گول کھنڈر
خورخے لوئس بورخیس
انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال
Andif he let off dreaming about you…
Throughthe Looking Glass, IV
کسی نے اُسے اس ذہنِ واحد کی رات میں اس کنارے پر اترتے نہیں دیکھا تھا، کسی نے بانس کی اس ناؤ کو کنارے کے مقدس گدلے پانی میں غرقاب ہوتے نہیں دیکھا تھا، لیکن چند ہی روز میں کوئی شخص اس سے بےخبر نہیں رہا کہ وہ خاموش آدمی جنوب سے آیا تھا اور اس کا گھر سنگلاخ پہاڑوں میں دریا کے قریب کے بےانت گاؤوں میں سے کوئی گاؤں تھا جہاں ژند زبان یونانی سے آلودہ نہیں ہوئی تھی اور جہاں کوڑھ اتنا عام نہیں تھا۔ یقین ہے کہ اس خاکی مائل رنگت والے آدمی نے خاک کو بوسہ دیا اور اپنے گوشت کو پھاڑتی ہوئی خاردار جھاڑیوں کو ایک طرف ہٹائے بغیر (شاید انھیں محسوس کیے بغیر) کنارے سے اوپر آیا، اور خود کو گھسیٹتا ہوا، خونم خون ہوتا اور متلی محسوس کرتا ہوا اس گول احاطے تک لایا جس کے دروازے کے اوپر ایک پتھر کا بنا ہوا شیر یا گھوڑا نصب تھا،اور جو کبھی آگ کے رنگ کا تھا اور اب راکھ کے رنگ کا۔ یہ دائرہ ایک معبد تھا جسے بہت پہلے قدیم آگ نے نگل لیا تھا اور ملیریائی جنگل نے گھیر لیا تھا اور آدمی جس کے خداوند کی اب عبادت نہیں کرتے تھے۔ اجنبی ستون کے پائے کے قریب پیر پھیلا کر دراز ہو گیا۔ سورج چڑھنے پر اس کی آنکھ کھلی۔ اس نے بغیر استعجاب کے دیکھا کہ اس کے زخم بھر چکے ہیں۔ اس نے اپنی زردی مائل آنکھیں پھر بند کر لیں اور سو گیا۔ کسی جسمانی کمزوری کے سبب سے نہیں بلکہ مضبوط عزم کے ساتھ۔ اسے خبر تھی کہ یہ معبد ہی وہ جگہ ہے جو اس کے ناقابلِ تسخیر مقصد کو درکار ہے۔ اسے خبر تھی کہ دریا کی دوسری جانب درخت ایک اَور مقدس معبد کو گھیرنے میں کامیاب نہیں ہوے ہیں، جہاں کے معبود بھی جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔ اسے خبر تھی کہ اس کی فوری ذمہ داری سونا ہے۔ آدھی رات کےقریب ایک پرندے کی دلگیر پکار سے وہ جاگ اٹھا۔ ننگے پیروں کے نشانات، انجیروں اور پانی کے کوزے سے اسے معلوم ہوا کہ علاقے کے لوگ چھپ کر اسے سوتے ہوے دیکھ چکے ہیں، اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اس کے طلسم سے خوفزدہ ہیں۔ اسے خوف کی سرد لہر محسوس ہوئی اور وہ شکستہ دیوار میں مردے دفن کرنے کا ایک طاق تلاش کر کے خود کو نامعلوم پتوں سے ڈھانپ کر لیٹ گیا۔
اس کے سامنے جو مقصد تھا وہ ناممکن نہیں تھا، اگرچہ مافوق الفطرت تھا۔ وہ ایک شخص کا خواب دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ اسے خواب میں تفصیلی سالمیت کے ساتھ دیکھنا اور اسے حقیقت میں لانا چاہتا تھا۔ اس طلسمی منصوبے نے اس کے جسم و جان کے کُل کو کھینچ لیا تھا۔ اگر کوئی اس سے اس کا نام یا اس کی پچھلی زندگی کی کوئی بات دریافت کرتا تو وہ جواب نہیں دے سکتا تھا۔ یہ غیرآباد اور شکستہ معبد اسے موزوں تھا کیونکہ یہ مرئی دنیا کا کم سے کم حصہ تھا، کاشتکاروں کا قریب ہونا بھی اس کے لیے مناسب تھا کیونکہ وہ اس کی موہوم ضروریات کی چیزیں فراہم کرتے۔ ان کے نذر کیے ہوے چاول اور پھل اس کے جسم کو باقی رکھنے کے لیے کافی تھے جو سونے اور خواب دیکھنے کے کام کے لیے وقف ہو چکا تھا۔
