(قدیم وجدید ادبیات کے آئینے میں)
سرزمین کشمیر کئی حیثیتوں سے مشہور ہے ۔کشمیر جہاںسیاسی، سماجی اور معاشی اعتبار سے قابل موضوع ہے وہیں اپنی قدرتی خوبصورتی کے لئے بھی اس کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے۔اسی لئے اس کا دوسرا نام جنت بے نظیر بھی رکھا گیا ہے۔ان خصوصیات کے علاوہ اگراردو ادب کے حوالے سے بات کی جائے تو اس میدان میں بھی کشمیرنے اپنا ایک منفردمقام حاصل کیاہے ۔افسانوی نثر ،غیر افسانوی نثر اور شاعری کے علاوہ تحقیق و تنقید میں بھی فرزندانِ کشمیر نے اردو ادب میں کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں۔
’’جموں وکشمیر میں اردو ادب‘‘ کے مصنف لیاقت علی نے اپنی کتاب میںجموں وکشمیر میںسینتالیس سے پہلے ، بعد اور حال تک کے تمام معززادیبوں اور قلم کاروں کی الگ الگ فہرست تیار کی ہے جس کا مطالعہ کرکے ادب کا کوئی بھی قاری یہاں کے ان روشن ستاروں سے واقف ہوسکتا ہے جنہوں نے مرکز سے دور رہ کر بھی اردو ادب کی ہر حالت میںبہترین طریقے سے آبیاری کی ہے ۔راقم نے اسی فہرست کی مدد سے چند خاص شخصیات کے نام اپنے اس مضمون میں درج کئے ہیں جن میں پروفیسر نند لال کول طالب،پریم ناتھ پردیسی ،پریم ناتھ در،شہہ زور کاشمیری،شوریدہ کاشمیری،محمد الدین فوق،محمد عمر نور الہی ،غ م طاوس ،غلام رسول نازکی ،شمیم احمد شمیم ،حامدی کاشمیری، محمد یوسف ٹینگ، اکبر لداخی، پشکرناتھ،مخموربدخشی، غلام نبی خیال، ہمدم کاشمیری،حکیم منظور ،آنند لہر ،نور شاہ،رفیق راز،بشیر احمد نحو ی، محمد زمان آزرد ،قدوس جاوید ، مجیدمضمر،ترنم ریاض،نذیر احمد ملک،شہاب عنایت ملک، وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں جن کانام لئے بغیر ہم اردو ادب کی تاریخ رقم نہیں کرسکتے ہیں۔
تحقیق وتنقید کے میدان میں بھی یہاں کے محققین اور ناقدین نے ادب کو سنوارنے اور نکھارنے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔اگر بات اکیسویں صدی کی جائے تو اس وقت بھی یہاں کے ناقدین قدم قدم پر اپنے تنقیدی مضامین اور کتابوں کے ذریعے فنکاروں کو صلاح مشورہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اورمحققین بھی مختلف فنکاروں کے فن پاروں میں ہر وقت کچھ نیا ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اگر چہ اس صدی میں ہمارے وہ دانشور بھی اپنی تحقیقی وتنقیدی کاوشیں پیش کررہے ہیںجو بیسویں صدی کی کئی دہائیوں سے لکھ رہے ہیں اور آج بھی بہ دستور اپنے قلم کو حرکت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جن میں کچھ کے نام اوپر کی فہرست میں آچکے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس صدی کی ابتدا سے لکھنا شروع کیا ہے اورادب کی دنیا میں بہت جلد اپنی ایک الگ پہچان بنالی۔ البتہ اب کچھ نوجوان بھی اس فن کی آبیاری میں منہمک نظر آتے ہیں۔یہ نوجوان گروہ یاتو کسی جامعہ میں زیر تعلیم ہیں یا فراغت پاچکے ہیں۔نوجوانوں کی اس ٹولی میں ایک اہم نام غلام نبی کمار کا ہے جو دور حاضر کے بالخصوص کشمیر کے نوجوان نسل میں سب سے زیادہ فعال اسکالر ہیں۔ان کے اس جذبے پر نہ صرف راقم کو بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ نئی نسل کے تمام نوجوان ادیبوں اورقلم کاروں کو ناز ہونا چاہئے۔