پاکستان اس وقت جس گھمبیر مسئلے میں پھنسا ہوا ہے، آپ کو اس کا اندازہ ہی نہیں!
آپکو اپنی سیاسی بصیرت پر ناز ہے تو آپ یقینا میمو گیٹ کی طرف اشارہ کرینگے، اس وقت اس مسئلہ نے پوری قوم کو نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے، آپ کا ہاتھ اگر عوام کی نبض پر ہے تو آپ سی این جی اور گھروں میں استعمال ہونےوالی گیس کی طرف اشارہ کرینگے، گاڑیاں کھڑی ہو گئی ہیں، اور چولہے بجھ گئے ہیں، اگلے وقتوں میں چولہے بجھتے تھے تو کم از کم راکھ تو ہوتی تھی، اب تو وہ بھی نہیں ہے، یعنی یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ….ع
کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے؟
بہت زیادہ ذہانت کا ثبوت دینگے تو آپ یہ رونا روئیں گے کہ ریلوے کی موت واقع ہو رہی ہے اور پی آئی اے عالم نزع میں ہے لیکن افسوس! آپکا جواب درست نہیں ہے، یہ مسائل بھی اہم ہیں بلکہ زندگی اور موت کے درمیان عوام کو لٹکانے والے مسائل ہیں، تاہم ان میں سے کوئی مسئلہ بھی اہم ترین کہلانے کا مستحق نہیں!
اطلاعاً عرض ہے کہ اس وقت پاکستان جس مسئلے میں گھرا ہوا ہے اور جاپان کی پشت پر واقع جزائر ہوائی سے لیکر بحر اوقیانوس تک پوری دنیا جس مسئلے کی وجہ سے سراسیمہ ہے، اس مسئلے کی جڑ قصور میں ہے، خورشید محمود قصوری اور سردار آصف احمد علی میں ٹھنی ہوئی ہے، دونوں ایک دوسرے کےخلاف صف آرا ہیں، ایک کہتا ہے میں ٹکٹ لوں گا، دوسرا کہتا ہے، یہ میری سیٹ ہے، انگریزی محاورے کےمطابق دونوں اپنے اپنے گندے کپڑے گھر سے نکال کر تحریک انصاف میں لے گئے ہیں اور وہاں دھو رہے ہیں، خورشید محمود قصوری، پرویز مشرف کے پورے دور اقتدار میں شریک اقتدار رہے ہیں، اس عرصہ میں انہوں نے جو کام علاقے کیلئے بقول انکے اپنے، کیے ہیں، ان کی دہائی دیکر ٹکٹ پر اپنا حق جتا رہے ہیں، یوں بھی نیکی کرکے جتانے کا تعلق تحریک انصاف سے کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ جاوید ہاشمی نواز لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں گئے ہیں، تو انہیں یہ احسان جتایا جا رہا ہے کہ بھائی جان! کل جب آپ جیل میں تھے تو کھانا تو ہمارے ہاں سے آ رہا تھا! جاوید ہاشمی بہت تجربہ کار اور گرم و سرد زمانہ چشیدہ سہی، بہرحال یہاں مار کھا گئے اور حکماءکی یہ نصیحت انہوں نے یاد نہ رکھی کہ کھانا انکے ہاں سے نہ کھانا جو بعد میں جتائیں! اس لیے کہ صرف ”اعلی“ ظرف والے ہی ایسے احسانات جتایا کرتے ہیں!
ذکر خورشید محمود قصوری اور آصف احمد علی کا ہو رہا تھا،اب یہ نہیں معلوم کہ اہل قصور انکے احسانات جتانے سے رقیق القلب ہوتے ہیں یا پلٹ کر فراق گورکھپوری کا یہ شعر سناتے ہیں کہ:
جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مسئلئہ سود و زیاں ہے کہ جو تھا
اسمبلیوں کی نشستیں وراثت کا حصہ ہیں، آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ خورشید محمود قصوری اور آصف احمد علی کے علاوہ بھی اس وراثت کا کوئی حقدار ہو؟ دل چاہتا ہے کہ اہل قصور سے پوچھا جائے:
”الیس منکم رجل الرشید؟“
کیا ان دو کے علاوہ پورے علاقے میں اور کوئی تمہاری نمائندگی کا اہل نہیں؟
دوسری طرف راوی لکھتا ہے کہ شاہ محمود قریشی ”اپنی“ نشست کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ”تین پشتوں سے ہمارے پاس“ ہے! ہم چونکہ سیانے ہیں اس لیے موروثی نشستیں زندہ ہیں، ہم بھارت کی طرح بے وقوف نہیں ہیں، جس نے 1951ءمیں زرعی اصلاحات متعارف کیں اور سیاست میں وراثت کے قصے کو ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا۔
تحریک انصاف کے حوالے سے ایک اور بات یاد آ گئی، اگر تحریک انصاف اس خیال میں ہے کہ بلی کی طرح بار بار گھر بدلنے والے اس کے سایہ عاطف میں آئے ہیں تو بس اب پوتر ہو گئے ہیں تو یہ اس کی غلط فہمی بلکہ ناپختگی ہے۔ اقبال نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا کہ:
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس سینوں میں چھپ چھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں
اس کی مثال جناب خورشید محمود قصوری کا تازہ دورہء یو۔اے۔ای ہے جہاں انکی ملا قات پرویز مشرف سے ”اچانک“ ہو گئی، اخبار کی خبر کےمطابق عمران خان نے قصوری صاحب کو آئندہ محتاط رہنے کا مشورہ (یا حکم؟) دیا ہے! ایک روایت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ قصوری صاحب اپنی
پارٹی (یعنی اپنی نئی پارٹی) کی طرف سے باقاعدہ مذاکرات کیلئے گئے تھے، اور محتاط رہنے کا مشورہ محض عوام کی تسلی کیلئے ہے!
