اگوکی کی کہانی ۔ 6
ـــ
میں نے پوچھا تب کیا ہوگا جب آپ سری نگر لے لیں گے
اس پر وہ کہنے لگے کہ پھر ہم سری نگر اسمبلی پر پاکستان کا جھنڈا لہرا دیں گے
آپ کے سری نگر پر جھنڈا لہرا دینے سے کیا ہوگا
ان کا جواب تھا کہ تب آپ اقوامِ متحدہ جائیں گی
اورانکو بتادیں گی کہ ہم نےسری نگرفتح کرلیاہے
اس سےکیاہوگا؟
آپ ان سے(مقبوضہ وادی) کانقشہ تبدیل کرنےکوکہیں گی
اورمیرے اس طرح کہنےسےوہ نقشہ تبدیل کردیں گے؟
اس پروہ کچھ گڑبڑا سےگئےاورکہنےلگےکہ اب میں اور کیا کہوں! ہم جنگ جیت چکےہیں
اس پر میں نےکہا کہ جنرل صاحب نہیں ایسے نہیں ہوگا جب میں انہیں یہ سب کہوں گی تو وہ ہمیں واپس جانےکاکہیں گے۔ نہ صرف یہ کہ سری نگر سےواپس جانےکا بلکہ آزاد کشمیر سے واپسی کابھی۔ کیونکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی رُو سےپہلے استصوابِ رائےہوگااوراس کےلیے ہمیں آزاد کشمیر سےبھی فوج کا انخلا کرنا ہوگا جہاں رائے شماری ہونی ہے سو جنرل صاحب نقشے اس طرح سے تبدیل نہیں ہوتے
___
یہ مکالمہ شجاع نواز نے پاکستان آرمی پر اپنی کتاب Crossed Swords میں نقل کیا ہے
جس وقت کا یہ ذکر ہے تب بینظیر بھٹو وزیرِاعظم تھیں اور پرویز مشرف ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشنز
جنرل مشرف کی یادداشت میں اس ملاقات کی تفصیل قدرے مختلف ہے شجاع نواز ہی روایت کرتےہیں کہ جنرل مشرف کےبقول انہوں نے بینظیرکوبتایاکہ مسئلہ کشمیرکےحل ہونےکی مہلت وقت کےساتھ کم ہوتی جارہی ہے، کیونکہ وقت گزرنےکےساتھ انڈیااورپاکستان کے عسکری تقابل، سیاسی منظرنامےاور اقتصادی توازن کاپلڑا ہندوستان کے حق میں اور ہمارے خلاف ہوتا جارہا ہے پرویزمشرف کاکہناتھا کہ ان کی اس بات کابی بی نےبہت برامنایاتھا۔
کچھ سالوں بعد ایسی ہی عسکری بریفنگ کاذکرنسیم زہرہ From Kargil to the Coup میں کرتی ہیں۔ اس دفعہ صورتحال مختلف تھی
گزرےکل کامہم جوڈائرکٹرجنرل ملٹری آپریشنزآج کاآرمی چیف تھا
ملک پراب ایک مختلف وزیرِ اعظم کی حکومت تھیاور جب سربراہِ مملکت کو کارگل کے منصوبے پر پہلے پہل بریفنگ دی جارہی تھی پاکستانی افواج اس سے مہینوں پہلے لائن آف کنٹرول کی رکاوٹ عبور کرچکی تھیں۔ یہ مئی 99 تھا اور ہندوستان کو اس دراندازی کی خبر مل چکی تھی اور جہاں ان کے ’ادارے‘ اس نفود کا ابتدائی تخمینہ لگانے میں مصروف تھے، ہمسایہ ممالک کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا لفظ ’گھُس پیٹھیئے‘ (घुसपैठिये) کا رانڈ رونا الاپ رہے تھے۔
اس بریفنگ میں بیٹھے پاکستان کے وزیرِ اعظم کو فوجی نقشوں کی سمجھ نہ آئی اور جب ان کی کابینہ کے ارکان نے پہلے دبے اور پھر ببانگِ دہل الفاظ میں سمجھایا کہ جہاں پناہ نقشے پر جو نشان سرحد پار نظر آرہے ہیں وہ ہمارے فوجی ہیں اور اس کا سلیس اردو میں مطلب ہندوستان کو کھُلی دعوتِ جنگ ہے تو بڑے میاں صاحب کچھ کچھ سٹپٹائے
