اِررئیل فکشن ( Irreal Fiction ) ۔ 11
انگریزی افسانہ
اچھے ہمسائے (Good Neighbours )
بروس ہالینڈ روجرز( Bruce Holland Rogers )
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
اوپر رہنے والے ہمسایوں نے ہمسایوں نے سنجے اور جمیلہ کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی ؛ وہ واقعی بہت برے ہمسائے تھے ۔ ماں ہر وقت تمباکو کے بادل بناتی رہتی ۔ باپ نے کبھی مسکراہٹ کا جواب مسکرا کر نہ دیا تھا اور بچے تو گندے تھے ہی ۔ ۔ ۔ ایسے لگتا تھا جیسے انہوں نے جب سے جوتے پہنے تھے ، تب سے انہیں کبھی اتارا ہی نہ تھا ۔ دھب ۔ ۔ ۔ دھب ۔ ۔ ۔ دھب ! رات میں جب بھی کبھی وہ پانی پینے کے لئے اٹھتے تو ایسی آوازیں نکالتے جیسے اوپر ایک پونی* ہو ۔ سنجے اور جمیلہ کو گاڑی کھڑی کرنے کے لئے جگہ کی بھی ضرورت تھی ۔ جمیلہ سنجے کو درس گاہ سے لا کر سہ پہر والی شفٹ میں کام پر جاتی ۔ جب وہ گھر واپس آتی تو شہر تاریک ہو چکا ہوتا اور ہر سُو خاموشی چھا چکی ہوتی ۔ ان کی گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ عمارت کے قریب اور خوب روشن تھی لیکن اوپر والے ہمسائے ہمیشہ ان کے لئے مخصوص کی گئی جگہ پر اپنی گاڑی کھڑی کر دیتے اور جمیلہ کواپنی گاڑی ایسی جگہ پارک کرنا پڑتی جو گاڑیوں کے لئے مخصوص نہ تھی اور دوسرے یہ تاریک بھی تھی ۔ ہمسایوں کے پاس ایسا کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں تھی ۔ جمیلہ نے ان سے شائستگی سے بات کی ۔ سنجے نے بھی ان سے بات کی گو وہ کم شائستہ تھا لیکن اس نے بھی تہذیب کا دامن نہ چھوڑا ۔ لیکن دھب ۔ ۔ ۔ دھب ۔ ۔ ۔ دھب ، پھر بھی جاری رہی ۔ سنجے نے منیجر سے بات کی ، جس نے انہیں خط بھی لکھا لیکن ہمسائے ، جہاں ان کا دل کرتا ، گاڑی پارک کر دیتے ۔اس سے برا یہ تھا کہ سنجے کو یہ بھی شک تھا کہ وہ اپنی بالکونی سے ان کے ننھے سے پھولوں والے باغیچے میں پرندوں کے لئے دانہ بھی پھینکتے تھے ۔ پیلے رنگ کے یہ ننھے بیج اور کہاں سے آ سکتے تھے جن سے لگاتار گھاس پھوس پھوٹتی رہتی تھی ؟
جب سنجے کی ڈگری مکمل ہو گئی تو دونوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنا اپارٹمنٹ بدلیں گے اور سب سے اوپر والی منزل پر لیں گے ۔ اور بھی کہ وہ سب سے اوپر رہنے کی وجہ سے نیچے والے ہمسایوں کے لئے بُرے ہمسائے ثابت نہیں ہوں گے ۔ وہ مہذب لوگوں کی طرح گھر میں جوتے اتار کر پھریں گے اور جرابوں یا چپل میں بھی لکڑی کے فرشوں پر آرام سے چلیں گے ۔
اور پھر ایسا ہوا کہ وہ اپنے نئے اپارٹمنٹ میں جا بسے ۔ یہ تیسری منزل پر تھا ۔ وہ اونچی آواز میں موسیقی نہیں سنتے تھے اور ٹیلی ویژن تو ان کے پاس تھا ہی نہیں ۔
ایک روز جب سنجے کام پر گیا ہوا تھا تو دروازے کی گھنٹی بجی ۔ جمیلہ نے دروازہ کھولا تو راہدری میں ایک بزرگ خاتون کو کھڑے پایا ۔ جمیلہ نے اسے ڈیوڑھی دیکھا ہوا تھا جہاں ڈاک کے بکسے لگے ہوئے تھے ۔
” میری پیاری ، “ ، عورت نے کہا ، ” مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تم اپنے خاوند سے یہ کہو کہ وہ تب تک جوتے نہ پہنا کرے جب تک وہ ساری سیڑھیاں اتر کر نیچے نہیں آ جاتا ۔ وہ صبح صبح بہت شور برپا کرتا ہے ۔ “
” اوہ ، ڈئیر “ ، جمیلہ نے کہا ، ” ہمیں اس کا اندازہ نہیں تھا ۔ میں یقیناً اس سے بات کروں گی ۔ ویسے میرا نام جمیلہ ہے ۔ کیا آپ چائے پینے کے لئے اندر آنا پسند کریں گی ؟ “
