آخر آپ اسے کیا کہیں گے؟
ناشائستگی ؟
ایک خاص مائنڈ سیٹ؟
ایک خاص ذہنی سطح ؟ وہی ذہنی سطح جو پٹواری اور تھانیدار سے اوپر نہیں اُٹھ سکتی
یا کوئی اور الفاظ جو اسے بیان کر سکیں؟
آخر آپ اسے کیا کہیں گے؟ جو کچھ قومی اسمبلی میں ہو رہا تھا اور جس طرح رحمن ملک نے بھرے ایوان میں وزیراعظم کو ٹوکا اور منع کیا، اُس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟
خدا کی قسم! کوئی تعلیم یافتہ شخص، کوئی سنجیدہ اور متین پاکستانی، اُن لوگوں سے متاثر نہیں ہو سکتا جو منتخب ایوانوں میں بیٹھے ہیں، مستثنیات کی بات دوسری ہے لیکن وہ بہت کم ہیں، بہت ہی کم۔ کوئی سنجیدہ اور متین پاکستانی ان لوگوں سے متاثر کیا ہو گا، وہ انکے نزدیک سے بھی گزرنا پسند نہیں کرےگا۔ جو کچھ رحمن ملک نے وزیراعظم سے کہا، اُس سے یہ حقیقت دوپہر کے سورج کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ یہ لوگ بہت ہی افسوسناک ذہنی سطح کے مالک ہیں!
یہ چار دن پہلے کا واقعہ ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ وزیر داخلہ رحمن ملک کراچی کی صورتحال پر تقریر کر رہے تھے۔ اس قصے کو فی الحال رہنے دیجئے کہ رحمن ملک کس قسم کے وزیر ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ زیر بحث کراچی کی صورتحال تھی ۔ الم ناک اور خون کے آنسو رُلانے والی صورتحال! اور اس تقریر کے دوران ارکان اسمبلی کی اس موضوع میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنی فائلوں، درخواستوں اور عرضیوں کو ہاتھوں میں پکڑے اپنی نشستوں سے اُٹھ کر، ایوان میں چل پھر کر وزیراعظم کے پاس جا رہے تھے تاکہ ان عرضیوں، ان درخواستوں اور ان سفارشی چٹھیوں پر وزیراعظم کے دستخط کرا سکیں یا اُنکے حوالے کر دیں۔ کوئی فائل اٹھائے وزیراعظم کی نشست کی طرف جا رہا تھا تو کوئی کاغذ پکڑے وہاں سے واپس آ رہا تھا۔ رحمن ملک نے کچھ دیر تو یہ صورتحال برداشت کی لیکن پھر وزیر داخلہ کو اپنے ہی وزیراعظم سے کہنا پڑا کہ ”آپ مجھے ڈسٹرب کر رہے ہیں، جب تک میری تقریر ختم نہیں ہوتی ایسا نہ کریں۔“
آپ کا کیا خیال ہے کہ انتہائی نازک اور دل کو بوجھل کر دینے والی کراچی کی صورتحال کیا اسی توجہ کی محتاج تھی؟ اور اگر ارکان اسمبلی کی ذہنی سطح ایسی نہیں ہے کہ صورتحال کا ادراک کر سکے تو کیا وزیراعظم کو بھی اپنے وزیر داخلہ کی تقریر میں کوئی دلچسپی نہیں تھی؟ اس سوال کا جواب آپ اپنے آپ سے پوچھیئے!
یہ کس قسم کے لوگ ہیں جو منتخب ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں؟ کیا یہ تعلیم یافتہ ہیں؟ تعلیم کو بھی چھوڑئیے، کیا ان کی اکثریت دیانت دار ہے؟ اور کیا ان میں سے زیادہ تر شائستہ اور متین ہیں؟ تازہ ترین اطلاعات کےمطابق ان ارکان اسمبلی نے گذشتہ تین سال کے دوران 25کروڑ 26 لاکھ روپے کے ہوائی ٹکٹ استعمال کئے۔ قاعدے کی رُو سے استعمال شدہ ٹکٹ قومی اسمبلی کے دفتر میں جمع کرائے جانے تھے لیکن نہیں کرائے گئے۔ صرف پچھلے ایک سال کے دوران 33 لاکھ روپے کا کوئی حساب نہیں مل رہا۔ وزیر حضرات اپنے محکموں سے بھی سفر خرچ لے رہے ہیں اور قومی اسمبلی سے بھی ہوائی ٹکٹ لے رہے ہیں۔ اس سارے قصے میں سب سے زیادہ عبرت ناک بات یہ سامنے آئی ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ارکان بھی ہوائی ٹکٹ لیتے رہے ہیں! کیا آپکے ذخیرہء الفاظ میں ایسی لغت موجود ہے جسے آپ اس موقع پر استعمال کر سکیں یا ان حضرات کے اس رویہ کو بیان کرنے کےلئے الفاظ کم پڑ رہے ہیں؟ عابد علی عابد نے شاید کسی ایسے ہی موقع پر کہا تھا
مری زباں پہ لغت بولتی ہے اور مجھے
ملا نہ لفظ تری آنکھ کے فسوں کے لئے
یہ وہ حضرات ہیں جن میں سے 53 کی ڈگریاں مشکوک پائی گئیں اور اگر صوبائی اسمبلیوں کو بھی شامل کریں تو ساڑھے پانچ سو سے زیادہ ارکان وہ ہیں جن کی ڈگریوں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ ان میں سے 61 فی صد وہ ”غربا“ اور ”مساکین“ ہیں جو انکم ٹیکس ہی نہیں ادا کر سکتے! اور یہ خبر تو سارے اخبارات میں چھپی تھی کہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی نے سینٹ کے امیدواروں سے پندرہ کروڑ روپے فی کس یا فی نشست وصول کئے تھے۔ دینے والوں کے نام بھی شائع ہوئے تھے اور لینے والوں کے بھی۔ اسی سال یعنی 2011ءکی فروری میں ایک شخص نے سپریم کورٹ میں ایک ایم این اے کےخلاف مقدمہ دائر کیا کہ ایم این اے نے ٹیلی ویژن پر تسلیم کیا ہے کہ سینٹ کے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے عوض اُس نے رشوت وصول کی تھی!
