سلطنتِ روما کے جنگی جہاز سینکڑوں کی تعداد میں تھے۔ سمندروں کی نیلگوں وسعتیں اُنکے سامنے سمٹ سمٹ جاتی تھیں۔ زمانۂ امن میں یہ جہاز بادبانوں پر انحصار کرتے تھے لیکن جنگ کی حالت میں چپوئوں سے مدد لینا پڑتی تھی تاکہ آہستہ خرامی شکست کا باعث نہ بنے۔ ہر جنگی جہاز کے نچلے حصے میں دونوں طرف سوراخ کردیئے جاتے تھے۔ ان سوراخوں سے چپوئوں کے سرے باہر نکال لئے جاتے تھے اور اندر، دونوں طرف، چپّو چلانے کیلئے غلاموں کو مامور کیا جاتا تھا! جہاز کے اس نچلے حصے کو گیلی کہتے تھے!
آج ہم میں سے بہت کم کو معلوم ہے کہ یہ غلام کی بدترین قسم تھی۔ یہ غلامی جنگی قیدی ہوتے تھے یا سزا یافتہ مجرم۔رات دن مسلسل چپّو اور دیوہیکل جہاز کھینا آسان نہ تھا۔ ان غلاموں کی مسلسل نگرانی کی جاتی تھی۔ وقتاً فوقتاً کوڑوں کی سنسناہٹ ان کی پیٹھوں پر لہو ابھارتے نشان چھوڑتی تھی۔ انہیں زنجیروں کے ساتھ باندھا جاتا تھا اور جہاز ڈوبنے کی صورت میں یہ سب سے پہلے ڈوبتے تھے۔ اگر جہاز کو شکست ہوتی تو فاتح سب سے پہلے ان غلاموں ہی کو قتل کرتے۔ اور اگر فتح ہوتی تو ان کی بے کنار غلامی میں اور وسعت پیدا ہو جاتی!
غلاموں کا ایک اور منظر دیکھئے۔ یہ مصر ہے۔ ہزاروں غلام قطاریں باندھے صحرا کی طرف چل رہے ہیں‘ جن گاڑیوں کو دو دو سو بیل کھینچ رہے ہیں۔ اُن پر پتھر نہیں‘ پورے پورے پہاڑ لدے ہیں۔ اہرام تعمیر ہو رہے ہیں ان غلاموں کے جسموں پر صرف اُس جگہ کپڑا ہے جہاں ستر ہے۔ باقی برہنگی ہے۔ پتھروں کو ڈھوتے اور اہراموں کو تعمیر کرتے انکی زندگیاں صحرا کی شام میں موت کے گھاٹ اترتی جاتیں۔ لاشوں کو صحرا کے گدھوں کی ضیافت کیلئے کھلے میں چھوڑ دیا جاتا۔ نئے غلام آ جاتے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بے پناہ جسمانی کام کرنیوالے ان غلاموں کو مسلسل پیاز کھلائے جاتے۔ فلسفہ یہ تھا کہ پیاز کھانے سے انسانی جسم حیرت انگیز طور پر طاقتور ہوتا ہے!
پھر چشمِ فلک نے غلامی کا وہ زمانہ بھی دیکھا جب یورپ کے سفید فام تاجروں نے افریقی حبشیوں کو بلامبالغہ پھندے اور جال بچھا بچھا کر اس طرح پکڑا جیسے فتح جنگ اور پنڈی گھیب کے سرسبز کھیتوں میں بٹیر پکڑے جاتے ہیں۔ بحرِ اوقیانوس پار کرنے کیلئے خصوصی جہاز تعمیر کئے گئے جن میں خوفناک تہہ خانے تھے۔ زنجیروں سے بندھے یہ غلام وہیں رفعِ حاجت کرتے‘ وہیں قے کرتے اور وہیں کھانا کھاتے۔ پھر کولمبس کی نئی دنیا میں انکی نیلامیاں ہوتیں۔ مردوں کے بازو اور عورتوں کی چھاتیاں ٹٹول کر دیکھی جاتیں‘ جو فروخت ہو جاتے وہ امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں وسیع و عریض جاگیروں پر اس طرح کام کرتے کہ سفید فاموں کے کتے اور سؤر انکی نسبت زیادہ آرام دہ زندگی گزارتے تھے۔ بھاگنے والوں کے پائوں کاٹ دئیے جاتے۔ خاوند بِک جاتا تو بیوی بچے وہیں رہ جاتے بیوی کو نیا مالک کسی دُور کی ریاست میں لے جاتا تو میاں مرنے کیلئے پرانے مالک کے کُتیا خانے میں پا بہ زنجیر رہتا۔
