بارہ جنوری 2019 کو بیل گنج آرمی ویلفئر ٹرسٹ کے مزارعین انتظامیہ کی جانب سے بجلی کے ٹرانسفارمر کو اتارے جانے کی کوشش کے خلاف احتجاج کر رھے تھے۔ انہیں زمینوں سے بے دخل کرنے کے لئے بجلی کاٹی جانی ضروری تھی، مزارعین یہ بات خوب سمجھتے تھے، لہذا وہ جان کی پرواہ کئے بغیر ان سیکورٹی گارڈز کے سامنےاحتجاج کر رھے تھے جو آرمی ویلفئیر ٹرسٹ نے ایسے ہی موقعوں کے لئے ایمپلائی کئے ہوۓ تھے۔
اب یہ بات اس ادارے کے منتظمین کے لئے قابل برداشت نہ تھی کہ وہ کسی قسم کے احتجاج کو اپنے سامنے ہوتے دیکھتے۔ لہذا گولی چلی اور ایک دفعہ پھر چلی۔
ایک مزارع تو موقع پر شہید ہو گیا۔ 16 زخمی ہو گئے، زخمیوں کو ہسپتال لے جانے کی بجائے، بیرک میں رکھا جا رھا تھا۔ یہ ان کی گرفتاری کی ایک نئی شکل تھی۔ پہلے گولی مارو پھر اندر بند کر دو؛ پھر مقامی پولیس کے لوگوں نے انہیں سمجھایا کہ بندے اور مر جائیں گے، ذخمیوں کو ھسپتال شفٹ کرو۔
اور یوں پاکپتن کے ھسپتال میں ذخمیوں کی شفٹنگ شروع ہوئی پھر زیادہ ذخمیوں کو ساھیوال ھسپتال ریفر کیا گیا۔
یہ کوئی نئی کہانی نہ تھی۔ مزارعین اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہاں پہلے بھی ظفر چیمہ 2003 میں شہید ہوا تھا۔ اور ہم اس کی رسم قل میں شریک ہوئے تھے۔
یہ کچھ تو 2001 سے ہو رھا ہے، پہلا مزارع شہید بشیر تھا رینالہ خورد میں جہاں ملٹری فارمز انتظامیہ کے غنڈوں نے گولی چلائی اور یہ سینے پر گولی کھا کر امر ہو گیا۔ پھر اوکاڑہ ملٹری فارمز کے چک دس فور ایل کا پطرس شہید تھا۔ یہ مسیحی کمیونٹی کا پہلا شہید تھا۔ اس کی وفات پر شاہ تاج قزلباش اور ہم جس طریقے سے چھپتے چھپاتے گاؤں پہنچے تھے وہ کہانی پھر سہی، ایک ایڈونچر تھا فوجیوں کی جانب سے دیہاتوں کے راستے بند کرنے کے باوجود وھاں پہنچنا، پھر چک فور ایل کا بابا امیر تھا۔ جو گولیاں کھاتا مر گیا۔ یہ سلسلہ رکا نہیں۔ کلیانہ ملٹری اسٹیٹ میں تو پوری رات گولی چلتی رھی اور تین شہید ہو گئے تھے۔
کوئی تیرہ مزارعے شہید ہوئے ہیں اب تک، جدوجہد زمین کی ملکیت کا حق مانگنے کی ہے وہ بھی پاکستان کے طاقت ور ادارے سے جس نے پنجاب حکومت کی ملکیتی زمینوں کو اپنے کنٹرول میں لیا ہوا ہے۔ ان یہ کیا کبھی ہوتا ہے کہ سماج کا کمزور ترین حصہ طاقت ور ترین سے اپنا حق مانگنے کی جسارت کرے۔ بس یہی برداشت نہیں ہے۔ گولی پے گولی چل رھی ہے۔ انا ہے کہ جھکنے کا نام نہیں لیتی۔
مقابلہ تو ہے ہی نہیں۔ یہ بھی مزارعین کی جدوجہد کا خاصہ ہے کہ وہ نعرہ تو “مالکی یا موت” کا لگاتے ہیں۔ لیکن موت مقابلے والوں کے لئے نہیں اپنے لئے مانگ کر لیتے ہیں، آج اٹھارہ برسوں بعد شکر ہے کہ ایک بھی فوجی یا پولیس والا مزارعین کے رد عمل کا شکار نہ بنا ہے۔ مرتا ہے تو مزارع ہی۔ انکی بچت بھی بھی اسی میں ہے اور خود گولی کھاؤ؛ مارو نہیں، صرف نعرہ لگاؤ زمین کی ملکیت کا۔
