* غلامِ رسول خلیق قریشی *
تحریکِ آزادیِ پاکستان کے متحرک کارکن اور استحکام پاکستان کے نقیب ،نعت گو شاعر،ادیب و صحافی، اور بانی روزنامہ “عوام” فیصل آباد
عالمی شہرت کے حامل ُاردو زبان و ادب کے نامور تخلیق کار ، سفر نامہ نگار ، نعت گو شاعر ،عالمی ادبیات کے نباض، دانشور ، تحریکِ آزادیِ پاکستان کے متحرک کارکن اور استحکام پاکستان کے نقیب ,اور صحافی، بانی روزنامہ “عوام” فیصل آباد غلام رسول المعروف خلیق قریشی نے ترکِ رفاقت کی ۔ 6/جنوری 1974ء اُردو ادب کے شعراء و ادباء کے لیے شامِ اَلم ثابت ہوئی ۔اس رات اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اِس یگانہء روزگار ادیب اور صحافی سے قلم چِھین لیا۔وہ بے مثال تخلیق کار جس نے گُزشتہ چار عشروں سے اپنی تخلیقی فعالیت سے ایک عالم کو اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا اور تاریخ ادب میں اپنی ادبی کامرانیوں کے نئے باب رقم کیے، اب تاریخ کا حصہ بن گیا ہے ۔عارضہء قلب میں مبتلا اس بزرگ اور ہفت اختر ادیب کو فیصل آباد کے ایک ہسپتال میں علاج کے لیے لایا گیا لیکن سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں اور دوا نے کُچھ بھی کام نہ کیا اور بیماریء دِل نے اِس شمع فروزاں کو ہمیشہ کے لیے گُل کر دیا ۔شہر خموشاں پیپلز کالونی نمبر ایک لائل پور (فیصل آباد) پاکستان کی زمین نے اُردو ادب کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا۔اردو زبان و ادب کا وہ آفتاب ِ جہاں تاب جو قیام پاکستان سے تینتیس سال قبل چودہ اگست انیس سو چودہ (14/اگست 1914ء) اسی دن موضع لنگیاں خوجے، ضلع گجرات میں میاں شرف الدین کے گھر میں طلوع ہوا اور چھ جنوری انیس سو چہتر (6/جنوری 1974ء)کی شام لائل پور (فیصل آباد) میں ساٹھ سال کی عمر میں غروب ہو گیا۔
وہ آفتاب جہان تاب جس کی ضیا پاشیوں سے کُل عالم بُقعہ ء نُور ہو گیا تھا ۔وہ زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار جس نے اپنی تخلیقی فعالیت سے اُردو زبان و ادب کو عالمی ادبیات میں معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کیا اور اُردو ادب کو افلاک کی وسعت عطا کی، اب پیوند خاک ہو چکا ہے ۔اُردو زبان میں صحافت کی درخشاں روایت اور منور باب اختتام کو پہنچا۔۔دنیا لاکھ ترقی کرے اب ایسے باکمال لوگ کبھی پیدا نہیں ہو سکتے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُردو شاعری اور صحافت کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی اجل کے ہاتھوں زمیں بوس ہو گئی ہے ۔شاد عظیم آبادی نے سچ کہا تھا :
ڈُھونڈو گے اگر مُلکوں مُلکوں مِلنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
فیصل آباد کی سرزمین بڑی مردم خیز ہے۔اس کی ادبی فضاؤں نے بڑے بڑے ادباء اور شعراء کو جنم دیا ۔ اور ان کی ادبی پرورش کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا ۔جنہوں نے نہ صرف وطن عزیز پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ایسی ہی ایک ہمہ صفت اور ہمہ جہت شخصیت جس نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے شہر فیصل اباد کو ایک خاص شناخت اور پہچان دی۔لوگ ان کو خلیق قریشی کے نام سے جانتے ہیں۔ان کا اصل نام غلام رسول المعروف خلیق قریشی ہے ۔۔
بعض شخصیات کو اللہ رب العزت نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے ۔انھی میں جناب خلیق قریشی مرحوم کا شمار ہوتا تھا کہ بچپن میں ہی والد وفات پا گئے تھے ۔۔کسی جائیداد ، کسی سرماے ، کسی شناخت اور حوالے کے بغیر زندگی کی ابتدا کی اور اپنے آپ کو یوں منوایا کہ ہمہ پہلو شخصیت بن گئے ۔۔۔۔۔۔۔وہ بیک وقت شاعر ، ادیب ،صحافی ، خطیب اور سب سے بڑھ کر وہ پاکستان اور بانی پاکستان کے جاں نثار تھے ۔۔۔
دنیا علم و ادب میں بعض ایسے ارباب کمال ہو گزرے ہیں جو علمی وادبی مراکز سے دوری کی وجہ سے شہرت عام حاصل نہ کر سکے اور گلدستہ طاق نسیاں ہو کر رہ گئے۔۔ یوں علمی دنیا ان کے فضائل و محاسن اور ادبی منزلت سے بے خبر رہی ، ایسے ہی باکمال مگر گمنام شخصیات میں غلام رسول کا نام بھی آتا ہے۔جنہوں نے بعد میں اپنے قلمی نام خلیق قریشی کے نام سے شہرت پائی ۔