اس بات کا ذکر میں یہاں اس لئے کر رہا ہوں کیونکہ نئی نسل میں پچھلی چند دہائیوں سے کوئی بھی اسکالر اتنی جلدی اپنے قلم کے زور سے اردو ادب میں پہچان قائم کرنے سے قاصر رہا ہوگا۔انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ’’اردو کے بعض اہم اشاریے‘‘ کیا ہے۔ان کا یہ مضمون 2014میں رسالہ ’’تحقیق ‘‘ میں شائع ہوا ہے۔یہ رسالہ ریاست بہار کے جمشید پور علاقے سے ڈاکٹراحمد بدر کی کی نگرانی میں شائع ہوتا ہے۔یعنی غلام نبی کمار کو ادبی دنیا میں داخل ہوئے چھ سال سے کچھ زیادہ عرصہ ہوچکا ہے لیکن اتنے کم وقت میں اس طرح کی پہچان قائم کرنا کہ اردو دنیا کا تقریباً ہر ایک باشعور دانشور ان کے نام سے واقف ہے ۔انہوں نے اپنے نام اور کام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے میں سوشل میڈیا کا بھی بھر پور استعمال کیا ہے۔ اتنی قلیل مدت میں اردو ادب میں انہوں نے جو جگہ بنائی ہے اس طرح کا موقع بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے اور یہ ان کے لئے بڑی سعادت کی بات ہے۔
غلام نبی کمار جیسا کہ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے ان کی کتاب ’’قدیم وجدید ادبیات‘‘ کی پشت پر لکھا ہے کہ’’غلام نبی کمار ___ وہ نوجوان ادیب ہیں جو اپنے نام کے ساتھ ہی ’’چونکا‘‘ دیتے ہیں بہر کیف وہ اس وقت ادبی دنیاس میں ’’کمار ‘‘کے نام سے ہی مشہور ہیں ۔غلام نبی کمار نہ صرف اپنے نام سے چونکا دیتے ہیں بلکہ وہ اپنے کام کی وجہ سے بھی قارئین کو چونکادیتے ہیںجس کا اندازہ ’’ قدیم وجدید ادبیات ‘‘ میں شامل مضامین سے بخوبی ہوجاتا ہے۔اس کتاب سے پہلے ان کی ایک اور ضخیم کتاب ’’اردو کی عصری صدائیں‘‘ منظر عام پر آچکی ہے۔اس کتاب کی اردو حلقوں میں کافی پذیرائی ہوچکی ہے ۔جس میں تقریباً 75 کتابوں پر تبصرے نما مضامین شامل ہیں جو کتاب سے پہلے ملک اور بیرون ملک کے مختلف رسالوںاور اخباروں میں وقتاًفوقتاً شائع ہوئے ہیں۔اسی طرح ’’ قدیم وجدید ادبیات ‘‘کے مضامین بھی مختلف اخباروں اور رسالوں کی زینت بن چکے ہیں۔اس کتاب میں شامل مضامین کچھ ہمارے کلاسیکی شعرا اور ادبا سے متعلق ہیں اورکچھ نئے اور منفرد مضامین بھی ہیں ۔ اس بات کا دعویٰ انہوں نے کتاب کے پیش لفظ میں بھی کیا ہے ،وہ لکھتے ہیں:
’’قدیم وجدید ادبیات‘‘میں قارئین کو متفرق مضامین پڑھنے کو ملیں گے۔اس میںغزل، نظم ، افسانہ ، مثنوی ، تحقیق ، رباعی ،ادبی صحافت اور شخصیات پر مضامین قلم بند کیے گئے ہیں ۔جن شخصیات کے فن پر بات ہوئی ہے وہ سب اردو زبان وادب کی سربرآوردہ شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔میں نے ایسے موضوعات کو ترجیح نہیں دی ہے جن پر بہت خامہ فرسائی ہوئی ہو۔بالکل منفرد موضوعات ہیں اور جن میں قاری مختلف قسم کے نظریات سے آشنا ہوں گے۔‘‘
’’ص۱۱-۱۲،قدیم وجدید ادبیات‘‘
’’قدیم وجدید ادبیات ‘‘کی فہرست میں پہلا مضمون ’’امیرخسرو کی غزلیہ شاعری ‘‘پر مبنی ہے ۔امیر خسرو اردو ادب کے ایسے معتبر شاعر ہیں جو سب سے پہلے اپنے کلام میں اردو الفاظ لائے ۔اس حوالے سے انہوں نے کئی تجربے کیے ہیں ۔مصنف نے اپنے اس مضمون میں امیر خسرو کی شخصیت کا مختصر تعارف پیش کرنے کے ساتھ ان کی غزلیہ شاعری کے تمام اوصاف پر گہرائی کے ساتھ بحث کی ہے۔اس مضمون کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میںغلام نبی کمارؔ نے امیر خسرو کے فارسی اشعار کا ترجمہ بھی ساتھ کیا ہے جس سے اس کی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے ۔
