جب سے ہم زمین پر بسنے والی واحد سوچنے اورغورو فکر کرنے والی زہین مخلوق یعنی حضرت انسان نے اپنی زمین کے علاوہ کائنات پر بھی نظر ڈالنا شروع کی اور اسکے متعلق شعور اور معلومات حاصل کیں، تو اسکو اپنے آس پاس ، اڑوس پڑوسی سیارے میں ممکنہ کسی زندگی کے نہ پائے جانے پر دکھ ، حیرانی اور افسوس ہوا کہ اتنا بڑا نظام شمسی جس میں خاندان سورج آٹھ بڑے سیارے ، پانچ بونے سیاروں اور انکے قریبا 290 چاندوں کو لے کر خلاء کی بے کراں وسعتوں میں گھومے جارہا ہے، اس میں کہیں بھی کوئی زندگی کے آثار نہیں ملے۔ پھر حضرت انسان اپنی خلائی معلومات کے زریعے یہ بھی جان گئے کہ ہمارا سورج واحد ستارہ نہیں ہے اس ملکی وے نامی کہکشاں میں جہاں سیارے پائے جاتے ہیں بلکہ یہ کہکشاں اندازہ 100 سے 400 ارب ستارے اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں، جنکے ارد گرد نہ کتنے سیارے ہماری نظام شمسی کی مانند گردش کررہے ہونگے۔ اسی طرح پوری کائنات میں 2 ٹریلینز کہکشائیں ہیں جن میں ستارے اس تعداد سے کہیں زیادہ پائے جاسکتے ہیں، جو ابھی میں نے اوپر صرف ملکی وے کا اندازہ بتایا ہے۔ ان میں کتنے سیارے ہونگے جو ان ستاروں کے گرد گردش کررہے ہونگے، اسکے لیے تو بس آپکی سوچ ہی کافی ہے۔
خیر بات کو تھوڑا آگے لے کر چلتے ہیں۔ جب انسانوں کو یہ اندازہ ہوا کہ ہم جہاں رہتے ہیں، ہمارا اکلوتا گھر یعنی سیارہ زمین، اس جیسے اربوں کھربوں سیارے اس کائنات میں پائے جاسکتے ہیں ، جہاں بالکل زمین جیسے حالات و آب و ہوا بھی پایا جاسکتا ہے، تو حضرت انسان کو اپنے سولر سسٹم کےکے حالات دیکھ کر جو مایوسی ہوئی تھی، وہ تھوڑی بہت کم ہونا شروع ہوئی اور ایک امید کی کرن بھی جاگ گئی کہ ہم اس کائنات میں شائد اکیلے نہیں ہیں۔ ہماری جیسی (ایگزیکٹلی ہماری زمینی حیات جیسی نہیں) زندہ مخلوق شائد کہیں اور کسی سیارے میں بھی پائے جانے کا امکان ہوسکتا ہے۔
لیکن کس سیارے پر؟ یہ ایک ممکنہ سوال کسی شخص کے زہن میں فوری آسکتا ہے۔
تو اسکا جواب خلائی سائنسدان کچھ اسطرح دیتے ہیں کہ زمینی ماڈل کی زندگی کے حساب سے جو سیارے اپنے کسی میزبان ستارے کے گولڈی لاکس زون میں ہوگا، وہاں ہوسکتا ہے کہ کسی حیات کے پائے جانے کا امکان ہو، جیسا ہماری زمین کے ساتھ ماضی میں ہوا ہے۔ زمین کا سورج کے گرد چکر لگانے کا فاصلہ پانی کے مائع حالت میں رہنے کے لیے بالکل درست ہے۔ اسی طرح ہماری زمین، سورج سے جس فاصلے پر ابھی موجود ہے، وہ نہ بہت زیادہ ہے اور نہ بہت کم، ورنہ فاصلہ زیادہ ہونے سے زمین بہت ٹھنڈی ہوجائے گی اور کم ہونے سے زمین بے انتہا گرم، اور دونوں صورتوں میں کسی ممکنہ حیات کے آغاز، اسکوپنپنے اور نشونما پانے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ سورج سے اس مناسب فاصلے کو رہائش پذیر زون یا گولڈی لاکس زون کہا جاتا ہے۔ ان کے ستاروں کے رہنے کے قابل علاقوں میں پائے جانے والے چٹانی سیارے ان کی سطحوں پر مائع پانی کا پتہ لگانے کے زیادہ ممکنہ ہدف ہیں۔جس سے ایک ایلین لائف کے پائے جانے کا بھی امکان ہوسکتا ہے۔
