آج سے پچیس کروڑ سال قبل زمین پر ایک عظیم برِاعظم تھا۔ وقت میں اس سے پیچھے جائیں یا پھر آگے کی طرف، زمین کا نقشہ مسلسل بدلتا رہا ہے اور زمین کے اس میٹابولزم سے پہاڑ، گھاٹیاں، سمندر بنتے اور بگڑتے رہے ہیں۔ آج یہ عام معلومات ہے لیکن ہم نے یہ جانا کیسے؟ اس کہانی کے کرداروں میں ہیں فوسلز، چٹانیں، کوئلہ، گلیشئیر، سمندر کی تہہ کا آتش فشانی عمل، آئس لینڈ اور زمین کے بدلتے مقناطیسی قطبین۔ اور پھر کہانی کے ہیرو ایلفریڈ ویگینر، یہ نظریہ پیش کرنے والے سائنسدان جن کو اس کے شواہد کی تلاش میں اپنی جان سے ہاتھ گنوانا پڑے۔
اگر زمین کا نقشہ دیکھیں تو برِاعظم کسی معمے کے ٹکڑوں کی طرح لگتے ہیں جو ایک دوسرے میں فِٹ ہو سکتے ہیں۔ ایلن ویگنیر نے پہلی بار یہ کہا کہ یہ محض اتفاق نہیں اور یہ سب اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ اس کے لئے انہوں نے تین الگ طریقوں سے شواہد اکٹھے کئے۔
1۔ زمین پر زندگی کی باقیات کی نشانیاں۔ یہ تلاش رینگنے والے ایک جانور کی باقیات سے شروع ہوئی۔ افریقہ کے مغرب اور جنوبی امریکہ کے مشرق میں اس کے فوسلز زمین کے ایک ہی وقت میں ملے اور دونوں اطراف میں اس کی معدومیت بھی اکٹھے ہوئی۔ یہ تیرنا نہیں جانتا تھا۔ یہ کیسے؟ کیا ہزاروں کلومیٹر دور اس کا ارتقا اور پھر معدومیت اکٹھے ایک ساتھ ہوئی؟ یا پھر کہیں درمیان میں برف تو نہیں تھی؟ پھر کئی دوسرے جانوروں اور پودوں کے فوسلز کا مشاہدہ کیا تو اسی طرح کا نتیجہ نکلا جو اشارہ کرتا تھا کہ یہ سب ایک ٹکڑا تھا۔
2۔ چٹانوں کی نشانیاں۔ شمالی امریکہ اور یورپ کے ساحلوں پر چٹانوں کی ساخت کے مطالعے سے پتہ لگا کہ ان کے پیٹرن بالکل ایک جیسے تھے جیسا کسی نے ان کو درمیان سے توڑ دیا ہو۔ کیا یہ محض اتفاق تھا کہ دونوں طرف چٹانیں ایک جیسے تھیں یا پھر یہ سب کبھی ملی ہوئیں تھیں۔
3۔ موسم کے اثرات۔ گلیشئیر اپنی حرکت سے زمین پر نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ آج کی دنیا میں یہ قطبین پر یا اونچے پہاڑوں پر ہیں۔ افریقہ اور جنوبی امریکہ کے خطِ استوا کے قریب علاقوں میں بھی گلیشئیرز کی حرکت کے نشان ملے جو یہ بتاتے تھے کہ یہ کبھی سرد علاقے تھے۔ دوسری طرف کوئلے کے ذخائر جو ٹراپیکل جنگل کے درختوں سے بنتے ہیں، وہ قطبِ شمالی اور جنوبی کے قریب بھی ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ یہ کبھی خطِ استوا کے قریب تھے۔
ویگنیر اپنی زندگی میں ان تین زاویوں سے شواہد اکٹھے کرتے رہے۔ اسی تلاش میں قطبِ شمالی کی طرف کا سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا اور طوفان میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
لیکن ویگینیر کے کام کو پذیرائی نہ ملی۔ اتنے بڑے برِاعظم آخر کیسے ہزاروں کلومیٹر دور گھوم پھر سکتے ہیں؟
