ارنسٹ بیکر نے اپنی پی ایچ ڈی اینتھروپولوجی میں کی۔ انکی تحقیق نفسیات پر تھی۔ وہ غیرروایتی استاد تھے، جو اپنی طلباء میں پسند کئے جاتے تھے لیکن انتظامیہ میں نہیں۔ چھ سال میں چار ملازمتیں بدل کر سان فرانسسکو یونیورسٹی میں استاد تھے کہ ان کو بڑی آنت کا کینسر تشخیص ہوا۔ اس سے اگلے کچھ سال انہوں نے تکلیف میں اور زیادہ وقت بستر میں گزارا۔ اس دوران انہوں نے ایک کتاب لکھی۔ بیکر کا انتقال 1974 میں ہوا۔ ان کی کتاب “موت سے انکار” کو پولٹزر پرائز ملا اور بیسویں صدی کے اہم ترین انٹلکچویل کاموں میں سمجھی جاتی ہے۔ سائیکولوجی اور انتھروپولوجی میں ان کا کام بہت اثر رکھتا ہے۔ اس میں سے چند اہم نکات۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا یہ کہ انسان باقی جانداروں سے اس حوالے سے منفرد ہیں کہ وہ تصور بنا سکتے ہیں اور ایبسٹریکٹ طریقے سے سوچ سکتے ہیں۔ کتے بیٹھ کر اپنے کیرئیر کے بارے میں پریشان نہیں ہوتے۔ بلیاں اپنی پرانی غلطیوں پر نہیں پچھتاتیں یا یہ نہیں سوچتیں کہ اگر ویسا نہ کرتیں تو پھر کیا ہوتا۔ بندر ایک دوسرے سے فلسفے پر یا اپنے بچوں کے مستقبل پر گپ شپ نہیں کرتے۔ مچھلیاں دوسری مچھلی کے لمبے پنکھ دیکھ کر حسد کا شکار نہیں ہوتیں۔
ہم یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ فرضی صورتحال کے بارے میں اور ممکنات کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ ماضی اور مستقبل کے بارے میں سوچ سکتے ہیں، یہ سوچ سکتے ہیں کہ ویسا ہو جائے تو کیا ہو۔ چونکہ ہم متبادل منظرنامے ذہن میں تشکیل دے سکتے ہیں تو ہم ایسی حقیقت کا بھی تصور کر سکتے ہیں جس میں ہم خود نہ ہوں اور اس منفرد ذہنی صلاحیت کی وجہ سے کبھی نہ کبھی ہم سب اپنی موت کے ناگزیر ہونے کی حقیقت سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔
اس حقیقت کے ادراک کو بیکر “موت کی دہشت” کہتے ہیں۔ ایک گہری بے چینی جو ہماری زندگی کے فیصلوں کے پیچھے چھپی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیکر کا دوسرا نکتہ اس بات سے شروع ہوتا ہے کہ ہمارے دو وجود ہیں۔ ایک ہمارا فزیکل وجود جو کھاتا ہے، سوتا ہے، خراٹے مارتا ہے اور فیس بُک پر وقت ضائع کرتا ہے۔ دوسرا ہمارا ایبسٹریکٹ وجود، جو ہماری شناخت ہے۔ جیسا کہ ہم اپنے آپ کو دیکھتے ہیں۔
ہم سب کسی نہ کسی سطح پر یہ جانتے ہیں کہ ہمارا فزیکل وجود باقی نہیں رہے گا۔ موت ناگزیر ہے۔ اور یہ حقیقت، کسی لاشعوری سطح پر ہمیں دہشت زدہ کرتی ہے۔ اس کا خوف ہمیں اس دوسرے تصوراتی وجود کی لافانیت کی کوشش کی طرف دھکیلتا ہے جو ہم نے اپنا خود بنایا ہوتا ہے۔ اسی لئے لوگ عمارتوں پر نام لکھوانے، کتابوں پر نام چھپوانے، اور کئی بار بے کار چیزوں کا کریڈٹ لینے میں بھی سخت جدوجہد کرتے ہیں اور بہت وقت لگاتے ہیں۔ ہم دوسروں کو وقت دیتے ہیں، خاص طور پر اپنے بچوں کو۔ اس امید پر کہ ہمارے تصوراتی وجود کی چھاپ ہمارے فزیکل وجود سے زیادہ دیرپا ہو گی۔ ہم یاد رکھے جائیں گے، دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی عزت سے دیکھے جائیں گے۔