عین اسی سمے ایک فوجی جرنیل نے اسٹک سے لٹکتی گاجر جُھلائی کہ حضور قائدِ اعظم کے بعد قوم آپ کو مسئلہ کشمیر کے نجات دہندہ کے طور پر یاد رکھے گی۔
صاحبو ہماری سیاست کی گاڑی کی گیسولین دو ہی گریڈمیں تو بکتی ہے ’قادیانی فتنہ‘ اور ’مسئلہ کشمیر‘۔ اور برا نہ مانیے گا اس آگ کا ایندھن بھی تو ہماری دو بڑی مذہبی جماعتوں سے آتاہے، ایک ان میں سے جہاد کا جھنڈا اٹھائے کھڑی ہے اور دوسری تحفظِ ختم نبوت کا۔ اور آج کل کےدور میں توہمارےہاتھ بریلوی مارکہ ’تحفظِ ناموس رسالت‘ کاہائی آکٹین بھی آگیاہے۔ بات کہیں اورنکل جائےگی خوفِ فسادِخلق سےاسےلپیٹ لیناہی بہترہے۔
توصاحبو! بہت دن نہیں بیتےکہ 1965 کےپرُ آشوب دورکاذکر ہے۔ جنگ ابھی نہیں لگی تھی اورہمارےعسکری ایوان کی غلام گردشیں ایک من پسند منصوبےکا تانا بانا بُن چکی تھیں جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہم نے بس گوریلا طرز کی کارروائی میں سرحد پارکرنی ہے اور کشمیر کا پکا پکایا پھل ہماری جھولی میں آگرے گا۔ اس منصوبے کا نام آپریشن جبرالٹر تھا۔ ہم کشتیاں جلا چکے تھے یعنی سرحد پار نفوذ کرنے والی سپاہ اور لے پالک سویلین مجاہدوں کے دستے تیا ر تھے۔
گیارہ جولائی کی شام جبرالٹرفورس کےافسروں کوحکم ملا کہ ڈویژن ہیڈکوارٹرمیں فیلڈ مارشل ان سےملاقات کریں گے۔ مری پہنچنےوالےان افسروں میں سپیشل سروسزگروپ کےکیپٹن ضیاء بھی تھے۔
بعدکےسالوں میں کمانڈو عالمگیر کے نام سے آپریشن جبرالٹر کی شکل میں اپناروزنامچہ شائع کروانےوالےکیپٹن ضیاء نے جولائی کی اس شام مری میں افسروں کی فیلڈ مارشل سےملاقات کاذکربھی کیاہے۔
’پینےپلانےکادور چل رہا تھاہم چند افسرصدرکے اردگرد کھڑے تھے اور گفتگو ہورہی تھی کہ مستقبل قریب میں ہمارے مشن کی بات چھڑ گئی۔ جنرل اختر کہنے لگے کہ سر بھارت ہمارے ایکشن کے خلاف کوئی سخت ردِ عمل ظاہر نہیں کرےگا اورنہ ہی وہ اپنی فوجیں ہماری سرحدکےقریب لائےگا زیادہ سےزیادہ وہ اس مسئلے کواقوامِ متحدہ میں پیش کردےگا۔ بھارت کی موجودہ قیادت اپنےلیےکوئی خطرہ مول لینےکےلیےتیارنہیں۔
اس پرصدرصاحب نےانگریزی میں فرمایا، ہاں میرابیٹابھی یہی کہتا ہےکہ ہندوستان کی قیادت عام جنگ چھیڑنےکاخطرہ مول نہیں لےسکتی(بیٹےسےان کی مرادگوہرایوب سےتھی یا’زلفی‘ سےیہ معلوم نہ ہوسکا)۔ جنرل چوہدری سینڈہرسٹ میں میری پلاٹون میں رہ چکاہے۔ میں اسےاچھی طرح سےجانتاہوں۔ وہ انتہائی مطلب پرست، خودغرض ہےاور اس کےعزائم بہت بلندہیں۔
پھرتھوڑی دیربعد بولے
وہ اپنےمطلب کی خاطراپنی ماں کاگلا بھی کاٹ سکتاہے‘