کسی بھی ممکنہ زمین سے ملتے جلتے سیارے پر زندگی کی شروعات کے لیے اسکو صرف (قابل رہائش علاقے) ہیبیٹل ایبل زون habitable zone جسکو گولڈی لاک زون Goldie -Lock Zone بھی کہتے ہیں، میں ہونا ہی ضروری نہیں، بلکہ کچھ اور فیکٹرز بھی ہونا ضروری ہے، جیسے کاربن بیسڈ ہونا، پانی کی وافر مقدار ہونا، مناسب مقدر میں سیارے پر ایٹماسفیر ہونا اور سیارے کا چٹانی ہونا ضروری ہے۔ ان میں سے بہت سی شرائط بے شک زمینی حیاتیاتی سیمپل کے حساب سے ہیں، لیکن کیا کریں، ہمارے پاس صرف زمین کے علاوہ کہیں اور حیات کا ماڈل فی الوقت دستیاب ہی نہیں، اسی لیے زمینی زندگی کو بنیاد بناکر یہ شرائط لکھی گئی ہیں
1. یہ سیارہ جسیم یعنی کافی زیادہ کمیت رکھنے والا ہونا چاہیے۔ جس میں اسکا قلب آئرن یا نکل کے بڑے حصہ کا بناہوا ہو ۔ یہ اصول ہماری زمین کے 0.7 کمیت سے کم کمیت رکھنے والے سیاروں کو مسترد کرتا ہے۔ جتنا چھوٹا سیارہ اتنا ہی چھوٹا اسکا قلب یا کور ہوگا۔ کسی بھی ایسے سیارے کا چھوٹا کور بہت تیزی سے ٹھنڈا ہو جائے گا۔ پھریہ برقی مقناطیسی فیلڈ کو غیر فعال کردے گا اور اسطرح اس سیارے کے پانی کے سائکل یعنی ہائیڈرو اسفیر hydrosphere ، بیرونی ماحول اور بائیو کرہ کی ایکسٹینشن کو تباہ کر دے گا اگر ممکنہ طور پر جو وہاں پائے جائیں۔
2. اس سیارے میں پانی کی بڑی مقدار ہونی چاہیے۔ یہاں پر کچھ سائنسدان لیکن بہت سے دوسرے مائعات بھی تجویز کر تے ہیں۔ لیکن واقعی حقیقت میں پانی کائنات میں سب سے زیادہ کثرت سے پایا جانے والا مالیکیول ہے۔اور یہ ہی شائد ساری کائنات میں باآسانی دستیاب بھی ہے۔ اس میں ان تمام مائعات سے بہترین خصوصیات ہیں جن ہمیں یہ ملتی ہیں، معدنی حل پذیری، مائع حالت کے بڑے درجہ حرارت کا وقفہ، کثافت وغیرہ۔ اور مائعات میں یہ خصوصیات بہت کم ملتی ہیں۔
3. ایسا لگتا ہے کہ گولڈی لاکس زون میں کسی بھی حیات کے لیے ایک سیارے کو ایک بڑے چاند کی بھی ضرورت ہوسکتی ہے- یہ گردشی محور کو مستحکم کرتا ہے، سمندری عمل کا سبب بنتا ہے، برقی مقناطیسی میدان کی پیداوار کو جاری رکھتا ہے۔
4. اس ممکنہ سیارے کو اپنے میزبان ستارے کے گرد ایسے فاصلے پر چکر لگانا چاہیے جہاں ستارے سے تقریباً 1.2- 0.7 توانائی حاصل کی جاسکتی ہو جو زمین کو اس وقت حاصل ہوتی ہے
5. یہ ممکنہ طور پر ٹائیڈلی لاکڈ نہیں ہونا چاہئے۔مطلب یہ ہمارے چاند کی طرح یا دیگر کسی سیارے کی طرح ایک طرف کی سائیڈ سے ستارے کے گرد گردش نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس سیارے کو اپنے محور کے گرد بھی کچھ وقت کے عرصے کے محوری گردش بھی کرنا لازمی ہے، جس سے دن/رات کا ایک مخصوص سائکل پورا ہوتا ہے۔ دن اور رات کے توازن کی وجہ سے سیارے پر ایک مناسب درجہ حرارت کا فرق پیدا ہوتا ہے جو حیات کی قیام پزیری کے لیے معاونت کرسکتا ہے
6. میزبان ستارہ کو سرخ بونا Red Dawrf نہیں ہونا چاہیے (ہم نے جتنے بھی سرخ بونے دیکھے ہیں وہ بعد میں شدید آگ و توانائی سے بھڑک اٹھتے ہیں جو نہ صرف کسی بھی زندگی بلکہ اس ممکنہ سیارے سے ماحول اور اسکے ہائیڈروسفیئر کو بھی ختم کر دیتے ہیں)
7. یہ ایک زمینی (چٹانی) سیارہ ہونا چاہیے۔ کسی بھی زندگی کے وجود کے لیے کسی سیارے کے اندر H, C, O, N, P, Fe, Zn, Mg, Ca, Na, K, S, Cl اور دیگر عناصر کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن یہ سب معلومات ہم زمینی زندگی کے حساب سے لیتے ہیں۔ یہاں پر ہم گیس کے جناتی سائز سیاروں کو زندگی کے حامل سیاروں کے طور پر نہیں دیکھتا، لیکن ان سیاروں کے بڑے بڑے چاندوں کے بارے میں شائد یہ ممکن ہو کہ وہاں زندگی کے پائے جانے کا امکان ہو۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...