ابتدا میں اس کے خواب منتشر تھے، کچھ عرصے بعد ان کی نوعیت منطقی سی ہو گئی۔ اجنبی نےخواب دیکھا کہ وہ ایک گول تماشاگاہ کے درمیان میں ہے جو کسی نہ کسی طرح یہ جلا ہوا معبد ہے۔ نشستوں کی قطاریں خاموش طالبعلموں کے بادلوں سے پُر ہیں۔ آخر میں بیٹھے ہوؤں کے چہرے صدیوں دور اور ایک کائناتی بلندی پر آویزاں معلوم ہوتے تھے، لیکن بالکل واضح اور مکمل تھے۔ آدمی انھیں علم الابدان، ترکیبِ کائنات اور طلسم کا سبق دے رہا تھا۔ وہ چہرے اسے احتیاط سے سنتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے تھے، جیسے وہ اس امتحان کی اہمیت سے باخبر ہوں جو ان میں سے کسی ایک کو اس بےحقیقت وجود کی حالت سے نکال کر اسے حقیقت کی دنیا میں داخل کر دے گا۔ آدمی نے خواب میں، اور خواب سے جاگ کر، اپنے خیالی پیکروں کے جوابات پر غور کیا۔ وہ عیاروں کے فریب کا شکار نہیں ہوا، اس نے بعض پیچیدگیوں میں ایک بڑھتی ہوئی ذہانت کو محسوس کیا۔ وہ ایک ایسی روح کی تلاش میں تھا جو کائنات میں شرکت کی مستحق ہو۔
نو یا دس راتوں کے بعد وہ کچھ تلخی سے اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ ان طالب علموں سے کوئی توقع نہیں کر سکتا جو اس کے نظریات کو مجہول انداز میں قبول کر لیتے ہیں، لیکن اسے اُن سے کچھ امید ہو سکتی ہے جو کبھی کبھار کسی معقول اختلاف کا حوصلہ کرتے ہیں۔ اول الذکر طلبا اگرچہ محبت اور شفقت کے مستحق ہیں لیکن افراد کے رتبے پر نہیں پہنچ سکتے؛ آخرالذکر طلبا پہلے ہی سے ان سے کچھ زیادہ وجود رکھتے تھے۔ ایک سہ پہر (اب اس کی سہ پہریں بھی نیند کی نذر ہوتی تھیں اور وہ صرف صبح کے وقت چند گھنٹوں کے لیے جاگتا تھا) اس نے اس خیالی درسگاہ کو ہمیشہ کے لیے نابود کر دیا اور صرف ایک طالب علم کو باقی رکھا۔ وہ ایک خاموش لڑکا تھا، زرد رنگت والا، کچھ کچھ ضدی۔ اس کے تیکھے نقوش خواب دیکھنے والے کے نقوش کو دہراتے تھے۔ وہ اپنےساتھیوں کے یکایک معدوم ہو جانے سے بہت دیر تک پریشان نہیں رہا۔ چند خصوصی اسباق کے بعد اس کی ترقی نے اس کے استاد کو متحیر کر دیا۔ اس کے باوجود مصیبت تعاقب میں رہی۔ ایک روز آدمی خواب سے یوں باہر آیا جیسے کسی دلدلی ریگستان سے، اور اس نے سہ پہر کی رائیگاں روشنی کو دیکھا جو اسے پہلے فجر کی روشنی معلوم ہوئی، اور وہ سمجھا کہ درحقیقت اس نے خواب نہیں دیکھا ہے۔ اس پوری رات اور تمام دن بےخوابی کی ناقابلِ برداشت خیرگی اس پر مسلط رہی۔ اس نے جنگل میں مارا مارا پھر کر خود کو تھکانے کی کوشش کی لیکن شیکران کے زہریلے درختوں کے درمیان بمشکل ہلکی سی نیند کے چند جھونکے پا سکا جو بےسود نامکمل بینائی سے ملوث تھے۔ اس نے درسگاہ کو پھر سے جوڑنے کی کوشش کی، اور ابھی نصیحت کے بمشکل چندالفاظ ادا کیے تھے کہ اس کی صورت بگڑنے لگی اور وہ فنا ہو گئی۔ اس تقریباً مسلسل بےخوابی میں اس کی بوڑھی آنکھیں غصے کےآنسوؤں سے جلنے لگیں۔