صاحبو ستمبر 1965 میں عام جنگ چھڑی یا نہیں اس پر تو مٹی ڈالیے مئی 1999 کی اس سرد مہر بریفنگ میں کشمیر کے ذکر سے ماحول میں ایک دم گرمجوشی سی آگئی تھی۔ اس بات کی تو مصدقہ اطلاع نہیں کہ جنرل پرویز مشرف اور جنرل وید پرکاش ملک سینڈہرسٹ میں یا کہیں اور پلاٹوں میٹس رہے یا نہیں۔
ہمارے پاس ثانی الذکر کی مطلب پرستی اور ضرورت پڑنے پر اپنی ماں کا گلا کاٹ لینے کی خصلت و صلاحیت کا بھی کوئی معتبر تخمینہ نہیں۔ مگر جبرالٹر سے چونتیس برس بعد ہوئی اس بریفنگ میں جب وزیرِ اعظم پاکستان نجات دہندہ کشمیر بننے کی خوشی میں اس آپریشن کی سرکاری منظوری دے رہے تھے تو یہ ضرور کہا گیا کہ بھارت کارگل میں ہماری دراندازی کے جواب میں عام جنگ کا خطرہ مول نہیں لے گا۔ پڑوسی ملک کو کوئی اور محاذ کھولنے کی ہمت نہیں ہوگی۔
سربراہِ مملکت اور آرمی چیف کے تخمینے کے برخلاف، اگوکی میں عباسیہ کے عارضی آپریشن روم میں جو یونٹ ٹی بار میں بنایا گیا تھا
نقشہ مارک کرتےعمران کوسیالکوٹ کےبارڈرپرہندوستانی سپاہ ایک حملےکی پیش بندی میں دستک دیتی نظرآتی تھی۔ شمال میں مُشکوہ، دراس، کرگل، بٹالک، تورتک اورگلیشیئرکےبرفاب ایک غیر یقینی کی دھندمیں لپٹےتھے
جنہیں ہم نےلڑنےبھیجاہماری فوج نےانہیں مجاہدین اورسرحدپار والوں نےگھُس پیٹھیئےکالقب دیا، مگرصاحب جھوٹ کےپاؤں نہیں ہوتے۔ ہمارےشیردلیرافسراورجوان جب انجام کی بےخوفی سےلڑےاورشہیدہوگئےتو ان کےہتھیاراور سازوسامان نےتو ان کی اصلیت کی چُغلی کھانی تھی۔ مگرہم اسقدر کٹھورہوچلےتھےکہ ہم نےفوج سے ان کی لاتعلقی کا اعلان کیا سو کیا ان کے جسدِ خاکی تک وصول کرنےکے روادار نہ ہوئے بہت بعد کے سالوں میں جب مَیں ایک ادھ لڑی جنگ کی ہزیمت میں زخم کھائی ان زمینوں کو پلٹتا تھا تو منی مرگ سے شقمہ کے سفر میں بریگیڈ میجر نے گلتری اورفارن شاٹ کے درمیان وہ جگہ دکھائی تھی جہاں سے کیپٹن کرنل شیراپنے شیردل جوانوں کےساتھ کبھی نہ واپس آنےوالے گشت پر روانہ ہوا تھا۔
یہیں کہیں سےایک راستہ تولولنگ اورٹائیگرہل کونکلتا تھا۔ صوابی کےشیرنےپسپاہونےسےانکارکرتےہوئےجوابی حملےمیں جان جانِ آفریں کےسپردکردی توہندوستانی بریگیڈ کمانڈر نے ہمارے سپاہی کی شجاعت کی گواہی دی
اپنے جس بہادر سپوت کو بعد از شہادت جوانمردی کے اعلیٰ ترین اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا اسے اپنانے میں حکومت پاکستان نے پس و پیش سے کام لیا۔ بعد از شہادت دس دن تک ہمارے دلیر سپاہی کا جسدِ خاکی ہندوستان کے پاس ایک اجنبی سرزمین میں وطن واپسی کی راہ دیکھتا رہا
ہمارے باقی جانباز کیپٹن شیر جتنے خوش قسمت نہ تھے۔ پیون سے آگے ترتک کی گھاٹیوں میں حملے پر گئے کیپٹن فرحت حسیب حیدر ہوں، یا تولولنگ کی قربت میں خارا شگاف میجر عبدالوہاب یا پھر ایم 6 پوسٹ پر اپنی بقا کی جنگ لڑتے 19 فرنٹیئر فورس کے کیپٹن عبدالمالک، ایک اجنبی سرزمین کے برفانی معبدوں میں پتھریلے ستون اب ان کی آخری آرامگاہیں ہیں۔
