غلام عباس 17 نومبر 1909ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی تعلیم لاہور میں مکمل کی۔ آل انڈیا ریڈیو کے رسالے "آواز" اور ریڈیو پاکستان کے رسالے "آہنگ" کے مدیر رہے۔ 1954ء سے لے کر 1967ء تک بی بی سی کی اردو سروس سے منسلک رہے۔
انہوں نے متعدد افسانے اور ناول لکھے اور صدر ایوب خان کی کتاب "فرینڈز ناٹ ماسٹرز" کا اردو زبان میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ اُن کے افسانوی مجموعوں میں 'آنندی'، 'جاڑے کی چاندنی'، 'کن رس'، 'دھنک' اور'گوندنی والا تکیہ'جبکہ تراجم میں'زندگی نقاب چہرے'، 'الحمرا کے افسانے' اور 'انگریزی افسانے' شامل ہیں۔ وہ ماہنامہ "تہذیب نسواں" اور بچوں کے رسالے "پھول" کے ایڈیٹر بھی رہے۔ انہوں نے بچوں کے لیے نظموں کی کتاب "چاند تارا" بھی لکھی۔ غلام عباس کو ان کی کتاب "جاڑے کی چاندنی" پر آدم جی ادبی انعام ملا۔ اس کے علاوہ 1967ء میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ستارہ ٔامتیاز کا اعزاز بھی عطا کیا تھا۔
غلام عباس 2 نومبر 1982ء کو کراچی میں انتقال کر گئے اور وہیں سوسائٹی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
کتبہ:
کتبہ افسانہ غلام عباس کے شاہکار افسانوں میں سے ایک نمائندہ افسانہ ہے ۔ راست اسلوب کے اس افسانہ کا بیانہ سادہ اور اکہرا ہے ۔ جس کی بُنت بہت مضبوط ہے ۔ تحریر میں انتہائی روانی اور سادگی ہے ۔ انجام تک پہنچتے پہنچتے قاری بھی ایک دکھ بھری سانس لے کر رہ جاتا ہے ۔ اس افسانہ پر یہ کہاوت / محاورہ بالکل درست بیٹھتی ہے کہ زرا سی بات کو افسانہ بنا دیا ۔ اس تحریر کا پلاٹ بہت جاندار ہے قاری کو باندھ کر رکھ دیتا ہے۔
کردار نگاری:
اس افسانہ میں ایک ہی مرکزی کردار ہے شریف حسین ۔ جو کہ دفتر میں کلرک ہے ۔ سارا افسانہ اسی کے گرد گھوم رہا ہے ۔ مصنف نے یہ ایک ایسا کردار کیا ہے جس کی سادہ سی زندگی گونا گوں پیچیدہ مسائل سے بنرد آزما ہے ۔ جو اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی تگ و دو میں نجانے کتنی حسرتیں دل میں دبائے مر جاتے ہیں ۔ شریف حسین ایک عمدہ ذوق اور جمالیات رکھنے والا شخص ہے ۔ لیکن ایک کلرک کی تنخواہ سے وہ جس طرح زندگی کو گھسیٹ کر جینے کے اسباب بنا رہا ہے ، اس کی یہ حسیات اندر ہی دبی ہوئی ہیں ، اچانک کباڑیئے کے پاس ایک سنگ مر مر کا ٹکڑا اس کی توجہ اس قدر کھینچ لیتا ہے کہ وہ ایک روپیہ میں اسے خرید لیتا ہے ۔ پھر اس کے دل میں اپنا مکان بنانے کی خواہش بھی سر اٹھاتی ہے تو سنگ مر مر کے ٹکڑے پر اپنا نام لکھواتا ہے ۔ لیکن سالہا سال کی سر توڑ کوشش سے بھی حالات میں بہتری نہ آئی ۔ ریٹائرڈ ہوا بچے جوان ہوئے اور شریف حسین یہ آرزو لیے مر گیا ۔ آخر وہ سنگ مر مر کا ٹکڑا اس کی قبر پر لگا دیا جاتا ہے ۔
غلام عباس صاحب کا فن یہاں اپنے عروج پہ ہے جس چابکدستی سے انھوں نے صرف ایک ہی کردار کے ذریعے زندگی کا ایک پورا دور اور اس کا درد قاری کو دکھا دیا ۔
منظر نگاری:
افسانہ کا آغاز ہی ایک شاندار منظر نگاری سے ہوتا ہے ، کہ پورا منظر مکمل جزیات کے ساتھ قاری کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے ۔ کہ عمارتوں کے دفاتر میں کام کرنے والے چار ہزار افراد سامنے چلتے پھرتے محسوس ہونے لگتے ہیں ۔ دفتروں سے نکلنے والے کلرک اپنی مکمل وضع قطع کے ساتھ فائلیں اٹھائے گھروں کو جاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ پڑھنے والا شریف حسین کے ساتھ تانگے پر بیٹھ کر جامع مسجد کے گرد سجنے والے بازار پہنچ جاتا ہے ۔ جہاں کی ایک ایک دکان اور اس کے معیار کا نقشہ ایسی خوبصورتی سے کھینچا گیا ہے کہ ظروف ، گلدان ، گھڑیاں ، فوٹو گرافر ، گراموفون ، ستار ، بھُس بھرا ہرن ، پیتل کے لم ڈھینگ ، بدھ کا نیم قد مجسمہ ۔۔۔۔ سب نظروں میں اُتر آتے ۔
سنگ مرر کے ٹکڑے کو پسند کرنے کے محسوسات ، اس کو خریدنے اور نہ خریدنے کی کشمکش بیان کرنے میں مصنف کو ملکہ حاصل ہے ۔ پھر آخر عمر تک اس سنگ مر مر کے ٹکڑے کے جو رویہ اور احساس شریف حسین محسوس کرتا رہا ، غلام عباس قاری کو بھی وہی محسوس کرواتے رہے ۔
مکالمہ نگاری :
اس افسانہ میں مکالمہ نگاری نہ ہونے کے برابر ہے ، کہیں کہیں خود کلامی سے بھی ہے ۔ لیکن جو چند ایک مکالمہ ہے وہ عین ضرورت اور کردار کے مطابق ہے ۔ فطری انداز میں ہے ۔
زبان و بیاں و اسلوب :
غلام عباس کے افسانوں میں زبان و بیان کی سادگی کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ وہ ایک حقیقت نگار بھی تھے۔انہیں اپنے انداز بیان کی سادگی کااور واقعات کی صداقت کا یقین ہوتا تھا۔ ان کے افسانے زندگی کے دائمی عمل کو پیش کرتے ہیں۔ وہ فرد کی بجائے معاشرے کی تشکیل کو موضوع بناتے تھے۔ وہ کسی خاص موضوع ، اسلوب یا جذباتی فضا میں بند بیانیہ سے افسانہ تخلیق نہیں کرتے بلکہ ایک صورت حال ہوتی ہے جو بیان اور کردار کے تفاعل کو ہمارے لئے قابلِ قبول بناتی ہے ۔ بیان غلام عباس کے یہاں وسیلہ ہے جس سے کہانی وجود میں آتی ہے۔ انہوں نے رواجی موضوعات کی بجائے عام زندگی کے گوشے نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