گولڈن گرلز
ابھی روشن ہوا جاتا ہے رستہ
وہ دیکھو ایک عورت آرہی ہے
عورت، قدرت کی حسین ترین تخلیق، جس کے وجود سے یہ دنیا رنگین ہے۔ اگر دنیا بھر کی شاعری سے عورت کو نکال دیا جائےتو شاید شاعری کا وجود ہی نہ رہے۔ اردو غزل کے تو معنی ہی عورت سے ہمکلام ہونے کے ہیں۔
عورت ، محبت، وفا، خدمت اور سیوا کا دوسرا نام۔ بیٹی ہے تو باعث رحمت، بہن ہے تو سرتاپا دعا،۔ بیوی ہے تو جسم و روح کا سکون، دوست ہے تو رازدار اور سب سے بڑھ کر اگر ماں ہے تو جنت کی بشارت۔
عورت جسے صنف نازک کہا جاتا ہے اور مجھے ہمیشہ اس تعریف سے اختلاف رہا ہے۔ بھلا سوچیں فاطمہ جناح ، بے نظیر، عاصمہ جہانگیر، ملالہ ، مارگریٹ تھیچر، اندرا گاندھی، مدَر تھریسا، سسٹر رکھ فاؤ جیسی نڈر، بے خوف، بہادر اور انتھک محنت اور جدوجہد کرنے والی ہستیاں تو شاید مردوں میں بھی نہ ملیں۔ سینک سلائی سی فاطمہ جناح اور بے نظیر جیسے کارنامے کتنے مرد انجام دے سکے ہیں۔ جسے اپنے طور پر صحیح سمجھنا اور اس کے لئے ڈٹ جانے والی عآصمہ جہانگیر کی سی جرات کتنے مردوں میں ہے۔اور کتنےمرد مدرتھریسا اور سسٹر فاؤ جیسی انتھک خدمت کی مثال بن سکتے ہیں۔
آج ایسی کچھ عورتوں کی یاد آئی جن کا نام بچپن اور لڑکپن میں اکثر اخبارات میں نظر آتا۔۔ مجھے ان کے بارے میں بہت زیادہ معلومات بھی نہیں ہیں۔ نہ ہی یہ کوئی تحقیقی اور علمی مضمون ہے۔ بس کچھ دھندلی سی یادیں ہیں۔ سوچا کہ دوستوں کے ساتھ ان کی یاد بانٹتا چلوں۔ یقیناً کئی دوستوں کو مجھ سے زیادہ ان کے بارے میں معلومات ہونگی۔
بیگم رعنا لیاقت علی خان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپوا بوائز پرائمری اینڈ سیکنڈری اسکول کورنگی نمبر چار میں سالانہ کھیلوں کے مقابلے تھے۔ میں جماعت سوم کا طالبعلم بھی ان کھیلوں اور ورزشوں میں کہیں شامل تھا۔ ورزشوں میں حصہ لینے والے ہم طلبہ ایک طرف بیٹھے تھے۔ صبح کے نو بج چکے تھے اور دھوپ میں تمازت بڑھتی جاتی تھی۔ اب تک پروگرام شروع نہیں ہوا تھا۔ اچانک لاؤڈ اسپیکر پر اعلان ہوا" مہمان خصوصی محترمہ بیگم رعنا لیاقت علی خان تشریف لا چکی ہیں۔ "
اسکول کے ہیڈماسٹر اور کچھ اور لوگوں کی معیت میں ایک گوری چٹی خاتون، آنکھوں میں دنبالے دار کاجل اور ہونٹوں پر گہری لپ اسٹک لگائے، جمپر، غرارہ اور دوپٹّے میں ملبوس کشاں کشاں اسٹیج کی طرف آرہی تھیں۔
یہ ہمارے اسکول اور اپوا یعنی " آل پاکستان ویمنز ایسوسیشن " کی بانی بیگم رعنا لیاقت علی خان تھیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی اہلیہ اور پہلی خاتون اوّل۔ جن کے شوہر کو بھرے جلسے میں گولی مار کر شہید کردیا گیا تھا۔
لیکن مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی کسی جلسے یا تقریر، یا انٹرویو میں ایک بار بھی ان کے منہ سے اپنے شوہر کی موت کا رونا پیٹنا سنا ہو۔ نہ بات بے بات ان کی شہادت کی دہائی دیتی نظر آئیں۔ انہیں جب بھی سنا، خواتین، بچوں اور معاشرے کے کسی نہ کسی مسئلے کی ہی بات کرتے سنا۔
ایک متمول خاندان سے تعلق رکھنے والی اور اعلی تعلیمیافتہ بیگم صاحبہ قیام پاکستان سے پہلے ہی مسلم لیگ کی خاموش کارکن اور اپنے شوہر کی دست راست تھیں۔ کہتے ہیں کہ لیاقت علی خان کی ساری خط و کتابت کی ذمہ داری بیگم صاحبہ ہی نبھاتیں۔
بیگم رعنا کی زندگی ایک جہد مسلسل کی داستان ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی بحالی، مغویہ عورتوں کی دست گیری اور پھر خواتین کے لئے مسلسل جد وجہد، گل رعنا انڈسٹریل ہوم، گل رعنا نصرت کلب اور سب سے بڑھ کر "اپوا" کا قیام۔
