بزم اردو محدود وسائل زندگی رکھنے کے باوجودآج ہماری ساری توجہ خالی جیب کی تلخ حقیقت کو تصنع اور بناوٹ میں چھپا کر جھوٹی عزت اور وقار حاصل کرنے میں صرف ہو رہی ہے،آج غلام عباس کا افسانہ ”اورکوٹ “یاد آرہا ہےجوانگریزی تہذیب اور بےجا معاشرتی تعصبات کی بھینٹ چڑھے نوجوان نسل کی پکار ہے،
سخت سردی میں بادامی رنگ کے اورکوٹ جس کےکاج میں گلاب کا ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا ،میں ملبوس نوجوان لمبی قلمیں،باریک مونچھیں،سرپر فیلٹ ہیٹ ایک خاص انداز سےرکھے ہوے،سفید سلک کا گلو بندگلے کے گرد لپیٹے ہوے،ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں دوسرے میں بیدکی چھڑی گھوماتا ہواکسی حاکم کی طرح جارہا ہے،وہپان والےکو نوکر کی طرح مخاطب کرتا ہے جبکہ ملکہ کا مجسمہ دیکھ کرمحبت امڈ آتی ہے٠شکریہ کے بجاۓتھینک یواور پور سول کہ کر گردو نواح پر اپنی علمی قابلیت ظاہر کرتا ہے کیونکہ انگریزی زبان ہمارےہاں تہذیب وتمدن کی علمبردار سمجھی جاتی ہے،آغاز سے وسط تک نوجوان کی حرکات وسکنات سحر طاری کیے رہتی ہیں اچانک کہانی طربیہ سے المیہ میں اس وقت بدل جاتی ہے جب ہای کورٹ کےسامنے مالروڈ پر ایکسیڈنٹ میں نوجوان دم توڑ دیتا ہے اور گاڑی والا موقع واردات سے فرار ہو جاتاہے،تلاشی لینے پرنوجوان کے کے گلو بند کےنیچے نکٹای اور قمیض غاٸب،کوٹ کے نیچےبوسیدہ جابجا سوراخوں والی سوٸٹر اور میلا کچیلا بنیان،جسم پر میل کی تہیں جبکہ گردن پر ہلکا پاوڈر لگا ہوا پتلون کو بیلٹکے بجاۓپرانی دھجی سے باندھا گیا ،جرابوں کے دونوں مختلف پاٶں معاشرہ کا اندرونی کھوکھلا پن ظاہر کرنے کو کافی ہے،افسانہ میں انسانی خامیوں،منافقتوں کو عمدہ انداز میں نمایاں کیا ہے کہ کوی پہلہ تشنہ نہیں رہتا،ہاٸ کورٹ کے سامنے قاتل کا فرار انصاف کے ترازو کے عدم توازن کو ظاہرکرتاہے کرداوں کا جھوٹ، دہرا معیار زندگی اخلاقی انحطاط وتنزل کی دلدل میں سر تا پا ڈوبے ہونے کی نشاندہی کرتا ہے،اختتامی جملہ جس میں جیب سے چند کاغذات کے علاوہ کچھ نہیں ملتا اور بید کی چھڑی جو جھوٹے غرور اور بانکپن کا مظہر ،کا کھو جانابے شمار علامتوں اور دنیا کی بے ثباتی کااظہار کرتا ہے،کٸ سال پہلےلکھا اور کوٹ آج بھی زندہ وجاوید ہے کیونکہ ہم نے اپنےمعاشرہ سے ٗاورکوٹ“ کو کبھی جے جانے نہیں دیا یہ اور کوٹ مکڑی کے جالے کی مانند ہر طرف چھا چکا ہے۔