پروفیسر گوپی چند نارنگ کی رحلت پر تعزیتی نشست کا سہ ماہی ادب عالیہ کی جانب سے انعقاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئی دہلی 20 جون،ساؤتھ دہلی کے کھڑکی ایکس ٹینشن مقیم ایوانِ غزل میں نارنگ صاحب کی موت پر سوگوارانِ ادب کی ایک تعزیتی نشست ہوئی جو سہماہی جریدہ ادبِ عالیہ کی جانب سے منعقد کی گئی تھی جس کی صدارت ڈاکٹر ذکی ظارق نے اور نظامت ڈاکٹر فریاد آزر نے کی مہمانِ خصوصی جنابِ سراج عظیم صاحب تھے۔ قابلِ ذکر شرکا میں ادبِ عالیہ کے مدیر ِ اعلیٰ ڈاکڑ فریاد آزر، جناب سراج عظیم صاحب عمران عظیم ایڈووکیٹ، ڈاکٹر ذکی طارق صاحب اور علامہ عبدا لمنان صاحب نے نارنگ صاحب کی موت پر اظہارِ رنج و غم کیا۔ ڈاکٹر فریاد آزر نے بحیثیت شاگرد نارنگ صاحب سے وابستہ یادوں کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نارنگ صاحب نے اردو میں سیمیناروں بلکہ انٹر نیشنل سیمیناروں کی بنیاد ڈالی ان کی موت نے اردو ادب کو یتیم کر دیا ہے، سراج عظیم صاحب نے کہا کہ شمس الرحمان فاروقی اور نارنگ صاحب کے بعد صدیوں تک یہ خلا پر ہوتا ہوا نہیں دکھائی دے رہا ہے۔عمران عظیم ایڈووکیٹ نے نارنگ صاحب کی شخصیت پر تفصیلی روشنی ڈالی، ڈاکٹر ذکی طارق نے نارنگ صاحب کو اپنی شاعری کے ذریعہ خراجِ عقیدت پیش کیا۔علامہ عبدالمنان نے آنجہانی کے عالمانہ بصارت پر تبصرہ کیا۔ اسی محفل میں قاضی ابرار کرت پوری کی موت پر بھی سبھی لوگوں نے اظہارِ رنج و غم کیا۔ پرگرام کے دوسرے حصے میں ایک مشاعرہ کا ہتمام کیا گیا جس میں کثیر تعداد میں شعرا نے شرکت کی بیشتر شعرا نے اپنے کلام کے ذریعے نارنگ صاحب کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے منتخب شعرا کے منتخب اشعار پیش کئے جا رہے ہیں۔
ایک ہم باز نہ آئے کبھی سچ بولنے سے
ایک وہ حرفِ صداقت پہ زباں کاٹتا ہے ڈاکٹر ذکی طارقؔ
مسائل سے کہو اتنا نہ اب مجھ کو نچائیں
کہ میں نے زندگی بھر تا تا تھیّا کر رکھا ہے ڈاکٹر فریاد آزرؔ
مفلسی مٹ گئی، اہلِ زر ہو گئے
عیب جتنے بھی تھے سب ہنر ہو گئے عمران عظیم
خود کو کیوں تحریر کروں؟
کیوں اپنی تشہیر کروں؟ محبوب امین
نیامِ ایک میں دو تیغیں آ نہیں سکتیں
نظر سے ساقی کی جامِ شراب ٹوٹ گیا ساز دہلوی
عجیب حال ہے اپنا جہاں نظر ٹھہرے
وہیں سے عکس ابھرتے ہیں تیری صورت کے وحید عازم
عمر بھر جی کے ہم نے یہ جانا
موت ہی زندگی کا مقصد تھی احتساب انشاؔ
خراب حال ہے،خستہ لباس ہے جس کا
وہ اک ملنگ کئی مفتیوں پہ بھاری ہے عمران راہیؔ
پھر اک برپا ہوئی صحرا میں مجلس
تبرک میں بٹے کرتے ہمارے علی ساجدؔ
سکونِ قلب مرتا جا رہا ہے
وہ ظالم ظلم کرتا جا رہا ہے ہدایت حسین بدایونی
ظلم کو ظلم سے مٹانا مٹ
آگ کو تیل سے بجھانا مت عارف حسین افسرؔ
ساتھ رہ کر بھی رہے ہم اجنبی
ایک مدت بعد یہ ہم پر کھلا شاہ رخ عبیرؔ
روز تاریخ کلینڈر میں بدل جاتی تھی
پھر وہ تاریخ بھی آئی کہ کلینڈر بدلا شاکرؔ دہلوی
میرے چہرے کو غور سے دیکھو
حادثوں سے گزر کے آیا ہوں نویدؔ ظفر غازی آبادی
صدر، مشاعرہ سے پہلے مہمانِ خصوصی جناب سراج عظیم نے پروفیسر گوپی چند نارنگ کے حوالے سے طویل گفتگو کرتے ہوئے پورے عصری ادب کا سرسری جائزہ پیش کی اور پھر صدارتی خطبے اور آخر میں مہتممِ جلسہ کے تشکر بعد محفل کا اختتام ہوا۔