غلامی کا اعزاز سینے پر سجانے کیلئے غلام کہلانا ضروری نہیں۔ پاکستان کے دارالحکومت میں‘ جو اسلام کے نام پر آباد ہوا تھا‘ غلاموں کی ایک ایسی قسم رہتی ہے جو آزادی کے زعم میں مبتلا ہے۔ یاد نہیں یہ شعر فراق کا ہے یا باقی صدیقی کا…؎
دلِ آزاد کا خیال آیا
اپنے ہر اختیار کو دیکھا
شاہراہ کے عین درمیان میں جنگلے لگا کر راستہ بند کر دیا گیا ہے۔ ایک سوراخ نما جگہ چھوڑی گئی ہے جس میں سے ایک وقت میں ایک گاڑی اتنی مشکل سے گزرتی ہے کہ چلانے والے کا دِل مُٹھی میں جکڑا جاتا ہے۔ رش کا وقت ہے۔ سب نے اپنے دفتروں‘ دکانوں‘ سکولوں اور مزدوریوں کو پہنچنا ہے۔ لیکن سوراخ سے صرف ایک گاڑی گزر سکتی ہے اور وہ بھی کئی چکر کھا کر‘ اور کئی پیچ لے کر‘ سینکڑوں گاڑیاں رُک گئی ہیں۔ پیچھے دیکھیں تو حدِ نگاہ تک کاریں بسیں ویگنیں سوزوکیاں رُکی ہوئی ہیں۔ یہ بھی نہیں کہ بیرئیر پر گاڑیاں چیک کی جا رہی ہیں۔ اِکّا دُکّا ’’مشکوک‘‘ گاڑی کو ٹھہرا لیا جاتا ہے۔ ورنہ تنگ سوراخ سے گزرنے والی گاڑی میں کون ہے اور کیا ہے۔ بیرئیر پر کھڑی پولیس کو کچھ پتہ نہیں۔ لیکن بے بسی کی انتہا ہے۔ گرمی میں بچے بڑے عورتیں پسینے سے شرابور ہیں۔ یہ سب غلام ہیں‘ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ یہ غلام کہیں بھاگ نہیں سکتے‘ یہ غلام احتجاج نہیں کر سکتے۔ یہ غلام کسی سے کچھ پوچھ نہیں سکتے۔ یہ غلام رو نہیں سکتے۔ یہ غلام ہنس نہیں سکتے۔ ان رکاوٹوں پر‘ اِن بیرئیر پر انہیں پہروں رُکنا پڑتا ہے۔ جو لوگ ٹیکسیوں یا بسوں پر ہیں‘ انہیں وزیراعظم کے محل نما دفتر کے قریب والے بیرئیر پر اترنا پڑتا ہے۔ اب آگے یہ پیدل جائیں گے۔ ان میں معمر لوگ بھی ہیں‘ عورتیں بھی ہیں‘ ملک کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے غریب مسائل بھی ہیں اور اگر رات ہے تو یہ بیرئیر نظر ہی نہیں آتے‘ گاڑیاں ان سے ٹکراتی ہیں یا ٹکراتے ٹکراتے مشکل سے بچتی ہیں۔ ان پر کوئی سرخ روشنی نہیں‘ کوئی لال بتی نہیں۔ کوئی خبردار کرنیوالی نشانی نہیں۔ جب آقائوں نے گزرنا ہوتا ہے تو یہ رکاوٹیں ہٹا لی جاتی ہیں۔ غلاموں کو روک دیا جاتا ہے جو غلام عورتیں اور غلام مرد دل کے عارضے میں مبتلا ہسپتال جا رہے ہوتے ہیں‘ ’’رُوٹ‘‘ لگنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں‘ حاملہ عورتیں اِسی رُکی ہوئی ٹریفک میں نئے غلام جنم دیتی ہیں۔ اور جن غلاموں نے جہازوں اور ٹرینوں کو پکڑنا ہوتا ہے‘ وہ نہیں پکڑ پاتے لیکن بے بسی کے کوڑے کھانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے!
