بلوچستان کوئیٹہ سے ایک فیس بک دوست نے فون کرکے کہا کہ محکمہ زراعت گلگت بلتستان سے جڑے لوگوں کی سوشل میڈیا تحاریر کی وجہ سے ہم بھی کافی زرعی معلومات حاصل کرتے ہیں ڈاکٹر صلاح الدین کاکڑ صاحب نے چلغوزے کے اوپر کچھ معلومات شئر کرنے کی فرمائش کی تھی میں نے جب اس سلسلے میں معلومات لینی چاہی تو واقعی نیٹ پر بھی بہت کم مواد دستیاب ہیں۔ خصوصا اسکے پروڈکشن ٹیکنالوجی پر بلکل بھی مودا دستیاب نہیں۔ خیر ادھورے معلومات کے ساتھ حاضر ہوں۔
چلغوزہ شمالی پاکستان، افغانستان اور شمال مغربی بھارت میں اگنے والا ایک درخت ہے۔ اس کے بیج انتہائی لذیذ ہوتے ہیں اور اچھی قیمت پر فروخت ہوتے ہیں۔ یہ درخت عموماً دیودار کے درختوں کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے جنگلات کا 20 فی صد حصہ چلغوزے کے درختوں پر مشتمل ہے۔
پاکستان میں چلغوزہ کے باغات ژوب ( بلوچستان) ، چترال، شوال (شمالی وزیرستان)، گلگت بلتستان ، کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں پہاڑوں کی چوٹیوں اور ڈھلوانوں پر پائے جاتے ھیں ۔۔۔ چلغوزہ کا درخت پائین (صنوبر) کی ایک قسم ھے جسے باٹنی میں Pinus gerardiana یا Chilgoza Pine بھی کہا جاتا ھے ۔۔۔
چلغوزہ کے درخت کے کون (cones) یا سیڈ شیل کو میچور ھونے پر دھوپ میں خشک کر لیا جاتا ھے ، اور انکو ھلکا سا ھلانے سے بیج ( یعنی چلغوزے) خود بخود باھر آ جاتے ھی ۔۔۔
آڑھتی حضرات مقامی کسانوں سے چند سو روپے فی کلو کے عوض چلغوزہ خرید لیتے ھیں اور پھر ھزاروں روپے فی کلو کے حساب سے بڑے تاجروں کو فروخت کرتے ھیں ، جہاں سے چلغوزہ سونے کے بھاؤ امریکہ، اسرائیل ( جی بالکل اسرائیل) یورپ، عرب ممالک کو ایکسپورٹ کر دیا جاتا ھے ، پھر وھاں سپر سٹورز کی شان بن جاتا ھے۔۔۔ جنوری 2017 میں چین نے پاکستان کی چلغوزہ کی تمام پیداوار خرید لی تھی، جس کے باعث چلغوزہ کا ریٹ %93 بڑھ گیا تھا۔۔۔
چلغوزہ کمیاب کیوں ھوا:
1- سوئی گیس کی سہولت نہ ھونے کے باعث چلغوزہ کے درختوں کی مسلسل کٹائی علاوہ ازیں دیہات میں تعمیراتی مقاصد کیلئے استعمال ؛ چنانچہ باغات کے رقبہ میں کمی کے باعث چلغوزہ کی پیداوار میں کمی واقعی ھو رھی ھے۔
2-چلغوزہ کی پیداوار کا بہت بڑا حصہ ایکسپورٹ ھو جاتا ھے، چینیوں نے اسکا ریٹ آسمان پر پہنچا دہا۔
3- سیڈ شیل یعنی کون (cones) کا کچی حالت میں توڑنا ، جس کی وجہ سے نئے درختوں کے اگنے کے چانسز کم یا ختم ھو جاتے ھیں۔۔ جب پکی ھوئی میچور cones کو توڑا جاتا ھے تو کچھ بیج خود بخود زمین پر گر جاتے ھیں جن سے آئندہ آنیوالے سالوں کیلئے نئے پودے نکلتے ھیں، لیکن کچی cones توڑنے پر نئے درخت اگنے کے چانسز معدوم ھو جاتے ھیں ، اور یوں باغات کا رقبہ بتدریج کم ھوتا جاتا ھے،
کیسے اسکے باغات لگائے جا سکتے ہیں؟
میری ایک دفعہ جگلوٹ ماؤنٹین ایگریکلچر ریسرچ سٹیشن میں ادارے کے ڈی جی سے ملاقات ہوئی وہاں پر میں نے ان سے یہی سوال کیا کہ ہمارے دیامر کے علاقے میں چلغوزہ کے قدرتی جنگلات تیزی کے ساتھ ختم نہیں ہوتی جارہی ہے کیا اسکی ری جنریشن پہ کوئی کام آپ لوگوں نے کیا ہے؟
جناب ڈی جی صاحب نے بتایا کہ ہم اسکی پودوں کی نرسری ڈیولپ کرنے کی کوشش کررہے ہیں یہاں تک کہ ہم اسکی کٹینگز سے پودے بنانے کی تگ و دو میں بھی ہیں مگر ابھی تک کامیابی کی شرح بہت کم ہے۔ ایک دفعہ ہم اسکے نرسری کامیابی سے اگا نے میں کامیابی حاصل کر لیں تو کام آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہ دو سال پہلے ہوئی ملاقات ہے اب مجھے نہیں معلوم اس پروجیکٹ کے کیا نتائج نکلے ہیں۔
البتہ چلاس گوہر آباد کی کمیونٹی نے کنزرویشن پہ کام شروع کیا ہے۔ گوہر آباد میں غالبا دنیا کا سب سے بڑا چلغوزوں کا جنگل ہے اب کمیونٹی کا ہر فرد چلغوزوں کی آمدنی سے حصہ پارہا ہے اس ترکیب سے جنگل کی بے دریغ کٹائی رک گئی ہے۔ دنیا میں اس کے با قائدہ باغات لگانے کے بھی شواہد ملتے ہیں جیسے افغانسان میں کچھ ایریاز ہیں وہاں لوگوں نے خود انکے باغات اگائے ہیں۔ ان باغات کی عمر 350 سال تک بھی ہوسکتی ہے۔اب پاکستان میں کون اتنا دور کی سوچتے ہیں یہی تو ہمارا المیہ ہے۔
اب نیچرل انوائرمنٹ میں باغات لگانے والا کام بھی انہی کمیونیٹیز کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ چونکہ چلغوزہ پائن 2200 سے 3350 میٹر کی بلندی پر ہی پیدا ہوسکتی ہے۔ اتنی بلندی پر کمیونٹی موبیلائزیشن سے ہی باغات لگائے اور انکی دیکھ بھال کی جاسکتی ہے، مگر حکومتی ادارے انکے لئے سہولیات دیں۔
ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ہر درخت سے کچھ مقدار کے کون نہ توڑے جائیں تاکہ نیچر کو کام کرنے کا موقع بھی ملتا ریے۔ایک درخت سے اوسطا پانچ سے آٹھ ہزار کی چلغوزے پیدا ہوتی ہیں، لہذا آمدنی میں تھوڑا کمی برداشت کرکے ہم اپنے چلغوزوں کے جنگلات کو مستقبل میں معدوم ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
نوٹ! اس مضمون کی تیاری میں ویکی پیڈیا کے علاوہ نیٹ سے بہت سے آرٹیکلز سے مدد لی ہے انکے شکریے کے ساتھ۔