جب اتنے نہائے دھوئے ہوئے، صاف شفاف، افراد اسمبلیوں میں تشریف فرما ہونگے تو وہی ہو گا جو ہو رہا ہے، فاٹا (قبائلی علاقوں) کے سیکرٹریٹ کا افسر ان ارکان اسمبلی کو صاف کہتا ہے کہ میں خرچ ہونےوالی رقوم کا حساب نہیں دوں گا۔ جب ارکان اسمبلی اُسے کہتے ہیں کہ فاٹا میں جعلی ڈگریوں والوں کو ملازمت کےلئے بھرتی کیا گیا ہے تو افسر آگے سے جواب دیتا ہے کہ جعلی ڈگریاں تو ارکان اسمبلی کی بھی ہیں! فاٹا کا افسر اگر باذوق ہوتا تو جواب میں وہی کچھ کہتا جو مسولینی نے اپنے حریفوں سے کہا تھا بقول اقبال
پردہء تہذیب میں غارت گری، آدم کُشی
کل روا رکھی تھی تم نے، میں روا رکھتا ہوں آج
یہ کتنی دلچسپ اور مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ ہمارے ارکان اسمبلی کسی کو جعلی ڈگری کا طعنہ نہیں دے سکتے، انکم ٹیکس کے کسی چور کو نہیں کہہ سکتے کہ تم نے انکم ٹیکس نہیں ادا کیا، کسی کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم نے مالی معاملات میں خیانت کی ہے۔ سید عطااللہ شاہ بخاری نے اس مفہوم کی بات کی کہ کسی کی ماں بہن دیکھی تو اپنی ماں بہن یاد آ گئی، اس موقع پر شاہ صاحب نے غالب کا شعر پڑھا اور اپنی بات سے ایسی مناسبت پیدا کی کہ آج تک واہ واہ ہو رہی ہے
ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
ہمارے ارکان اسمبلی کسی مجرم پر کیا سنگ اٹھائیں گے کہ مجرم کو بھی ارکان اسمبلی کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے
بھرم کھل جائے ظالم! تری قامت کی درازی کا
اگر اس طرّہء پُرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
یہ ارکان اسمبلی، کیا مرکزی اور کیا صوبائی، وہ بیج ہیں جو اہل پاکستان نے زمین میں ڈالے ہیں۔ گندم کے بیج سے گندم اور جو کے بیج سے جو پیدا ہوتے ہیں، یہ بیج جو اسمبلیوں میں ڈالے گئے، دیکھئے ان سے درخت کیسے نکل رہے ہیں۔ ڈی آئی خان والے سرائیکی صوبے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ بہاولپور والے ملتان سے برسر پیکار ہیں۔ سندھ کے اندر سندھ کارڈ والوں کےخلاف ہڑتال ہے، ہزارہ والے پختون خوا کے نام سے بیزار ہیں‘ جیسے ارکان اسمبلی‘ ویسی ہی صورتحال!
اُس زمانے میں جب وسط ایشیا کے ترک کئی کئی ہفتے اور مہینے گھوڑوں پر سوار ہو کر یا پیدل سفر کرتے تھے، تازہ خوراک کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ وہ خوبانیوں کا ملیدہ بناتے تھے۔ پھر اُسے خشک کرتے تھے۔ پھر پھیلا دیتے تھے یہاں تک کہ وہ چادر کی طرح ہو جاتا تھا۔ اب وہ اسے تہہ کر کے محفوظ کر لیتے تھے۔ اسکا رنگ اور سختی گھوڑے کی کھال کی طرح ہو جاتی تھی۔ اس کا نام عربی میں یہی پڑ گیا یعنی جِلدُ الفرس۔ گھوڑے کی کھال۔ اسے دوران سفر پانی میں گھولتے تو یہ سالن کی طرح ہو جاتا۔ اس سے روٹی کھا لی جاتی تھی! پاکستان کے عوام کا مالیدہ بنایا گیا، پھر اسے خشک کیا گیا، پھر اسے پھیلایا گیا، اب وہ گھوڑے کی کھال بن گئے ہیں اور اہل اقتدار اور اہل سیاست کے سامان میں پڑے ہیں۔ جب ان لوگوں کو بھوک لگتی ہے تو روٹی کے ساتھ اسے چٹ کر جاتے ہیں!