اس کی سمجھ میں آیا کہ خواب جس بےربط اور چکرا دینے والے مادّے سے بنے ہیں، اسے ڈھالنے کی کوشش کرنا سب سے کٹھن کام ہے جو کوئی انسان اپنے ذمے لے سکتا ہے، خواہ وہ بلندوپست ہر قسم کے چیستانوں کو بوجھنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ یہ ریت کی رسی بٹنے یا بےچہرہ ہوا کی تشکیل کرنے سے بھی زیادہ دشوار ہے۔ اس کی سمجھ میں آیا کہ ابتدا میں ناکامی ناگزیر ہے۔ اس نے عہد کیا کہ ان بےشمار واہموں کو فراموش کر دے گا جنھوں نے اسے شروع میں گمراہ کیا تھا۔ اس نے ایک اور راستہ دریافت کیا۔ اسے اختیار کرنے سے پہلے اس نے ان قوتوں کو پھر سے مجتمع کرنے کی غرض سے ایک مہینہ وقف کیا جو اس کے اضطراب سے ضائع ہو گئی تھیں۔ اس نے پہلے سے کوئی خواب دیکھنے کے ارادے کو ترک کر دیا اور تقریباً فوری طور پر دن کا بڑا حصہ سو کر گزارنے کے قابل ہو گیا۔ اس عرصےمیں چند بار اسے خواب نظر آئے لیکن اس نے ان پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اپنا کام پھر سے شروع کرنے کے لیے وہ انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ چاند کا طشت مکمل ہو گیا۔ تب اس نے سہ پہر کے وقت دریا کے پانی سے خود کو پاک کیا، آسمانی معبودوں کی پرستش کی، ایک قدرت والے نام کا ایک جائز حصہ زبان سے ادا کیا، اور سو گیا۔ تقریباً اسی وقت اس نے ایک دھڑکتے ہوے دل کو خواب میں دیکھا۔
خواب میں اس نے اس دل کو سرگرم، پُرحرارت، مخفی اور بند مٹھی جتنا دیکھا۔ چہرے یا جنس سے بےنیاز ایک انسانی جسم کے نیم سائے میں وہ ایک لعل کے رنگ کا تھا۔ باریک بیں اشتیاق کے ساتھ وہ چودہ راتوں تک اسے دیکھتا رہا۔ ہر رات وہ پچھلی رات سے زیادہ صراحت سے اس کا ادراک کرتا۔ اس نے اس دل کو چھوا نہیں، خود کو صرف اسے دیکھنے، اس کا مشاہدہ کرنے، شاید اسے نظروں سے سنوارنے تک محدود رکھا۔ اس نے مختلف فاصلوں اور مختلف زاویوں سے اس کا ادراک کیا، اسے بسر کیا۔ چودھویں رات اس نے پھیپھڑے کی شریان کو انگلی سےچھوا، اور پھر اندر اور باہر سے پورے دل کو۔ اس آزمائش سے وہ مطمئن ہو گیا۔ دانستہ طور پر اس نے ایک رات کوئی خواب نہ دیکھا، اور پھر دل کو ہاتھ میں لیا۔ ایک سیارے کی مناجات کی اور پھر ایک اور عضوِ رئیس کا تصور کرنا شروع کیا۔ ایک سال میں وہ ڈھانچے کو مکمل کر کے پلکوں تک پہنچ چکا تھا۔ ناقابلِ شمار بال شاید سب سے مشکل تھے۔ اس نے ایک مکمل انسان کا خواب دیکھا، ایک لڑکے کا، لیکن یہ لڑکا اٹھ نہیں سکتا تھا،نہ بول سکتا تھا۔ بہت سی راتوں تک خواب میں وہ اسے مسلسل خوابیدہ دیکھتا رہا۔