اسی طرح غلام نبی کمارنے ’’مولانا مملوک العلی کی مکتوب نگاری‘‘پر بھی ایک عمدہ مضمون قلم بند کیا ہے اس مضمون میں انہوں نے مولانا مملوک العلی کی مکتوب نگاری کی اہمیت اور خصوصیت پر روشنی ڈالی ہے۔مولانا مملوک العلی دہلی کالج کے ان تابناک ستاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس کالج کو تاریخی حیثیت عطا کی ہے ۔موصوف نے دلی کالج اور مولونا مملوک العلی کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’مولانا مملوک العلی دہلی کالج میں عربی کے معروف وممتازاستادوں میں شمار ہوتے ہیں۔ان کے اعلیٰ مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب دہلی کالج کے پرنسپل کو فارسی کے استاد کی تلاش ہوئی تو اس نے یہی کہا کہ فارسی میں ہمیں ایسا آدمی درکار ہے جیسے کہ عربی میں مملوک العلی ہے۔‘‘
’’ص۴۱،قدیم وجدید ادبیات‘‘
مذکورہ بالا اقتباس سے مملوک العلی کی استادی کا اچھی طرح سے اندازہ ہوجاتا ہے۔کتاب میں غلام نبی کمار کاایک اہم مضمون ’’اردو میں مومن شناسی کی روایت ‘‘ہے ۔اگر چہ اس مضمون کو مصنف نے فہرست میں تیسرے نمبر پر رکھا ہے البتہ ادبی اعتبار سے یہ مضمون اور بالخصوص مومنؔ شناسی کے حوالے سے یہ بہت ہی اہم اور دلچسپ ہے۔مومن خان مومنؔ اردو کے ان بلند پائے شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جن کا شمار نہ صرف اپنے دور کے معتبر شاعروں میں ہوتا ہے بلکہ موجودہ عہد میں بھی ان کے چاہنے والوں کی تعداد کچھ کم نہیں ہے اس بات کا اندازہ خود اس مضمون سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نئی نسل کے لوگ آج بھی ان کی شاعری کا اسی شوق اور دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔مصنف نے اس مضمون میں مومنؔ شناسوں کی ایک فہرست تیار کرکے ان کے قلمی نسخوں پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے، ساتھ ہی انہوںنے مومنؔ شناسی کی اس پوری روایت کو بھی سامنے لایا ہے جس کا مطالعہ کرکے مومن خان مومنؔ کے کلام کے کئی باب کھل جاتے ہیں۔ موصوف نے اپنے اس مضمون میں لکھا ہے کہ:
’’ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا لیکن مومنؔکے حوالے سے بے اعتنائی اور ناانصافی برتی گئی اور مومن ؔپر جتنا کام ہونا چائیے تھا اسے بھی لااُبالی پن کی بوآتی ہے۔اس سے صرف ِنظر چند اہل قلم ایسے گزرے ہیں جنھوں نے مومن اور مطالعہ مومن میں خاصی دلچسپی دکھائی ۔مومن کی شاعری اور زندگی کے بارے میں انہوں نے جو لکھا ہے اسے یہی خیال کیا جاسکتا ہے کہ مومن کی حق شناسی کسی حد تک ادا کرنے کی سعی کی گئی ۔مومنؔکی قدر شناسی کر کے ان حضرات نے مومن کو وہ مقام عطا کیا جس کے مومن ؔصیح معنوں میں مستحق تھے۔‘‘
’’ص۵۰،قدیم وجدید ادبیات‘‘
