2012ء کے آخر میں ‘جب برف پڑنا نہیں شروع ہوئی تھی‘ ایک بار پھر سکردو گیا۔
عنفوانِ شباب تھا جب سول سروس میں آنے کے بعد شمالی علاقہ جات سے رومانس کا آغاز ہوا۔ کئی بار جانا پڑا۔وہ بھی بائی روڈ۔ تھاکوٹ سے ہٹن‘ ہٹن سے جگلوٹ‘کریم آباد‘سُست اور خنجراب ۔چاندنی رات میں کئی بار خپلو کا نظارہ نصیب ہوتاجب پہاڑوں پر جمی برف‘ اور دریا میں چلتے پانی دونوں‘ روپہلی شعائوں سے گلے ملتے ہیں اور وقت تھم جاتا ہے۔ پھر ایک بار جب آدھی رات اِس طرف تھی اور آدھی اُس طرف ‘شاہراہ قراقرم کا جانے کون سا حصّہ تھا‘ اندھیری رات تھی‘ ایک طرف سربفلک پہاڑ تھے‘دوسری طرف سینکڑوں فٹ گہرا دریا‘ میں تھا اور ڈرائیور‘ آگے سلائیڈ تھی یعنی پہاڑ کا ایک حصّہ کٹ کر گرنے سے شاہراہ بند تھی‘ اچانک خیال آیا کہ کیا پاگل پن ہے‘ہر کچھ ماہ کے بعد اِس امتحان گاہ سے گزرنا‘ پھر دوسرے عوامل بھی ایسے تبدیل ہوئے کہ شمالی علاقوں میں جانا موقوف ہو گیا۔
2012ء کے اواخر میں صاحبزادے جا رہے تھے‘ضِدکی کہ ابّو امّی ساتھ جائیں بہت سمجھایاکہ ہوائی جہاز سے جانے کا مطلب یہ ہے کہ واپسی بالکل غیر یقینی ہو‘لیکن جوانی‘فوٹو گرافی کی دُھن اور سیاحت کا شوق سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ پھر وہی ہوا۔واپسی کا مقررہ دن گزر گیا اور جہاز کا پتہ تھا نہ نشستوں کی بکنگ یقینی تھی۔سکردو کا پی آئی اے کا دفتر‘ بدانتظامی کا بدترین نمونہ ہے۔ یا د ہے کہ تب تفصیلی کالم بھی بلتستان کے عوام کی حالتِ زار پر لکھّے جو ظاہر ہے نقارخانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ کچھ نہ کر سکے‘ ایئر پورٹ جاتے‘بے نیلِ مرام واپس آتے‘ پریشانی اور ٹینشن۔ لیکن بچّے خوش کہ چلیں اس جنت میں ایک دن اور مل گیا۔ آخر کار یارِ دیرینہ ایئر مارشل فرحت نے جو اُن دنوں فضائیہ کے وائس چیف تھے‘ ’’جنگی‘‘ بنیادوں پر ’’انخلا‘‘ کروایا۔
یہ اُنہی دنوں کی بات ہے جب رشید سے ملاقات ہوئی۔ اُس کے گائوں کا نام گوما تھا‘ دس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ بستی کارگل کے راستے میں ہے اور یہ طے کرنا مشکل ہے کہ یہ پہاڑوں پر بستی ہے یا بادلوں پر۔ رشید پاکستان کی بری فوج کا سپاہی ہے۔ اُن دنوں اس کی تعیناتی سیاچن کے اردگرد تھی جہاں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے بستر پر لیٹنا مشکل تھا اور سانس لینے کے لیے اُٹھ کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ہوائیں چلتی تھیں تو خیمے کیا‘ کمروں کی چھتیں تک اُڑ جاتی تھیں۔رگوں کا خون کیا‘ہڈیوں کے اندر گودا بھی منجمد ہو جاتا تھا۔’’فراسٹ بائٹ‘‘یعنی برف کی بیماری جسم کے کسی بھی حصّے کو متاثر کر سکتی تھی۔
مادرِ وطن کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر جینے والے رشید کا تعلق نوربخشی فرقے سے تھا۔یہ ایک چھوٹا سا فرقہ ہے جس کے ماننے والوں کی تعداد بہت کم اور ایک محدود علاقے میں ہے۔یہ رشید تھا جس نے اس لکھنے والے کو پاکستان اور پاکستانیت کامفہوم سمجھایا!اُس نے کوئی لیکچر نہیں دیا۔ اُس نے تو اس قبیل کے کسی موضوع پر گفتگو تک نہیں کی۔پاکستانیت کا مفہوم تو اُس وقت معلوم ہوا جب وہ اپنی سرفروشی اور جاں نثاری کی داستان رہا تھا ۔ میرا تو نور بخشی فرقے سے کوئی تعلق نہیںنہ ان کے عقائد سے اتفاق ہے لیکن رشید‘ میرا عقیدہ معلوم کیے بغیر‘ میرے اور میرے خاندان کی‘ میرے گائوں کی‘میرے شہر کی‘میرے اقربا اور احبا کی زندگیاں محفوظ کرنے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھے پھرتا ہے۔گرمی کی سلگتی راتیں مورچوں میں گزارتا ہے۔ خون جما دینے والے برفانی طوفانوں کا سامنا ہزاروں فٹ اونچی چوٹیوں پر کرتا ہے۔ سینے پر گولیاں کھاتا ہے۔ اپنے بیوی بچوں کو اُس نے خد ا کے سپرد کیا ہوا ہے۔
