(Last Updated On: )
آج سے کم وبیش ایک دہائی قبل 2011 میں کپتان نے لاہور کے جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک گیند سے دو وکٹیں اڑاوں گا جس پر چوہدری نثار نے طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس کو کرکٹ کی اتنی بھی سمجھ نہیں ہے کہ ایک گیند سے دو وکٹیں نہیں گرتیں پتہ نہیں لوگ اس کا اعتبار کیوں کررہے ہیں ۔اس کے بعد چکوال میں تحریک انصاف کا جلسہ ہوا جس میں کپتان نے دوران تقریر چوہدری نثار کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ جب 9 کھلاڑی آوٹ ہوجاتے ہیں تو کریز پر دو کھلاڑی بچتے ہیں جس میں سے جب ایک آوٹ ہوتا ہے تو دوسرا بھی اس کے ساتھ پویلین میں واپس جاتا ہے ۔ اب خدا جانے چوہدری نثار اس بات سے مطمئن ہوئے یا نہیں مگر ملتانی پیر گیارہویں نمبر پر آنے پر شکوہ کررہے ہیں صرف وہی نہیں بلکہ وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے سینیٹ اجلاس میں کہا کہ بارہواں کھلاڑی بھی یہاں موجود ہے جواب دینے کے لیے۔ان کا کہنا تھا کہ میں بارہواں کھلاڑی ہوں اور کارکردگی میں بھی بارہویں نمبر پر آیا ہوں
کپتان الیون کی کارکردگی تو خیر جیسی بھی رہی مگر پھر بھی کچھ قسمت کے دھنی حسن کارکردگی پر سرٹیفکیٹ لے اڑے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اس پوری ٹیم کے کپتان کے پاس موجود اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی وزارت کی کارکرددگی سولہویں نمبر پر ہے ۔عوام سرپکڑے بیٹھی ہے کہ ایسا کون سا تیر مارلیا کہ دس وزارتوں کی تعریف کی جارہی ہے ۔ستم تو یہ ہے کہ ریاست مدینہ کی وزارت مذہبی امور بھی بہتر کارکردگی نا دکھا سکی۔جبکہ وزارت صنعت و پیداوار کی بہتر کارکردگی شائد فصلوں کو دی جانے والی کیمیائی کھادوں کی قیمتوں میں صد فیصد اضافہ کی وجہ سے ہوئی ہے ۔
چلیں یہ تو ٹھیک ہوگیا کہ جس نے بہتر کارکردگی دکھائی اس کو تعریفی اسناد مل گئیں۔اس پر کپتان نے تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سزا اور جزا کے بغیر کوئی سسٹم کامیاب نہیں ہوسکتا تو اب 51 رکنی کابینہ میں جو باقی ماندہ ناقص کارکردگی والے وزرا ہیں ان کا کیا کرنا ہے ۔لگے ہاتھوں کپتان ان کی بھی سرزنش کرتے جاہیں اور وزارتیں اہل لوگوں کو دے کر ان سے بہتر کام لیں ۔اگر یہی وزیر براجمان رہے تو کارکردگی کیسے بہتر ہوگی۔شوکت ترین کی ناقص کارکردگی کا ڈھنڈورا تو اپوزیشن پیٹ رہی تھی اب اس کی ناقص کارکردگی کی تصدیق حکومت نے خود کردی ہے۔
بات اگر کارکردگی کی چل رہی ہے تو لگتا ہے اپوزیشن بری کارکردگی دکھاتے دکھاتے اب اچھی کارکردگی دکھانے کا فیصلہ کرچکی ہے ۔پی ڈی ایم نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا باضابطہ اعلان کردیا ہے ۔اس ضمن میں مولانا فضل الرحمن کا آصف علی زرداری سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے اس کے بعد مولانا کی چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہیٰ سے ملاقات ہوئی ہے جس میں مولانا نے چوہدری برادارن کے سامنے دو نکاتی ایجنڈا رکھتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کے لیے تعاون مانگ لیا۔اس ضمن میں مولانا نے چوہدریوں کو بتایا کہ شہباز شریف بھی ان سے ملاقات کریں گے ۔