خلیق قریشی برعظیم جنوبی ایشیا کی اور عظیم المرتبت ہستیوں اور ہمہ گیر شخصیتوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس وقت آنکھ کھولی جب یہ خطہ ارضی ایک نازک تاریخی دور سے گزر رہا تھا ان اکابرین نے زندگی کے ہنگاموں میں بھرپور حصہ لیا اور خون جگر سے اپنے عہد کی داستان خون چکاں میں رنگ بھرا ۔۔خلیق قریشی کی زندگی علمی و ادبی کارناموں کا مرقع ہے۔ خلیق قریشی اپنے فکر و عمل اور تخلیقات کے حوالے سے ایک معتبر نام ہے ۔۔
خلیق قریشی (مرحوم) چونکہ ایک درویش منش شخصیت تھے۔انہوں نے اپنی زندگی میں جتنا بھی قلمی کام کیا اسے کبھی کتابی شکل میں لانے کی کوشش نہ کی۔بلکہ وہ فقط اخبارات میں شائع ہوتا رہا۔جن میں نوائے وقت،لائلپور اور روزنامہ “عوام” سرِ فہرست ہے۔اللہ پاک نے اپنے بندوں سے کچھ خصوصی کام لینا ہوتا ہے۔ان کے اس تمام قلمی کام کو محفوظ کرنے اور اسے کتابی شکل میں لانے کا سہرا رب العزت نے ان کے بڑے صاحبزادے محمد ظہیر قریشی (مرحوم) سے لیا۔محمد ظہیر قریشی(مرحوم) جو کہ نہ صرف خلیق قریشی کے صحافتی وارث بن کر ابھرے بلکہ ان کے ادبی وارث ہونے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہوا۔انہوں نے خلیق قریشی(مرحوم) کے تمام کام کو کتابی شکل میں لانے کی سعی کی اور اپنی حیات میں خلیق قریشی (مرحوم) کی تین کتابیں شائع کروائیں۔جو کہ بالترتیب اس طرح ہیں
1۔برگِ سدرہ (نعتیہ مجموعہ)
2۔نقشِ کفِ پا (غزلیات)
3۔سرِ دوشِ ہوا (نظمیں)
یہ مواد اکٹھا کرنا اور اسے ایک جگہ جمع کرنا اتنا آسان نہ تھا۔اس مشکل اور بکھرے ہوئے کام کو اکٹھا کرنے کے لیئے انہوں نے ایک چار رکنی ٹیم تیار کی جس کے ارکان نے خلیق قریشی (مرحوم) کے تمام کام کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔جس میں زیادہ وہ میسر آسکا جو روزنامہ “عوام” میں شائع ہوا تھا اور اس کا ریکارڈ موجود تھا۔اس ٹیم کے ارکان میں ڈاکٹر ریاض مجید ، پروفیسر شبیر احمد قادری،حمید شاکر اور قمر عباس قمر تھے۔مزید برآں روزنامہ “عوام” کے ادار یے کے اراکین نے اپنی اپنی جگہ مکمل معاونت کی اور اردو ادب کا یہ معتبر نام کتابی شکل میں محفوظ ہو گیا۔وگرنہ بے شمار افراد کی ادبی کاوشیں تاریخ کی دھول کی نذر ہو جاتی ہیں
خلیق قریشی اپنے نام کی طرح خلیق متواضع اور مرنجاں مرنج انسان تھے وہ جس سے ایک بار مل لیتے ، اسے اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے ۔۔ذاتی تفاخر اور طمطراق نام کی کوئی چیز ان کی شخصیت میں نہ تھی ۔۔۔اپنی علمیت کی دھونس جمانا تو جانتے ہی نہ تھے۔ وہ ایک حوصلہ مند اور پرعزم انسان تھے۔۔ہر مشکل کا مقابلہ کرتے اور ہر مشکل کام کر کے ہی دم لیتے۔۔۔
خلیق قریشی کے گھر کا ماحول بہت خوشگوار تھا۔اپنی اولاد کو بہت عزیز رکھتے تھے ۔ان کی رائے کو بہت مقدم جانتے تھے۔ تنگدستی اور بعض اوقات مفلوک الحالی کے باوجود گھر میں کبھی بدمزگی پیدا نہیں ہوئی تھی ۔۔ان کو غصہ آتا تو خاموش ہو جاتے ۔۔ضبط و تحمل سے کام لیتے تھے ۔۔وہ بڑے روشن دماغ اور وسیع القلب انسان تھے ۔انہوں نے اپنی اولاد کی تربیت بھی انہی خطوط پر کی ۔دوستوں سے کبھی کبھی ناراض ہو جاتے مگر یہ عارضی مرحلہ ہوتا تھا ۔وہ فورا رنجش بھول جاتے اور غبار دل سے صاف کر لیتے ۔ان کی شخصیت میں چار چیزیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں ۔سادگی ، ایثار ، خدمت اور درد مندی ۔۔۔۔
خلیق قریشی نے جس ماحول میں آنکھ کھلی وہ اقتصادی لحاظ سے بہت پسماندہ تھا ۔ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی۔ مسلمانوں پر ان کے ظلم و ستم سب سے زیادہ تھے ۔اور مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں پیچھے رکھا جاتا ۔ہر معاملہ میں ان کا استحصال کیا جاتا تھا ۔اس دور میں مسلمانوں کو معمولی ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے بھی بہت جدوجہد کرنا پڑتی تھی ۔بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں عوام کے ذہنوں میں سیاسی شعور کی ایک روح بیدار ہوئی اور انگریز حکومت کے خلاف بہت سی تحریکیں شروع ہو گئیں اور ان تحریکوں کے نتیجہ میں مسلمانوں پر مزید ظلم ٹوٹا۔آخر کار یہ تحریک کامیاب ہوئی اور دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کے نشانات واضح ہوئے ۔۔
