کیا خبر ان دنوں تم کیسی ہو۔
کیا پتہ ان دنوں تمہارا قیام کس نگر ہے۔
جب سے ہم بچھڑے ہیں نہ میری خبر تمہیں پہنچی نہ تمہاری خبر مجھے پہنچی ہے۔
میں جب بھی تمہارے بارے سوچتا ہوں تو میرا گمان کہتا ہے کہ پرستان کی کسی دلفریب وادی میں سرخ پھولوں والا گھر تمہارا ہے۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ کسی جھیل کے کنارے، سنگ مر مر کے مکان میں تم رہتی ہو جس کے لان میں سبز بیلوں پر نیلی تتلیاں رقص کرتی ہیں۔
یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی قدیم بستی کے اکلوتے مندر سے متصل گھر تمہاری قیام گاہ ہے جس کی گھنٹیاں ہمیشہ تمہارے خوبصورت ہاتھوں کی منتظر رہتی ہیں۔ یا شاید کسی دور دراز گاؤں کی بڑی حویلی تمہارے وجود کی احسان مند ہے جہاں جامن کے بوڑھے پیڑ پر پرندے طربیہ گیت گاتے ہیں اور اس پیڑ کے سائے میں بیٹھ کر تم پروین شاکر کی شاعری پڑھتی ہو۔
مجھے یہ کامل یقین ہے کہ تم جہاں بھی مقیم ہو وہاں سکون، اطمینان اور آسودگی تمہارا مقدر ہے۔
میری یہ خواہش ہے کہ کاش تم جان سکو کہ تمہارے بعد یہ گھر کتنا اداس ہو گیا ہے تمہارے بعد جگنو میرے گھر کا رستہ بھول گئے ہیں، تتلیاں میرے آنگن سے روٹھ کر جا چکی ہیں اور یہاں کھلے سرخ گلابوں نے سیاہ لباس زیب تن کر لیا ہے۔
تمہارے بعد چاند تو اب بھی پورا نکلتا ہے لیکن اس کی چاندنی میرے آنگن سے ناراض رہتی ہے۔
تُمہارے بعد ستارے تو بہت ٹوٹتے ہیں
ہمارے پاس مگر مانگنے کو کُچھ بھی نہیں ہے۔
برسات تو اب بھی آتی ہے لیکن سبزہ نہیں اگتا۔ بہار تو اب بھی آتی ہے لیکن پھول نہیں کھلتے۔
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ شاید تمہاری غیر موجودگی میں، میں کلر بلائنڈ ہو گیا ہوں۔
میرے لیے تمھارے بعد، سبھی رنگ اپنی پہچان اور افادیت کھو چکے ہیں۔ کوئی بھی رنگ پہنوں، سیاہ کا گمان ہوتا ہے، سیاہ رنگ جو اداسی، ملال اور ماتم کا رنگ ہے۔ ہاں تمھارے بعد ماتم ہی تو کیا ہے، تمھارے جانے کا اور دل کے خالی رہ جانے کا۔
بہت پہلے پڑھا تھا کہ “سرخ گلاباں دے موسم وچ پھلان دے رنگ کالے”۔
اب سمجھ آتا ہے کہ کوئی اس سیاہ رنگ کی بھینٹ کیسے چڑھتا ہے۔
تمھارے بعد ہجر کا یہ سیاہ موسم جو اترا ہے وہی ٹھہر گیا ہے۔ ہم ہجر کے اس موسم کو عزاداری کی تمام رسموں کے ساتھ نبھاتے جا رہے ہیں۔
تمہارے بعد مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ تنہائی کس بلا کا نام ہے۔ تم کیا جانو کہ کرّۂ ارض کے ہر اُس خطے پر، ہر اُس مقام پر تنہائی کا عنصر موجود ہے جہاں تم نہیں ہو۔
شاید تمہیں یہ سن کے عجیب لگے کہ تمہارے ہجر سے خائف ہو کر میں نے دانستہ تمہیں بھلانے کی کوشش کی ہے لیکن آج تک یہ کوشش کوشش ہی ٹھہری ہے۔
میں یہ بھی جانتا ہوں تمہارے لوٹ آنے کا اب کوئی امکانپ نہیں ہے لیکن آج بھی میرے گمان و یقین کے سبھی موسم تیرے خیال کی خوشبو سے معطر ہیں۔
آخر میں ایک شعر آپ کی نذر،
ہم نے پھول بھیجنے کے موسم میں۔
ایک دوسرے کو ہجر بھیجا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...