زرائع کے مطابق تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں ن لیگ نے پیپلزپارٹی کو وزارت عظمی کی پیشکش کی ہے جبکہ پی پی پی نے ن لیگ سے وزیراعظم بنانے کا مشورہ دیا ۔مگر کم مدت کی وزارت عظمی کے لیے دونوں سیاسی جماعتیں تیار نہیں ہوئیں جس پر زرائع کے مطابق اتفاق ہوا کہ وزارت عظمی مسلم لیگ ق کو دے دی جائے ۔اور ہوسکتا ہے کہ شہبازشریف کی چوہدریوں سے ملاقات اسی سلسلے میں ہو۔بہرحال جو بھی ہے اس بار تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بڑی تیزی کے ساتھ کام ہورہا ہے ۔آئے دن سیاسی ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے ۔اگر حکومتی اتحادی جماعتوں میں سے کسی نے حامی بھرلی تو شائد پھر عدم اعتماد کی بھی ضرورت نا پڑے تاہم فی الوقت کسی حکومتی اتحادی کو ٹوٹنا ازحد ضروری ہے ۔وگرنہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے نمبرز پورے کرنا قریبا ناممکن ہے۔
اگر تحریک عدم اعتماد کے لیے نمبرز پورے نہیں ہوپاتے تو بھی حکومت کے لیے مشکلات کم نہیں ہوں گی ۔کیونکہ پاکستان پیپلزپارٹی 27 فروری سے لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کرچکی ہے اور مارچ میں پی ڈی ایم لانگ مارچ کرئے گی اور 23 مارچ کو اسلام آباد پہنچنے کا اعلان کرچکی ہے ۔ایسے میں اگر پی ڈی ایم نے دھرنے کا اعلان کردیا تو حکومت کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوجائےگا۔اگر ایسا ہوا اور معاملہ پی ڈی ایم کے دھرنے کی طرف اور اس پر اگر حکومت نے تحمل سے کام نہ لیااور کوئی غلطی کردی تو معاملات مزید بگڑ جائیں گے۔
طے ہوگیا کہ رواں سال حکومت کا سکون سے نہیں گذرنے والا اور اپوزیشن فیصلہ کرچکی ہے کہ کپتان کو ہٹانا ہے اور مزید سکون سے حکومت نہیں کرنے دینی ۔مکافات عمل ہی کہیں کہ جو کچھ کپتان نے سابقہ حکومت کے ساتھ کیا تھا وہی کچھ کپتان کے اپنے ساتھ ہونے جارہا ہے ۔لانگ مارچ، دھرنا اور لاک ڈاون جیسے آپشنز اگر اپوزیشن استعمال کرتی ہے تو کپتان گلہ بھی نہیں کرسکتا کہ یہی سب کچھ وہ کرچکا ہے ۔
اس سارے سیاسی منظر نامے کو دیکھ کر جو سوال دل میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ایمپائر کا فیصلہ کیا ہوگا اور یہی سوال ایک صحافی نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے کیا تو ان کا جواب بڑا زومعنی تھا ۔ان کا جواب تھا کہ ایمپائر ہوتا وہی ہے جو نیوٹرل ہو ۔تو کیا واقعی ایمپائر نیوٹرل ہے ۔اس کا اندازہ آنے والے چند دنوں میں ہوجائے گا تاہم سیاسی معاملات بگاڑ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اپوزیشن اس بارکپتان والا داو آزمانے کا فیصلہ کرچکی ہے یعنی ایک بال پر دو وکٹیں ۔اب یاتو کپتان یا پھر اسپیکر قومی اسمبلی ان میں سے جو آوٹ ہوگا دوسرا اس کے ساتھ پویلین واپس جائے گا۔اگر اسپیکر گیا تو اس بار گیارہواں کھلاڑی کپتان خود ہوگا۔