مختلف سیاسی سماجی ادبی تحریکوں کے اثرات معاشرے پر بڑے گہرے ہوتے ہیں۔ ہر فرد کے زمانی و مکانی محرکات اور عوامل میں تاریخ اور روایت میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔یہ چیزیں ان کے لاشعور کا حصہ بن جاتی ہیں ۔زندگی میں ہونے والے حالات و واقعات کا اثر ہماری شخصیت پر مرتب ہوتا ہے۔
کوئی معمولی یا غیر معمولی واقعہ ہماری ذہنیت کا حصہ بن کر ہمارے شعور یا لاشعور میں جگہ پکڑ لیتا ہے ۔۔ادیب لوگ معاشرے کے دوسرے افراد کی نسبت زیادہ حساس ہوتے ہیں اس لیے وہ ان واقعات کا زیادہ گہرا اثر لیتے ہیں ۔۔۔
خلیق قریشی نے بھی اپنی زندگی میں بڑے اتار چڑھاؤ دیکھے اور ان کے اثرات ان کی شخصیت پر پڑے ۔ان کی تمام عمر محنت اور جہد مسلسل میں بسر ہوئی۔ انہوں نے محنت اور مشقت میں سختیاں برداشت کیں اور زندگی میں اپنے لیے ایک لائحہ عمل ترتیب دے کر اپنی شخصیت کی تعمیر کی ۔
خلیق قریشی کا خاندانی پس منظر بہت حد تک عام لوگوں کی نگاہ سے اوجھل رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ گجرات میں جنم اور پانچ سال کی عمر میں والد کی شفقت سے محروم ہونا اور سات سال کی عمر میں والدہ بھی انہیں اکیلا چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئیں۔۔
خلیق قریشی دو بہنوں کے اکیلے بھائی تھے ایک بہن ان سے عمر میں بڑی تھی، ان کا نام زینب بی بی تھا۔جبکہ دوسری بہن ان سے عمر میں چھوٹی تھی ان کا نام ریاض بی بی تھا۔
خلیق قریشی کے دادا حاکم علی شاہ صاحب کو سلسلۂِ قادریہ کی خلافت حاصل تھی اور وہ ایک بہت باکمال روحانی شخصیت کے مالک تھے۔میاں غلام باری (مرحوم) کا خاندان حضرت حاکم علی شاہ صاحب(رح) کے عقیدتمندان میں سے تھا۔میاں شرف الدین (مرحوم) جو کہ خلیق قریشی(مرحوم) کے والد گرامی تھے۔وہ میاں غلام باری(مرحوم) کے خاندان کے اصرار پر لائلپور منتقل ہوئے۔تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا میاں شرف الدین کچھ عرصہ بعد ہی علیل ہو گئے اور جوانی میں ہی اس فانی دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ان کے وصال کے بعد میاں غلام باری(مرحوم) نے خلیق قریشی اور ان کے اہل و عیال کی کفالت کی ذمہ داری لے لی ۔۔
پیدائش کے بعد تعلیم سے پہلے ابتدائی ترتیب کا مرحلہ کامیاب انسان بننے کے لیے اہم ہوتا ہے ابتدائی تربیت کرنا والدین کی ذمہ داری میں شامل ہے ۔خلیق قریشی کے والدین اس وقت فوت ہو گئے جب انہوں نے ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا عموما یتیم بچے ابتدائی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے اوارہ ہو جاتے ہیں اور وہ معاشرے کے کام جب انسان نہیں بن سکتے۔لیکن خلیق قریشی کی قسمت اچھی تھی کہ ان کو مولانا باری جیسے شفیق انسان مل گئے جنہوں نے والدین کا پیار بھی دیا اور استاد کی شفقت بھی ۔۔جس طرح پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ والدین کی وفات کے بعد خلیق قریشی گجرات چھوڑ کر مولوی غلام باری کے پاس لائل پور ( فیصل اباد) چلے آئے اور مولوی غلام باری نے ان کی ابتدائی تربیت کی ۔۔
مولوی غلام باری تحریک پاکستان کے سرکردہ رہنما میاں عبدالباری کے چھوٹے بھائی تھے ۔مولوی غلام باری ڈپٹی نذیر احمد کی طرح مشرقی و مغربی علوم سے بہرہ مند تھے ۔ان کو مشرقی و مغربی علوم پر مکمل عبور حاصل تھا ان کو اردو، عربی ، فارسی ،انگریزی اور پنجابی زبان پر مکمل دسترس حاصل تھی۔انہوں نے خلیق قریشی کی ابتدائی تربیت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔یہ ان کی تربیت کا نتیجہ ہی تھا کہ گجرات کا غلام رسول جو والدین کی وفات کے بعد بے سہارا ہو گیا تھا ان کی تربیت ہی کی وجہ سے یہ یتیم بچہ غلام رسول سے خلیق قریشی بن گیا جو مستقبل کا شاعر بھی تھا اور ایک مایہ ناز صحافی بھی ۔۔اور تحریک پاکستان کا سرکردہ لیڈر بھی _ اگر میاں غلام باری ان کی تربیت نہ کرتے تو نہ جانے یہ یتیم بچہ بے سہارا کس کے رحموں کرم پر ہوتا ۔۔
تعلیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلیق قریشی جس دور میں پیدا ہوئے یہ دور وہ تھا جب تعلیم حاصل کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی ۔ملک پر انگریزوں کا کنٹرول تھا ۔وہ زندگی کے ہر شعبہ میں ہندوؤں کو نوازتے تھے ۔مسلمانوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا مشکل تھا لیکن خلیق قریشی پر قدرت مہربان تھی مولوی غلام باری نے ان کی ابتدائی تربیت اور نگہداشت کی اور ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔۔۔۔
جس طرح علامہ اقبال کی تعلیم و تربیت میں ان کے استاد مولوی میر حسن نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور محمد اقبال جو ایک درزی کا بیٹا تھا ان کی ایسی تعلیم و تربیت کی کہ محمد اقبال سے وہ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال شاعر مشرق بن گئے، اسی طرح مولوی غلام باری نے خلیق قریشی کی ایسی تعلیم و تربیت کی کہ زمانے نے دیکھا کہ غلام رسول جو بچپن میں یتیم ہو گیا تھا اور اس کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا وہ مولوی غلام باری کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے غلام رسول سے خلیق قریشی بن گیا جو مستقبل کا شاعر بھی بنا ، صحافی بھی اور تحریک پاکستان کا سرگرم کارکن بھی ۔
علامہ اقبال اور خلیق قریشی میں بہت سی خوبیاں یکساں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ خلیق قریشی علامہ اقبال سے بہت متاثر تھے علامہ اقبال سے وہ اس حد تک متاثر تھے کہ اپنی شاعری میں انہوں نے علامہ اقبال کی شاعری کی کس حد تک تقلید کی ۔۔
خلیق قریشی نے ابتدائی تعلیم موضع کانکی چک نمبر 20 ج ب ضلع لائل پور فیصل آباد کے ایک مدرسہ سے حاصل کی ۔کیونکہ ان کی ابتدائی تعلیم میں مولوی غلام باری کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ مولوی غلام باری نے ان کو قرآن پاک عربی اور فارسی کی تعلیم دی ۔یہی وجہ تھی کہ ان کو پنجابی ،اردو کے علاوہ عربی، فارسی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا ۔اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد وہ ہائی سکول طارق آباد فیصل آباد میں داخل ہوئے۔اور اسی سکول سے 1934ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لائل پور (فیصل آباد) میں داخل ہوئے اور اسی کالج سے 1936ء میں انٹر پاس کیا ۔۔انٹر کا امتحان پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں بی اے کا داخلہ لے لیا ۔لاہور میں ان کی رہائش مولوی غلام باری کے فرزند میاں وحید اختر کے پاس تھی جو اس وقت تعلیم کے سلسلے میں لاہور میں رہائش پذیر تھے ۔1938ء میں انہوں نے بی اے کا امتحان پاس کیا ۔
گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور میں انہیں خوش قسمتی سے ایسے ہم جماعت اور کلاس فیلوز ملے جو تعلیم میں دلچسپی لینے کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق بھی رکھتے تھے ۔ان میں سے کئی ایک نے بعد میں ادب کی مختلف اصناف میں نام پیدا کیا ۔ان لوگوں کی وجہ سے خلیق قریشی کے ادبی ذوق میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور انہوں نے ادب کی مختلف اصناف میں لکھنا شروع کر دیا ۔ان کے ہم جماعتوں میں مرزا دیپ سید ضمیر جعفری محمود نظامی اور کلاس فیلوز میں تابش صدیقی، نسیم حجازی، مختار صدیقی ،اخترہوشیار پوری ، عبد الستار نیازی ،عبدالرشید ارشد، کرنل سید امجد حسین اور نسیم حسن شاہ شامل تھے ۔۔