” تمہیں اونچا بولنا ہو گا “ ، عورت نے اپنا ہاتھ کان کے پاس لے جاتے ہوئے گہا ۔
” کیا آپ ایک کپ چائے پینا پسند کریں گی ؟ “ جمیلہ نے اونچی آواز میں دوہرایا ۔
” چائے؟ “ ، بزرگ عورت نے بات کو یقینی بنانے کے لئے کہا ، ” شکریہ ، ہاں ، شکریہ ، تم بہت مہربان ہو ۔“
اس بزرگ عورت کا نام مسز ویرک تھا ۔ جمیلہ یہ اندازہ نہ کر سکی کہ وہ کتنی بوڑھی ہو گی ۔ عورت کی جلد اتنی صاف شفاف تھی جتنی کہ بہت زیادہ عمر رسیدہ لوگوں کی ہوتی ہے اور اس نے جمیلہ سے بار بار کہا کہ وہ اپنی کی ہوئی بات دوہرائے ۔ اس سے جمیلہ کو حیرانی ہوئی کہ سنجے کے قدموں کی آواز اس کے لئے خلل کا باعث کیسے بن سکتی تھی ۔ جمیلہ نے ، بہرحال ، اس رات اپنے خاوند سے اس بارے میں بات کی ۔
” ٹھیک ہے ۔ مجھے اس بات میں کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا کہ میں نیچے جا کر جوتے پہن لیا کروں ۔“ ، اس نے جواب دیا ، ” ویسے وہ کس اپارٹمنٹ میں رہتی ہے ؟ “
جمیلہ نے اسے بتایا ۔ سنجے نے سوچا کہ یہ عجیب بات تھی کہ اس کے قدموں کی آواز اس عورت کو پریشان کرتی ہو کیونکہ وہ سیڑھیوں والی جگہ کے قریب بالکل نہ رہتی تھی ۔
اگلی بار مسز ویرک نے ایک اور شکایت کی ۔ اس بار یہ چرچراہٹ پیدا کرتے فرشوں کے بارے میں تھی ۔
” لیکن “ ، جمیلہ نے ایک اچھی ہمسائی کی طرح کپ میں چائے ڈالتے ہوئے کہا ، ” آپ اور ہمارے بیچ پوری ایک منزل حائل ہے ۔ کیا آپ کو یقین ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ چڑچڑاہٹ کی آواز ان ہمسایوں کے ہاں سے آتی ہو جو بالکل آپ کے اوپر رہتے ہیں ۔“
” اس اپارٹمنٹ میں رہنے والے تو چوہوں جیسے خاموش طبع ہیں ۔“ ، مسز ویرک نے جواب دیا ، ” مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ فرش کس بُری طرح سے چرچراتے ہیں ۔ اگر تم لوگ ذرا زیادہ محتاط رہو کہ ان جگہوں پر پاﺅں نہ پڑیں جو آواز پیدا کرتے ہیں ۔ “
بعد ازاں سنجے نے کہا ، ” ٹھیک ہے ، لیکن یہ خاصی عجیب بات ہے ۔ تم کہتی ہو کہ وہ بمشکل ہی سن سکتی ہے ؟ اور پھر بھی اسے فرش کی چرچراہٹ جو دو منزل اوپر سے آتی ہے ، پریشان کرتی ہے ۔ خیر ، ہمیں اس میں کوئی مشکل نہیں ہے کہ ہم احتیاط کریں کہ ہمارے قدم کہاں پڑ رہے ہیں ۔ “
اس کے بعد کئی ہفتوں تک جمیلہ نے مسز ویرک کو ڈاک کے بکسوں کے پاس نہیں دیکھا ۔ گھنٹی کی آواز پر جب اس نے دروازہ کھولا تو وہ مسز ویرک کو واکر* کے سہارے کھڑا دیکھ کر حیران ہوئی ۔
” میں بیمار ہوں “ ، بزرگ عورت نے کہا ۔ اس نے جب اپنا ایک ہاتھ واکر سے اٹھایا تو اس کا پورا بازو بری طرح سے لرزا ۔ ” میں بہت معذرت خواہ ہوں ۔ بہت معذرت خواہ ۔ ۔ ۔ مجھے آرام کی سخت ضرورت ہے لیکن تم لوگوں کی آوازیں مجھے سونے نہیں دیتیں ۔ “
اُس نے اِس بار جمیلہ کی چائے کی دعوت ٹھکرا دی ۔
سنجے جب کام سے گھر واپس آیا تو اس نے کہا ؛ ” ہماری آوازیں اتنی دور تک کیسے جا سکتی ہیں ! “
”شی “ ، جمیلہ بولی ، ” شاید پانی کی نالیوں کے ذریعے۔ “
” یہ لغو بات ہے ! “ ، سنجے نے کہا ۔
” پلیز ، اپنی آواز دھیمی رکھو۔ “ ، جمیلہ نے التجا کی ، ” ہمیں ان لوگوں کی طرح نہیں کرنا چاہیے جس طرح کے لوگ ہمارے اوپر رہتے تھے ۔“
سنجے نے نرمی سے کہا ، ” ہم ان جیسے نہیں ہیں ۔“