غناسطی نظریۂ تکوینِ کائنات میں ہے کہ خداوند نے سرخ مٹی کو گوندھ کر آدم کو بنایا جو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ خاک کے آدم جتنا ہی خام اور ناپختہ ساحر کی مشقت کی راتوں کا بنایا ہوا یہ خواب کا آدم تھا۔ ایک سہ پہر کو آدمی نے اپنی غلطی سے اپنے کام کو تلف ہی کر دیا ہوتا، لیکن پھر وہ نادم ہوا۔ (اس کے لیے بہتر ہوتا اگر وہ اسے تلف کر دیتا۔) اس نے دریا اور زمین کے معبودوں کے سامنے دعائیں پوری کر کے خود کو اس سنگی مجسمے کے قدموں پر گرا دیا جو شیر تھا یا شاید گھوڑا، اور اس کی نامعلوم نصرت کی التجا کی۔ اس جھٹپٹے میں اس نے خواب میں اس مجسمے کو دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ ایک زندہ اور مرتعش چیز ہے، وہ محض شیر اور گھوڑے کا وحشیانہ مرکب نہیں بلکہ یہ دونوں تند مخلوقات بیک وقت، اور ساتھ ہی ایک بیل، ایک گلاب اور ایک سمندری طوفان بھی ہے۔ اس گوناگوں خداوند نے اس پر منکشف کیا کہ اس کا زمینی نام آتش ہے، اور اس گول معبد میں (اور اس طرح کے اور معبدوں میں) لوگ اس کے سامنے قربانیوں اور عبادات کی نذر دیتے رہے ہیں، اور یہ کہ وہ اپنے افسوں سے اس خوابیدہ خیالی پیکر کو زندگی بخشے گا، اس طرح کہ خود آگ اور خواب دیکھنے والےکے سوا تمام مخلوقات اسے گوشت پوست کا آدمی خیال کریں گی۔ اس الوہیت سے آدمی کو یہ حکم صادر ہوا کہ وہ اپنی مخلوق کو اس کی مذہبی رسوم کی تعلیم دے اور اسے دوسرے شکستہ معبد میں بھیجے جس کے ہرم نما مینار دریا کے دوسری طرف ابھی باقی ہیں، تاکہ اس ویران مکان میں ایک آواز خداوند کی شان بیان کرے۔ خواب دیکھنے والے کےخواب میں، خواب کے پیکر نے آنکھ کھولی۔
ساحر نے ان احکام کی تعمیل کی۔ اس نے وقت کا ایک وقفہ (جو بالآخر دو سال پر محیط ہوا) اپنےخواب کی اولاد پر کائنات اور آتش پرستی کے بھید کھولنے کے لیے وقف کیا۔ اندرونی طور پر اسے لڑکے سے جدا ہوتے ہوے تکلیف ہو رہی تھی۔ معلمانہ ضروریات کے بہانے سے وہ ہر روز خواب کے لیے وقف گھنٹوں کا دورانیہ بڑھاتا گیا۔ اس نے دائیں شانے کو پھر سے بنایا جس میں شاید کچھ نقص رہ گیا تھا۔ کبھی کبھی اسے یہ تاثر پریشان سا کر دیتا کہ یہ سب کچھ پہلے بھی ہو چکا ہے…عام طور پر اس کے دن مسرور تھے۔ جب وہ آنکھیں بند کرتا تو سوچتا، ’’وہ بچہ جسے میں نے خلق کیا ہے میرا انتظار کر رہا ہے، اور اگر میں اس کے پاس نہیں گیا تو وہ فنا ہو جائے گا۔‘‘
رفتہ رفتہ اس نے لڑکے کو عالمِ حقیقت سے آشنا کیا۔ اس نے ایک بار اسے دورافتادہ پہاڑکی چوٹی پر ایک پھریرا گاڑنے کے لیے کہا۔ اگلے روز پھریرا پہاڑ کی چوٹی پر لہرا رہا تھا۔ اس نے اسی طرح کے اور تجربے کیے، جن میں سے ہر ایک پچھلے سے زیادہ حوصلہ آزما ہوتا تھا۔ کچھ تلخی سے اس نے محسوس کیا کہ اس کا بیٹا پیدا ہونے کے لیے تیار —اور شاید بےقرار — ہے۔ اس رات اس نے پہلی مرتبہ اسے بوسہ دیا اور دوسرے معبد کی طرف روانہ کر دیا جس کے سفید کھنڈر ناقابلِ گزر جنگل اور دلدلوں کے اُس طرف نظر آ رہے تھے۔ لیکن اس سے پہلے (اس غرض سے کہ اسے کبھی یہ معلوم نہ ہو کہ وہ محض ایک خیالی پیکر ہے اور اسے دوسروں کی طرح ایک انسان سمجھا جائے) اس نے اس کے تربیت کے برسوں کی جگہ ایک مکمل فراموشی داخل کر دی۔
