گلی ڈنڈا ہندوستان کا ۲۵ ہزار سال روایتی اور قدیم کھیل ہے۔ جو کہ موریہ دور سے کھیلا جارہا ہے۔ اس کھیل کو کھیلوں کا بادشاہ/ راجہ کہا جاتا ہے۔
یہ کھیل بھارت اور پاکستان کے علاوہ نیپال افغانستاں، بنگلہ دیش، سری لنکا،، ایران، کمبوڈیا لاوس، ترکی اور اٹلی میں بھی مقبول ہے۔ گلی ڈنڈے کو انگریزی میں، ٹپ کیٹ۔۔۔ سندھی میں لپا ڈگی،۔۔۔ نیپال مین ڈندی پالو،۔۔۔۔ اڑیا میں گلی ڈنڈا،۔۔۔ فارسی میں الک رولک، ۔۔۔ بنگالی میں ڈنگ گولی ۔۔۔۔ میراٹھی میں کاٹینڈو ۔۔۔ اور سرائیکی میں اتی ڈکر کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے مغرب مین کحیلے جانے والے کھیل مثلا ، کرکٹ، بیس بال اور سوفٹ بال کی اصل بھی " گلی ڈنڈا" ہے۔
گُلّی ڈنڈا بھاگ دوڑ والا دل چسپ ورزشی کھیل ہے۔ اس کے لیے کھلے میدانوں کی ہوتی ہے۔۔ شہر میں یہ کھیل گلیوں میں کھیلا جاتا ہے۔ یہ کھیل دن کی روشنی میں کھیلا جاتا ہے۔ کھیلنے کے لیے ایک گُلّی اور ایک ڈنڈے کی ضرورت پڑتی ہے۔
گلی ڈنڈا برصغیر کے کئی علاقوں میں کھیلا جاتا ہے۔ یہ ایک ڈنڈے اور ایک گلی کی مدد سے کھیلا جاتا ہے اور یہ کھلے میدان میں کھیلا جاتا ہے۔ کھلاڑیوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں۔
ڈنڈا کسی بھی جسامت کا ہو سکتا ہے۔ گلی بھی ڈنڈے کا ایک علاحدہ چھوٹا ٹکڑا ہوتا ہے جس کی لمبائی 9 انچ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ گلی کے دونوں سرے تراشے ہوۓ اور نوکدار ہوتے ہیں۔
اس کھیل میں گلی کے نوکدار حصے پر ڈنڈے سے مارا جاتا ہے گلی اوپر کو اچھلتی ہے اس اچھلتی ہوئی گلی کو پھر زور سے ڈنڈا مارتے ہیں جس کے نتیجے میں گلی بہت دور چلی جاتی ہے اگر کوئی مخالف کھلاڑی اس گلی کو ہـوا میں دبوچ لے یا اسے ایک خاص جگہ پر پھینک دے تو ڈنڈے سے گلی کو مارنے والے لڑکے کی باری چلی جاتی ہے اور اگلے کھلاڑی کی باری آجاتی ہے۔ کھیل شروع کرنے سے پہلے کھیل کے میدان میں ایک چھوٹا سا نالی نما گڑھا کھودا جاتا ہے جس کی چوڑائی ڈیڑھ انچ اور لمبائی 3 سے 4 انچ ہوتی ہے۔، گڑھا گُلّی کی شکل سے ملتا جلتا ہے، گلی اس یگڑھے پر رکھ کر ڈنڈے کی مدد سے اُچھالی جاتی ہے۔ کھیل میں دویا دو سے زائد کھلاڑی حصّہ لے سکتے ہیں۔ کھلاڑیوں کے اہل ہونے کا کوئی معیار مقرر نہیں، تاہم مضبوط جسم کا مالک ، زور دار ٹل لگانے او رگلی کو کیچ کرنے والے کھلاڑی کو سب اہمیت دیتے ہیں۔ اگر کھیل ٹیم کی صورت کھیلا جائے تو دونوں ٹیموں میں کھلاڑیوں کی تعداد برابر ہوتی ہے، مثلاً ایک طرف پانچ کھلاڑی ہیں، تو دوسری طرف بھی پانچ ہونے ضروری ہیں۔ ایک ٹیم جب کھیل شروع کرتی ہے تو اس کا پہلاکھلاڑی گُلّی کو گلی نما گڑھے میں رکھ کر ڈنڈے کی مدد سے زور سے اُچھالتا ہے۔ کھلاڑی کی کوشش ہوتی ہے کہ گُلّی اُچھل کر دور جائی تاکہ مخالف کھلاڑی ڈنڈے کا دُرست نشانہ نہ لگاسکیں۔ گُلّی پھینکنے کے بعد گلی نما گڑھے پر ڈنڈا رکھ دیا جاتا ہے اور مخالف کھلاڑی گلی سے ڈنڈے کا نشانہ لے کر اس پر گلی مارتا ہے۔ گلی اگر ڈنڈے پر لگ جائے تو کھلاڑی آئوٹ ہوجاتا ہے او رپھر دو سرے کی باری آتی ہے، لیکن اگر گلی ڈنڈے پر نہ لگے تو پھر پہلی باری لینے والا کھلاڑی ڈنڈے سے ٹل لگا کر گلی کو گڑھے کے مقام سے دور پھینکتا ہے۔ اس کے پاس مارنے کے لیے تین شاٹس یا تین ٹل ہوتے ہیں۔ پہلا دوسرا ٹل ناکام ہوجائے تو تیسرا آخری ہوتا ہے۔یہ بھی نہ لگے تو کھلاڑی آئوٹ ہوجاتاہے اور اگر ٹل لگتے رہیں تو گلی پر ڈنڈا مار کر دور پھینکنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگر مخالف کھلاڑی ٹل مارنے پر گُلّی کو کیچ کرلیں تو تب بھی کھلاڑی آوٹ قرار پاتا ہے اور پھر دوسرا باری لیتا ہے۔ ٹل لگانے کا طریقہ یہ ہے کہ کھلاڑی ڈنڈے کی مدد سے گُلّی کے نوک دار سرے پر ہلکی سی ضرب لگاتا ہے، جس سے گلی ہوا میں اُچھلتی ہے۔اب وہ کھلاڑی بڑی تیزی سے ہوا میں اُڑتی گلی کو زور سے ضرب لگا کر دور پھینکتا ہے۔گلی کتنی دور جاکر گرتی ہے، اس کا انحصار کھلاڑی کے بازوئوں کی طاقت اورلگائی گئی ضرب پر ہوتا ہے، جتنی مہارت اور قوت سے ضرب لگائی جائے، گلی اس قدر دور جاکر گرتی ہے۔ گائوں دیہات میں یہ ایک مقبول کھیل ہے
کھیل شروع کرنے سے پہلے کھیل کے میدان میں ایک چھوٹا سا نالی نما گڑھا کھودا جاتا ہے جس کی چوڑائی ڈیڑھ انچ اور لمبائی 3 سے 4 انچ ہوتی ہے۔، گڑھا گُلّی کی شکل سے ملتا جلتا ہے، گلی اس یگڑھے پر رکھ کر ڈنڈے کی مدد سے اُچھالی جاتی ہے۔ کھیل میں دویا دو سے زائد کھلاڑی حصّہ لے سکتے ہیں۔ کھلاڑیوں کے اہل ہونے کا کوئی معیار مقرر نہیں، تاہم مضبوط جسم کا مالک ، زور دار ٹل لگانے او رگلی کو کیچ کرنے والے کھلاڑی کو سب اہمیت دیتے ہیں۔ اگر کھیل ٹیم کی صورت کھیلا جائے تو دونوں ٹیموں میں کھلاڑیوں کی تعداد برابر ہوتی ہے، مثلاً ایک طرف پانچ کھلاڑی ہیں، تو دوسری طرف بھی پانچ ہونے ضروری ہیں۔ ایک ٹیم جب کھیل شروع کرتی ہے تو اس کا پہلاکھلاڑی گُلّی کو گلی نما گڑھے میں رکھ کر ڈنڈے کی مدد سے زور سے اُچھالتا ہے۔ کھلاڑی کی کوشش ہوتی ہے کہ گُلّی اُچھل کر دور جائی تاکہ مخالف کھلاڑی ڈنڈے کا دُرست نشانہ نہ لگاسکیں۔ گُلّی پھینکنے کے بعد گلی نما گڑھے پر ڈنڈا رکھ دیا جاتا ہے اور مخالف کھلاڑی گلی سے ڈنڈے کا نشانہ لے کر اس پر گلی مارتا ہے۔ گلی اگر ڈنڈے پر لگ جائے تو کھلاڑی آئوٹ ہوجاتا ہے او رپھر دو سرے کی باری آتی ہے، لیکن اگر گلی ڈنڈے پر نہ لگے تو پھر پہلی باری لینے والا کھلاڑی ڈنڈے سے ٹل لگا کر گلی کو گڑھے کے مقام سے دور پھینکتا ہے۔ اس کے پاس مارنے کے لیے تین شاٹس یا تین ٹل ہوتے ہیں۔ پہلا دوسرا ٹل ناکام ہوجائے تو تیسرا آخری ہوتا ہے۔