاکستان کی زبان نہیں۔ اردو قیامِ پاکستان سے بہت پہلے سے زیرِ استعمال ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ اردو کے نامور شاعر مرزا غالب کا زمانہ اٹھارہویں صدی سے تعلق رکھتا ہے۔ اور علامہ اقبال کا وصال بھی پاکستان بننے سے قبل ہو چکا تھا۔
ایک بار کسی نے میکس بروس نادر سے دریافت کیا کہ ٹھیک ہے اردو سیکھ لی مگر شاعری کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اُس نے کہا، اردو میں ڈوب جانے کے بعد انسان شاعری سے بچ نہیں سکتا۔
دوسری جانب ہندوستان و پاکستان میں ہر فورم پر اردو کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی ہے یا اِسے ترقی یافتہ نہیں ہونے دیا گیا۔ بلکہ زیادہ تر خود اردو بولنے والے اپنی زبان پر شرمندگی محسوس کرتے رہے، انگریزی کے حضور گھٹنے ٹیک دیے اور قابلِ افسوس کی بات یہ کہ انگریزی بھی درست طور نہ سیکھ سکے۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انسان متفرقُ الزباں ہو جائے اور کسی زبان کو کم تر خیال نہ کرے۔
بعد کے برسوں میں، جبکہ وہ 39 برس کا ہو چکا ہے، میکس بروس نادر نے یونیورسٹی اوف ٹیکساس امریکا سے مولانا شبلی نعمانی کی زندگی پر پی-ایچ-ڈی کر لی ہے۔ اور ہم اہلِ اردو ابھی تک مخصمصہ میں پڑے ہوئے ہیں کہ اردو اہلِ قلم کا کیا کرنا ہے؟ کیا انہیں سنجیدہ لیں یا نہیں؟
ویڈیو ضرور دیکھیے گا.. اچھا لگے گا۔
میکس بروس نادر واقعی ”نادر میکس پرو“ نکلا..
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...