خلیق قریشی لائل پور فیصل آباد میں بھی شاعری میں طبع آزمائی کرتے رہے لیکن جب ان کو لاہور میں ادبی فضا ملی تو ان کے دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا تو انہوں نے نظم و نثر دونوں میں لکھنا شروع کر دیا۔لاہور جو علم وادب کے حوالہ سے دبستان دہلی اور دبستان لکھنو کے بعد اپنی پہچان رکھتا ہے اس ادبی ماحول سے انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا ان کو جب بھی موقع ملتا ،مشاعروں میں شرکت کرتے، علمی و ادبی مجالس میں شریک ہوتے اور شام کے وقت وہ دوستوں کے ساتھ خصوصا اخبار کے دفاتر میں جاتے تھے۔ اس طرح ان کا رجحان شاعری کے ساتھ ساتھ صحافت کی طرف بھی ہو گیا۔۔اس سلسلہ میں مرزا ادیب کہتے ہیں ۔
“خلیق قریشی میرے کلاس فیلو تھے وہ بہت فعال اور محرک شخصیت کے مالک تھے۔مجلسی ادمی تھے۔ جہاں بھی ہوتے شمع محفل بن جاتے ۔انہیں تحریر و تقریر پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ بہت نکتہ رس، بزلہ سنج اور حاضر جواب انسان تھے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں ان جیسا نقطہ آفرین اور شگفتہ آدمی نہیں دیکھا”۔
تصانیف /مجموعہ کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1-نقش کف پا
2-سر دوش ہوا
3- برگ سدرہ
صحافت سے وابستگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلیق قریشی جب انٹر کے بعد بی اے کی تعلیم کے لیے لاہور ائے تو ان کے علمی و ادبی ذوق میں اور اضافہ ہوا ان کی بڑی وجہ یہ تھی کہ لاہور ایک علمی و ادبی شہر تھا یہاں جگہ جگہ مختلف اخبارات کے دفاتر تھے خلیق قریشی اور ان کے رفقا دن کو کالج میں پڑھتے اور شام کو یہ کسی ادبی محفل اور مشاعرے میں شریک ہوتے۔۔اگر کوئی ادبی محفل یا مشاعرہ نہ ہوتا تو یہ کسی اخبار کے دفتر چلے جاتے اخبارات کے ایڈیٹروں سے ملتے،ان سے صحافت کے متعلق معلومات حاصل کرتے۔۔وقت کے ساتھ ساتھ خلیق قریشی کے ذوق میں اضافہ ہوتا گیا اور وہ صحافت کی طرف توجہ دینے لگے ۔۔
خلیق قریشی جو علامہ اقبال اور قائد اعظم سے بہت متاثر تھے اور تحریک آزادی کے سرگرم رکن تھے۔ اب انہوں نے مختلف اخبارات میں مضامین لکھنے شروع کر دیے۔ انہوں نے ایک عاشق رسول ، محب وطن اور صحافی کی حیثیت سے اپنی پہچان کرائی ۔شاعری میں وہ علامہ اقبال اور صحافت میں وہ ظفر علی خان سے بہت متاثر تھے ،۔
ان کے انداز صحافت پر مولانا ظفر علی خان کے اثرات نمایاں نظر اتے ہیں ان کے درمیان اور مولانا ظفر علی خان کے درمیان بہت سی باتیں یکساں تھیں دونوں شاعر تھے دونوں تحریک پاکستان کے سرکردہ لیڈر تھے اور دونوں ساتھی تھے لاہور میں قیام کے دوران وہ ازادی سے متعلق مختلف اخبارات میں مضامین لکھتے رہے ۔۔
جب انہوں نے 1938 میں بی اے کا امتحان پاس کر لیا اور وہ لائل پور فیصل آباد آئے تو انہوں نے بطور صحافی کام کرنے کا فیصلہ کیا اور اس وقت لائل پور فیصل آباد سے ایک اخبار لائل پور کے نام سے نکلتا تھا اس کے مدیر کے طور پر کام شروع کر دیا ۔ کچھ عرصہ تک انہوں نے اخبار کو چلایا اور 1948 میں انہوں نے اپنا اخبار جاری کرنے کا فیصلہ کیا ۔اور عوام اخبار کے نام سے لائل پور فیصل آباد سے اخبار جاری کیا ۔”عوام” اخبار کے ذریعہ استحکام وطن کے احساس کو اجاگر کرنے اور جذبے کو ابھارنے کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ تحریک پاکستان کے دوران انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں انتھک جدوجہد کی اور روزنامہ “نوائے وقت” لاہور اور ہفت روزہ “پنجاب” میں ان کے بے شمار مضامین اخبارات کی زینت بنے ۔انہوں نے نوائے وقت میں اختر شمار کے نام سے بھی کئی مضامین لکھے ۔خلیق قریشی مرتے دم تک صحافت سے منسلک رہے۔۔
خلیق قریشی کو زمانہ طالب علمی سے ہی شاعری کا ذوق پیدا ہو گیا تھا جب انٹر کرنے کے بعد وہ لاہور میں بی اے کرنے کے لیے گئے اور اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا تو وہاں پر ان کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو ایسے طالب علم ساتھیوں سے واسطہ پڑا جو علم و ادب کا ذوق رکھتے تھے ان ساتھیوں میں محمود نظامی، سید ضمیر جعفری ، مرزا ادیب تو ان کے ہم جماعت تھے جب کہ سید نسیم حسن شاہ، عبدالستار نیازی _نسیم حجازی، تابش صدیقی ،ممتاز صدیقی ،اختر ہوشیارپوری، عبدالرشید ارشد اور کرنل سید امجد حسین ان کے کالج فیلو تھے ۔۔
