“موت کے بعد کیا ہو گا؟” پتا نہیں، گوگل سے پوچھ لیں۔ ہمارا تاثر ہے کہ گوگل سب کچھ جانتا ہے۔ اور اس کی وجہ ہے۔ “چاند زمین سے کتنے فاصلے پر ہے؟”۔ “سب سے بڑی مچھلی کونسی ہے؟”۔ “آسمان نیلا کیوں ہے؟”۔ “ٹائی کیسے باندھیں؟”۔ لائبریری جانے، پرانی اخباریں کنگھالنے، انسائیکلوپیڈیا یا گینس بُک آف ورلڈ ریکارڈ کھولنے کی ضرورت نہیں۔ گوگل سے پہلے کے والدین اپنے بچوں کو چاند کا فاصلہ پوچھنے کا سوال کیسے دیتے تھے؟ شاید گوگل بتا دے۔ لیکن یہ آسان نہیں تھا۔
گوگل اتنا ہوشیار تو شاید نہیں کہ وہ موت کے بعد کا بتائے لیکن ہماری عام روزمرہ کی گفتگو میں “موت” اور “ہوشیار” سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ گوگل ہے۔ (یہ برطانیہ میں لینکاسٹر یونیورسٹی کی تحقیق تھی۔ اگر یقین نہیں آتا تو خود گوگل کر لیں)۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ پراجیکٹ سے عالمی کلچر پر غالب ہونے میں اسے صرف بیس سال لگے۔
اس سے پہلے سرچ کی ٹیکنالوجی کتنی ناقص تھی؟ اگر آپ ڈیجیٹل دنیا کے قدیم دور سے تعلق رکھتے ہیں تو شاید lycos وغیرہ پر سرچ یاد ہو جس میں “car” کی سرچ کسی غلط قسم کی ویب سائٹ کا نتیجہ اس لئے دیتی ہو کہ اس سائٹ پر کہیں کار کا لفظ لکھا ہو۔ یہ طریقہ مضحکہ خیز حد تک سادہ تھا لیکن دو دہائیاں پہلے کی بہترین ٹیکنالوجی یہی تھی۔
کسی جگہ پر بہترین انفارمیشن پڑی ہونے کا فائدہ نہیں، اگر آپ اس کو ڈھونڈ نہیں سکتے اور اس مسئلے کو گوگل نے حل کیا۔
لیری پیج اور سرجی برِن کی ابتدائی دلچسپی کا موضوع کچھ اور تھا۔ سٹینفورڈ پراجیکٹ کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ یہ کیسے جانچا جائے کہ کونسا اکیڈمک پیپر کتنا معتبر ہے۔ اگر پبلش ہو جانے والے پیپر کو زیادہ تعداد میں دوسرے پیپر ریفر کریں تو اس کو زیادہ معتبر سمجھا جاتا ہے۔ اور اگر سائٹ کرنے والے پیپر ایسے ہوں جن کو دوسرے پیپرز نے زیادہ دوسرے پیپرز نے ریفر کیا ہو تو ایسی ایک ریفرنس کی اپنی اہمیت زیادہ ہو گی۔ یعنی محض ریفر کرنے کی گنتی ہی نہیں بلکہ معتبر پیپر کی طرف سے ریفر کئے جانے کی اہمیت کم معتبر زیادہ ہے۔
یہ وہ آئیڈیا تھا جس کا استعمال پیج اور برن نے ورلڈ وائیڈ ویب پر کیا۔ ویب پیج کے لنک یہی کام کر سکتے ہیں۔ جس پیج کو زیادہ لنک کیا جائے، وہ معتبر ہو گا۔ اور جس کو زیادہ معتبر پیج لنک کریں، وہ زیادہ معتبر ہو گا۔ یہ طریقہ گوگل سرچ کی روح تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ایک پیج دیکھ کر یہ کیسے معلوم کیا جائے کہ کونسے پیج اس کو لنک کرتے ہیں؟ اسے کرنے کے لئے پیج اور برن کو پہلے تمام تمام انیٹرنیٹ ڈاوٗن لوڈ کر کے اس کا تجزیہ کرنا تھا۔ اور اس نے کئی جگہ پر گرماگرمی پیدا کی۔ اس نے سٹینفورڈ کی آدھی بینڈوتھ ہڑپ کر لی۔ ویب سائٹس کے ویب ماسٹر نے اپنے سرور پر آنے والے لوڈ کی شکایت یونیورسٹی سے کی۔ ان کے طلباء کا پراجیکٹ ان کی سائٹ پر لوڈ ڈال رہا تھا۔ ایک آن لائن آرٹ میوزیم نے یونیورسٹی کو مقدمہ کرنے کی دھمکی دی۔ لیکن جلد ہی پیج اور برن کو معلوم ہو گیا کہ انہوں نے انٹرنیٹ پر مواد ڈھونڈنے کا بہت ہی بہتر طریقہ معلوم کر لیا ہے! اب “کار” پر کی گئی سرچ پر صرف وہی نتائج ملیں گے جن کا تعلق کار سے ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنی مفید پراڈکٹ کے ساتھ پیج اور برن کو سرمایہ کار مل گئے۔ گوگل ایک سٹوڈنٹ پراجیکٹ سے پرائیویٹ کمپنی میں تبدیل ہو گیا۔ اب تو یہ دسیوں ارب ڈالر منافع سالانہ کماتا ہے لیکن اس کے ابتدائی برسوں میں اس کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس سے پیسے کیسے کمائے جا سکتے ہیں۔ یہ دور ڈاٹ کام کے بلبلے کے پھٹنے کا بھی تھا۔ انٹرنیٹ کمپنیاں دھڑادھڑ دیوالیہ ہو کر بند ہو رہیں تھیں۔
گوگل کو 2001 میں وہ آئیڈیا مل گیا جس سے پیسے کمائے جا سکتے تھے۔ اب پیچھے مڑ کر دیکھنے سے تو یہ بہت واضح طریقہ لگتا ہے۔ یہ کلک کرنے والے اشتہارات کا تھا۔ مشتہر گوگل کو بتاتے تھے کہ وہ اپنے ویب سائٹ پر بھیجنے کا گوگل کو کتنے پیسے دیں گے اگر وہ کسی خاص چیز پر سرچ کرے۔ گوگل اپنے عام رزلٹ کے ساتھ زیادہ بولی دینے والے نتائج بھی دکھا دے۔ یہ مشتہر کرنے والوں کے لئے کمال کا آئیڈیا تھا۔ وہ گوگل کو صرف اس وقت ادائیگی کریں گے اگر اشتہار سے کوئی فائدہ ہو اور اشتہار بھی صرف متعلقہ لوگوں کو نظر آئے گا۔ اس کے مقابلے میں کسی اخبار کا اشتہار ہر ایک کے لئے ہوا کرتا تھا۔ اس سے متاثر ہونے والے آن لائن اخبارات کی آمدنی کم ہونے لگی۔ (ایک خیال میں صحافت کا معیار بھی)۔
گوگل علم میں اضافہ کر سکتا ہے۔ ہمارا وقت بچاتا ہے۔ کاروباروں پر اس کا کتنا اثر ہے؟ بہت زیادہ۔ اپنے قریب کسی ریسٹورنٹ، دکان یا کسی بھی بزنس کو ڈھونڈنا اب بہت آسان ہے۔ خریدار کے لئے بہت بڑا فائدہ قیمت کی شفافیت ہے۔ میں کوئی بھی چیز خریدنا چاہتا ہوں۔ کیا دکاندار اس کی جائز قیمت بتا رہا ہے؟ یہ انفارمیشن میرے ہاتھ میں ہے۔
اور کوئی بھی خاص پراڈکٹ جس کی مارکیٹ بڑی نہیں، وہ بھی آن لائن ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ نئے کاروبار کرنے والے اعتماد سے اس پریشانی سے آزاد ہو سکتے ہیں کہ اس کی نمائش کہاں کریں گے۔
بہترین ایجاد؟ نہیں، اس میں کئی بڑے مسائل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلا تو اشتہارات ہے۔ غیرمعیاری یا پھر بالکل فراڈ ادارے بھی اشتہار بیچ سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا گوگل ان اشتہارات کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے؟
نہیں، اصل سوال یہ نہیں، اس سے زیادہ بڑا ہے۔
گوگل نہ صرف اشتہارات کے معیار بلکہ ہماری دنیا کے سچ بھی تخلیق کر رہا ہے۔ دنیا کا سب سے گہرا سمندری مقام کیا ہے؟ اس طرح کے سوال تو معروضی ہیں۔ لیکن دنیا میں اہم اور دلچسپ سوال معروضی نہیں ہوتے۔ بہترین کتاب کون سی ہے؟ میرے علاقے میں اچھا چائنیز ریسٹورنٹ کونسا ہے؟ اس صدی کی معزز ترین شخصیات کونسی ہیں؟ کامیابی کاراز کیا ہے؟
