علم و ادب کے شیدائی ہر زمانے میں آئے اور اپنی منفرد شناخت کے ساتھ چھا گئے جنہیں اپنی فکر سے زیادہ انسانیت کی فکر دامن گیر رہتی ہے وہ کبھی کسی بھی موقعہ پر اپنے کام کے تئیں غافل ہونے کا سوچتے بھی نہیں وہ خود کو متحرک صرف یہ سوچ کر رکھتے ہیں علمی و ادبی کام میں تاکہ انسانیت کو ان کے متحرک رہنے سے فائدہ ہو یہ شخصیات انمول ہوتی ہیں اور اکثر یہ گمنامی کی دھند کی نظر بھی ہوجاتی ہیں میں اکثر تاریخ کے پنوں کو نچوڑتا رہتا ہوں ان کے سنگ رہنا مجھے بے حد عزیز ہے پر بلا جھجک کے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے ماضی کے مصلحین اہل علم اور اپنے خیرخواہوں کی کوئی قدر نہ کی ان کی زندگی کے شب و روز سے ہم خود بھی غافل رہے اور آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی بے خبری کی دھند کی نظر کردیا جہاں انہیں غیر اقوام میں مختلف تاریخ ساز اور تحریک ساز اشخاص نظر آتے ہیں پر جوں ہی وہ اپنی قوم و ملت کی جانب دیکھتے ہیں تو انہیں دھند کے سوائے کچھ نظر نہیں آتا سوائے چند اشخاص کے جن کے کارنامے زبان زد عام ہیں یا انہیں سابقہ ارباب علم و ادب نے تاریخ میں محفوظ کر دیا ہم گر تھوڑی دیر کے لئے نفرت و کدورت سے پرے ہوکر سوچیں تو یقین کریں ہمارے آس پاس کچھ گمنام لوگ ہوتے ہیں جو دنیائے علم و ادب کے لئے سرمایہ افتخار ہوتے ہیں پر ہماری نفرتوں کے پردے درمیاں میں ہونے کے سبب ہمیں وہ لوگ نظر نہیں آتے اور وہ اندھیروں کی نظر ہوجاتے ہیں
کچھ سال پہلے بارہمولہ میں ایک پروگرام ہوا جامع مسجد شیری میں جمعہ کا دن تھا خطاب میرے ذمہ تھا ایک شخص گھنی داڑھی اور وجاہت علمی کے ساتھ پراثر شخصیت کے کردار کا مالک تشریف لائے اور بیٹھ گئے مسجد میں آتے ہی شخص مذکور نماز میں مشغول ہوگئے میں انہیں تکتا رہا نماز سے فارغ ہوکر میں نے کچھ گزارشات کی اور بیٹھ گیا تو یہی صاحب اٹھے اور منبر پر بیٹھ گئے مؤذن نے اذان دی اور جناب کی گرجدار آواز مسجد میں بلند ہوئی جس میں لذت تھی درد تھا کرب تھا سادہ گی تھی نماز ہوئی اور میں اپنی منزل کی اور چلا گیا کچھ وقت کے بعد ان صاحب کے بارے میں مختصر تعارف ہوا کہ محترم فتحگڈہ بارہمولہ کے ہیں نام غلام نبی آسی ہے جو خطیب جامع مسجد شیری ہیں پھر سنا کہ محترم کا تعلق مشہور صاحب علم و داعی توحید حضرت مولانا ولی صاحب نارنتھل بارہمولہ سے رہا ہے جو مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے شاگرد رشید ہیں اس علمی نسبت نے مجھ جیسے طالب علم کی نگاہ میں غلام نبی آسی کی قدر منزلت دو بالا کردی محترم نے عمر عزیز کو اسلام کے لئے وقف کیا ہے ان کے بارے میںمختصر تعارف میرے پاس صرف اتنا ہی ہے
ایک نیا تعارف
غلام نبی آسی صاحب کے ایک فرزند ارجمند ہیں سالک بلال احمد ان صاحب کا تعارف راہ نجات نامی ماہ نامہ رسالے کے سبب ہوا جو علمی ادبی رسالہ ہے میرے خیال میں بارہمولہ سے مسلسل شائع ہونے والا ایک بہترین علمی رسالہ ہے جس نے کم وقت میں ہی اپنی جگہ پختہ کردی اہل علم و ادب کے حلقوں میں ماہ نامہ راہ نجات نے مسلسل شخصیات نمبر شائع کئے اور انتخاب ان شخصیات کا کیا جو اپنی انجمن میں ایک تحریک کی طرح ہیں اور جو تعارف کے ہرگز محتاج نہیں بس راہ نجات کے مدیر مسئول نے ان پر لکھ کر آئیندہ نسلوں کے لئے سرمایہ علم کی بنیاد رکھ دی اللہ تعالی مزید وسعت علمی سے نوازے باتوں ہی باتوں میں محترم سالک بلال احمد نے اپنے والد گرامی قدر کی دو کتابیں دے دیں جن میں ایک کتاب عقائد اسلامی کے نام سے موسوم ہے اور دوسری کتاب مجموعہ کلام آسی کے نام سے ہے مجموعہ کلام آسی کی ورق گردانی کرتے ہوئے عجیب حیرت ہوئی جب دیکھا کہ محترم غلام نبی آسی صاحب اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ ادب کے بھی ایک بہترین طالب علم اور دلدادہ ہیں یہ صفت خال خال ہی نظر آتی ہے کہ کوئی صاحب مبلغ بھی ہو صاحب علم بھی اور ادب کی صنف کا بھی دلدادہ