بیکر اس کو “لافانیت کے پراجیکٹ” کہتے ہیں۔ وہ پراجیکٹ جو ہمارے فزیکل خاتمے کے بعد بھی زندہ رہیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ تمام انسانی تہذیب ان لافانیت کے پراجیکٹس کا نتیجہ ہے۔ شہر، حکومتیں، عمارتیں، یادگاریں، سٹرکچر، نظریات، ایجادات یہ سب کچھ ہم سے پہلے گزر جانے والے لوگوں کے ایسے پراجیکٹ تھے۔ ان کے، جن کے تصوراتی وجود نے مرنے سے انکار کر دیا۔ تاریخ کے عظیم نام جن کے نام آج بھی اتنے طاقتور ہیں جتنے اپنے وقت میں تھے۔
یہی ان کا اصل نکتہ ہے۔ آرٹ میں مہارت، نئی جگہ کو فتح کرنا، دولت کما لینا یا پھر محبت کرنے والی بڑی فیملی، جس کے ذریعے نسل در نسل زندہ رہ لیں گے۔ یہ سب اسی کوشش کا حصہ ہیں۔ میرا کارنامہ، میرا خاندان، میری قوم، میرا ملک، میرا نظریہ، میری نسل۔۔۔۔ زندگی کے معنی ہماری اس زندہ رہ جانے کی خواہش کے گرد گھومتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاست، نظریات، سپورٹس، آرٹس اور ٹیکنالوجی کی جدتیں۔ یہ سب ایسے پراجیکٹس ہیں۔ بیکر کہتے ہیں کہ جنگیں، قتل و غارت، انقلاب اس وقت ہوتے ہیں جب ایک گروہ کا ایسا پراجیکٹ دوسرے کے پراجیکٹ سے ٹکراتا ہے۔ صدیوں کا جبر اور لاکھوں کا بہایا گیا خون اسی پراجیکٹ کے ٹکراوٗ کی وجہ سے ہے۔
اور جب ہمارا یہ پراجیکٹ ناکام ہو جائے تو معنی ختم ہو جاتے ہیں۔ جب یہ اندازہ ہو جائے کہ میرا تصوراتی وجود میرے فزیکل وجود سے زیادہ نہیں رہ پائے گا تو پھر وہ دہشت زدہ کر دینے والا، بے چین اور ڈیپریس کر دینے والا احساس طاری ہو جاتا ہے۔
یہ لافانیت کے پراجیکٹ ہماری اقدار بن جاتے ہیں۔ معنی کا پیمانہ اور زندگی کا محور۔ اور جب ان میں ناکامی ہو تو ہم ناکام ہو جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیکر کو آگے چل کر ایک چونکا دینے والا احساس ہوتا ہے۔ لافانیت کے یہ پراجیکٹ حل نہیں ہیں، مسئلہ ہیں۔ اپنی لافانیت کے لئے کوشش کے بجائے اپنے فانی ہونے کو تسلیم کر لینا حل ہے۔ بیکر اسے “کڑوا تریاق” کہتے ہیں۔ بیکر خود اس سٹیج پر تھے جب ان کو موت کا علم تھا اور اس سے مصالحت کی کوشش میں تھے۔ لیکن اس میں بیکر دوسروں سے مختلف تو نہیں۔ موت کا یہ علم تو ہم سب کو ہے۔ موت ناخوشگوار ہے لیکن لازمی ہے۔ اس سے آنکھیں چرانے کا فائدہ نہیں بلکہ اس حقیقت کو مان لینے اور اس کا خوف ختم کر لینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ایک بار اس کو تسلیم کر لینے سے فنا کی دہشت کی جڑ اکھڑ جاتی ہے اور ہماری بے معنی اور ضرر رساں خواہشات بھی ختم ہو جاتی ہیں۔ اب ہم اپنے انتخاب آسانی سے کر سکتے ہیں۔ لافانیت کی غیرمنطقی کوشش اور اس کے ساتھ جُڑے خطرناک خیالات سے آزاد ہو سکتے ہیں۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایاز اختر نے ارنسٹ بیکر کی لکھی کتاب کی بنیاد پر عثمان علی اور آصف مانڈوی کے ساتھ ملکر Disgraced کے نام سے ڈرامہ بنایا تھا جس کو 2013 میں بہترین ڈرامہ کیلئے پولیٹرز پرائز ملا اور براڈوے پروڈکشن کے ٹونی ایوارڈز کے لئے نامزد ہوا۔ ان کی لکھی ہوئی کتاب “امریکی درویش” بھی اس ٹاپک کو ٹچ کرتی ہے۔ ارنسٹ بیکر کی کتاب کو سابق امریکی صدر بِل کلنٹن نے اپنی آپ بیتی میں “اپنی زندگی میں پڑھی جانے والی اہم ترین کتابوں” میں لکھا ہے۔ اس کتاب کا لنک
https://www.amazon.com/Denial-Death-Ernest-Becker/dp/0684832402
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس آرٹیکل کا مواد مارک مینسن کی کتاب سے لیا گیا ہے۔