اس اقتباس سے یہ بات صاف طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ مومنؔکوادب میں ان کا اصل مقام دلانے میں ان کے شناسوں نے اہم رول ادا کیا ہے۔مومنؔ جیسے باکمال شاعر کے بعد غلام نبی کمارنے سرسید جیسے مفکر انسان پر بھی قلم اُٹھایا ہے۔انہوں نے ’’سرسید کے سماجی افکار کی عصری معونیت ‘‘کے عنوان سے ان پر ایک مختصر سا مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے سرسید کے سماجی افکار اور عصری معونیت کو ظاہر کرنے کی بے حد کوشش کی ۔اس میں موصوف کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔سرسید ایسی شخصیت کے مالک ہیں جن کی اہمیت ہر دور میں باقی رہے گی ۔ان کا مسلم امہ پر ایک بڑا احسان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے جہاں سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طالب علم علم کی دولت سے مالامال ہوکر فارغ ہوجاتے ہیں ۔مسلم امہ ان کے اس احسان کا بدلہ کبھی نہیں چکا سکتی ہے ۔حالاںکہ سرسید اپنے افکار وخیالات کی وجہ سے اپنے دور میں بھی طنز کے شکار ہوئے ہیں اور آج بھی ان کے مذہبی نظریات سے لوگ اختلاف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں البتہ ان کی تعلیمی ،سیاسی،سماجی،معاشی اور اخلاقی نظریات کی خواص و عوام میںمقبولیت ہے۔مصنف نے بھی اپنے اس مضمون میں ان باتوں کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔
غلام بنی کمار نے ’’داغؔ کی مثنوی نگاری: فریاد داغ کی روشنی میں‘‘پر بھی ایک بھرپور مضمون قلم بند کیا ہے ۔یہ مضمون اس بات کی دلیل ہے کہ مصنف کو کلاسیکی ادب سے کافی لگاؤ ہے۔اس مضمون میں انہوںنے داغ ؔکی مثنوی ’’فریاد داغ ‘‘ کا اپنی نظر سے مطالعہ کر کے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ساتھ ہی دوسرے اردو کے بلند قامت شخصیات کی ان آرا کو بھی کوٹ کیا ہے جس کا اظہار انھوں نے مذکورہ مضمون میں کیا ہے۔یہ مضمون اپنے آپ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔اسی طرح ’’رباعیات حالی ؔمیں قومی اصلاح‘‘یہ مضمون حالی ؔکے اس پہلو کو روشن کرتا ہے بقول ِمصنف کہ ان سے پہلے کسی نے اس پرتوجہ نہیں دی ہے۔وہ اس بات کا ذکر اپنی کتاب کے پیش لفظ میں کچھ اس طرح کرتے ہیںکہ:
’’حالیؔ کی رباعیات میں قومی اصلاح کے عنوان سے ابھی تک میری نظر سے کوئی مضمون نہیں گزرا ہے اس وجہ سے یہ مضمون بہت اہم ہے ۔‘‘
’’ص۱۲،قدیم وجدید ادبیات‘‘
غلام نبی کمار نے اپنے اس مضمون میں حالیؔ کی رباعیوں میں اصلاحی پہلو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے اور کئی ایسی رباعیوں کا حوالہ دیا ہے جن میں حالیؔ لا اصلاحی نقطہ نظر واضح ہوتا ہے ۔حالی ؔکی شاعری کی دیگر اصناف میں بھی اصلاحی پہلو موجود ہے ۔نظم ’’مسدس مدوجزراسلام ‘‘ لکھ کر انہوں نے قوم کی اصلاح کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ بے مثال ہے اور اسی کارنامے پر ہی توسرسید جیسے بلند پائے کے مفکر نے کہا تھا’’کہ جب خدا پوچھے گا کہ دنیا سے کیا لایا ۔میں کہوں گا کہ حالیؔسے مسدس حالی لکھوا کرلایا ہوںاور کچھ نہیں‘‘اس بات سے حالی کی اصلاحی پہلو کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ کتاب میں ’’افسانوی ادب کا ایک گم شدہ فنکار:بلونت سنگھ ‘‘ کے عنوان سے بھی ایک مضمون ہے ۔مضمون نگارکا یہ مضمون جب رسالہ ’’ثالث‘‘میںشائع ہوکر منظر عام پر آیا تھا تواس وقت راقم نے ان سے’’گم شدہ‘‘لفظ عنوان سے باہر نکالنے کی صلاح دی تھی۔