غوریوں کے جد امجد سنسب یا شنسب تھا اور اسی نسبت سے یہ شہان7 یا سنبان غور کہلاتے تھے ۔ جو کہ اپنا مورث اعلیٰ ضحاک بتاتے ہیں ۔ شنسب کے بارے میں منہاج سراج لکھتا ہے کہ غالباً اس نے حضرت علیؓ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا اور ان سے جھنڈا اور فرمان حکمرانی حاصل کیا ۔ اس خاندان میں جو بھی تخت نشین ہوتا اسے وہ جھنڈا اور فرمانی حکمران دے دیا جاتا تھا ۔ یہ روایتیں باطنیت کے زیر اثر پھیلی تھیں ۔ جن کا چوتھی اور پانچویں میں ہجری صدی سے مغلوں حملوں تک یہاں بہت زور اور اثر و رسوخ رہا تھا ۔
نعمت اللہ ہراتی غوریوں کو ضحاک نسل بتاتا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ یہ عربی نژاد تھا اور اس نے بہرام غوری کو غوریوں کا جد امجد بتایا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ سطان بہرام غوری امیر المومنین حضرت علیؓ کی خلافت کے زمانے میں کوفہ حاضر ہوا اور حضرت علیؓ نے ایک خاص فرمان اپنے دستط سے تحریر فرما کر اسے عطا کیا جس کی رو سے غور ستان کی حکومت اسے عطا کی گئی ۔
نعمت اللہ ہراتی کے مطابق افغانوں کو بخت نصر نے شام سے نکالا تو وہ کوہستان غور اور اس کے آس پاس آباد ہوگئے ۔ شیر محمد گنڈاپور کا کہنا ہے کہ افغانوں کے غور میں رہنے کی وجہ سے قوم ضحاک سے تعلقات بڑھنے لگے اور یہاں تک وہ آپس میں شادی بیا کرنے لگے اور پوری طرح گھل مل گئے اور افغانوں کی بادشاہت خاندان سوری کے پاس تھی اور دوسرے تمام خانوادے سوریوں کی۔ ریاست کے ماتحت تھے ۔ علاقہ غور کے باشندے جن میں افغان اور ضحاک نسل کے غوری شامل تھے قیس کے ہاتھوں اسلام قبول کرلیا تھا ۔
نعمت اللہ کا کہنا ہے کہ بہرام کا پوتا یعنی شاہ حسین بن شاہ معزالدین محمد بن جمال الدین حسن بن سلطان بہرام غوری پٹھانوں کے متو طبقے کا مورث اعلیٰ ہے ۔ جس نے بٹن کی لڑکی متو سے شادی کی تھی ، جس بطن سے پٹھانوں کے شجرہ نسب میں بہت سے قبیلے بتائے گئے ہیں ۔ واضح رہے بہرام غوری کے بارے میں نعمت اللہ ہراتی نے لکھا ہے کہ اس نے حضرت علیؓ کی خدمت میں ان کی دور خلافت ( ۳۵ھ تا۴۰ھ ) میں کوفہ میں حاضری دی تھی اور حضرت علیؓ نے اسے اپنے دستخط خاص سے ایک فرمان دیا تھا ۔ جس کی رو سے غور کی حکومت اس کے سپرد کی گئی تھی اور شاہ حسین کے بارے میں لکھتا ہے کہ ظہور اسلام کے بعد خلیفہ ولید کے عہد ( ۶۱ھ تا ۹۶ھ ) میں حجاج کی فوجوں نے غور پر چڑھائی کی تو شاہ حسین بٹن کے پاس آگیا تھا ۔ جب کہ حضرت علیؓ کی خلافت کی ابتدا ( ۳۵ھ ) سے اور ولید کی خلافت کے آخر ( ۹۶ھ ) کا درمیانی عرصہ قمری اعتبار سے ۶۱ سال بنتا ہے ۔ اس عرصہ میں بہرام غوری کی چار پشتیں بتائیں گئیں ہیں ۔ یہ ممکنات میں سے نہیں ہے کیوں کہ ہم بہرام غوری کی حضرت علیؓسے ملاقات کے وقت اس کی ادھیڑ عمری بھی لگالیں تو بھی اس کی چوتھی پشت اس قابل نہیں ہوگی کہ وہ شادی کر سکے ۔ جب کہ اسے حضور ﷺ کا ہم عصر بتایا گیا ہے اور اس کی پوتی متو کی شادی شاہ حسین سے ہوءئی تھی ۔ واضح رہے کہ یہ عرصہ سو سال سے کچھ کم بنتا ہے ، اس عرصہ میں متو بٹن کی بیٹی کی بوڑھی نہیں ہوئی ہوگی تو تب بھی اڈھیر عمری ہوگی ۔ یعنی شادی کی عمر سے گزر چکی ہوگی اور اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوگی ۔ اس بحث سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تمام روایات موضع ہیں اور تاریخ سے ماخذ نہیں ہیں ۔
جب بکہ تاریخی حقائق کے مطابق اس علاقہ میں اسلام چوتھی صدی ہجری میں آیاتھا ۔مسلمانوں کی کے ابتدائی حملوں میں ( پہلی صدی ہجری میں ) سرپل اور بادغیس کے درمیانی علاقے پر شار حکمران تھے ۔ جبکہ سور اور غور کے درمیانی علاقے میں جہان پہلوان کی حکومت تھی ۔ بعد کے دور میں یہاں غوری حکمران ہوئے ۔ غالباً یہ جہان پہلوان کے اخلاف تھے جو اس علاقے کی نسبت سے غوری مشہور ہوئے ۔ واضح رہے پٹہ خزانہ کی رو سے پہلی صدی ہجری میں یہاں اسلام پوری طرح پھیل چکا تھا ۔
منہاج سراج نے لکھا ہے چوتھی صدی ہجری تک اس علاقہ میں مسلمانوں اور مقامی باشندوں میں لڑائیاں ہورہی تھیں ۔ اس وقت زابل ، کابل ، بست جروم اور دوسرے علاقوں کے مقامی حکمران غیر مسلم تھے اور کی حکومتیں قائم تھیں ۔ ابن کثیر لکھتا ہے کہ افغانستان کے بڑے بڑے شہروں میں گو اسلام تھا مگر خود افغان ابھی تک مسلمان نہیں تھے اور کافر سمجھے جاتے تھے ۔ یہ علاقہ صفاریوں کے دور میں مسلمانوں کے قبضہ میں آئے تھے ۔ ابن حوقل چوتھی میں غور کے علاقے میں آیا تھا ۔ وہ کہتا ہے کہ یہاں کچھ مسلمان پائے جاتے ہیں باقی کافر ہیں ۔ محمود غزنوی نے غور پر حملہ کیا اور محمد بن سوری کو گرفتار کر کے لے جارہا تھا کہ اس نے راستے میں وفات پائی ۔ العتبی اس کے بارے میں لکھتا ہے کہ یہ اپنے نام کے باوجود مسلمان نہیں تھا ۔ حدود العالم میں ہے کہ یہ ہندو تھا ۔ محمود غزنوی نے اس کے بیٹے ابو علی کو حکمران بنا دیا جو کہ مسلمان تھا ۔ صاحب حدود العالم قندھار شہر کو برہمنوں اور بتوں کی جگہ ، لمغان کو بت خانوں کا مرکز ، بنیہار کو بت پرستوں کا مقام خیال کرتا ہے ۔ اس وقت بست ، رخج اسلامی شہر تھے اور کابل کی نصف آبادی مسلمانوں کی اور نصف ہندوں کی تھی ۔ الاصطخری غور کو دارلکفر قرار دیتا ہے جہاں مسلمان بھی رہتے ہیں ۔ غوری قبائل چوتھی صدی ہجری تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ محمود غزنوی کے دور سے پہلے تک اس اطراف میں نہ اسلامی درسگاہیں تھیں ، نہ ہی اسلامی تعلیم کا رواج تھا ، نہ ہی مسلمان علماء یہاں پھیلے تھے اور افغانستان کے اکثر قبائل محمود غزنوی کے دور میں مسلمان ہونا شروع ہوئے تھے ۔
