میرا بُنیادی ذریعۂ نوِشتار زبانِ اُردو ہے، اور اُردو لکھتے وقت میرا ایک اُصول ہے جِس پر مَیں سختی سے کاربَند ہوں اور وہ یہ ہے کہ مَیں انگریزی الفاظ کے استعمال سے حتّی المَقدُور اِجتِناب کرتا ہوں۔ انگریزی الفاظ و اصطلاحات کے ایسے مُعادِل و مُتَبادِل ڈھونڈنے کے لیے، جو خُوب ہوں اور اُردو میں استعمال کیے جا سکتے ہوں، مَیں اوّلاً فارسیِ شیریں اور ثانِیاً عرَبی کی جانب مُراجعت کرتا ہوں۔ اگر اُن دو زبانوں میں مجھ کو ویسی مطلوب و دل خواہ اصطلاحیں نظر آ جائیں جو اُردو میں آسانی سے یا ذرا سی مشقّت سے استعمال کی جا سکتی ہوں تو میں بے مُحابا اُن کو استعمال کرتا ہوں۔ لیکن اگر فارسی و عربی بھی حاجت کو برطرف نہ کر سکیں تو میں اُردو کے ذخیرۂ الفاظ کی مدد سے اپنے فہم کے مُطابق خود سے کوئی نئی اصطلاح گھڑنے کی کوشش کرتا ہوں۔
فارسیِ شیریں کی جانب مُراجعت کرنے کا سبب تو واضح ہے کہ یہ ہمارے اباسِینی جُغرافیے کی سابِق نو صد سالہ تاریخ کے دَوران یہاں کی سرکاری اور غالِبترین زبان تھی، اور یہاں کی اقوام کے درمیان زبانِ رابطہ تھی، اور جُملہ تدریسی و کاغذی و انتظامی و حکومتی کارروائیاں فارسی میں ہُوا کرتی تھیں، اور ہمارا وہ نو صدیوں کا فارسی ماضی، شُمالی پنجاب اور شُمالی سرزمینِ اباسِین کے جالِبِ توجُّہ ویدی سَنْسْکْرِت ماضی کی مانند کوئی قبلِ مسیح سے بھی ہزار دو ہزار سال قبل کا ماضی نہیں ہے اور نہ یہ میلادِ مسیح کے آس پاس کے ادوار کے عظیمُالشأن گندھاری ماضی کی طرح اِس زمانے میں فقط تاریخی و دستاویزاتی و عِمارتی یادگاروں اور عجائبخانوں تک محدود ہے، بلکہ ابھی نوّے سال قبل تک ہماری سرزمین سے علّامہ اِقبال جیسے فارسیسرایان وَ فارسینویسان اُٹھتے رہے تھے، اور ہنوز ہم اُس زبان کے ساتھ ایک زِندہ ربطِ اُستُوار رکھتے ہیں۔ لہٰذا خواہ ہم کوئی بھی قَومی یا لِسانی پسِ منظر رکھتے ہوں، ہم سب اباسِینیوں/پاکستانیوں کو کِسی بھی دیگر زبان سے زیادہ فارسی کے الفاظ و تراکیب شِناسا محسوس ہوتی ہیں، اور ہماری ہمہ زبانوں میں، خُصوصاً اُردو میں، فارسی کے الفاظ سب سے بیشتر اور سب سے زیادہ راحت کے ساتھ آ کر رائج ہوتے آئے ہیں۔ نیز، ہم کو یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اِسی کِشوَرِ پاکستان کے دس لاکھ کے قریب پاکستانی شہروَندان (سِٹِیزَنس) فارسی بولتے ہیں، اور یہ مُلک فارسیگویوں کا بھی وطن ہے۔ عربی کی جانب مُراجعت کا سبب بھی یہی ہے کہ یہ زبان ہمارے دین اِسلام کی زبانِ اوّل ہے، اور ہم تَوَلُّد کے وقت سے اُس کو ہر روز سُنتے اور دیکھتے آئے ہیں اور ہمارے کان و ہماری آنکھیں عربی سے بہ خوبی آشنا ہیں، اور اگرچہ کہ ہم کو کوئی عربی لفظ سمجھ میں نہ آ رہا ہو، تب بھی ہم اُس کے لیے ویسی اجنبیت محسوس نہیں کرتے جیسی برائے مثال کِسی جاپانی یا چینی یا تامِل لفظ کے لیے، اور پاکستان میں کِسی بھی دیگر غیرعرب مُلک سے زیادہ عربیدانان مَوجود ہیں جِن کی تعداد دسیوں لاکھوں میں ہیں۔ علاوہ بریں، ہماری جو سابِق سرکاری و نوِشتاری زبان فارسی تھی وہ بھی شدیداً عربی کے زیرِ تأثیر تھی، جس کی وجہ سے خود فارسی کے ذخیرۂ الفاظ کا نِصف حِصّہ عربی الفاظ پر مُشتَمِل ہے، جو بہ ذریعۂ فارسی ہماری پاکستانی زبانوں میں بھی آ گئے ہیں اور کئی صدیوں سے حتّیٰ عام گُفتار میں بھی رائج ہیں۔ یعنی عربی کے ساتھ بھی ہم جِس قوی رِشتے میں بندھے ہیں وہ ہمہ اشخاص پر ظاِہر ہے۔ یہ دو زبانیں ہماری مِلّت کے لیے بِعَینِہِ وہی حیثیت رکھتی ہیں جو انگریزوں/انگریزیگویوں اور دیگر یورپی مِلّتوں کے لیے یونانی و لاطینی رکھتی ہیں۔ فارسی و عربی کی ہمارے اندر اِس قدر زیادہ سرایت ہے کہ ہم چاہ کر بھی اُن کو خود سے جُدا و دُور نہیں کر سکتے۔ اِن سب وُجوہات کے علاوہ ایک اہمتر وجہ یہ ہے کہ دونوں زبانیں گُذشتہ صدی میں کامیابی کے ساتھ مُعاصِر جدید دَور میں داخِل ہو چُکی ہیں اور عِلم و دانِش کی زبانیں بن چُکی ہیں اور فی زمانِنا عالیتر سطح کی دانِشگاہی تعلیم و تدریس بھی اُن زبانوں میں دی جا رہی ہے۔ اُن دونوں زبانوں کی حِفاظت، تندُرُستی، اِرتِقاء، مِعیارسازی و عَصریسازی کے لیے، اور مُعاصِر احتیاجات کو پُورا کرنے اور زبان کی کمیوں کو دُور کرنے اور وضعِ اِصطِلاحاتِ جدیدہ کے لیے حُکومتی حمایت میں مُقتَدِر اِدارے برپا ہیں جِنہوں نے گُذشتہ صدی میں مذکور دو زبانوں کو عصرِ کُہَن سے عصرِ نَو میں لانے میں اہم اور مُؤَثِّر کِردار ادا کِیا ہے۔ اِس ایک صدی کی مُدّت میں ہزاروں اِصطِلاحیں وضع ہو کر دونوں زبانوں کا جُزء بن چُکی اور رواج پا چُکی ہیں۔ اور اگر فارسی و عربی (و تُرکی) کی مُعاصِر نثرنویسی اور عِلمی و صحافتی زبان پر نِگاہ دَوڑائی جائے، تو اُن کے مُقابلے میں اُردو اور ہماری دیگر پاکستانی مِلّی زبانیں بدقسمتی سے تہیدست و کمبِضاعت محسوس ہوتی ہیں۔
مُعاصِر دَور میں اُردو کو جو بیماریاں لاحِق ہیں اُن میں ایک بُزُرگتر بیماری یہ ہے کہ اُردو میں کوئی نیا لفظ یا اصطلاح جوڑنے یا بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ انگریزی اصطلاحوں کو مِن و عَن قبول کر لیا جاتا ہے، اور نویسَندوں نے ہر انگریزی لفظ اور فِقرے کو سبز بتّی دِکھائی ہوئی ہوتی ہے اور وہ بےدریغ انگریزی الفاظ سے اپنی تحریروں کو بھرتے ہیں، حتّیٰ کہ انگریزی الفاظ ہی کو درمیان درمیان میں جگہ جگہ لاطینی رسمالخط میں لِکھا ہوتا ہے جو میری رائے میں ایک کریہہ منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں۔ ہمارے عام مردُم کا حال تو یہ ہے کہ اُن کی نِگاہوں میں ہماری زبانوں کی ترقّی و اِرتِقاء و ترویج کا مِقیاس فقط سستے بےتُکے مُشاعرے ہیں، اور نثری زبان کے دامنِ تہی کو پُر کر کے اُس کو اِس قابِل بنانا کہ وہ عصری و دانِشی تقاضوں اور اِحتِیاجوں کو برآوردہ کر سکے اِک ایسا کام ہے جِس کو کوئی شخص درخورِ اِعتِناء نہیں سمجھتا۔ اور جو اِدارے (مثلاً مُقتَدِرۂ مِلّی زبان وغیرہ) ہماری زبانوں کی ترقّی و ترویج کے نام پر بنے ہوئے ہیں اور جِن کی ذِمّہداری ہے کہ وہ ہماری پاکستانی مِلّی زبانوں کی نِگہداشت کریں اور اُن کے نقائص کو دُور کر کے اُن کو قوی و توانا و باصلاحیت نوِشتاری زبانیں بنائیں، وہ اپنی ذِمّہداریوں سے عُہدہ برآ ہوتے کہیں نظر نہیں آتے۔ یا تو شاید اُن کے پاس اُتنے اِختِیارات و وسائل ہی نہیں ہیں کہ وہ کچھ اثر ڈال سکیں، یا پھر وہ بھی زبانوں کی پیشرفت و اِصطِلاحسازی، اور اُن کو تجدُّد کی راہ پر لا کر پُرقُدرت زبانیں بنانے کی آمادگی نہیں رکھتے۔ در حالے کہ ایران میں فارسی کے سرکاری اِدارے «فرهنگستانِ زبان و ادبِ فارسی» نے اِسی ایک صدی کے دَوران فارسی کے ارتقاء و غنیسازی کی راہ میں بہت نیکُو خِدمات انجام دی ہیں، اور اُس زبان کو عِلم و دانِش کا وسیلہ بن سکنے والی عصری زبان بنانے کے لیے کئی کارہائے خطیر کا اِجرا کِیا ہے، جِس کا ثمر یہ ہے کہ اِس عہد میں فارسی عصری علوم کی تدریس و ترسیل و اِنکِشاف کی صلاحیت رکھنے والی جدید دُنیا کی ایک توانا زبان بن چُکی ہے، اور مُسَلسَل پیش رفت کی راہیں طَے کر رہی ہے اور آگے بڑھ رہی ہے۔
دِیروز جب مَیں پاکستان کی دوسری سب سے بڑی زبان پشتو کو پڑھنے کی مَشق کرنے کے لیے ایک پشتو اِقتِباس کو اُردو میں ترجمہ کر رہا تھا تو مُطَّلِع ہُوا کہ پشتو میں "گلوبل وارمِنگ" کے لیے ایک پشتو اِصطِلاح مَوجود ہے جو پشتو کی نوِشتاری و صحافتی زبان میں بھی رائج ہے۔ لیکن پشتو کے برخِلاف، اُردو میں انگریزی اصِطِلاح "گلوبل وارمِنگ" ہی استعمال ہوتی ہے، اور شاید ہنوز کِسی کی توجُّہ اِس جانب نہیں گئی ہے کہ اُس کا اُردو مُتَبادِل ڈھونڈنے کی کوشش کرے، حالانکہ ذرا سی کوشِش سے اُس انگریزی اصطلاح کی جگہ پر رائج کرنے کے لیے کوئی اُردو مُتَبادِل ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ آئیے اُس بارے میں ذرا تأمُّل کرتے ہیں۔
"گلوب" جس شکل کو کہتے ہیں اُس کے لیے اُردو و فارسی و عربی و تُرکی میں لفظِ "کُرَہ" موجود ہے اور "کُرۂ ارض" اُردو میں ایک عام رائج ترکیبِ اِضافی ہے, اور زمین/ارض کو "کُرَہ" اِسی لیے پُکارا جاتا ہے کیونکہ وہ "گلوب" کی شکل میں ہے۔ جبکہ "گلوبل" کا معنی ہے "گلوب سے منسوب، گلوب سے نَسبَت رکھنے والا"، یعنی اُس ثانیالذِکر لفظ کے لیے بھی ہم آسانی سے "کُرَئی" کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں یعنی "کُرہ سے منسوب"۔ عربی و فارسی میں اُس معنی کے لیے "کُرَوِی" لفظ موجود ہے، لیکن جب اُردو میں ہمارا کام "کُرَئی" سے نِکل سکتا ہے تو ہم کو عربی کے قواعد کی پَیروی میں لفظ کو پیچیدہتر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اِستانبولی تُرکی میں "گلوبل" کو "küresel" کہتے ہیں، اور یہ بھی وہی معنی دے رہا ہے جو "کُرَئی" میں مُضمَر ہے، یعنی "کُرَہ سے نِسبَت رکھنے والا"۔
