(Last Updated On: )
غلام نبی کمار کا تعلق چرار شریف،ضلع بڈگام، جموں و کشمیر سے ہے۔ اردو ادب سے والہانہ عشق شاید ان کی رگوں تک اتر چکا ہے یہی وجہ ہے کہ موصوف علمی و ادبی حلقوں میں تیزی سے مقبولیت حاصل کرتے جا رہے ہیں اور اپنی متحرک شخصیت کی بدولت نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان کے ادبی حلقوں میں بھی ایک ابھرتے ہوئے محقق اور نقاد کی حیثیت سے اپنی پہچان بنا چکے ہیں۔ غلام نبی کمار ایک کثیر المطالعہ شخصیت ہی نہیں بلکہ موصوف ایک کثیر الجہت شخصیت ہیں اور ان کی خدمات صحافتی ادب کے معاملے میں بھی حیران کن ہیں۔ ایم فل کرنے کے بعد بھی ان کے ادبی ذوق اور ذوقِ جستجو کی تسکین نہ ہو سکی ۔اس لیے اب دہلی یونیورسٹی سے زبیر رضوی کے فکر و فن اور خدمات پر تحقیقی کام کر رہے ہیں۔ تحقیق ایک ہمہ وقتی عمل ہے اور پی ایچ ڈی کا کوئی محقق کسی دوسرے شغل کے قابل نہیں رہتا لیکن کہ ان کی متحرک شخصیت کا کمال ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ صحافتی ادب کے حوالے سے کئی رسائل و جرائد کی مجلس ادارت سے وابستہ ہیں۔ جن میں ''روزنامہ لازوال'' کے ''ادب نامہ'' کے معاون مدیر ہیں۔
سہ ماہی ''پنج آب'' مالیر کوٹلہ پنجاب کے مدیر، سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز کے معاون مدیر،سہ ماہی تحقیق کے معاون مدیر،سہ ماہی ادب سلسلہ کے معاونین اور ماہنامہ''سبق اردو'' کے ممبر ایڈوائزری بورڈ میں بھی شامل ہیں۔
ان کے مطالعہ کا جائزہ لیں تو تو یہاں بھی یہ بے مثال ہیں اور کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ اس بات کا ثبوت ان کی یکے بعد دیگرے آنے والی تصانیف ہیں۔ جن مین پہلی تصنیف ’’اردو کی عصری صدائیں‘‘ (۲۰۱۸)میں سامنے آئی جب کہ ۲۰۲۰ میں ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’قدیم و جدید ادبیات‘‘کے نام سے زیور طبع سے آراستہ ہوا۔ اپنی دوسری کتاب میں ان کا تنقیدی شعور مزید نکھر کر سامنے آتا ہے۔ ان کی کتب کو ناصرف ہندوستان بلکہ پاکستان میں بھی یکساں طور پر سراہا گیا ہے اور ان کی دونوں کتب پاکستان سے بھی شائع ہو چکی ہیں۔اب ہم ان کی زیرِ نظر تصنیف کے مشمولات پر مختصراً بات کریں گے۔
یہ کتاب پہلے انڈیا کے معروف اشاعتی ادارے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی سے شائع ہوئی۔اس کے بعد اس کا دوسرا ایڈیشن جی این کے پبلی کیشنز ،سرینگرسے بھی شائع ہوا اور بعد ازاں بک ٹاک لاہور (پاکستان) سے شائع ہوئی۔
یہ کتاب اکیس مضامین پر مشتمل ہے کتاب کے نام کی مناسبت سے غلام نبی کمار نے قدیم و جدید ادبیات کے گمنام گوشوں تک رسائی حاصل کی ہے اور ان کو منظر عام پر لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان پوشیدہ اور گمنام گوشوں کی بازیافت بجائے خود ایک زبردست کارنامہ ہے جو نئے محققین کو ایک نئی راہ دکھانے کے برابر ہے۔ تاکہ پامال رستوں اور پامال گوشوں کو چھوڑ کر کچھ نیا تلاش کرنے کی روایت قائم ہو۔
پہلا باب ’’امیر خسرو کی غزلیہ شاعری‘‘کے نام سے ہے۔ جس میں انھوں نے امیر خسرو کی مختصر سوانح حیات، خاندانی پس منظر، مقام پیدائش اور باقی ضروری کوائف مہیا کیے ہیں۔خسرو کی فارسی غزلوں کا مطالعہ پیش کیا ہے ااور عام قاری تک مفاہیم کی ترسیل کے لیے فارسی متن کے ساتھ اردو ترجمہ بھی شامل کیا گیا ہے جو کمار کی فارسی دانی پر دال ہے۔ غزل کے ساتھ ساتھ انھوں نے خسرو کے دوہوں میں رنگ تغزل کی نشاندہی بھی کی ہے۔