کیونکہ میرے خیال سے بلونت سنگھ گم شدہ فنکار نہیں ہے بلکہ اردو کی تمام اہم کتابوں میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر ملتا ہے اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے ’’کلیات بلونت سنگھ ‘‘کو شائع کر کے ان کو گمشدہ ہونے سے بچا لیا ۔اتنا ہی نہیں ملک اور بیرون ملک کی کئی اہم جامعات میں ان پر تحقیق ہو رہی ہے ۔مصنف نے بھی اس بات کا ذکر کتاب کے پیش لفظ میں کیا ہے۔خود راقم بھی انہی پر تحقیق کررہے ہیں۔بہرکیف مصنف نے اس مضمون میں بلونت سنگھ کی پوری افسانہ نگاری کا احاطہ کیا ہے اور اور ان کے کئی اہم افسانوں کے موضوعات اور کردار نگاری کا جائزہ بھی لیا ہے اور ساتھ ہی کچھ قداور ناقدین کی آرا سے بھی ان کی افسانہ نگاری کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش ؎کی ہے۔
غلام نبی کمارکی کتاب میں ہمہ جہت شخصیت کے مالک ’’پروفیسر ظہیر احمد صدیقی :حیات و خدمات ‘‘ پربھی ایک اہم مضمون ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے ظہیر احمدصدیقی کی ادبی خدمات کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیا ہے اور ساتھ ہی ان کی کتب کی فہرست بھی دی ہے جس کی وجہ سے یہ مضمون صدیقی کی حالات ِزندگی ،ادبی خدمات اور ان کی تحقیقی وتخلیقی خدمات کو جاننے اور سمجھنے میں کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔’’مقالات پروفیسر محمد ابراہیم ڈار :ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘ اس مضمون میں بھی غلام نبی کمار نے ’’مقالات پروفیسرمحمد ابراہیم ڈار ‘‘ میںشامل مضامین کا بغور مطالعہ کیا ۔اس مجموعے میں شامل موضوعات سے ڈار کی تحقیقی صلاحیتوں کا بھی اعتراف ہوتا ہے ۔مصنف نے اس کتاب کے تمام مضامین کا ایک ایک کر کے تجزیہ کیا ہے ۔مقالات پروفیسرمحمد ابراہیم ڈار کے مضامین پر تجزیہ کرکے وہ جس نتیجہ پر پہنچے ہیں اس کا ذکر مضمون کے آخر میں کچھ اس طرح کرتے ہیں:
’’مقالات ڈار کے تقریباًسبھی مضامین تحقیق نوعیت کے حامل ہیںاور سب کو تحقیق کے میدان میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہوئی ہے۔زیر نظر جدید نظر ایڈیشن کے منظر عام پر آنے سے اس کی وقت میں قابل قدراضافہ ہوگیا ہے۔اس قدر دیر پا،مستند اور اعلیٰ تحقیقی سرمایے کی حفاظت بھی اردو کی بقا ،ترقی اور اس کے تحفظ کا ضامن بنتی ہے۔ورنہ ہمارے بزرگوں کا بہت سا علمی وادبی تحقیقی سرمایہ دستبر وزمانہ ہوگیا ہے اور بہت سا اردو رسائل وجرائد کے اوراق میں دب کر رہ گیا ہے۔‘‘
’’ص۱۳۹،قدیم وجدید ادبیات‘‘
شوکت پردیسیؔ: شخصیت اور شاعری‘‘ غلام نبی کمار نے اس مضمون میں مشہور شاعر شوکت پردیسیؔ کی شخصیت اور شاعری کا جائزہ لیا ہے ۔شوکت پردیسی ؔایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کوئی بھی مجموعہ شائع نہیں کیا البتہ ان کے انتقال کے بعد ان کے فرزندنے والد کے اس خواب کو پورا کیا ہے اور پھر۲۰۱۱ء سے۲۰۱۵ء تک ان تین شعری مجموعوں کے علاوہ ایک نثری کتاب بھی شائع ہوکر منظر عام پر آئی۔موصوف نے مضمون میں پردیسی ؔ کے تینوںشاعری مجموعوں کا مختصر سا تعارف اور ان کے کلام کا کچھ نمونہ بھی پیش کیا ہے جس سے اردو کے ہرایک قاری کو شوکت پردیسی کی شاعری اور ان کی شخصیت کو جاننے میں مدد مل سکتی ہے۔نیز ’’زبیر رضوی کی ادبی خدمات‘‘ پر بھی موصوف نے بڑی محنت کے بعدمضمون تحریر کیا ہے۔