پہلی کتاب عقائد اسلامی کے نام سے ہے جس جو ۱۴۸ صفحات پر مشتمل ہے کتاب مزکور مجلس علمی جموں کشمیر نے شائع کی ہے ادارہ مجلس علمی جموں کشمیر مصنف مذکور کی ہی سرپرستی میں رواں دواں ہے اس کتاب کے پیش لفظ میں مصنف مذکور کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں
یہ اسلام کیا ہے اور اس کے ضروری اور بنیادی عقائد کیا ہیں ایمان کسے کہتے ہیں عقیدہ کسے کہتے ہیں علم فقہ کی تعریف کیا ہے شریعت اور اس کی بنیادیں کیا ہیں سابقہ ادیان کے اندر کون سی برائیاں پیدا ہوئیں یہود و نصاری کے عقائد کیا ہیں اہل ہنود کے عقائد کیا ہیں اہل ایمان کے عقائد کیا ہونے چاہیں جن پر چل کر اہل ایمان دونوں جہاں کی کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں کتاب مزکور میں ان ہی امور پر بحث کی گئی ہے کتاب کے صفحات کو مرتب کرنے کے لئے مصنف نے کس جانفشانی سے کام کیا ہے یہ ہر صاحب علم پر تب واضح ہوجائے گا جب کتاب مزکور کا مطالعہ کیا جائے گا
کتاب ھذا کی تقریظ وادئ کشمیر کے معروف عالم دین مفتی مظفر حسین قاسمی نے لکھی ہے جس میں ہلکے پھلکے انداز میں موصوف نے مصنف اور کتاب کے بارے میں ایک مختصر جسے جامع تعارف کہہ نہیں سکتے لکھا ہے کتاب شاندار ہے اور اہم علمی نکات پر مبنی ہے پر ایک چیز کی کمی ہے کہ موصوف نے کتاب میں حوالہ جات کی کمی کو باقی رکھا ہے جس سے طلبہ کو مسائل ہوسکتے ہیں بہتر رہتا کہ گر موصوف نئے ایڈیشن میں حوالہ جات میں نام کتاب صفحہ نمبر مصنف لکھتے تاکہ شائقین علم اس سے بہتر طور استفادہ کرسکتے اللہ جزائے خیر عطا فرمائے
مجموعہ کلام آسی
اس کتاب میں موصوف کا ادبی ذوق و شوق ہویدا ہے جہاں موصوف نے کچھ نظموں کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات کو صفحہ قرطاس پر بکھیرا ہے اس کتاب میں کل پچیس نظمیں جس میں ایک نعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود ہے اکثر نظمیں سماجی اور فلاحی ہیں جن میں اپیل ہے استدعا ہے اور جن میں نکیر بھی موجود ہے موصوف نے انتہائی دلسوزی کے ساتھ یہ ایک گلدستہ مرتب کیا ہے جو ایک بہترین مجموعہ ہے سماج اور سوسائٹی کے لئے کتاب میں جابجا ناصحانہ اشعار موجود ہیں ساتھ میں دینی مزاج اور صالحہ معاشرے کی بنا کی تحریک بھی دی گئی ہے یہ ادب کی ایک صنف ہے جس میں موصوف نے حق ادا کیا ہے اس صنف کا کتاب ھذا کی تقریظ وادی کشمیر کے معروف صاحب ادب مرغوب بانہالی نے لکھی ہے کتاب کے صفحہ نمبر ۴۲ پر ایک نظم تہذیب نو شیطانی ہے سے موجود ہے اس نظم کے دو مصرعے آپ کی نظر
وہ اولیآء کی سرزمین
اب رو رہی ہے بالیقین
آزردہ شہ ھمدان ہے
تہذیب نو ہے شیطانی
پوری نظم اس خیال کے آس پاس گھوم رہی ہے تہذیب و تمدن کے نام پر جو بے حیائی و بے شرمی کو فروغ دیا جارہا ہے اس پر جناب والا اپنے دلی جذبات کا اظہار کر رہے ہیں یوں محسوس ہورہا ہے کہ موصوف کی روح کو سکون نہیں ہے اس بے حیائی اور معاشرے میں پنپ رہے ناسور پر جب بھی یہ نظم اہل علم و ادب کی نگاہوں میں آئے گی یقین سے کہہ سکتا ہوں بنا داد دئے نہیں رہیں گئے اسی طرح ایک نظم بھول کر ماضی کو اپنے ہے سے چند اشعار
رات کو بن خانقاہی دن کو بن دلدل سوار
معاملات زندگی میں دین حق کر اختیار
بے مشقت کون اب تک رومی و رازی ہوئے
دین کی ہلکی سی اک تصویر پر راضی ہوئے
آخری نظم کا عنوان اذاں ہے جس میں ازان کے بارے میں مصنف مذکور نے اپنی بات رکھی ہے عالم آشوب آئے کاش عکس جمیل کے جیسے ناموں سے موسوم کچھ اور نظمیں بھی ہیں اس کے علاوہ بھی ہیں جو اس بات کا اظہار کر رہی ہیں کہ جناب غلام نبی آسی صاحب ایک بہترین داعی اپنی قوم و ملت کے تئیں سنجیدہ و متفکر ہیں جس کا اظہار ان کی تخلیقات سے ہویدا ہے آنے والے دنوں میں ہم غلام نبی آسی کے نام کے ساتھ ایک نئی تخلیق کے سنگ پھر انہیں سطور کے درمیان ملاقات کریں اللہ تعالی ایسی ہمت و قوت ایمانی و علمی سے غلام نبی آسی صاحب کو نوازے
یار زندہ صحبت باقی
“