کشمیر کی حسین وادیوں میں اپنی زندگی کے خوشگوار لمحات گزارنے والے نوجوان ادیب، ناقداور محقق غلام نبی کمار کا شمار آج ملک کے معتبر قلم کاروں میں ہونے لگا ہے ۔غلام نبی کمار نے اردو تنقید کے میدان میں مضبوطی کے ساتھ اپنے قدم بڑھاتے ہوئے مختلف رسائل و جرائد کے ذریعہ مختلف اصناف ادب کی کتابوں پر تبصرے کرتے ہوئے تخلیق کے معنوی حسن اور بیانات کی پاکیزگی کو قارئین کے سامنے پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔
غلام نبی کمار کی پیش نظر کتاب ’’اردو کی عصری صدائیں‘‘تحقیقی و تنقیدی مضامین سے آراستہ کی گئی ہے۔ ان کی اس گلدستہ نما کتاب میں ۷۵ مضامین ہیں۔ ۳۶۸ صفحات پر مبنی اس کتاب میں مطالعہ کے لئے بہت کچھ ہے۔ الگ الگ صنف سے ذوق رکھنے والوں کے لئے مختلف قسم کے مواد بھرے پڑے ہیں۔ کتاب کے دائیں فلیپ ہر حقانی القاسمی صاحب کے تاثرات ہیں۔ جبکہ بائیں فلیپ پر ڈاکٹر مشتاق عالم قادری (ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی) کے تاثرات ہیں۔ بیک کور پر پروفیسر عبدالستار ردلوی نے اپنی عمدہ رائے قائم کی ہے۔
کتاب کی شروعات پروفیسر صادق (سابق صدر شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی) کے تقریظ سے ہوئی ہے۔ اس میں انہوں نے غلام نبی کمار کی شخصیت اور ان کی تحریروں کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’غلام نبی کمار نوجوان ہیں، حوصلہ مند ہیں، ان میں وہ نوجوانانہ جوش و جذبہ بھی بدرجۂ اتم موجود ہے جو انہیں یقینا بہت آگے لے جائے گا۔ گذشتہ چند ہی برسوں میں انہوں نے ایک سو سے زیادہ کتابوں پر تبصرے لکھے ہیں۔‘‘
غلام نبی کمار اپنے ’’پیش لفظ‘‘ میں کتاب ’’اردو کی عصری صدائیں‘‘ سے متعلق مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’’’اردو کی عصری صدائیں‘‘ میں مختلف موضوعات اور اصناف کی کتابوں پر پچھتر تبصرے نما مضامین شامل ہیں۔ جو رواں صدی کی شائع شدہ کتابوں پر تحریر کئے گئے ہیں اور ان کتابوں کے قلم کاراور ادیب و شاعرحضرات بھی اسی عہد کے ہیں۔ اس کتاب کے تمام مضامین ہندوستان کے مؤقر رسائل اور اخبارات میں مختلف اوقات میں شائع ہوچکے ہیں جن میں اردو دنیا، آجکل ، ایوان اردو، کتاب نما ، پیش رفت، تریاق ، شیرازہ ، اردو بک ریویو ، دربھنگہ ٹائمز،تحقیق دربھنگہ، ثالث، عالمی میراث اور ہماری زبان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔‘‘
کتاب کا پہلا مضمون ’’مناظر عاشق ہرگانوی کی تنقیدی نظر :ابن صفی کے اداریے پر‘‘ ہے۔ اس مضمون میں ابن صفی کے ۱۰۱؍ اداریوں میں سے ۳۸؍ اداریوں کے کچھ دلچسپ ٹکڑے لیے ہیں جن سے ان اداریوں کی افہام و تفہیم میں مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ آخر میں ان اداروں میں پائی جانے والی خصوصیات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ ‘‘
’’پروفیسر ارتضی کریم کی فکشن و شعری تنقید‘‘ کے حوالے سے غلام نبی کمار کا ایک بہت ہی جامع مضمون کتاب میں شامل ہے۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم اردو کے ایک بلند پایا ادیب ہیں اور اردو تنقیدنگاری میں ارتضیٰ کریم کی جتنی خدمات ہیں وہ نہایت قابل قدر ہیں ۔ ’’مابعد جدیدیت اور پریم چند‘‘ ارتضیٰ کریم کی ایک اہم تنقیدی تصنیف ہے جس میں شاعری ، افسانہ، ناول، ڈراما، تنقید اور بیشتر اہم موضوعات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔
’’ڈاکٹر قمر جہاں کی تانیثی تنقید‘‘ کے حوالے سے ایک مضمون کتاب میں شامل ہے۔ یہ مضمون ڈاکٹر جہاں کی ’’تانیثی تنقید ‘‘ سے گفتگو ہے۔ اس میں غلام نبی کمار کہتے ہیں:
’’ڈاکٹر قمر جہاں کی یہ کتاب تانیثی تنقید کے حوالے سے بے حد قیمتی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس میں ممتاز شیریں سے لے کر عہد حاضر تک کی تمام اہم خواتین تنقید نگار اور فکشن ناقدین کی ادبی خدمات کا عرق ریزی سے اختصار کے ساتھ مکمل احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ کتاب تانیثی تنقید کو جاننے اور سمجھنے میں کار آمد ثابت ہوسکتی ہے، بشرطیکہ اس سے استفادہ کیا جائے۔ ‘‘
’’ظہیر غازی پوری: غزل اور فنِ غزل‘‘بھی ایک عمدہ تبصراتی مضمون ہے۔ ظہیر غازی پوری پچھلے ساٹھ برسوں سے شعر وادب کی آبیاری کر رہے ہیں۔ وہ شاعری کے ساتھ ساتھ ترجمہ نگاری اور نثر نگاری میں بھی اپنی فن کاری کے جوہر دکھاتے رہے ہیں۔
ناوک حمزہ پوری کی کتاب ’’دست جنوں‘‘ کا تنقیدی جائزہ غلام نبی کمار نے بہت اچھے انداز میں کیا ہے۔ ناوک حمزہ پوری زبان و بیان پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کتاب میں شامل تمام مضامین ایک خاص قسم کی چاشنی سے بھری پڑی ہے۔
’’حسن نعیم :شخص اور شاعر‘‘کے عنوان سے مصنف نے ایک مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔ مضمون کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’حسن نعیم‘‘ (مونوگراف)جسے شمیم طارق نے ترتیب دیا ہے کہ ذریعہ حسن نعیم کے تخلیقی سفر کی روداد، ان کی زندگی کے نشیب و فراز ، ادبی اداروں سے ان کی وابستگی اور ان کے معاصرین کی جانکاری فراہم ہوتی ہے۔
’’اردو کے غیر مسلم افسانہ نگار‘‘ ایک کتاب ہے جسے دیپک بدکی نے تحریر کیا ہے۔ اس کتاب پر تاثراتی مضامین غلام نبی کمار نے اپنے منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ اس سلسلہ میں غلام نبی کمار فرماتے ہیں:
’’اردو کے غیر مسلم افسانہ نگار ‘‘ وقت کی ایک اہم ضرورت تھی اور اس ضرورت کو سب سے پہلے دیپک بدکی نے محسوس کیا۔ اس کتاب کو وجود میں لانے کی کیا وجوہات رہیں، مصنف نے ’’سپاس نامہ‘‘ میں انہیں بیان کیا ہے۔ ’’پیش لفظ‘‘ معمارِ ادبی صحافت اور ادیب نند کشور وکرم نے لکھا ہے۔ وہ فن افسانہ نگاری پر اب تک لکھی اور مرتب کی گئی کئی اہم تحقیقی کتابوں کے نام گنواتے ہوئے زیر نظر کتاب کی اہمیت و افادیت کو بیان کرتے ہیں۔‘‘
’’حیرت فرخ آبادی: فن اور فن کار‘‘ حیرت فرخ آبادی پر تحریر کی گئی اب تک کی سب سے جامع کتاب ہے۔ ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے اس کتاب کو بڑی عرق ریزی سے ترتیب دیا ہے اور پھر اس پر تبصرہ غلام نبی کمار نے کیا ہے۔ وہ اس کتاب اور شخصیت کے تعلق سے کہتے ہیں کہ ’’پیش نگاہ کتاب کو ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے جس عرق ریزی، محنت شاقہ اور جاں فشانی سے ترتیب دیا ہے اس کو اردو ادب کے حلقے میں برسوں تک یاد کیا جائے گا اور جس شخصیت کو انہوں نے موضوعِ بحث بنایا ہے وہ تحقیق طلب ہے۔ ‘‘
’’ڈاکٹر ایم۔ نسیم اعظمی کی فکشن تنقید ‘‘ عنوان کے تحت غلام نبی کمار فرماتے ہیں:
’’اردو کے چند فکشن نگار:تنقید و تجزیہ‘‘ ڈاکٹر ایم۔ نسیم اعظمی کی چوبیس مضامین پر مشتمل کتاب ہے۔ اس میں بیسویں اور اکیسویں صدی کے چند معتبر فکشن نگاروں کی فنی، فکری اور تکنیکی امتیازات کا سیر حاصل جائزہ لیا گیا ہے۔‘‘
منفرد لب و لہجہ کے مالک خورشید حیات کی کتاب ’’لفظ تم بولتے کیوں ہو؟‘‘پر پُرمغز تاثراتی مضمون غلام نبی کمار نے اپنے اس کتاب میں شامل کیا ہے۔ اس کتاب کے حوالہ سے کمار نے چند بہت ہی خوبصورت جملے رقم کیے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں:
’’خورشید حیات کی کتاب ’لفظ تم بولتے کیوں ہو؟‘ کے مضامین تخلیقی اور تنقیدی آمیزش سے ندرت پیدا کرتے ہیں۔ ان مضامین میں جدت ہے اور مصنف کا تخلیقی شعور پنہاں ہونے کے علاوہ ان کی اختراعی صلاحیت بھی نمایاں ہے۔ خورشید حیات کا تنقیدی دائرہ کار محدود نہیں۔ انہوں نے شاعری ، کہانی ، تنقید، تحقیق، ناول اور صحافت وغیرہ میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ۔‘‘