منہاج سراج لکھتا ہے کہ امیر سوری کے عہد میں بعض علاقے مثلاً ولشان بالا و زیر ابی شرف اسلام نہیں ہوئے تھے اور ان میں باہم جھگڑے ہونے لگے ۔ صفاریوں نے نیمروز سے بست و زمند کا قصد کیا ۔ یعقوب لیث نے تگین آباد ( رخج ) کے امیر لک لک ( لویک ) پر حملہ کردیا ۔ غوریوں کے مختلف گروہ سنگان کی سرحد پر پہنچ گئے ۔ ( غالباً حملے کی وجہ سے ) اور وہاں سلامت رہے ۔ لیکن ان کی لڑائی جھگڑے جاری رہے اور یہ لڑائی اہل اسلام اور اہل شرک کے درمیان تھے ۔ چنانچہ گاؤں گاؤں میں جنگ جاری تھی ۔ چونکہ غور کے پہاڑ بہت اونچے تھے اس لئے کسی غیر کو ان پر تسلط پانے کا شرف نہیں ملا ۔
ان بیانات سے بخوبی واضح ہوتاہے کہ پہلی صدی ہجری میں افغانستان میں اسلام پھیلنا تو در کنار آیا تک نہیں تھا اور غوری جو پہلے ہندو مذہب تھے اور وہ چوتھی صدی ہجری میں مسلمان ہوئے ۔ اس سے پہلے اسلام صرف بڑے شہروں میں آیا تھا ۔ لہذا غوریوں کی پہلی صدی ہجری میں اسلام لانے کی روایت موضع ہیں ۔
بار تولید کا کہنا ہے کہ کلمات غور ، غرچہ ، غرج اور غلج سب ایک ہی سلسلے کے نام ہیں اور وسط اایشیا میں بہت سے قبیلے اور نام ان لفضوں سے بنے ہیں ۔ غوری ابتدا میں سوری لائقہ لگاتے تھے ۔ منہاج سراج نے ابتدائی حکمرانوں میں صرف فولاد غوری کے ساتھ غوری کا لائقہ لگایا ہے اور باقی دوسرے حکمرانوں کے ناموں کے ساتھ سوری کا لائقہ لگا ہوا ہے ۔ یہ کلمہ سب سے پہلے امیر سوری کے نام میں ملتا ہے اور بعد کے حکمرانوں کے ناموں کے ساتھ غوری کا لائقہ لگا ہوا ہے اور غالباً بعد میں انہوں نے غور کی نسبت سے غوری کا لائقہ استعمال کیا ہے ۔
برصغیر میں سورج بنسی راجپوت سوریا کہلاتے تھے ۔ اور سوریا ہند آیائی لہجہ ہے ۔ غالباً غوری برصغیر کے سورج بنسی یا سوریا کے ہم نسل ہیں ۔ راجپوتانے میں ایک سورج بنسی قبیلہ گور آباد ہے اور اس قبیلے نے بنگال پر حکومت کی ہے ۔ بنگال انہی کی نسبت سے گوڑ کہلاتا تھا ۔ یہ گور غالباً غوریوں کے ہم نسل ہیں اور برصغیر میں آکر گور کہلائے ۔ کیوں کے ہند آریائی میں ’ غ ‘ ’ گ ‘ سے بدل جاتا ہے ۔ جیمز ٹاڈ بھی اسی کا قائل ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رجپوتانہ کے گور مسلمان ہونے کے بعد وہ اپنے کو غوری کہتے ہیں ۔ مگر ان کی عادت و اطوار اور رسومات سے بخوبی اندازہ ہوتا کے یہ ہندو سے مسلمان ہوئے ہیں
غوری جو غزنویوں کے بعد افغانستان کی بڑی طاقت بن گئے تھے اور انہوں نے برصغیر میں باقیدہ مسلم سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ مگر غوری سلطان غیاث الدین محمود بن سلطان محمد نے سوائے غور کے علاقہ کے سوا تمام سلطنت سلطان محمد غوری کے غلاموں کو پروانہ آزادی کے ساتھ حکمرانی بخش دی تھی ۔ مگر جلد ہی پہلے خوازم شاہی اور پھر منگولوں نے ایک ایک کرکے ان کے تمام علاقے فتح کرلئے ۔ اس طرح غوریوں کی سلطنت کا سورج ۶۰۵ھ / ۱۳۱۳ء میں ڈوب گیا ۔
ماخذ
منہاج سراج طبقات ناصری
تاریخ ابن کثیر
سیّد مناظر حسین گیلانی ۔ ایک ہزار سال پہلے
جی لی اسٹریج ۔ خلافت شرقی
دائرۃ معارف اسلامیہ
علامہ سیّد سلیمان ندوی ۔ عرب و ہند کے تعلقات
جیمز ٹاڈ ، تاریخ راجستان جلد
شیر محمد گنڈا پور ۔ تاریخ پشتون
نعت اللہ ہراتی ۔ مخزن افغانی