ہم یہ سوال گوگل سے پوچھتے ہیں۔ گوگل ہمیں جواب لا دیتا ہے۔ ہم اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ ابھی تک ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گوگل اپنی طرف سے ممکنہ حد تک ذمہ داری دکھا رہا ہے لیکن خوفناک چیز یہ ہے کہ یہ سب ایک پرائیویٹ ادارے کی ذمہ داری ہے۔ اور یہ بالکل بھی شفاف نہیں کہ گوگل اپنے رزلٹ کیسے لے کر آتا ہے۔ اور تضاد یہ ہے کہ گوگل شفاف ہو بھی نہیں سکتا۔ گوگل جتنا شفاف ہو گا، فراڈئیے اتنی آسانی سے اس کے الگورتھم کا فائدہ اٹھا سکیں گے۔ “کار” کی سرچ پر اپنی بے ہودہ ویب سائٹ کو پروموٹ کرنے کا طریقہ نکال لیں گے۔
ممکنہ حد تک غیرجانبدار رہنے کے لئے غیرشفاف ہونا ضروری ہے۔ بہترین نتائج اور غیرشفافیت، یہ گوگل کی طاقت ہے۔ خوش آئند بات ہے کہ اس کا کنٹرول کسی حکومت کے پاس نہیں بلکہ نجی ادارے کے پاس ہے۔ اور خوفناک بات بھی یہی ہے کہ اس کا کنٹرول کسی حکومت کے پاس نہیں بلکہ نجی ادارے کے پاس ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوگل کے پاس کاروباروں کو کامیاب اور ناکام کرنے کی صلاحیت ہے۔اگر اس کو شک ہو جائے کہ کوئی اس کے ساتھ گیم کھیل رہا ہے تو اس کو سرچ رزلٹ میں نیچے کر دے گا اور ایسا کرنا کاروباروں کو بند کر سکتا ہے۔ اس معاملے میں قاضی بھی ہے، جیوری بھی اور جلاد بھی۔ قانون توڑنے کے شک میں سزا دیتا ہے اور آپ کو معلوم بھی نہیں کہ قوانین کیا ہیں، صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اپنی ویب سائٹ کو اوپر رکھنے کے لئے گوگل کے الگورتھم کا اندازہ کر کے اسے خوش رکھنا ۔۔۔۔ قدیم انسان کے دیوتا کو خوش رکھنے سے زیادہ مختلف نہیں۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ نہیں، اس میں کیا مسئلہ ہے۔ سرچ کرنے والوں کو اگر مفید نتائج نہیں ملیں گے تو کوئی اور سٹوڈنٹ پراجیکٹ اس کا تخت الٹا دے گا جیسے اس نے اپنے پچھلوں کا الٹایا تھا۔ ٹھیک؟ شاید نہیں۔
جب گوگل مارکیٹ میں آیا تھا تو یہ مقابلے کی مارکیٹ تھی لیکن اب گوگل ایک مونوپولی ہے۔ اپنے رزلٹ بہتر کرنے کا بہترین طریقہ یہ ریکارڈ رکھنا ہے کہ سرچ کرنے کے بعد صارف کونسے لنک کھولتا ہے۔ کونسے الفاظ پر سرچ ہوتی ہے، اس کا تسلسل کیسے چلتا ہے۔ یہ ڈیٹا جتنا گوگل کے پاس ہے، اس کا عشرِعشیر بھی کسی کے پاس نہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری اور آنے والے نسل کے لئے معلومات کی بھی رسائی کا ذریعہ یہی رہے گا۔
ہم سب کے علم میں بے انتہا اضافہ کرنے والا اور دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور ملٹی نیشلز میں سے ایک کو تخلیق کرنے والا الگورتھم، گوگل سرچ، عصرِ حاضر کی ایک اہم ترین ایجاد ہے۔