امریکہ میں موجود دو خواتین لکھاریوں سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا ہوں ۔ ایک Yale یونیورسیٹی میں قانون کی پروفیسر ایمی چو اور دوسری ، ایک این جی او “لوکل فیچرز” کی بانی اور ڈائریکٹر ، ہیلینا نوربرگ ہوج ۔ اگر میں نے اپنی باقی زندگی امریکہ میں ہی گزاری تو یقیناً میں ہیلینا کی اس آرگنائزیشن “لوکل فیچرز” کا وولنٹیر ہوں گا ۔ ایملی چو کے نسلوں کے بیانیہ پر میں پہلے ہی بہت دفعہ لکھ چُکا ہوں ، ایملی چو کے tribal world کے نظریہ کے مطابق دنیا امن میں صرف تب رہ سکتی ہے اگر نسلوں کے مطابق ان کا سیٹلمنٹ ہو اور ان کو دربدر نہ کیا جائے ۔ ہر کوئ اپنی پیدائش کی جگہوں پر آباد رہے ۔ بلکل قرآن شریف والی آیت کے “ہم نے آپ کو قبیلوں اور نسلوں میں اس لیے بنایا کے شناخت رہے “کسی نسل کو کسی دوسری نسل پر برتری یا فوقیت والا معاملہ نہیں ۔
ہیلینا کا فارمولا بھی بلکل وہی ہے ۔ ہیلینا مادہ پرستی اور گلوبالائزیشن کی شدید مخالف ہے ۔ ہیلینا نے چین اور پاکستان کے درمیان ہندوستانی قبضہ کے علاقہ لداخ میں رہنے کا فیصلہ کیا ۔ لداخ ۴۷ کی پارٹیشن میں جموں کشمیر کا حصہ بن کر ہندوستان کے قبضہ میں آ گیا ۔ یہ کر اکرم سلسلہ کے سیاچن گلیشئیر سے لے کر ہمالیہ تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہاں تبت اور انڈین آرین نسل کے لوگ آباد ہیں ۔ ہیلینا کے نزدیک جب یہاں لداخ تک پہنچنے کے لیے کوئ سڑک نہیں تھی تو یہ جگہ جنت تھی ۔ ہندوستان نے پاکستان سے سیاچن گلیشئیر پر چپکلش کے بعد اس تک پہنچنے کے لیے سڑک بنا دی جس نے لداخ کی اوریجنل بیوٹی کو تباہ و برباد کر دیا ۔ وہاں اب کنکریٹ کی بے تحاشا عمارتیں ہیں ، اور دھواں چھوڑنے والی ہزاروں گاڑیاں ، آبادی لاکھوں میں جہاں پہلے صرف چند ہزار لوگ موجود تھے ۔ ہیلینا نے سڑک بننے سے پہلے والا لداخ ، آباد کیا تھا اور اس کے مزے اُٹھائے تھے وہ پچھلے پچاس سال سے وہاں جا رہی ہے ۔ اس جگہ کا اپنا نیچرل فلیور اینجوائے کرنے اور ان لوگوں کو سکھانے کے یہیں رہو قدرت کے ساتھ زندگیاں وابستہ رکھو ۔ مجھے اس سے پاکستان کا علاقہ کافرستان یاد آ جاتا ہے ۔ کلاش ویلی ابھی بھی صرف جیپ پر جایا جا سکتا ہے اور وہ یونانی نسل کے لوگ جو اسکندر کی فوج سے ادھر ہی رہ گئے تھے دو ہزار سال سے زیادہ ہو گئے ادھر ہی رہ رہے ہیں اپنے اسی وقت کے رسم و رواج کے مطابق ۔ کھیتی باڑی سے گزارا ۔ طالبان بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گو کے افغانستان کی سرحد کے بلکل ساتھ ۔ میں ان کے ساتھ اکثر جا کر رہتا ہوں اور قدرتی زندگی کے لُطف اُٹھاتا ہوں ۔ بہت مزہ آتا ہے ۔ بہت سارے روحانیت کے اسکالر مستقبل میں بلکل اسی طرح کی زندگیوں ہی کا مشورہ دیتے ہیں اور خود بھی اس طرح کی جگہوں پر ڈیرے لگائ بیٹھے ہیں ۔ جن میں راشا، ہراری ، ٹولے وغیرہ ۔ یہ زندگیاں اصل ہیں اور قدرتی ہیں ۔ بلکل نیچرل ، قدرت کے ساتھ بغیر کسی بھی ملاوٹ کے لہازا بہت زبردست ۔
راشا نیپال میں ہمالیہ کی فُٹ ہل پر رہتی ہے اسے کسی نے پوچھا کے کیا امریکہ جہاں تم رہتی تھی وہاں روحانیت سے لنک ممکن نہیں تھا؟ اس نے بہت زبردست جواب دیا کے وہاں اینٹینا لگانا پڑتا تھا ۔ یہی میرا حال ہے ۔ میں یہ بلاگ لکھتے ہوئے بار بار اپنی کھڑکی سے وہ گھنا جنگل دیکھتا ہوں جو کبھی جنگل نظر آتا ہے اور کبھی کوئ جنت کا ٹُکڑا ۔ غضب کی خاموشی اور انتہا کا رقص ۔ لگتا ہے میں کسی اور دنیا میں آ گیا ہوں ۔ یہاں امریکہ میں ایک وُوفر نام کی آرگنائزئشن ہے جو organic پھل سبزیوں اور کاشت کو فروغ دیتی ہے ۔ میں نے اس کے ساتھ ایک مہینہ کام کیا بہت زبردست ایجینڈا ۔ میں نے دیکھا اکثر ینگ فیمیلئز ووفر پروگرام میں جُڑی ہوئ ہیں ۔ ایک جوڑا جس کے تین بچہ کوئ انہوں نے فون یا کمپیوٹر نہیں رکھا ہوا ۔ جوڑا خود ہارورڈ اور پرنسٹن سے پڑھا ہوا لیکن ماڈرن ایجوکیشن کا شدید ناقد اور بچوں کو نیچر کے ساتھ گُرو کروانے کا منصوبہ۔ اسی واسطے میں نے کہا کے روحانی انقلاب امریکہ سے ہی آئے گا ۔ پاکستان میں میں نے ۲۰۰۴ میں اس طرح کا ادارہ چکوال کے مضافات میں بنوایا اور ۲۰۱۵ میں اوکاڑہ میں لیکن پاکستانی لوگوں میں شوبازی ، جعلسازی اور تقلید نے بلکل نسلوں کو تباہ کر دیا ہے ایسا پروگرام چلنا بہت مشکل ۔ میں بری طرح ناکام ہوا اُلٹا اوکاڑہ والی لڑکی جو میری تنظیم چلا رہی تھی اس نے جب میں امریکہ آیا میرے لاہور والے گھر پر قبضہ کر لیا ۔
ایک مشہور امریکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے ہیلینا نے خوشی کی کچھ اس طرح تعریف کی ؛
Happiness is a deep seated sense of connection with one’s fellow beings and the earth.
گلوبلائزئشن اور ٹیکنالوجی کی یلغار سے یہ کنیکشن ہم کھو بیٹھے ہیں اور نتیجتا سب بیمار ، سارے ہی پریشان اور چاروں طرف دُکھ ہی دُکھ ۔ جب ہیلینا سے اس کنیکشن کا مزید پوچھا گیا تو اس نے کہا ؛
It means to humans to favour love over hate, empathy over selfishness and cooperation over competition ..
کیا زبردست اور دل کی بات ہیلینا نے کر دی ۔ میرا دل جیت لیا ۔ ہیلینا نے باقاعدہ اس زندگی جینے کا ایک فارمولا دیا ہے جو اس کی آرگنائزئشن Local Features باقاعدہ پروموٹ کرتی ہے ۔ اس نے ابھی بھی لداخ پر فوکس رکھا ہوا ہے گو کے اسے بھی وہاں مادہ پرستی اور کمرشلائیزئشن نے بہت بری شکست دی ۔ آج سرینگر میں بھی مادہ پرستی اور کمرشالائزئشن کی یلغار نہ ہوتی تو کشمیر نہ تو ڈوگرا حکمرانوں کے قبضہ میں آتا اور نہ بعد میں ہندوستان کے ۔ کشمیریوں کے دل کشمیر کے ساتھ ہیں زہن اور زندگیاں مادہ پرستی کی ۔ اس وجہ سے آزادی کی جنگ جیتنا بہت مشکل ۔
ہیلینا کہتی ہے کے دونوں کا بیلینس ڈی سینٹرالائزئشن اور لوکلائزیشن سے ممکن ہے ۔ بلکل مشرف کے ڈیولوشن پلان کی طرح والا ۔ اس کو بھی چوہدریوں اور شریفوں نے نے اپنی تھانیداری ختم ہونے پر چلنے نہیں دیا ۔ ہیلینا اس کے حل کی مثال ایک لداخی لفظ سیمبا سے دیتی ہے ۔ میں نے جب اپنے بلے کان نام سِمبا رکھا تھا تو ڈزنی ورلڈ کا چھوٹا شیر زہن میں تھا اور اب دوسرا تبت زبان کا روحانی لنک ، سیمبا ، لداخی زبان میں ، ہیلینا کے نزدیک ؛
Represents a blend of head and heart ..
قدرت سے ہماری جنگ بہت بھیانک موڑ اختیار کر گئ ہے ۔ اس سے نکلنا انتہائ ضروری ہو گیا ہے وگرنہ روز لاکھوں لوگ بھوک ، ننگ ، لڑائ اور بیماری سے مرتے رہیں گے ۔ میں نے جب لائبریری کی گاؤں میں آفر دی تو کوئ درجنوں نوجوان بچے بچیوں نے جائن کرنے کا کہا ۔ ہر ایک نے کہا کے اس کے گاؤں میں لائیں ۔ پاکستان کے نوجوانوں پر مجھے فخر ہے ان کے ساتھ ملک میں ایک قدرتی زندگیوں کا انقلاب ہم سب ضرور لائیں گے ۔ صرف سوچ درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمت پکڑنی ہے ۔ مریم اور بلاول آپ کو نگلنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ۔ چائس آپ کی ہے ؟ میں آپ کے ساتھ اس زندگی میں قدرت کے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہوں ۔ وگرنہ امریکہ کا کوئ گاؤں زندہ باد ۔ اللہ تعالی آپ سب کا حامی و ناصر ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...