ہمیں نہیں پتا کہ وہ کون تھا لیکن وہ جو بھی تھا، اس نے دنیا کی تاریخ کو بدل دیا تھا۔ انسان ہمیشہ سے عجیب چیزیں کرنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ یہ منگولیا اور ہنگری کے درمیان کسی سبزہ زار کے درمیان آج سے چھ ہزار سال پہلے رونما ہونے والا واقعہ ہے۔ کسی نے گھڑسواری کی کوشش کی تھی۔
ہو سکتا ہے کہ کسی نے اسے چیلنج دیا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذہن میں امڈنے والا فارغ وقت کا خیال ہو۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے یہ جاننے کی کوشش کی ہو کہ گھوڑے کی طرح تیز رفتار بھاگتے ہوئے کیسا لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسے ایک اس گھوڑے کا بچہ ملا ہو جس کی ماں کو گوشت کی خاطر مار دیا گیا ہو اور وہ اس چھوٹے گھوڑے پر بیٹھ گیا ہو۔
یہ جیسے بھی ہوا، اس نے اس جنگلی جانور کی پیٹھ پر ٹِک کر بیٹھنا اور اس کو اپنی مرضی سے قابو کرنے کا طریقہ نکال لیا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ جب دوسروں نے اس کو یہ سواری کرتے دیکھا ہو گا، جانور کی پشت پر سوار اسے بھگاتے دیکھا ہو گا تو ان کے ذہن میں کیا خیال آیا ہو گا؟ ان کو بھی اس گھوڑے کی سواری کی ضرورت محسوس ہوئی ہو گی۔
انسان جن جانوروں کا شکار کرتا آیا تھا، ان میں گھوڑا بھی تھا۔ ایک لاکھ سال سے یہ شکار کیا جاتا رہا تھا۔ ایک ہزار پاوٗنڈ وزنی ایسے جانور کی پشت پر بیٹھ کر اسے کنٹرول کر لینا، جو صرف ایک ٹھوکر سے انسان کو مار سکتا تھا۔ گھوڑے کو سدھانا، وہ واقعہ تھا جو انسانی تہذیب کے لئے ایک بڑا انقلاب تھا۔ اب سفر تیزرفتار کئے جا سکتے تھے۔ ان رفتاروں سے سفر کیا جا سکتا تھا، جو پہلے ناقابلِ یقین تھا۔ اس سے پہلے سفر کا طریقہ صرف پیدل تھا۔ انسانی کلچر الگ الگ پاکٹ کے بجائے ایک دوسرے سے گھل مل سکتے تھے۔ بین الاقوامی رابطوں کے لئے سب سے بڑی جدت یہ ٹیکنالوجی تھی۔
ہمیں اس کے پہلے آثار یوریشین سبزہ زار میں ملتے ہیں لیکن بہت جلد پالتو گھوڑوں نے دور دراز تک پھیلنا شروع کر دیا۔ ترکی اور سوئٹزرلینڈ تک پھیل گئے۔ انٹرنل کمبسشن انجن کی ایجاد سے پہلے تک، اگلے چھ ہزار سال کیلئے، انسانوں کے لئے ذرائع آمد و رفت کا کام اسی سے لیا جاتا رہا۔
ہمیں نہیں پتا کہ وہ کون تھا لیکن اس من چلے کی حرکت نے جو دوڑ لگوائی تھی، وہ صرف اس جانور کو نہیں تھی۔ یہ دوڑ انسانی تہذیب کی تھی۔