ان احباب کی بدولت خلیق قریشی پر تین اثرات مرتب ہوئے۔ پہلا اثر یہ تھا کہ ان کو تحریک پاکستان میں شمولیت کا موقع ملا پاکستان کے حصول کے لیے تحریر کے ذریعے انہوں نے آواز اٹھائی۔ دوسرا ان کو شاعری کا ذوق پیدا ہوا اور تیسرا ان کا رجحان صحافت کی طرف ہوا ۔۔۔
لائل پور (فیصل آباد) کا غلام رسول جو لاہور تعلیم کے لیے آیا لیکن لاہور کے ماحول نے غلام رسول کو خلیق قریشی بنا دیا ان کے اصل نام کی جگہ ان کا قلمی نام مشہور ہو گیا ۔انہوں نے سب سے پہلے لاہور میں باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ شاعری میں ان کا باقاعدہ کوئی استاد نہیں تھا ان کے احباب اور خاندان کے لوگوں سے جو معلومات ملی ان کے مطابق جب انہوں نے شاعری شروع کی تو وہ شعر لکھتے تھے جو شاعر بھی ان کو مل جاتا وہ اس سے اصلاح کروا دیتے تھے ۔ان ان کے عہد میں لاہور علمی و ادبی لحاظ سے بہت بڑا مرکز تھا اس لیے ان کی شاعری میں وقت کے ساتھ ساتھ نکھار پیدا ہو گیا ۔۔
جب انہوں نے شاعری شروع کی تو ان کا موضوع آزادی ہی تھا اس وقت تحریک عروج پر تھی انہوں نے حصول پاکستان کی جدوجہد میں قائد اعظم کی قیادت وسادت میں پوری طرح اور نظم و نثر کے ذریعہ اپنی آواز بلند کی۔ انہوں نے شاعری بھی کی اور مضامین بھی لکھے۔ اپنے قلمی نام خلیق قریشی کے ساتھ ساتھ فرضی ناموں اختر شمار ،عوامی، مومن اور ملی کے فرضی ناموں سے بھی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا۔
مولانا عبدالمجید سالک خلیق قریشی کے بارے میں لکھتے ہیں
“خلیق قریشی کو جو بھی پڑھ رہا تھا وہ شعراء خلیق کے مقابلہ میں نہیں جن میں ہر ایک کی شاعری کی عمر خلیق کی طبعی عمر سے زیادہ ہے مگر حق بات یہ ہے کہ خلیق ان سب کو مات دے گیا۔”
نثر میں ان کی مضامین کالم اور اداریے مختلف علمی، ادبی ،سماجی ،اخلاقی اور سیاسی موضوعات پر ہونے والے مضامین اور مکاتیب جب کہ شاعری کے حوالہ سے ان کی ان گنت نظمیں، غزلیں ،حمدیں ، مرثیے اور نعتیں ان کی قادر الکلامی کی مظہر ہیں ۔
خلیق قریشی نے اپنے معاصر شعراء میں
ن ۔م راشد ،میرا جی ،سردار جعفری اور تصدق حسین خالد کی طرح شعری ہیتوں کے تجربے کرنے کے بجائے خیال اور فکر کو زیادہ اہمیت دی اور اس کے لیے مروجہ پیمانہ ہی اختیار کیا اور تجربوں کے گورکھ دھندہ میں الجھنے کے بجائے وہ راستہ اختیار کیا جو علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خان اور اسی قبیل کے دیگر شعراء نے اختیار کیا۔۔خلیق قریشی ان اہل علم میں سے تھے جو ہیت کے بجائے خیال و فکر کو ترجیح دیتے تھے ۔۔
خلیق قریشی کی اولین شناخت شاعری کی حیثیت سے ہے ۔لیکن ایک صحافی کی حیثیت سے انہوں نے نثر کی طرف بھی توجہ دی۔ان کے نثری نمونے ان کے مضامین اداریوں اور خطوط کی صورت میں ہیں انہوں نے کچھ افسانے بھی لکھے۔ نثر میں ان کا سب سے بڑا کام مختلف موضوعات پر لکھے گئے مضامین ہیں ۔۔یہ مضامین عوام اخبار اور نوائے وقت کے علاوہ اس وقت کے بہت سے اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں ۔۔ان کے نثر قومی اور علمی حوالوں سے ان کی راست فکر کی مظہر ہے ۔
خلیق قریشی نے جو بھی علمی ادبی کام کیا ان کا علمی و ادبی کاموں کی طرف جو رجحان ہوا اس میں سب سے بڑا کمال لاہور کی ادبی فضا اور خاص کر اسلامیہ کالج لاہور کے علمی و ادبی احباب کی بدولت ہوا۔اگر وہ لائل پور فیصل آباد سے لاہور نہ اتے تو شاید وہ بڑا انسان تو بن پاتے مگر ادیب اور شاعر نہ بنتے۔۔
کرداری خصوصیات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادب شخصیت کا جلوہ بھی ہے اور پردہ بھی۔ شخصیت ادب میں بعینہ ہی ظاہر نہیں ہوتی لیکن اس کی جھلک تحریروں سے صاف ظاہر ہوتی ہے ۔اس سے فن کے آداب میں انفرادیت اور انوکھا پن پیدا ہوتا ہے۔ میر کی مجروح شخصیت سے ان کا کلام درد مند انسانیت کی آواز بن جاتا ہے۔ غالب اپنے داغوں سے ایک سرد چراغوں کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں ۔۔