پاکستانیت کا جوہر کیا ہے ؟پاکستان کی اصل کیا ہے؟یہ جوہر‘یہ اصل‘ یہ ہے کہ پاکستان کسی ایک فرقے کے لیے بنا نہ اس پر کوئی ایک فرقہ اپنی مرضی مسلّط کر سکتا ہے! ستاروں اور درختوں کے پتوں کی صحیح تعداد جاننے والے پروردگار کی قسم!یہ ملک سارے فرقوں ‘سارے مذہبوں‘سارے عقیدوں‘ ساری زبانوں‘ ساری نسلوں اور سارے علاقوں کا مشترکہ وطن ہے۔ اگر کوئی ایک فرقہ یہ چاہتا ہے کہ پاکستان پر اُس کی مرضی مسلّط ہو۔اُس کا پسندیدہ کلچر لوگوں کی گردنوں سے باندھا جائے اور جسے وہ شریعت سمجھتا ہے‘ اُس کی پیروی کی جائے تو وہ پاکستان کا خیر خواہ نہیں ہے۔وہ پاکستان کی جڑ کو کاٹنا چاہتا ہے اور جو اس کا ساتھ دیتے ہیں وہ بھی یہی کرنا چاہتے ہیں۔
آج جو گروہ ملک پر اپنی پسند مسلّط کرنا چاہتا ہے‘ وہ خود ایک
اقلیتی گروہ ہے۔ اُس کے نزدیک ہر وہ گروہ‘ ہر وہ طبقہ‘ ہر وہ فرقہ‘جو اس سے اختلاف کرتا ہے‘ کافر ہے۔ لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ فرقہ خود دو گروہوں میں منقسم ہے۔ایک مسئلے پر اس گروہ میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ یُو ٹیوب پر دونوں طرف کے علماء کے بیانات سنیں تو انسان حیرت سے گنگ رہ جاتا ہے۔ کفر‘ لعنت‘ نکاح فسخ ہو جانا۔ یہ سب کچھ اس فیاضی سے ایک دوسرے کو عطا کیا جاتا ہے کہ سننے والا کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔ اگر ہر فرقے کو کافر مان لیا جائے تو آخر میں کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ دو سانپ ایک میدان میں ایک دوسرے کو کھا رہے تھے۔ ایک نے دوسرے کو کھا لیا اور دوسرا پہلے کو ہڑپ کر گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ میدان صاف تھا!
اگر کوئی چاہتا ہے کہ دوسرا اُس کے خیالات سے اتفاق کرے تو اس کا طریقِ کار آسمان سے اتری ہوئی کتاب میں بتا دیا گیا ہے۔ اپنے رب کے راستے کی دعوت حکمت اور لطیف تلقین سے دو اور بحث احسن طریقے سے کرو۔کہیں فرمایا دین میں کوئی جبر نہیں۔لیکن مجھے کیا حق پہنچتا ہے کہ میں نادر شاہی تلوار لے کر قتلِ عام شروع کر دوں اُن لوگوں کا جو مذہبی معاملات میں مجھ سے اختلاف کرتے ہیں۔
ان سطور کا لکھنے والا اپنے عقائد میں پتھر کی طرح سخت ہے۔ پامسٹ یا ستارہ شناس سے مستقبل کا حال پوچھنا تک روا نہیں جانتا۔ ماننا تو بعد کی بات ہے۔اس کا ایمان ہے کہ نفع اور نقصان صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔فاروق اعظمؓ نے فرمایا تھا جوتے کا تسمہ بھی پیدا کرنے والے سے مانگو۔عقیدے پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا لیکن اس ملک میں بیس کروڑ انسان رہتے ہیں جو خدا کی مخلوق ہیں۔ ان میں لاکھوں نہیں‘کروڑوں انسان ایسے ہیں جو مجھ سے اختلاف کرتے ہیں اور اختلاف رکھتے ہیں۔تو کیا وہ سب گردن زدنی ہیں؟جس شخص نے اپنی صحت کو گروی رکھ کر یہ ملک بنایا‘ اُس نے اِس ملک کی پہلی کابینہ میں غیر مسلموں کو وزارتیں دے کر وہی مرتبہ دیا تھا جو مسلمان وزیروں کا تھا۔
آمنہ کے لال ؐ چاہتے تو ہجرت کرنے کے بجائے اپنے جاں نثاروں کو مکہ میں گوریلا جنگ کا حکم فرما دیتے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو مشرکین مکہ کی زندگی اجیرن ہو جاتی اور وہ ایمان لانے پر مجبور ہو جاتے لیکن کیا جبر سے عقیدہ تبدیل کرنا درست ہوتا؟ میثاق مدینہ کی رو سے یہودیوں کے وہی حقوق تھے جو مسلمانوں کے تھے۔ اگر وہ بدعہدی نہ کرتے تو وہیں رہتے اور نکالے نہ جاتے۔ بدر‘ احد اور خندق دفاعی جنگیں تھیں ۔ ایک بار بھی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں‘ مخالف شہر پر چڑھائی نہیں کی!جس صحابیؓ نے ایک کلمہ گو کو اس خیال سے قتل کیا کہ اس نے دل سے کلمہ نہیں پڑھا‘ فرمایا کیا تم نے اُس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟کیا اصول وضع فرمایا اپنے نام لیوائوں کے لیے ! ایک ایسی ہستی نے جو سارے جہانوں کے لیے رحمت ہو‘ایسا ہی اصول وضع فرمانا تھا! آج حالی کا یہ مصرع خاص و عام کو معلوم ہے۔ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا۔ لیکن غور کیا جائے تو اسی لقب میں امت کے لیے پورا اسلوب ِ زندگی پنہاں ہے!
یہ ملک سب کا ہے۔ جس دن وجود میں آیا تھا‘سب کا تھا۔ آج بھی سب کا ہے۔ کل بھی سب کا ہو گا۔
http://columns.izharulhaq.net/2014_02_01_archive.html
“