’’ادب امکان‘‘ عصر حاضر کے ایک نوجوان محقق، ادیب، صحافی اور کالم نگار ابرار اجراوی کی کتاب ہے جو پچیس مضامین اور مشتمل ہے۔ یہ کتاب غلام نبی کمار کے مطالعہ میں رہی اور اپنا تاثر تحریر کرتے ہوئے انہوں نے اپنی رائے قائم کی اور کہا کہ ’’پوری کتاب اردو زبان وادب کے نادر و نایاب موضوعات کا گہوارہ ہے۔ مضامین کی زبان صاف، سلیس اور شستہ ہے ۔ ابرار احمد اجراوی کی یہ کتاب نصابی ضرورت کی تکمیل میں بھی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر منصور خوشتر کی کتاب ’’اردو ناول کی پیش رفت‘‘ پر اپنا قلم اٹھاتے ہوئے غلام نبی کمار فرماتے ہیں:
’’اردو ناول کی پیش رفت‘‘ ناول کے فن اور عصری ناول نگاروں کی ادبی جہت کو نمایاں کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ ا س سے ناول نگاری کو یقینا ایک نیا رخ اور ایک نئی منزل مل جائے گی۔ اس کے علاوہ اس عہد میں ناول نگاری کے فن اور ا س کے تقدس کو برقرار و بحال رکھنے میں یہ کتاب ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔ اکیسویں صدی کے ان سترہ برسوں میں شائع ہونے والی یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہوگی جس کی اہل علم طبقے میں دیرپا نقوش مرتسم کرنے کے قوی امکانات نظر آتے ہیں۔ ‘‘
’’ڈاکٹر محبوب راہی :ایک مطالعہ‘‘ پر عبدالوحید نظامی کی ترتیب کردہ کتاب کے حوالے سے اپنی تحریر قلمبند کرتے ہوئے غلام نبی کمار نے کہتے ہیں کہ اس کتاب کی فہرست اگرچہ کافی طویل ہے لیکن اس میں اردو ادب کے مشہور ومعروف ادیبوں کی چھوٹی بڑی تحریروں کا خزینہ ہے اور کوزے میں سمندر کو مقید کرنے کی بات اس کتاب میں موزوں ثابت ہوتی ہے۔
حسین الحق بیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے لے کر اب تک اردو افسانوی ادب پر چھائے ہوئے ہیں۔ اب تک ان کے سات افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کی افسانہ نگاری پر جے این یو کے ایک ریسرچ اسکالر عبدالرحیم نے ’’حسین الحق کے افسانے: ایک تنقیدی نظر‘‘ کے عنوان سے تصنیف کی ہے۔ اس کتاب کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے غلام نبی کمار فرماتے ہیں کہ ’’اس کتاب کی تصنیف میں مصنف نے بڑی جانفشانی اور بے باکی سے کام لیا ہے۔ جس کی وجہ سے مفید اور جزرس نتائج سامنے آئے ہیں اور جس طرح مصنف نے حسین الحق کی زندگی، شخصیت اور فن (افسانہ نگاری) کی افہام و تفہیم کو پیش کیا ہے وہ قابل ستائش ہی نہیں قابلِ تقلید بھی ہے۔‘‘
’’پس منظر میں منظر بھیگا کرتے ہیں‘‘ ڈاکٹر حنیف ترین کا ایک خوبصورت شعری مجموعہ ہے۔ اب تک ان کے ایک درجن سے زائد شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کی شاعری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے غلام نبی کمار رقم طراز ہیں:
’’حنیف ترین کی نظموں اور غزلوں پر کھل کر گفتگو کی جائے تو بات بہت دو ر تلک جائے گی۔ لیکن اتنا ضرور کہاجاسکتا ہے کہ ان کی شاعری عہد نو کے شعرا سے بہت حد تک مختلف ہے۔ جو فرحت بخش ہے اور معیار و قد میں بھی کم نہیں۔ حنیف ترین کی شاعری قاری کو مطالعے کی دعوت دیتی ہے۔ ‘‘
غلام نبی کمار کے چند مضامین کا جائزہ لینے کی میں نے کوشش کی۔ کتاب میں شامل تمام تاثراتی مضامین مطالعہ طلب ہیں۔ لیکن سارے مضامین کا جائزہ پیش کرنا ایک مضمون میں ممکن نہیں۔ غلام نبی کمار کی زبان نہایت سلیس، سادہ ، شائستہ اور شگفتہ ہے۔ اردو ادب کو اس نوجوان قلم کارسے بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں۔ کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اپنی تحریر کا اختتام کرتا ہوں۔
٭٭٭