مجھے اندر جانے دو بہت مجبوری ہے۔ ضروری بات کرنی ہے۔ سلمان گیٹ پر کھڑے "سیکورٹی گارڈ" سے بحث کر رہا تھا۔ گارڈ اسے اندر جانے سے روکتا ہے۔اسی طرح دو گھنٹے گزر جاتے ہیں۔ شدید گرمی میں درخت کے سائے میں بیٹھے بیٹھے بےچین ہوکر جیب سے فون نکالتا ہے۔ اور بھائی جو سلمان سے چھوٹا ہوتا ہے فون پر ہی کہتا ہے کہ آپ لوگ اماں کا نماز جنازہ پڑھوا لو مجھے آنے میں بہت وقت لگے، یہ بات ہوتے دونوں بھائی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے ہیں۔
اتنے سلمان اپنے سیٹھ کا فون دوبارہ ملاتا ہے فون کھلا ہوتا ہے اور فون کال لگ جاتی ہے۔ سیٹھ صاحب فون اٹھا لیتے ہیں۔ سلمان ان کو اپنی پریشانی بتاتا ہے کہ والدہ کا انتقال ہوچکا ہے، پیسوں کی اشد ضرورت ہے اور چھٹی بھی چاہیئے۔ تو سامنے سے فون پر سیٹھ صاحب کہتے ہیں میں دو گھنٹوں میں پہنچوں گا۔ پھر پیسے لے کر اور چھٹی کرکے چلے جانا۔ اب سلمان کے دل میں امید جاگتی ہے کہ شاید اب ماں کا آخری وقت کا منہ نصیب ہوجائے۔ کیسی بےبسی اور مجبوری ہے کہ مزدوری کےلیے دوسرے شہر آئے ہیں کرائے کے اتنے پیسے نہیں ہیں کہ اچانک غم کے اس موقع پر ایمرجنسی گھر پہنچ سکے۔
سیٹھ سے دو گھنٹے بعد ہیسے لےکر جلدی بس میں سوار ہوجاتا ہے جہاں اسے ایک سیکنڈ گھنٹوں کے برابر محسوس ہوتا ہے۔ وہ بس کے عملہ کو اپنی پریشانی سے آگاہ کرتا ہے وہ تسلی دیتے ہیں کہ وقت پر پہنچ جاؤگے۔ سلمان سارا سفر ماں کی محبت ، باتیں اور دعائیں یاد کرکے روتا رہتا ہے کہ میں بڑا بیٹا ہوں اپنا فرض بھی ادا نہ کرسکا۔ ماں کو کندھے دینے والے محلے والے ہیں۔ میں ایک فرض بھی نہ پورا کرسکا۔ سفر کٹتا ہے، گھر پہنچتا ہے تو پتا چلتا ہے ماں کا نماز جنازہ ہوچکا ہے، تدفين کےلیے قبرستان لےگئے ہیں۔ یہ سن کر سلمان کے پیروں تلے زمین نکل جاتی ہے کہ اتنا بدنصیب ہوں ماں کے نماز جنازہ میں شریک تک نہ ہوسکا۔ خیر سلمان کے چچا اسے قبرستان چلنے کا کہتے ہیں کہ آخری وقت کا منہ دیکھ سکو۔ آخری بار وہ اس طرح جلدی پہنچ کر چند سیکنڈ ماں کا منہ دیکھ سکا۔ دیر سے آنے کی ماں سے معافی بھی نہ مانگ سکا۔ اس طرح ایک مسافر مزدور اپنی ماں کے آخری وقت فرائض سے مرحوم ہوگیا ہے۔ ان سب کی ذمہ دار تھی "غربت"۔