گاؤں کی گلیاں جہاں جا کے گلے ملتی تھیں، وہاں سے آگے سڑک چلتی تھی.. اسی سڑک کے کنارے کنارے مختلف دوکانیں تھیں، جن میں راجو نائی کے نام نہاد 'راجہ جی ہئیر سیلون' سے لے کر کے ڈاکٹر شبیر کی 'ایم بی بی ایس بُک شاپ' تک سب کچھ تھا.. قریب قریب سبھی دوکانوں کے اندر اور باھر لکڑی کے 'پھَٹّـے' پڑے رہتے تھے جن پہ موسم کے اعتبار سے لوگ بیٹھتے اور سارے جہاں کے مسئلوں پہ تجزیے گھڑتے اور پھر 'لائک این ایکسپرٹ' سبھی کے حل بھی پیش کرتے تھے..
مگر انھیں قطار اندر قطار دوکانوں کے اخیر میں ایک دوکان تھی، بالکل الگ تھلگ، جس کے باھر پھَٹا تو پڑا تھا مگر اس کے اوپر کوئی بیٹھتا نہ تھا، ہاں البتہ اس کے نیچے کبھی کُتے منہ کھولے زباں لٹکائے بیٹھے ہوتے اور کبھی کبھی بلیّاں بھی اپنے محاورے والے خوابوں کی تعبیریں نوچتی دکھائی دیتی تھیں..
جی ہاں.. دوکان اندر ایک آنکھ سے سب کو برابر دیکھتا(کانا تھا تو ایک آنکھ پتھر کی ٹکا رکھی تھی) ٹوکا لیے مرغیوں کی گردنیں اڑاتا، ٹانگیں کاٹتا، ننگے اور گنجے سَر کے ساتھ، بِنا قمیص اپنی کالی چھاتی پہ سفید بالوں کا جنگل دکھاتا یہ شخص غلام حسین قصائی ہے، اور باھر دوکان کے ماتھے پہ بڑا بڑا لکھ رکھا ہے "جی ایچ کیو" غلام حسین قصائی…
غلام حسین پیدائشی قصائی نہیں تھا.. انتہائی نرم مزاج، سادہ دل بندہ تھا.. لائلپور کی کسی کپڑے کی مِل میں مزدوری کرتا تھا.. مالکوں کا وفادار اور اپنے کام میں کمال تھا.. جب ایک حادثے میں آنکھ جاتی رہی تو گھر آ بیٹھا.. صُغراں بی بی، غلام حسین کی گھر والی تھی.. شادی کو مدتیں گزر چکی تھیں مگر اولاد سے محرومی کے احساس کو دُور کرنے خاطر گھر میں دس بارہ مرغیاں پال رکھی تھیں.. صحن میں رونق لگی رہتی تھی.. صبح سحری مرغے کی اذان سے ہوتی اور پھر دن بھر کے کام اور اپنے بچوں (مرغیوں) کے پیچھے بھاگتے پھرنا..
صُغراں کی چھوٹی بہن عُظماں آخری ماہ کے پیٹ سے تھی تو اسے ڈیڑھ دو مہینے کے لیے بھیگا پور جانا پڑا اور مرغیوں کی مکمل دیکھ بھال غلام حسین کے سَر آن پڑی.. ہفتہ ڈیڑھ تو برداشت کر گیا مگر اسے مرغیوں کے پیچھے ایک آنکھ سے بھاگنا بہت اذیت ناک لگتا تھا، ایک دوپہر جب ایک مرغا بـے وقتی اذان میں جی جان سے اور مسلسل مصروف تھا، غلام حسین کے صبر کا گلاس نک و نک ھو چکا تھا، تو اذان دیتا مرغا غلام حسین کے ہاتھوں حلال ہو گیا.. دو دن وہ مرغا چلا اور غلام حسین کے منہ کو اذان دیتے مرغے اور صفیں توڑتی مرغیاں لگ چکی تھیں..
جب تک صُغراں بی بی گھر آتی، غلام حسین 'قصائی' بن چکا تھا..
وہ دن اور آج کا دن، صغراں بیچاری جِند جان سے گھر مُرغیاں اور چُوزے پالتی ہے، غلام حسین ھر دوجے دن کوئی نہ کوئی مُرغی اٹھا لیتا ہے اور اپنے "جی ایچ کیو" کی رونقیں بحال رکھتا ہے، وہی "جی ایچ کیو" جس کے باھر لگے پھَٹّے کے نیچے دنیا جہان کے مسائل کے تجزیے گھڑتے اور پھر "لائک این ایکسپرٹ" مسائل کے حل بتاتے، منہ کھولے زبانیں لٹکائے غلام حسین قصائی کے پھینکے ٹکڑوں کے منتظر پائے جاتے ہیں…