دوسرا مضمون'' مولانا مملوک علی کی مکتوب نگاری'' پر مشتمل ہے۔ مولانا مملوک علی کا شمار دلی کالج کے نامی گرامی اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اس مضمون میں مولانا کے خطوط کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا یہ جو خطوط محمد اکرام چغتائی نے جرمنی کی ایک لائبریری سے دریافت کیے۔ یہ کل نو (۹) خطوط ہیں جن پر نور الحسن کاندھلوی نے تحقیق کی ہے۔ ان خطوط کا زمانہ ۱۸۴۶سے ۱۸۵۰ تک کا ہے۔ یوں مولانا تاریخی طور پر غالب سے پہلے خط لکھنے کا آغاز کر چکے تھے۔طوالت سے گریز کی وجہ سے آئندہ مضامین کا کم سے کم تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔
۳۔''اردو میں مومن شناسی کی روایت'' میں بڑے بڑے مومن شناسوں پروفیسر ضیا احمد بدایونی، ان کے بیٹے پروفیسر ظہیر احمد صدیقی، ڈاکٹر عبادت بریلوی، کلب علی خان فائق کی مومن شناسی پر بات کی گئی ہے۔
۴۔چوتھے مضمون میںسر سید کے سماجی افکار کی معنویت پر بحث کی گئی ہے۔
۵۔ داغ کی مثنوی نگاری: فریادِ داغ کی روشنی میں، اس مضمون میں داغ کے ایک معاشقے پر مبنی (جو ایک طوائف منی بائی حجاب سے تھا) ان کی واحد مثنوی پر بات کی گئی ہے۔
۶۔رباعیات حالی میں قومی اصلاح پر بحث کی گئی ہے۔ حالی کی تمام شاعری ہی قومی اصلاح پر مشتمل ہے مگر رباعی کو بطور خاص اس کا وسیلہ بنایا گیا ہے۔
۷۔افسانوی ادب کا ایک گم شدہ فن کار، بلونت سنگھ۔اس مضمون میں بلونت سنگھ کی افسانوی کائنات کے فنی و فکری پہلوؤں پر گفتگو کی گئی ہے یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان سے ''بک کارنر شو روم، جہلم'' نے بلونت سنگھ کے ناول کالے کوس، چک پیراں کا جسا اور '' رات چور اور چاند'' کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔
۸۔ ڈاکٹر ضیا احمد بدایونی کے بیٹے پروفیسر ظہیر الدین صدیقی کی حیات و خدمات پر مختصر مگر جامع گفتگو کی گئی ہے۔
۹۔ مقالات پروفیسر محمد ابراہیم ڈار: ایک تجزیاتی مطالعہ،کتاب کا نواں اور بہت عمدہ مضمون ہے۔
۱۰۔ شوکت پردیسی کی شخصیت اور شاعری کو موضوع بنایا گیا ہے۔جو بہت جامع اور مفصل ہے اور موضوع کا بھرپور محاکملہ کہا جا سکتا ہے۔
۱۱۔ زبیر رضوی کی ادبی خدمات (غلام نبی کمار زبیر رضوی کے فکر و فن اور خدمات پر پی ایچ ڈی کی سطح کا تحقیقی کام کر رہے ہیں۔
۱۲۔نور شاہ۔ فکر اور فکشن: تجزیاتی مطالعہ
۱۳۔ ۱۹۶۰ کے بعد اردو نظم میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب
۱۴۔دبستان دہلی کے چند اہم غزل گو شعرا
۱۵۔جموں و کشمیر کی معاصر اردو شاعری
۱۶۔بچوں کے چند اہم نمائندہ غزل گو شعرا۔
۱۷۔مشرقی پنجاب میں اردو نظم کا حالیہ منظر نامہ۔
۱۸۔اردو زبان میں سائنسی صحافت
۱۹۔کتاب نما اور بعض خصوصی شمارے
۲۰۔ذہن جدید اور زبیر رضوی
۲۱۔خواتین کی خود نوشتوں کے تجزیوں کا تجزیہ
مندرجہ بالا فہرست پر ایک سرسری نگاہ سے ہی غلام نبی کمار کے مطالعہ کے میدان کی وسعت کا بھرپور انداز ہو جاتا ہے کہ انھوں نے تقریبا قدیم و جدید ادبیات کے ہر اہم اور قابل ذکر پہلو کو مطالعہ میں شامل کیا ہے اور اگر ان سب مضامین کے آخر پر دی گئی کتابیات کی فہرست پر نظر ڈالیں تو قاری انگشت بدنداں رہ جاتا ہے کہ اتنے متنوع اور مختلف موضوعات پر اتنی کتب تک رسائی اور ان کا باریک بینی سے مطالعہ واقعی ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ میں ایسے خوبصورت عملی گلدستے کی تکمیل پر غلام نبی کمار کو بہت بہت مبارک باد کا مستحق سمجھتا ہوں۔