” وہاں تم مجھ سے سرگوشیوں میں ہی بات کرتے تھے ۔ “ ، جمیلہ نے تاسف سے کہا
´
” ہاں مجھے یاد ہے “ ، سنجے نے مسکراتے ہوئے سرگوشی کی ۔
ایک رات ایمبولینس کی جلتی بجھتی روشنیوں نے انہیں جگا دیا ۔ مسز ویرک پر فالج کا حملہ ہوا تھا ۔ انہوں نے ، گو ، پیرامیڈیکل سٹاف کو اسے سٹیچر پر ڈالے لے جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا لیکن جمیلہ اور سنجے اس کے بعد بھی احتیاط برتتے ہوئے سرگوشیوں میں باتیں کرتے رہے ۔ پھر ایک بار ، جمیلہ نے ڈاک کے بکسوں کے پاس ایک اور ہمسائی سے سنا کہ مسز ویرک مر گئی تھی ۔
” خیر “ ، سنجے نے کہا ، اس بار اس کی آواز اونچی تھی ، ” ہم آخر تک اچھے ہمسائے رہے ۔ “
” کیا واقعی ایسا تھا ؟ “
” ہم ملنسار رہے ہیں ! تم اسے اندر بلا کر چائے پلاتی رہی ہو ! تمہارا منہ کیوں لٹکا ہوا ہے ؟ لگتا ہے کہ تم خود کو قصوروار سمجھ رہی ہو ! “
” یہ اداسی والی بات تو ہے نا “ ، وہ بولی ، ” ہمیں اسے کھانے پر بلانا چاہیے تھا ۔“
” اور اگر تم نے ایسا کر لیا ہوتا تو کیا وہ ہمیشہ زندہ رہتی ؟ “
اس کے بعد انہوں نے اس بزرگ خاتون کے بارے میں دوبارہ کبھی بات نہ کی ۔ لیکن ایک رات ، جب یہ بہت گہری تھی اور جب ٹیلی فون کی گھنٹی یا تو غلطی سے بج اٹھتی ہے یا پھر کوئی بھیانک خبر لاتی ہے ۔ ۔ ۔ فون بجا ۔ سنجے نے اسے اٹھایا ۔ اس نے کھنکار کر گلا صاف کرتے ہوئے کہا ؛ ” ہیلو؟ ۔ ۔ ۔ ہیلو؟ “
ٹیلی فون کی لاین میں سرسراہٹ تھی اور آواز ٹوٹ ٹوٹ کر آ رہی تھی ۔
” ہیلو“ ، وہ پھر بولا ، ” ہیلو ! “
ایک مدہم ، مشکل سے سنے جانے والی آواز ستاروں کی درمیانی دراڑوں کے درمیان اور سورج کی ساکت ہوا * میں سے آتی آواز کو وہ نہ پہچان سکا جو اس کی بیوی کا نام لے رہی تھی ۔
”یہ ایک بُرا کنکشن ہے ۔ ۔ ۔ “ ، اس نے جمیلہ کو فون تھماتے ہوئے کہا اور بستر پر واپس چلا گیا ۔
”جی ؟ “ ، جمیلہ نے فون میں کہا ۔ ” ہیلو۔ ۔ ۔؟ جی ۔ ۔ ۔ ؟ ہیلو ۔ ۔ ۔ ؟ کیا آپ ابھی بھی لائن پر ہیں ؟ ''
” تمہارا خاوند “ ، ایک مانوس آواز نے کہا جسے جمیلہ پہلے پہچان نہ پائی ۔
” مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تمہارا خاوند خراٹے لے رہا ہے ۔“ #
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* پونی = Pony
* واکر= Walker
* سورج کی ساکت ہوا = Static Solar Wind
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بروس ہالینڈ روجرز ( Bruce Holland Rogers) امریکی کہانی کار ہے ۔ وہ ’ Hanovi Braddock ‘ اور ’ Victor Appleton ‘ کے قلمی و سنڈیکیٹ ناموں سے بھی لکھتا ہے ۔ اس کی تحریروں کے آٹھ مجموعے ، نان فکشن کی ایک کتاب اور دو ناول ’ Mind Games ‘ اور ’ Ashes of the Sun ‘ شائع ہو چکے ہیں ۔ اس کی ایک کہانی ’ Lifeboat on a Burning Sea ‘ پر ’ The Other Side ‘ کے نام سے ایک مختصر فلم بھی بن چکی ہے ۔ ویسے تو اس کا گھر ’ ایوجین ‘ ، اوریگون میں ہے لیکن وہ لندن ، برطانیہ میں بھی بہت عرصہ رہا ہے ۔ اس کی کہانیاں سائنس فکشن ، فینٹسی ، پُراسرار ، تجرباتی اور اِررئیل فکشن میں شمار ہوتی ہیں جبکہ کچھ ایسی بھی ہیں جن کو کسی صنف میں قید نہیں کیا جا سکتا ۔ کہانیاں لکھنے کے ساتھ ساتھ وہ مختلف یونیورسٹیوں میں’ تخلیقی تحریر‘ ( Creative Writing ) کا استاد بھی ہے ۔