خلیق قریشی کی شخصیت یک رنگی نہیں بلکہ جامع ہے۔یہاں تک ان کی ظاہری شخصیت کا تعلق ہے وہ بھی اپنے اندر ایک خاص حسن و کشش رکھتی تھی ۔۔
ان کی باطنی کردار کی خصوصیت بھی ان کی ظاہری شخصیت کے مطابق تھیں والدین کی وفات کے بعد مولوی عبدالباری نے ان کی تربیت جس محبت سے کی ، ان کو جو ماحول فراہم کیا، ان میں خوش اخلاقی اور بزلہ سنجی صفات پیدا ہو گئی تھی۔۔آپ بہت خوشی اخلاق اور ملنسار انسان تھے ۔۔بے تکلف دوستوں کے مجمع میں وہ ایک بلبل ہزار داستان تھے ۔بہت نرم مزاج اور صلح جو تھے ۔۔ان کی نرم مزاجی کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اگر کوئی ان کے کام میں مخل ہوتا تو وہ پرواہ تک نہیں کرتے تھے ۔اگر وہ دوسروں میں اختلاف دیکھتے تو صلح کروانے کی کوشش کرتے ۔وہ ہر ایک سے خوش اسلوبی سے ملتے تھے ۔وہ کسی کو بھی خفا نہیں دیکھ سکتے تھے ۔زمانے کے بے رحم تھپیڑے سہہ کر انہوں نے زندگی کا جو سفر طے کیا ہے اسے انہوں نے کچھ دلی کے ساتھ مقدر کا لکھا ہوا سمجھ کر قبول کر لیا ۔انہوں نے اس پر منفی رد عمل کا اظہار کرنے کے بجائے زندگی کو خوش خوش گزارنے کی راہ کا انتخاب کیا۔۔ بات سے بات پیدا کرنا ان کی روز مرہ گفتگو کا حصہ تھا ۔بڑے ہنس مکھ اور خوش مزاج انسان تھے ۔ایک سیلف میڈ انسان ہونے کے ناطے وہ زندگی کے نشیب و فراز اور اتار چڑھاؤ جانتے تھے ۔انہوں نے اپنی دنیا آپ پیدا کی ۔اس جدوجہد کے نتیجہ میں ان کے مزاج میں تعمیری پہلو نمایاں تھا ۔انہوں نے ہمیشہ اپنے اور دوسروں کے لیے تعمیری راستوں کا انتخاب کیا ۔۔وہ تلخی حیات کو پی کر مسکراہٹیں بکھیرنے اور دوسروں میں مسرتیں تقسیم کرنے کو بھی زندگی کا مثبت اور تعمیری پہلو گردانتے تھے ۔خلیق قریشی نے ساری زندگی فکر و کاوش میں گزاری ۔کوئی لمحہ ایسا نہ تھا جب انہوں نے اپنی خدا داد ذہنی جسمانی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خلق خدا کی بھلائی اور بہتری کے بارے میں عملی قدم نہ اٹھایا ہو۔ ان کے کردار کا خاصا یہ بھی تھا کہ انہوں نے تحریر و تقریر میں دوسروں پر ہمیشہ خوشگوار اثرات اور یادگار نقوت چھوڑے ۔۔۔خلیق قریشی اسم میں با مسمی تھے ۔۔۔ حسن خلق ان کے حیات شعار کا لازمہ تھا۔۔وہ اپنی خوش گفتاری سے دوسروں کے دلوں میں گھر کر لیتے تھے ۔دقیقہ شناس ، نقطہ رس فرد ہی تلخی سے شرینی کشید کرنے کا ہنر رکھتا ہے ۔اور وہ اس صفت سے خوب واقف تھے ۔اللہ کریم نے انہیں عمدہ گفتاری کے ساتھ ساتھ پختہ فکر کی حامل تحریری صلاحیتوں سے خوب نواز رکھا تھا ۔۔وہ شگفتہ طبیعت کے مالک تھے ۔بے تکلف دوست احباب میں ان کے جوہر کھلتے تھے ۔وہ مجلسی زندگی کے بادشاہ تھے ۔اس سلسلے میں ڈاکٹر غلام رسول چودھری کہتے ہیں
“کوئی شخص ان کی شوخی گفتار سے نہیں بچ سکتا تھا لیکن ان کے طنز و مزاح اور ظرافت سے پھول جھڑتے اور قہقہے بلند ہوتے جس سے ان کا ہدف بھی محفوظ ہوتا۔”
امت مسلمہ اور خصوصا پاکستان کے سماجی سیاسی اقتصادی اور تہذیبی
امور و مسائل کا تخلیقی بیان کی بڑی جاندار تصویریں خلیق قریشی کی نعتیہ شاعری میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔۔۔
ے آج دنیا کو ہیں جتنے بھی مسائل درپیش
ان کا حل ان کا مداوا ہے ترے نام کے ساتھ
سکندر ذوالقرنین نے اس کتاب میں تحریک پاکستان کے کارکن اور استحکام پاکستان کے نقیب ، ممتاز شاعر اور روزنامہ “عوام” فیصل آباد کے بانی خلیق قریشی کی شخصیت اور فکر و فن کے حوالے سے لکھے گئے مضامین اور منظومات کا انتخاب کر کے”خلیق فیصل آباد ،خلیق قریشی= اہل قلم کی نظر میں” کے نام سے شائع کیا ہے۔۔ ڈاکٹر ماجد مشتاق راۓ لکھتے ہیں : ” فیصل آباد کی ادبی تاریخ مرتب کی جاۓ تو ” عوام” اور ” خلیق قریشی” دونوں ہی اس کے لازمی اور اہم باب ہوں گے “۔