کیونکہ زبیر رضوی بیک وقت شاعر ،محقق،ناقد ،اور صحافی وغیرہ تھے۔ایسی شخصیت کے بارے میں لکھنا بہت مشکل کام ہوتا ہے البتہ مصنف کے اس مضمون سے اس بات کا علم صاف طور پر عیاں ہوجاتا ہے کہ انہوں نے زبیررضوی کے ہر ایک گوشے کو غور سے مطالعہ کیا ہے ۔اس مضمون میں انھوںنے زبیر ضوی کی شاعری اور نثری خدمات کے علاوہ بحیثیت صحافی بھی ان کی خدمات پر روشنی ڈالی اور ان کی کتب کی فہرست بھی درج کی ۔وہ ایک جگہ مضمون میں لکھتے ہیں:
’’زبیر رضوی جنگ آزادی کے فوراًبعد شاعری کے اُفق پر چمکنے والے ایسے تابندہ وپائندہ ستارے ہیں جو ایسے طلوع ہوئے کہ ادب کی دنیا میں روشنی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔زبیر رضوی بیک وقت شاعر،ادیب،نقاد،مترجم،مبصر ، مرتب،مکتوب نگار،سوانح نگار،صحافی اور دانشور کی حیثیت سے مشہور ہیں ،غرض وہ ایک کثیر الجہات اور متنوع شخصیت کے مالک ہیں۔‘‘
’’ص۱۵۲،قدیم وجدید ادبیات‘‘
’’نورشاہ:فکروفن:ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘دراصل نورشاہ :فکروفن محمد اقبال لون کی مرتب کردہ تصنیف ہے۔غلام نبی کمار نے اس مضمون میںان کی کتاب کاتجزیاتی مطالعہ کر کے اس میں شامل مضامین کے حوالے سے اپنے خیالات کا عمدہ اظہار بھی کیا ہے ۔نورشاہ ارض کشمیر کا ایک ایسے ادیب ہیں جو بیک وقت کئی اصناف میں طبع آزمائی کر رہے ہیںاور ابھی بقیدحیات ہیں۔انہوں نے اپنے قلم سے ادب کی کافی خدمت کی ہے اور امید ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انھیں سلامت رکھا تو وہ اپنے قلم کے اور بھی جوہر دکھائیںگے ۔مصنف نے ان کی شخصیت کا بھی مختصر تعارف اپنے مضمون کے شروع میں دیا ہے۔جس کی وجہ سے نورشاہ کی شخصیت کے بارے میں ہر اس قاری کو جاننے کا موقع مل جائے گا جو ان کی تحریروں کا شیدائی ہے۔نور شاہ اس وقت نہ صرف کشمیر کا بلکہ پورے ادب کا ایک ایساروشن ستارہ ہے جس کے چمکتے رہنے کی ہرکوئی دست بستہ ہیں۔
اس مضمون کے بعد غلام نبی کمار نے ’’۱۹۶۰کے بعد اردو نظم میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب ‘‘کے مضمون میں بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے بعد اردو نظم میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے نقوش ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔مصنف نے اپنے اس مضمون میں کئی سارے شاعروں کا کلام پیش کیا ہے۔یہ مضمون تحقیقی نوعیت کا ہے ۔اسی طرح ’’دبستان دہلی کے چند اہم غزل گو شعراء ‘‘،’’جموں وکشمیر کی معاصر اردو شاعری ‘‘،’’بچوں کے چند اہم نمائندہ غزل گوشعراء‘‘،’’مشرقی پنجاب میں اردو نظم کا حالیہ منظر نامہ‘‘ایسے موضوعات ہیں جن پر موضوع تحریر کرنے کے لئے بہت زیادہ محنت اور مطالعے کی ضرورت ہوتی ہیں۔فاضل نقاد کے ان مضامین کے مطالعے سے اس بات کا صاف طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ ان مضامین کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے ان کو کتنی محنت کرنی پڑی ہوگی ۔ان مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد کافی نئی معلومات بھی مل جاتی ہے۔
