نارنگ کے جرائم کی فہرست ویسے تو کافی طویل ہے لیکن ان کی سنگینی کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔ جامعہ ملیّہ اسلامیہ کے دور ِ ملازمت میں یونیورسٹی کے نام سے ملّیہ اور اسلامیہ الفاظ ہٹانے کے لئے باقائدہ سازش کی جس کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ لیکن سب سے زیادی نقصان جو اردو دنیا کو ہوا وہ ساہتیہ اکاڈمی پر نارنگ کے غاصبانہ قبضے سے ہوا ۔ عرصہ تقریباً پچیس سال سے نارنگ نے ساپتیہ اکیڈمی کو اپنی جاگیر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے وہاں کے سرکاری ذرایع، وسائل اور سٹاف کا جس طرح استحصال کیا ہے اس کی تفصیلات ناقابل ِ یقین ہیں۔ پچھلے پندرہ سال سے نارنگ نے مولانا ابوالکلام آزاد کی ترجمان القران چھپنے نہیں دی جبکہ اس سلسلے میں ایک مرتبہ وزیر ِ اعظم کے دفتر سے ہدایات بھی جاری کر دی گئی تھیں۔بلکہ اس سلسلے میں جب اس کی طباعت کا فیصلہ کیا گیا تو نارنگ نے اس کا دیباچہ لکھ کر چھپوانا چاہا۔ صرف اپنی تشہیر کے واسطے۔کچھ لوگوں تک یہ خبر پہنچی تو انھوں نے بڑے سنگین طریقے سے احتجاج کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نارنگ کا دیباچہ تو روک دیا گیا لیکن ترجمان القران کی طباعت و اشاعت بھی ٹھنڈے بستے میں چلی گئی۔ نارنگ کا سارا کاغزی و کتابی کام ٹائپ وغیرہ موسیٰ رضا نام کا ٹائپسٹ کرتا رہا ہے (اب بھی وہی کرتا ہے) یعنی دفتر کے کمپیوٹر پر، سرکاری اوقات میں۔ نارنگ کے کہنے پر اس نے Galaxy Printers نام سے ایک کمپنی کھول لی جو ساہتیہ اکیڈمی یعنی نارنگ کا سارا کام کرتی تھی (دفتر کے کمپیوٹر پر، دفتر کے اوقات میں) اور اس کے بل ساہتیہ اکیڈمی ادا کرتی تھی ۔ اکیڈمی کی ایک خاتون کلرک (جو اب کہیں اور ملازم ہے) کی ہینڈ رائٹنگ میں بنے ہوئے بل میرے پاس موجود ہیں۔ کمپنی کا راز کھل جانے پر کمپنی کی ملکیت موسیٰ رضا کے ایک دوست کے نام منتقل کر دی گئی۔لیکن نارنگ کا کام اور اردو کا دیگر کام اب بھی وہی کمپنی کرتی ہے۔ نارنگ کی کتاب ’’ غالب: معنی آفرینی، جدلیاتی وضع ، شونیتا اور شعریات ‘‘ ساہتیہ اکیڈمی سے شائع ہوئی، ضابطے کی کاروائی کی پابندی کئے بغیر، اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوا۔ لیکن کوئی نہیں بتاتا کہ کتاب کتنی بکی کہاں بکی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کروڑوں کی جائداد اور اثاثون کا مالک ہونے کے باوجود نارنگ نے نہایت گھٹیا اور دو دو پیسے کی چوریاں اور بے ایمانیاں کی ہیں۔ ساہتیہ اکیڈمی ادبی کتابوں پر تبصرے کے لئے اچھا خاصہ معاوضہ ادا کرتی ہے لیکن ضابطے کے مطابق ایک سال میں ایک شخص ایک کتاب پر ہی تبصرہ کر سکتا ہے۔نارنگ نے ایک آٹھ سالہ دورانئے میں پچاس کتابوں پر تبصرے کر کے پیسہ وصول کیا ہوا ہے اور تعجب یہ ہے کہ ان تبصروں کی رپورٹ بھی فائل پر نہیں ہے۔یعنی یہ پتہ نہیں کہ وہ تبصرے کب کئے گئے اور کہاں شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ غبن کے اور کئی معاملات ہیں جن کے سلسلے میں میں نے حق ِ اطلاعات قانون کے تحت کئی درخواستیں داخل کی ہوئی ہیں لیکن ساہتیہ اکیڈمی نے آج تک ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔ یہ معاملہ بھی اب سیدھا ہائی کورٹ جائے گا۔ ترجمان القران کے معاملے میں تو کچھ لوگوں نے ساہتیہ اکیڈمی کے سامنے دھرنا دینے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ میں ’’ ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات کا انگریزی ترجمہ بھی کر رہا ہوں تاکہ اسے اصل مآخذ کتابوں کے ساتھ عدالت کے سامنے سرقے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ بہر حال میرا کتابچہ مفصّل طور پر نارنگ کے کرتوتوں کی داستان سنائے گا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...