اور یہی بیگم رعنا اٹلی میں پاکستان کی سفیر بھی تھیں اور ان کی قابلیت دیکھتے ہوئے انہیں سندھ کا گورنر بھی بنایا گیا۔
میرے نزدیک تو بیگم صاحبہ نیک نامی سے جئیں اور نیک نامی سے مریں لیکن ہمارے ہاں کس کو عزت سے جینا یا مرنے دیا جاتا ہے۔ یار لوگ کچھ نہ کچھ ضرور ڈھونڈ نکالیں گے۔ آپ دیکھتے رہئیے۔
بیگم شائستہ اکرام اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد پڑتا ہے بچپن میں کراچی میں دوچار ہی ہوٹلوں کے نام مشہور تھے جن میں " میٹروپول" سرفہرست تھا۔ ہم جیسے غریب غرباء ان ہوٹلوں کو بس دور سے یا باہر سے ہی دیکھ سکتے تھے۔ ایک بار خوش قسمتی سے میٹروپول میں ہونے والی یوم اقبال کی تقریب کا دعوت نامہ مل گیا۔
اور یہ شاید سن تہتر یا چوہتر کی بات ہے۔ مجھے ہوٹل دیکھنے کی شاید ہرگز خوشی نہ تھی البتہ جتنے بڑے لوگوں کو میں نے اس تقریب میں دیکھا شاید دوبارہ کبھی نہ دیکھا ہو۔
اسٹیج پر جامعہ کراچی کے سابق شیخ الجامعہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، بلوچستان یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر پروفیسر پر کرار حسین موجود تھے، حکیم محمد سعید نے کرسی صدارت سنبھالی ہوئی تھی۔ وزیر تعلیم یا شاید وزیر اطلاعات حفیظ پیرزادہ مہمان خصوصی تھےجو شاید اس جمگھٹے میں سب سے کم تر نظر آرہے تھے۔ ایک اور مشہور تعلیمی شخصیت بھی اسٹیج پر تھیں جن کا مجھے نام یاد نہیں رہا اور ایک دبلی پتلی، بوٹے سے قد والی خاتون بھی تشریف فرما تھیں۔
قاری شاکر قاسمی کی تلاوت کے بعد سید ناصر جہاں نے کلام اقبال پیش کیا۔ اس کے بعد مقالے اور تقاریر شروع ہوئیں اور میں منہ پھاڑے اتنے قابل لوگوں کی باتیں سنتا رہا۔ پہلی بار اندازہ ہوا کہ بڑے لوگ کیسےہوتے ہیں اور کیسے بولتے ہیں۔ سیاسی جلسوں اور مجمعوں میں گرجنے اور برسنے والے بونے لگنے لگے، مغز اور تہذیب سے عاری۔
بوٹے سے قد والی خاتون نے اپنا مقالہ پیش کیا اور صاحب صدر سے اجازت لے کر نیچے اگلی صفوں میں آبیٹھیں۔ میں اتفاق سے ان کے عین پیچھے بیٹھا ہوا۔،
کچھ دیر بعد نجانے کس چیز کا وقفہ ہوا۔ وہ خاتون اپنے ساتھ بیٹھی ہوئی خاتون سے بات چیت میں مصروف تھیں۔ مجھے ٹوہ سی ہوئی کہ دیکھوں بڑے لوگ کیا باتیں کرتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ شاید چھوٹے قد والی لیکن علم وعرفان میں بڑی خاتون کے مقالے پر بات ہورہی ہوگی۔ لیکن وہ تو گھر کی شادیوں اور بچوں کی خیریت جیسے غیر اہم اور عام سے موضوعات پر گفتگو کررہی تھیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ' بڑے لوگ' بھی ہماری جیسی باتیں کرتے ہیں۔
بوٹے سے قد والی یہ خاتون مملکت ہاشمیہ الا ردنیہ کے ولی عہد کی ساس تھیں۔ جی ہاں، بیگم شائستہ اکرام اللہ کی بیٹی ثروت کی شادی اردن کے شاہ حسین کے بھائی سے ہوئی تھی جو اس وقت ولی عہد تھے۔ انکے ایک داماد شاید بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ تھے۔ مجھے ان کی سادگی پر حیرت ہوتی تھی۔ یہ بیگم صاحبہ کوئی معمولی خاتون نہیں تھیں۔ مراکش میں پاکستان کی سفیر رہ چکی تھیں۔ ملک کے ایک وزیر اعظم ان کے خالہ زاد بھائی تھے۔ شائستہ سہروردی اکرام اللہ سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کی کزن تھیں۔ ان کے شوہر بھی نامور سفارتکار تھے۔