بہرحال جو کچھ بھی ہے، یہ طے ہے کہ پرویز مشرف اپنی ”مستقل مزاجی“ کی وجہ سے سیاست میں آنے پر تلے ہوئے ہیں اور مصر ہیں کہ ملک کو مسائل سے نجات وہی دلوا سکتے ہیں۔ مسائل کے بارے میں انکی سمجھ بوجھ کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اپنے عہد اقتدار میں انہوں نے فخر سے کہا کہ ملک میں کاروں کی تعد اد زیادہ ہو گئی ہے اور یہ ترقی کی علامت ہے! حالانکہ ترقی کی علامت ذاتی کاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد نہیں ہوتی بلکہ عوامی ٹرانسپورٹ کا نظام ہوتا ہے اور پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ نام کی کوئی شے اس وقت موجود نہیں! مجبوراً ہر شخص کو گاڑی رکھنا پڑ رہی ہے اور سڑکیں کاروں کی اس بڑھتی ہوئی تعداد کا ساتھ نہیں دے پا رہیں۔ آج اگر اسلام آباد، لاہور، اور کراچی میں زیر زمین ریلوے ہوتی تو اسلام آباد سے پنڈی صدر، ڈیفنس لاہور یا ملتان روڈ سے مال روڈ اور ناظم آباد کراچی سے آئی آئی چندریگر روڈ اور بندرگاہ تک شاید ہی کوئی اپنی کار استعمال کرتا۔ دلی میں اس وقت انڈر گراﺅنڈ ریلوے، دنیاکے بہترین نظاموں میں شمار ہوتی ہے۔ آلودگی اور آمدورفت، دونوں مسائل کو انہوں نے ایک تیر سے شکار کیا ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ نظام کی بربادی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں کاروں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ہوائی سفر کا نظام تباہ ہو جائے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا نتیجہ برآمد ہو گا؟ آپ کے ذہن نے اس سوال کا جو جواب سوچا ہے، وہ سو فیصد درست ہے! جس کی مالی استطاعت ہو گی وہ پی آئی اے کے ہاتھوں ذلیل ہونے کے بجائے اپنا ذاتی جہاز رکھے گا، یہی تو وہ تازہ ترین خبر ہے جس پر ماتم کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔ خبر کے مطابق کھرب پتی حضرات میں نجی طیاروں کا مقابلہ شروع ہو گیا ہے، ان نجی طیاروں میں سات یا دس کی تعداد تک مسافر بیٹھ سکتے ہیں، یہ پرائیویٹ طیارے ملک کے اندر ہی نہیں، باہر بھی جا رہے ہیں۔ یہاں مزہ یہ بھی ہے کہ بہاول پور، سکھر اور نواب شاہ جیسی چھوٹی جگہوں سے بین الاقوامی پرواز پر جانے والے سیٹھ حضرات کو امیگریشن، کسٹم یا پاسپورٹ کے محکموں والے بھی نہیں دکھائی دیتے۔ جہازوں کی پارکنگ کے اخراجات بھی نہیں لیے جا رہے۔ سبحان اللہ! مزے ہی مزے ہیں، کہاں کی رباعی کہاں کی غزل، یعنی کون سی ریاست اور کون سے امیگریشن اور کسٹم کے قوانین!….
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
رہے عوام…. تو پی آئی اے اور ریلوے کی تباہی کے بعد اب وہ قافلوں کی شکل میں سفر کریں۔ مخیر حضرات کو چاہیے کہ گلگت سے لیکر کراچی تک مناسب فاصلوں پر کنوئیں کھدوائیں اور سرائیں بنوائیں۔ سرائے میں بھٹیارن ہو۔
گھو ڑوں کیلئے الگ انتظام ہو ….
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
ہاں دکھا دے پھر وہی نظارہ صبح و شام تو
http://columns.izharulhaq.net/2012_01_01_archive.html
“