آدمی کی فتح اور اس کی تسکین تھکن سے دھندلا گئی۔ فجر اور غروب کے وقت وہ خود کو سنگی مجسمے کے سامنے سربسجود کر دیتا اور یہ تصور کرتا کہ اس کا بیٹا بھی دریا کے کنارے پر گول معبد میں یہی رسم ادا کر رہا ہو گا۔ رات میں وہ خواب نہ دیکھتا، یا اسی طرح خواب دیکھتا جیسے سب انسان دیکھتے ہیں۔ وہ کائنات کی شکلوں اور آوازوں کا ادراک بےرنگی سے کرتا، اس کا غیرموجود بیٹا اس کی روح کے اس زوال پر پرورش پا رہا تھا۔ اس کی زندگی کی مقصد پورا ہو چکا تھا۔ آدمی اب ایک سرخوشی میں زندہ تھا۔ ایک عرصے کے بعد، جسے اس کی کہانی کے بعض راوی برسوں میں شمار کرنا پسند کرتے ہیں اور بعض قرنوں میں، ایک نصف شب اسے دو کشتی بانوں نے جگایا۔ وہ ان کے چہرے نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن انھوں نے اسے شمال کے معبد کے طلسمی آدمی کے بارے میں بتایا جو آگ پر چلتا تھا اور وہ اسے نہیں جلاتی تھی۔ ساحر کو ایک دم خداوند کے الفاظ یاد آئے۔ اسے یاد آیا کہ دنیا کی تمام مخلوقات میں صرف آگ جانتی ہے کہ اس کا بیٹا محض ایک پیکرِ خیال ہے۔ اس یاد نے، جو پہلے پہل اسے تسکین آمیز محسوس ہوئی، بعد میں اسے عقوبت میں مبتلا کر دیا۔ اسے خوف ہوا کہ کہیں اس کا بیٹا اپنی اس غیرمعمولی مراعت پر غور کر کے یہ معلوم نہ کر لے کہ وہ صرف ایک شبیہ کی حالت میں ہے۔ انسان نہ ہونا، محض کسی اور انسان کے خوابوں کی توسیع ہونا، کیسی ذلت اور پریشانی کی بات تھی۔ تمام باپ اپنے ان بچوں میں دلچسپی لیتے ہیں جنھیں انھوں نے لاعلمی یا لذت میں پیدا کیا ہو (یا وجود میں آنے کی اجازت دی ہو) تو یہ قدرتی بات تھی کہ ساحر اپنے اس بچے کے مستقبل کے لیے فکرمند ہوتا جس کا ایک ایک عضو، ایک ایک نقش اس نے عالمِ خیال کی ایک ہزار ایک رازدارانہ راتوں میں تخلیق کیاتھا۔
اس کے مراقبات کا انجام ناگہانی تھا، اگرچہ بعض آثار اس کی پیش گوئی کر چکے تھے۔ پہلا (ایک طویل خشک سالی کے بعد) دور ایک پہاڑی پر پرندے کی طرح سبک اور تیزرفتار بادل، پھر جنوب کی سمت آسمان پر چیتے کے منھ جیسا گلابی رنگ، پھر آہنی راتوں کو زنگ خوردہ کرتا ہوا دھواں، اور آخر میں حیوانوں کا وحشت میں فرار — کہ جو کچھ ہو رہا تھا، کئی صدیوں پہلے بھی ہو چکا تھا۔ خداوندِ آتش کے معبد کا کھنڈر آگ کےہاتھوں تلف ہوا۔ ایک بےطائر صبح نے دیواروں کے قریب حلقہ در حلقہ شعلے دیکھے۔ ایک لمحے کے لیے اس نے دریا میں پناہ لینے کےبارے میں سوچا، لیکن پھر وہ جان گیا کہ موت اس کے بڑھاپے کے سر پر تاج رکھنے اور اسے اس کی مشقت سے سبک کرنے آ پہنچی ہے۔ وہ شعلوں کی دیواروں میں داخل ہو گیا — لیکن انھوں نے اس کے گوشت میں دانت نہیں گاڑے۔ انھوں نے اسے احترام سے مس کیا اور اسے جلائے یا جھلسائے بغیر اپنے غلاف میں لے لیا۔ تسکین اور ذلت اور دہشت کے ساتھ اسے معلوم ہوا کہ وہ بھی محض ایک شبیہ تھا جسے کسی اور نے خواب میں دیکھا تھا۔
(آج: پہلی کتاب، ۱۹۸۱)
http://www.adbiduniya.com/2015/08/aaj-magazine-first-book-1981.html