علی اختر کے مطابق : “حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جاۓ تو خلیق قریشی مرحوم فیصل آباد کی واحد شخصیت ہیں جن پر ماضی بعید میں بہت لکھا گیا اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا ۔ مگر ” خلیق فیصل آباد ۔۔۔۔خلیق قریشی ، اہل قلم کی نظر میں” کو کتابی شکل میں دیکھ کر میں سکندر ذوالقرنین کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے خلیق قریشی پر لکھی گئ نگارشات کو یکجا کرکے علمی و ادبی منظرنامے پر اپنے نام کو زندہ و تابندہ کر لیا ہے ”
اشرف اشعری کے مطابق: ” سکندر ذوالقرنین نے حضرت خلیق قریشی مرحوم کی وفات سے لے کر اب تک لکھے گئے مضامین کو حتی المقدور یکجا کرکے فیصل آباد کے اہل قلم کو فکر انگیز دعوت یکجائ دی ہے۔
احمد ثبات قریشی الہاشمی نے مذکورہ کتاب میں حضرت خلیق قریشی کو خوبصورت انداز میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے کی کاوش کو سراہا ہے اور سکندر ذوالقرنین کی ایک اعلی ادبی کاوش قرار دیتے ہوۓ ان کی کتاب دوستی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔۔ڈاکٹر شبّیر احمد قادری کی راۓ کے مطابق “شہروں کی شناخت سنگ و خشت سے نہیں ، گوشت پوست کے انسان ہوتے ہیں ۔ فیصل آباد کی جن علمی و ادبی شخصیات نے اپنے کارہاۓ نمایاں کی بدولت اس شہر کا نام روشن تر اور سر بلند کیا ان میں بلا شک و شبہ خلیق قریشی کا نام سرفہرست ہے”
“سر دوش ہوا “خلیق قریشی کی نظموں کا مجموعہ ہے ۔اس مجموعہ سے پہلے ان کے دو شعری مجموعے ” برگ سدرا ” (نعتیں) اور “نقش کف پا ” (غزلیں) چھپ چکے ہیں ۔۔۔۔
غزل کا ایک شعر ۔۔۔۔۔
اے خطہ وطن کے محافظ خوش آمدید
اس خوش نما چمن کے محافظ خوش آمدید
خلیق قریشی نظم و نثر میں یکساں مہارت رکھتے تھے ۔۔ان کو قلم ایک چشمہ افکار تھا جو۔ مسلسل رواں رہتا تھا ۔۔۔۔
خلیق قریشی نے پاکستانی ادبیات کے فروغ کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ تاریخ ِ ادب کا درخشاں باب ہے ۔
نمونہ کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلیق قریشی محبت کو ایک ازلی اور ابدی صداقت قرار دیتے ہیں وہ کسی صورت میں وفا پر حرف نہیں آنے دیتے۔ اس تصور نے ان کی شاعری کو خلوص اور صداقت کا ایک انمول نمونہ بنا دیا ہے ۔خلیق قریشی کی شاعری میں نوحہ غم بھی ہے اور تصور علم بھی ہے جس میں انہوں نے واردات قلبی کے اظہار کے لیے خون جگر میں انگلیاں ڈبوئی ہیں ۔
محبت نے انساں کو بخشی بلندی
محبت نے دنیا کو تقدیس دی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت ہی بنائے ہر خوشی ہے
محبت خلد ساماں زندگی ہے
محبت سے ستاروں میں ضیائیں
محبت سے ہواؤں میں نمی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلیق قریشی انسانیت سے بھرپور پیارا انسان ہے۔ محبت اور شفقت کا برتاؤ ان کی شاعری کا طرہ امتیاز ہے ۔ان کی غزلوں میں جابجا انسان دوستی کے جذبات و خیالات موجود ہیں۔ انسان سے یہ محبت ان کی غزل کو انفرادیت عطا کرتی ہے ۔
ستم برداشت کر لینا ہماری خو سہی لیکن
کسی پر ظلم ہوتا ہو تو چپ رہنا نہیں آتا۔
خوشی کا ذکر کیسا غم شناسی کا یہ عالم ہے
محبت کے سوا کوئی بھی غم سہنا نہیں آتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلیق ریشی کی شاعری میں ان کی زندگی کے تجربات بھی ہیں اور تصوف کا تقدس بھی۔ زمانے کی تلخیاں بھی ہیں اور جبر و قدر کی کیفیات بھی ملتی ہیں۔
یہ جبر و اختیار کے افسانے سب غلط مجبور کون! کس کو یہاں اختیار ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔
دیکھا انہیں تو شان خدا ماننا پڑی
ہم انتہائے کفر میں ایمان لائے ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھواں دھواں سا فضاؤں میں ہے ہوا میں آگ سی ہے یارو
یہ اہل گلشن نہ جانے کب تک رہیں بے اختیار بن کر
ہمیں توقع ہی کیوں تھی آخر زمانے والوں سے منصبی کی
رہا یہ احساس بھی ہمارے مزاج نازک پہ ہار بن کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرو گے یارو
تذکرے ہوں گے یہی جب بھی ملو گے یارو
ہم نے رودادِ وفا خوں سے مرتب کی ہے
داستاں پھر یہ کبھی سُن نہ سکو گے یارو
ہمیں تاریخِ زمانہ کے مرتب ہیں خلیق
ہمیں تاریخ ہیں اِک روز کہو گے یارو