کوئی 1900 مزارع جیلوں میں دھکیلے گئے، کوئی ھزار کے قریب مقدمے مزارعوں کے خلاف درج ہیں۔ کوئی دو سو مزارع عورتیں بھی جیلوں کی ہوا کھا آئی ہیں۔ دھشت گردی کا مقدمہ انکے خلاف درج کرنا تو ایک رواج بنا ہے۔ جرم جلوس نکالنا ہوتا ہے مقدمہ دھشت گردی کا ہوتا ہے۔
قتل مزارع ہوتا ہے مقدمہ بھی مزارع راھنما کے خلاف ہوتا ہے۔ چک پندرہ میں دو مزارع 2015 میں اوکاڑہ ملٹری فارم کے گاؤں پندرہ میں گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہوئے۔ اور مدقدمہ مہر ستار سمیت دیگر راھنماؤں پر درج ہوا۔ یہ الگ بات کہ اکثر عدالتیں مزارعوں کی بے گناھی ثابت کرتی رھتی ہیں اور انہیں مقدمات سے بری کر دیا جاتا ہے، لیکن سالوں عدالتوں جیلوں کے منہ دیکھ کر۔ کچھ میں سزا بھی ہوئی۔
مہر ستار تو اب بھی جیل میں ہے۔ جو رھا ہوتا ہے اس سے اپنی مرضی کا اشٹام سائن کراتے ہیں پھر چھوڑتے ہیں۔قانون اوکاڑہ اور پاکپتن کے ان فارموں میں انٹیلی جنس ایجنسیوں اور طاقت ور اداروں کے اشاروں پر استعمال ہوتا ہے۔
پولیس کی بے بسی یا انکے سر کو دیگر کے سامنے جھکتا دیکھنا ہو تو اوکاڑہ آجائیے۔ یہ انکے اشاروں پر چلتی ہے۔
اب یہاں بیل گنج کے مزاروعوں نے ذرا عقلمندی سے کام لیا۔ شہید کو دفنایا نہیں بلکہ اس کی لاش سمیت پاکپتن میں پولیس افسران کے دفاتر کے سامنے مظاہرہ کیا۔ مطالبہ کیا تھا۔ ایف ائی آر درج کرو انکے خلاف جنہوں نے گولی چلائی، ہمارے خلاف نہیں؛۔ اور اب قتل کے دو دن بعد اب پندرہ سیکورٹی گاردوں کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے، گرفتاری نہیں۔
ورنہ مقدمہ تو شبیر ساجد کے خلاف ہی درج ہونا تھا۔ جو پہلے ہی دو سال جیل کاٹ کر آیا تھا۔ اسکے بیٹے مشتاق کو تو پھلے ماہ ہی اتنا مارا تھا انہوں نے کہ اس کے شکل پہچانی نہیں جاتی تھی، یہ مزارعے بھی انتہائی ڈھیٹ قسم کے ہیں۔ ظلم سہتے ضرور ہیں۔ مگر جھکتے نہیں پھر آواز بلند کر دیتے ہیں۔ کہ یہ زمینیں ہمارے نام کرو۔ ان پر ہمارا حق ہے۔
اب حل کیا ہے؟
کچھ کہتے ہیں کہ مزارعوں نے جو بٹائی روکی ہوئی ہے وہ ادا کریں۔ یہ تو حل نہیں ہے، بارہ ایکڑ زمینیں کوئی ایک سو سال قبل ایک خاندان کو ملی تھیں۔ اب چوتھی نسل چل رھی ہے۔ زمینیں وراثتی سطح پر تقسیم در تقسیم ہو رھی ہیں۔ اب تو کینالوں میں آگئی ہے۔
حصہ لینے کا سسٹم ناکام ہے، حل سادا ہے کہ یہ زمینیں مزارعیں کے نام کر دی جائیں۔ اور کوئی قابل عمل حل نظر نہیں آتا۔ ورنہ آپ گولیاں چلاتے رھیں گے، جیلیں بھرتے رھیں گے، مقدمے درج کرتے رھیں گے۔ یہ باز نہیں آئیں گے اور زمین کی ملکیت کا مطالبہ کرتے رھیں گے۔
اور زمینیں دینے سے اس سارے علاقے کا سکون بھی واپس ہو گا، امن بھی ہو گا،
یہ نہیں ہو سکتاکہ
ظلم رھے اور امن بھی ہو