شائستہ اکرام اللہ قیام پاکستان سے پہلے ہی سیاسی اور ادبی حیثیت کی حامل تھیں اور "کوشش ناتمام جیسا ناول، " دلی کی خواتین کی کہاوتیں اور محاورے" اور " پردہ سے پارلیمنٹ تک' جیسی کتابیں لکھ چکی تھیں۔
ان کی بیٹی ثروت کی شادی کراچی کی چند یادگار شادیوں میں سے ایک ہے۔ شہزادی ثروت آج بھی اردن کے عوام میں بے احد مقبول ہیں۔
بیگم شائستہ نے جہاں بہت سے اعزازات حاصل کئے وہیں انہیں " نشان امتیاز" سے بھی نوازا گیا۔
بیگم اختر سلیمان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلکتہ کی سہروردی اور اصفہانی خاندان نے کئی نامور ہستیوں کو جنم دیا۔ سہروردی خاندان کی ایک اور خاتون، حسین شہید سہروردی کی بیٹی اختر سلیمان نے شاید شائستہ اکرام اللہ جیسا نام نہ کمایا ہو لیکن کراچی کی سماجی کارکنوں میں ان کا نام بہت نمایاں ہے۔
اختر اپنے نامور والد کے ساتھ ہر سفر میں شامل رہتیں لیکن پاکستانی خواتین اور عام سماجی مسائل اور شہر کی تعلیمی ترقی میں اپنا حصہ بھی برابر ڈالتی رہیں۔
اپنے وقت کے نامور قانون دان " جسٹس سر شاہ سلیمان " کی بہو تھیں۔ ان کی بیٹی شاہدہ جمال وفاقی وزیر قانون رہی ہیں۔ دو بیٹے زاہد اور شاہد بھی قانون کے شعبہ سے ہی وابستہ ہیں۔
کراچی میں کئی سماجی تنظیموں کی رکن تھیں جن میں ایک نمایاں نام ' بالغ نابیناؤں کا مرکز" Adult Blind Centre بھی ہے۔
سولجربازار بازار میں واقع سب سے پرانی سبزی منڈی جو اقبال مارکیٹ کہلاتی تھی، اس کے پہلو میں واقع نابیناؤں کے مرکز میں میں نے اس چھوٹے سے قد کی فربہی مائل خاتون کو پہلی بار دیکھا تھا۔یہ تو مجھ بہت بعد میں پتہ چلا کہ یہ کس قدر قدآورہستی ہیں۔
بیگم سروری عرفان اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک وقت تھا کہ شہر کی ہر سماجی تقریب اور بیگم سروری عرفان اللہ کے نام لازم وملزوم تھے۔ خواتین اور سماجی مسائل کے لئے ہر وقت کوشاں رہنے والی ان خاتون کی پیدائش گورکھپور کی تھی۔ بیگم سروری عرفان اللہ کراچی میونسپل کارپوریشن کی کونسلر اور مغربی پاکستان اسمبلی کی رکن بھی رہیں لیکن ان کی زیادہ تر شہرت سماجی خدمت کے حوالے سے ہی ہے۔
بیگم زاہدہ خلیق الزماں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوہدری خلیق الزماں اور بیگم زاہدہ خلیق الزماں کا نام تقریباً ہر روز کے اخبار میں نظر آتا۔ لیکن چونکہ ان کا تعلق ایوب خان کی کنونشن مسلم لیکن سے تھا اور ہم کراچی والے اس مسلم لیگ سے خار کھاتے تھے چنانچہ میرا خیال ہے کہ چوہدری خلیق الزماں اور ان کا خاندان ہمارے دلوں میں وقعت نہیں پاسکا۔
بیگم صاحبہ البتہ بڑی فعال تھیں، مغربی پاکستان کی وزیر صحت تھیں اور خود بھی مثالی صحت رکھتی تھیں۔
عائلی قوانین میں دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی کی رضامندی کی شرط والی شق بھی سنا ہے بیگم خلیق الزماں کے اصرار پرشامل کی گئی۔ ان کے شوہر لکھنؤ کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ شاید نوابوں والے شوق کی پیش بندی کے لئے بیگم صاحبہ نے بطور احتیاطی تدبیر اس قانون کا مشورہ دیا ہو۔
بہرحال ایوب خان کی مصاحبی اور عائلی قوانین کی وجہ سے ان کے بارے میں مثبت باتیں کم ہی سننے کو ملیں۔
اور بھی کئی نام تھےجو اخبارات کی زینت بنے رہتے۔ اگر یاد آئے تو آپ کو بھی ان یادوں میں شریک کروں گا۔
یار زندہ صحبت باقی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