پھر ہمیں سمندر کی تہہ کا علم ہونا شروع ہوا۔ اس وقت ہم سمندر کی تہہ کے ایک ایک چپے کو بمعہ اس کی عمر کے جانتے ہیں (نقشہ ساتھ لگی تصویر میں) لیکن ساٹھ کی دہائی سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ سمندر کی تہہ میں مِڈ ایٹلانٹک رِج آتش فشاں پہاڑوں کا سلسلہ ہے جو ایک طرف آئس لینڈ سے شروع ہو کر سمندر کے نیچے دنیا کے دوسرے کونے تک پھیلا ہے۔ (اس طرح کے اور بھی کئی سلسلسے ہیں)۔ جب سمندر کی تہہ سے لاوا اگلتا ہے تو اس میں لوہے کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور لوہا اپنے آپ کو زمین کے مقناطیسی فیلڈ کے مطابق سیدھ میں لے آتا ہے۔ زمین کے قطبین اپنی سمت مسلسل الٹتے رہے ہیں۔ آج جو لاوا نکل رہا ہے وہ زمین کے آج کے قطبین کی شکلوں کے مطابق ہے لیکن جوں جوں ہم اس سلسے سے دور جاتے ہیں، ان چٹانوں کا لوہا اچانک سمت بدلتا ہے۔ ایک طرف جائیں یا دوسری طرف، ایک ہی پیٹرن جو دوسری طرف کا عکس ہے۔ جس طرح قطبین اپنی سمت بدلتے گئے، ان کی الائنمنٹ بھی بدلتی گئی اور یہ گویا دھاریوں کی صورت میں مخالف سمتوں میں موجود اپنی تاریخ کا ثبوت رکھے ہے۔ بالکل ایسے ہی پیٹرن زیرسمندر ہر آتش فشانی سلسلے کے ساتھ ہیں۔ یہ پیٹرن ساتھ لگی تصویر میں۔ سمندر کی تہہ میں ملنے والے اس واضح ثبوت سے نہ صرف یہ پتہ لگ گیا کہ بحرِ اوقیانوس کی تہہ یورپ اور افریقہ کو امریکا سے دور کر رہی ہے بلکہ یہ بھی کہ یہ کس رفتار سے۔ یہ رفتار اتنی ہے جتنی رفتار سے ہمارا ناخن بڑھتا ہے۔ ایک سال میں ڈیڑھ انچ۔ جیولوجیکل ٹائم سکیل اتنے بڑے ہیں اور انسانی تاریخ اس قدر مختصر کہ بہت سے لوگ ان تبدیلیوں کا ادراک کر نہیں پاتے۔
جی پی ایس آنے کے بعد برِاعظموں کی حرکت کی پیمائش بہت بہتر طریقے سے ہو گئی اور وہی نکلی جو اس سے پہلے پلیٹ ٹیکٹونکس کے پیشگوئی تھی۔ الفریڈ ویگینیر کا جسم اس وقت گرین لینڈ کے شمال میں سو میٹر برف کے نیچے دبا ہے لیکن ان کی جاننے کی مسلسل دھن نے ہمیں بہت سے سوالات کے جواب دے دئے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ زمین پر یہ اونچے پہاڑ کیسے بنے؟ زمین پر زندگی کی تاریخ کیا ہے؟ زلزلے جن جگہوں پر زیادہ آتے ہیں، وہ کیوں اور زلزلے آتے ہی کیوں ہیں؟ زمین میں کب کب برِاعظم کس شکل میں رہے؟ بحیرہ احمر کیسے بنا یا بحیرہ روم کب ختم ہو گا؟ زمین کی تہہ کے نیچے کیا عوامل جاری ہیں؟
ساتھ لگی پہلی تصویر فاسلز کی، دوسری چٹانوں کے بارے میں، تیسری گلیشئیرز پر، چوتھی تصویر زیرِ سمندر قطبین الٹنے کی وجہ سے بنی دھاریوں کے بارے میں اور پانچویں سمندر کی تہہ کی عمر کا نقشہ۔
الفرید ویگینیر کے بارے میں
https://en.wikipedia.org/wiki/Alfred_Wegener
ان کے نظرئے کے بارے میں۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Plate_tectonics
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