غلاموں کی ایک قسم موٹروے پر پائی جاتی ہے۔ ان غلاموں نے پشاور یا اسلام آباد سے لاہور جانا ہے یا لاہور سے اسلام آباد کا سفر کرنا ہے۔ انہوں نے موٹروے کا انتخاب اس لئے کیا کہ یہ سفر چار گھنٹے میں کٹ جاتا ہے۔ یہ چکری پر یا بھیرہ پر یا کسی اور سٹاپ پر گاڑیوں میں سی این جی بھروانے کیلئے قطاروں میں رُکے ہیں۔ سی این جی سٹیشن صرف ایک ہے۔ قطاریں طویل ہیں۔ دھوپ ہے اور بھوک ہے۔ بے بسی ہے اور غصہ ہے۔ قہرِ درویش صرف جانِ درویش پر ہے۔ ہر سٹاپ پر سی این جی کا صرف ایک سٹیشن ہے۔ اجارہ داری‘ غلامی کی بدترین شکل ہے۔ کیا اِن سی این جی سٹیشنوں کے مالک اس قدر طاقتور ہیں کہ کسی اور کو یہاں دکان ڈالنے کی اور گیس بیچنے کی اجازت نہیں؟ ہر گاڑی کو کم از کم تین بار سی این جی بھروانا پڑتی ہے۔ اگر ایک ایک گھنٹہ بھی قطار میں کھڑا ہونا پڑے تو تین گھنٹے جمع چار گھنٹے۔ یعنی آپ سات گھنٹوں میں پہنچتے ہیں لیکن سنیچر اور اتوار کے دن ایک ایک سٹاپ پر سی این جی کیلئے دو دو گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے!
غلام کی تعریف کیا ہے؟ کوئی سی جدید لغت اٹھا کر دیکھ لیجئے‘ تعریف یہ ہے کہ ’’وہ فرد جو کسی دوسرے کی رضا کا پابند ہے۔ جس کی نقل و حرکت کسی دوسرے کے اختیار میں ہے۔ جو مدافعت نہیں کر سکتا۔ جو اپنے آپکو دوسرے کی طاقت کے آگے پیش کر دیتا ہے‘‘۔
اسلام آباد سے مری جائیں تو ایک بہت بڑی آبادی بارہ کہو کے نام سے اسلام آباد کے مضافات میں ہے۔ اس میں ایک بستی شاہ پور کے نام سے ہے جو پھُل گراں روڈ پر آباد ہے۔ یہ بستی یوں لگتا ہے غلاموں کی بستی ہے۔ یہاں کوئی سڑک ایسی نہیں جس میں کئی کئی فُٹ گہرے گڑھے نہ ہوں۔ جہاں پانی تالاب کی صورت رُکا ہوا نہ ہو۔ یوں لگتا ہے اس بستی کے مکین سی ڈی اے کے غلام ہیں۔ سی ڈی اے کابینہ ڈویژن کے سیکرٹری کے ماتحت ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ پھُل گراں روڈ شاہ پور کے غلاموں کا اصل مالک سی ڈی اے کا چیئرمین ہے یا کابینہ ڈویژن کا سیکرٹری۔ کیونکہ بستی میں سڑکیں اِن مالکوں نے بنانی ہیں۔ غلام ان کی رضا کے پابند ہیں۔ یہ غلام مدافعت نہیں کر سکتے۔ لیکن ابھی تو آپ نے غلامی کی صرف ایک جھلک دیکھی ہے۔پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز نے اپنے عہدِ اقتدار میں‘ جو دراصل عہدِ عذاب تھا‘ اِس بستی کیلئے سوئی گیس کی ’’منظوری‘‘ دی تھی۔ مذاق یہ ہوا تھا کہ بارہ کہو اور شاہ پور میں سوئی گیس کا افتتاح پلاسٹک کے وزیراعظم نے اپنے دفتر میں کیا تھا کیونکہ دفتر سے باہر اُنکی جان کو ’’خطرہ‘‘ تھا۔ شاہ پور کے غلام باشندے کہتے ہیں کہ بستی میں ایک طاقتور گھر ہے جہاں سوئی گیس آ گئی ہے اور استعمال ہو رہی ہے عام لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طاقتور گھر نے سوئی گیس کے کنکشن باقی گھروں کے روکے ہوئے ہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو اِس ناانصافی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اِس بستی کے لوگ غلامی کی تعریف پر پُورے اترتے ہیں۔
آپ کو یہی قلق ہے نا کہ آپ دیر سے پیدا ہوئے اور اُن غلاموں کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکے جو سلطنتِ روما کے جنگی جہاز کھیتے تھے‘ یا اہرامِ مصر تعمیر کرتے کرتے ہلاک ہو جاتے تھے یا سفید فام امریکیوں کی جاگیروں پر کام کرتے تھے۔ تو یہ تو کوئی قلق نہیں۔ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ ابھی جائیے‘ پھُل گراں روڈ پر شاہ پور کی بستی میں غلام ہی غلام ہیں۔ مالکوں کا فیصلہ ہے کہ یہ غلام سڑکوں کے بغیر مٹی میں لت پت ہو کر رہیں۔ انکے اور انکے بچوں کے پھیپھڑوں میں منوں اور ٹنوں کے حساب سے دھول جائے… اور سوئی گیس؟ تو مملکتِ خداداد میں اتنا اندھیر بھی نہیں کہ غلاموں کو سوئی گیس مہیا کی جائے!!