’’اردو زبان میں سائنسی صحافت‘‘کتاب کی فہرست میں ایک انوکھا مضمون ہے۔ اس مضمون میں موصوف نے اردو صحافت میں سائنسی موضوعات کو کب اور کن اخباروں اور رسائل نے اپنی زینت بنایا ہے کو مدلل انداز میں بیان کیا ہے۔یہ بہت ہی اہم مضمون ہے اس کا مطالعہ کرنے سے قاری سائنسی صحافت کے حوالے سے بہت سی مفید جانکاری حاصل کرسکتا ہے ۔کتاب میں ’’کتاب نما اور بعض اہم خصوصی شمارے‘‘کے عنوان پر بھی مضمون شامل ہے ۔اس مضمون میں غلام نبی کمار نے رسالہ کتاب نما کی تاریخ کے ساتھ ساتھ اس کے چند خاص شماروں پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جسے کئی فائدے ہوئے ہیں ایک تو قاری اس کے خاص شماروں سے واقف ہوا ہے اور دوسرا یہ کہ اس میں کن اشخاص کے مضامین شامل ہے ،کس نوعیت کے ہیں اس کا بھی علم ہوجاتا ہے۔اسی طرح کمار نے ’’ذہن جدید اور زبیر رضوی‘‘پر بھی ایک طویل مضمون لکھا ہے۔اس مضمون میں غلام نبی کمار نے ایک تو زبیر رضوی کی صحافتی زندگی پر بحث کی اور دوسرا رسالہ ’’ذہن جدید‘‘ کی ابتدا سے لے کر آخری دور تک کا بھر پور جائزہ لیا۔غلام نبی کمار نے اپنے اس مضمون میں ’’ذہن جدید ‘‘کے تقریباً تمام شماروں کا ذکر کرکے ان میں شائع شدہ مضامین پر بھی گفتگو کی ہے ۔’’ذہن جدید ‘‘ کے حوالے سے لکھے گئے معتبر ناقدین کے تاثراتی کلمات کو بھی مصنف نے اپنے اس مضمون میں جگہ دی ۔جس سے اس مضمون کی اہمیت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ ’’ذہن جدید ‘‘ کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔اس کتاب کے آخر پر مصنف نے ’’خواتین کی خود نوشتوں کے تجزیوں کا تجزیہ‘‘کے عنوان سے بھی ایک طویل مضمون قلم بند کیا ہے۔یہ دراصل آج کے دور کے معتبر ناقد حقانی القاسمی کی ادارت میں نکلنے والا رسالہ ’’انداز بیان‘‘کے اولین شمارے جو خواتین کی خودنوشتوں کے جائزے پر محیط ہے پر لکھا گیا ہے ۔اس مضمون میں انہوں نے ان تمام مضامین کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے اس شمارے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
’’قدیم و جدید ادبیات‘‘ غلام نبی کمار کی مختلف رنگوں کا مجموعہ ہے ۔اس مجموعے میں شامل مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد مصنف کے وسیع مطالعے کا اندازہ ہوجاتا ہے، ساتھ ہی ان کو اردو زبان پر کس قدر گرفت حاصل ہے اس کا بھی علم ہوتا ہے اور انہوں نے کس ہنرمندی اور ایمانداری کے ساتھ اپنے ان مضامین کو ضبط تحریر میں لایا ہے اس فن کا بھی برملا اظہار ہوتا ہے ۔’’قدیم و جدید ادبیات‘‘ کا پاکستانی ایڈیشن بھی شائع ہوا ہے۔یہ کتاب غلام نبی کمار کی تحقیقی وتنقید ی نوعیت کا ایک بہترین سرمایہ ہے ۔میں اپنے اس مضمون کا اختتام ڈاکٹر مغیث احمد کے اس اقتباس پر ختم کرتا ہوں جو انہوں نے اس کتاب کے فلیپ پر مضامین کے حوالے سے اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’غلام نبی کمار کے مضامین اور ان کے موضوعات کو دیکھ کرذہن میں اردو ادب کے ایک ایسے سپاہی کا ہیولیٰ متصورہوتا ہے جو محنتی ومخلص ہونے کے ساتھ ہر طرح کی ادبی لابیوں سے دور ،مفاد پرستی سے ماور اور تنازعات سے دور رہ کرسرگرم عمل ہے۔غلام نبی کمار کی اس غیر معمولی علمی پیش رفت میں یقیناًان کی غیر متنازع شخصیت اور ان کے مخلص اساتذہ کے زریں اصول ودعائیں کارفرماہیںجو مستقبل میں ان کی کامیابی کا ضامن بن سکتے ہیں۔‘‘
٭٭٭