کیپٹن کرنل شیر شہید کے ساتھ لڑتے سپیشل سروسز گروپ کے کیپٹن عمار اور 12 ناردرن لائٹ انفنٹری کے جوانوں کو ہندوستانی سپاہ نے میڈیا کیمروں میں سب دنیا کے سامنے ٹائیگر ہل کی قربت میں مسلمان خطیب کے دعا کے لیے اٹھے ہاتھوں کے سائے تلے آخری سلام دے ہمالیہ کی پتھریلی گوروں کے حوالے کردیا کہ مملکتِ خداداد کااتناجگرانہیں تھاکہ انہیں قبول کرتے
کہانی میں ابھی کچھ موڑاوربھی ہیں۔ 19 فرنٹیئرفورس کےکمانڈنگ آفیسرنےہندوستانی بریگیڈکمانڈرسےوائرلیس پررابطہ کرکےکہنا ہے وہ اپنےشہیدوں کووصول کیےبغیرپیچھےنہیں ہٹیں گے۔
شمال میں چھولونگ لا کے گلیشیئر کی منجمد برفوں میں شہید ہوئے کیپٹن تیمور کےدادا انگلستان کےفارن آفس کی مددسےانڈین آرمی سےایک مستقل مزاج درخواست کےصلےمیں اپنےپوتےاوراس کے ساتھ شہیدہونےوالوں کےجسدِ خاکی کی وصولی اورمٹی کی امانت کی خاکِ سرزمینِ وطن کوحوالگی یقینی بنائیں گے
یہ مٹی تم کو پیاری تھی
سمجھو مٹی میں سُلادیا
مت سمجھو ہم نے بُھلا دیا
مگر اس سب میں ابھی دیر تھی۔ ابھی تو وہ راتیں بھی دور تھیں جب ظفروال سے آگے مورچہ بند عباسیہ کے دستوں میں عمران اور اس کے بیٹری کمانڈر آکاش وانی کی لہروں پر تولولنگ اور ٹائیگر ہل فتح ہونے کی خبریں ایک بے یقینی سے سنیں گے۔ ’نہیں ہمارے جوان تو وہاں سے پس قدمی کرگئے ہوں گے، ہندوستانیوں نے خالی چوٹیوں پر جھنڈے لہرادیئے ہیں۔ یہ یقیناً انڈین پراپیگنڈہ ہے۔
ہمارے آرمی چیف نے بھی تو کہا ہے کہ ہماری فوج وہاں نہیں ہے۔ ہمارے وزیرِ اعظم بھی تو امریکہ جارہے ہیں۔ وہ کیوں جارہے ہیں! کہیں ہم مذاکرات کی میز پر کچھ ہارنے تو نہیں جارہے!
ایک بے یقینی اور یاس کی تاریکیوں میں ڈوبتی یہ فضا بھی ابھی دور تھی۔
ابھی تو عباسیہ کی ٹی بارکے آپریشن روم میں عمران نقشے مارک کرتے ہوئے ہر روز نزدیک ہوتے سرخ نشانوں کو ایک اندیشے سے دیکھتا تھا اور ایک عام محاذ پر جنگ چھڑ جانے کی پیش بندی کرتا تھا بہت جلد نقشے مارک کرتا انٹیلی جنس افسر اپنی بیٹری کی مہار تھام ظفروال کا مسافر ہوگا۔
شکرگڑھ بلج میں عسکری پنڈتوں کے ہندوستانی سپاہ کے ارادوں کے تخمینے غلط ثابت ہونے جارہے تھے۔
___
جبرالٹر سے کارگل سے تابہ خاکِ شکرگڑھ
اگوکی کی کہانی ۔ 6
ـــ
میں نے پوچھا تب کیا ہوگا جب آپ سری نگر لے لیں گے
اس پر وہ کہنے لگے کہ پھر ہم سری نگر اسمبلی پر پاکستان کا جھنڈا لہرا دیں گے
آپ کے سری نگر پر جھنڈا لہرا دینے سے کیا ہوگا
ان کا جواب تھا کہ تب آپ اقوامِ متحدہ جائیں گی pic.twitter.com/PuUzdOXllm— imran (@meemainseen) October 21, 2022