یہ بھی نہ لگے تو کھلاڑی آئوٹ ہوجاتاہے اور اگر ٹل لگتے رہیں تو گلی پر ڈنڈا مار کر دور پھینکنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگر مخالف کھلاڑی ٹل مارنے پر گُلّی کو کیچ کرلیں تو تب بھی کھلاڑی آوٹ قرار پاتا ہے اور پھر دوسرا باری لیتا ہے۔ ٹل لگانے کا طریقہ یہ ہے کہ کھلاڑی ڈنڈے کی مدد سے گُلّی کے نوک دار سرے پر ہلکی سی ضرب لگاتا ہے، جس سے گلی ہوا میں اُچھلتی ہے۔اب وہ کھلاڑی بڑی تیزی سے ہوا میں اُڑتی گلی کو زور سے ضرب لگا کر دور پھینکتا ہے۔گلی کتنی دور جاکر گرتی ہے، اس کا انحصار کھلاڑی کے بازوئوں کی طاقت اورلگائی گئی ضرب پر ہوتا ہے، جتنی مہارت اور قوت سے ضرب لگائی جائے، گلی اس قدر دور جاکر گرتی ہے۔ اس کھیل کوکھیلتے وقت بہت ہی احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے اگراس کھیل کواحتیاط اوربچ کرنہیں کھیلا جائے توکسی کوبھی چوٹ لگ سکتی ہے۔ اسے کھیلتے وقت آنکھوں میں چوٹ لگنے کی زیادہ خدشہ رہتاہے ۔اسلئے اس کھیل کواحتیاط وہوشیاری سے کھیلنا چاہئے ۔گائوں دیہات میں یہ ایک مقبول کھیل ہے ۔ گلی ڈنڈے کے کھیل کو شہر کی گلیوں اور مضافات میں بھی کھیلا جاتا ہے۔ مگر اب اس کے قبولت مین کمی آتی جارہی ہے اور یہ کم ھی دیکھمے کو ملتی ہے مگر چند شہروں اور دیہاتوں میں " گلی ڈنڈے" کے کلب بھی ہیں ۔ عموما دیہاتی میلے ٹھیلوں میں گلی ڈنڈے کے مقابلے/ میچ ہوتے ہیں۔
" گلی ڈنڈا" کے نام سے منشی پریم چند نے ایک افسانہ بھی لکھا تھا۔ جس میں روایتی کھیلوں کے حوالے سے دہقانی لوگوں کے جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔جس میں روایتی اور نئی اقدار کا تصادم دکھایا گیا ہے۔ اور ہندوستاں کے ذات پات کے طالمانہ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ پریم چند کو کھیلوں میں بھی بے حد دلچسپی تھی۔ یوں تو وہ سبھی کھیل کھیلتے تھے مگر گلی ڈنڈا ان کا عزیز ترین کھیل تھا۔ وہ پورے پورے دن گلی ڈنڈا کھیلتے رہتے۔ وہ اپنی باری حاصل کرنے کے لئے بڑی سے بڑی چیز بھی قربان کر دیتے تھے۔ ان کے ساتھیوں میں سب سے زیادہ دم دار ٹول مارتے تھے۔ ’’گلی ڈنڈا‘‘ افسانے میں بھی انہوں نے اپنی رغبت اور اپنے ایک دوست’’ گیا‘‘ کو بہت یاد کیا۔
اردو کے شاعر مصحفی غلام ہمدانی نے اس پر اپنی ایک غزل میں شعر لکھا ہے۔
کل تو کھیلے تھا وہ گلی ڈنڈا
ڈنڈ پیل آج ہو گیا سنڈا
ہندوستانی فلم " لگان" { ہیرو عامر خان} میں گلی ڈنڈے کے کھیل کو دکھاتے ہوئے اسے کرکٹ کے مساوی بتایا ہے۔ میراٹھی زبان میں کھیلوں کے ڈارمے/ فلم " ونی دھندو" میں گلی ڈنڈے کو موضوع بنایا کیا ہے۔ یہ ڈرامہ/ فلم کو اجے دیو گن لینی ڈرا نے بنائی تھی۔۔۔۔ اب شہری اور پڑھے لکھے طبقے میں اس کی دلچسپی دن بہ دن ختم ہوتی جارہی ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...