اب جبکہ "گلوبل" کا مسئلہ حل ہو گیا تو آئیے "وارمِنگ" کے لیے کوئی اُردو مُعادِل پانے کی کوشِش کریں۔ اِس معنی کے لیے ہم 'حرارت' یا 'گرمی' کو اِس لیے استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ "حرارت/گرمی" میں ثبات و عدمِ تغئیر کا معنی ہے، تدریجی اور مُسَلسَل افزُونی کا نہیں۔ در حالے کہ ہمارا مقصود ایک ایسی اِصطِلاح ڈھونڈھنا ہے جو کُرۂ زمین کے مُسَلسَل گرم ہوتے رہنے کا معنی ادا کر سکے، یعنی جو یہ بتائے کہ گرم ہونے کا عمل جریان میں ہے یعنی جاری ہے، ایک بار وُقوعپذیر ہو کر رُک نہیں گیا ہے۔ "حرارت/گرمی" سے ہم "وارمتھ" کا معنی تو نِکال سکتے ہیں، "وارمِنگ" کا نہیں۔ اور یہ چیز بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عِلمی زبان بنانے کے لیے یہ لازِم ہے کہ اصطلاحوں کی ایک مخصوص، مُعیَّن اور عَین مُطابق تعریف ہو۔ ایسا نہ ہو کہ ایک ہی اصطلاح مختلف معانی میں بروئے کار لائی جا رہی ہو جو معنی کے وُضوح میں مدد کی بجائے اُلٹا اِلتِباس پیدا کر رہی ہو۔ اُردو میں چونکہ عالِموں اور کارشِناسوں کی سرپرستی میں اِصطلاحسازی کے لیے کوئی کام نہیں ہو رہا، اِس لیے اُردو میں اِس وقت ایسی کئی اصطلاحیں رائج ہیں جو اُلجھن کا شکار کرتی ہیں اور پورا پورا ٹھیک معنی بیان کرنے سے قاصِر رہتی ہیں اور جِن میں اِصلاح کی حاجت ہے۔
اِس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہم فارسی سے مُستَعار ایک لاحِقے "شَوِی" سے مدد لے سکتے ہیں جو فارسی مصدر "شُدن" (ہو جانا) سے مُشتَق ہے۔ اُسی "شُدن" سے مُشتَق صِفتِ فعلیِ زمانِ ماضی "شُدہ" ہم اُردو میں فراوانی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں، مثلاً جب کہا جائے کہ فلاں شخص "اِزدِواج شُدہ" ہے تو یہ معنی ہوتا ہے کہ فلاں وہ شخص ہے جِس کا اِزدِواج ہو چُکا ہے، یعنی وہ ترکیب اِزدِواج کے وُقوعپذیر ہو چُکنے پر دال ہوتی ہے۔ اور، اُسی طرح، ترکیبِ "گُمشُدگی" کِس چیز کے گُم ہو چُکنے کا معنی ظاہر کرتی ہے۔ لیکن اگر ہم یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ کوئی ایک عمل فقط ایک بار ماضی میں انجام نہیں پایا ہے، بلکہ دائماً ہوتا ہے، یا حالِ حاضِر میں جاری ہے، تو کیا کِیا جائے؟ جواب ہے کہ وہاں "شَوِی" ہمارے کام آ سکتا ہے جو شُدن کے اِسمِ فاعِل 'شَوَندہ' (ہونے والا، ہو جانے والا) کے مُخفَّف "شَو" سے بنایا اِسمِ عمل ہے، اور حال کا زمانہ رکھتا ہے۔ اُس لاحِقے کی مدد سے ہم کِتنے ہی نئے الفاظ و اصطلاحات مُختَرِع کر سکتے ہیں جو اُردو کی بیانگری کی صلاحیت اور اُس کی پُرمعنائیت کو بڑھا سکتی ہیں۔ قِیاس کرنے کے لیے یہ بھی مُلاحظہ کیجیے کہ اُردو میں فارسی کے مصدرِ "کردن" سے مُشتَق کردہ، کُنَندہ، کُن، کُنی وغیرہ رائج ہیں، لیکن کُنی جیسا ہی شَوِی اُردو میں رائج نہیں ہے، اور مَیں یہ باور رکھتا ہوں کہ شَوِی کو بھی اُردو میں رائج ہونا چاہیے۔ وسطی ایشیائی تاجِکِستانی فارسی میں "شَوِی" لاحقے والے کئی الفاظ رائج ہیں، مثلاً ویرانشَوِی، تباہشَوِی، بَدَلشَوِی، گَرمشَوی وغیرہ، اور اُس میں زبانِ اُردو کے لیے ایک خوب نمونۂ کار موجود ہے جِس کی پیروی کر کے وہ معنائی ادائیگی کے لِحاظ سے قویتر و غنیتر ہو سکتی ہے۔
"شُدہ"، "شُدگی" اور "شَوِی" کے مابین تفاوُت کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔ ہم بارہا پڑھتے آئے ہیں کہ اُردو، خُصوصاً کلاسیکی ادبی اُردو، ایک پَرشیَنائِزڈ، یعنی 'فارسیشُدہ' زبان ہے۔ اُردو کی اُس 'فارسیشُدگی' کے بارِز نمونے ہم میرزا غالب اور علّامہ اِقبال کی اُردو شاعری میں ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں۔ اب اگر میں کہنا چاہوں کہ میں اُردو کی مزید پَرشیَنائِزیزشن کا خواہاں ہوں، تو مَیں پَرشیَنائِزیزشن کی بجائے یہاں "فارسیشَوِی" کی اِصطِلاح استعمال کر سکتا ہوں، یعنی: مَیں اُردو کی مزید 'فارسیشَوِی' کا خواہاں ہُوں۔ اب میں جِس عمل کا خواہاں ہوں اُس میں زمانِ حال، تسَلسُل، اِستِمرار، اور دوام کے معنی آ گئے ہیں۔ بہ عِبارتِ دیگر، "-شَوِی" یہ معنی دے رہا ہے: "- ہونے کا عمل"۔
لہذا سُطُورِ بالا میں جو بحث کی گئی ہے اُس کا یہ نتیجہ نِکلتا ہے کہ "گلوبل وارمِنگ" میں جو "وارمِنگ" ہے اُس کا معنی "گرمشَوِی" سے نِکل رہا ہے کیونکہ دُنیا کے گرم ہونے کا عمل بہ تدریج اور لمحہ بہ لمحہ جاری ہے، اور میری نظر میں اُردو میں "گلوبل وارمِنگ" کے لیے "کُرَئی گَرمشَوِی" کی اصطلاح مُناسب ہے، اور اُردو کی فارسیمائل فِطرت سے بھی ہمآہنگ ہے، اور اِس لائق ہے کہ ہم اُس کو اُردو میں زیادہ سے زیادہ استعمال کر کے عام رواج و تداوُل میں لے آئیں۔
اگر کسی دوست کے ذہن میں "گلوبل وارمِنگ" کے لیے کوئی بہتر مُتَبادِل ہو تو لُطفاً اُس سے آگاہ کرے! باہمی مَشوَرے میں برَکت ہوتی ہے، لہٰذا اِس سلسِلے میں اُردونویسوں کو اپنی مُشتَرَک نوِشتاری زبان کی بہبُود کے لیے ایک دوسرے کا یاور و مُشاوِر ہونا چاہیے، اور ساتھ ہی قلم و کِتابت سے جُڑے ہم تمام پاکستانیوں کو اپنی پاکستانی مِلّی زبانوں کی پیشرفت و تَوسیع و غنیسازی کے لیے ہمیشہ فِکرمند اور کمربستہ رہنا چاہیے، کیونکہ ہماری پاکستانی زبانوں کی ترقّی پاکستان اور پاکستانیوں کی ترقّی ہے۔