کمرے میں پرانے وقت کی باس پھیلی ہوئی تھی۔ امیر عالم اپنے بستر پر لیٹا، قدموں کی چاپ کا منتظر تھا۔ گھڑی اب دیوار پر نہیں اس کے دماغ میں نصب ہو چکی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ یہی وقت ہے جب معمول کے مطابق چائے اس کے کمرے میں پہنچتی ہے۔ اور وہی ہوا، قدموں کی چاپ مدھم سے نمایاں ہوتے ہوئے اس کے دروازے پر آ کر ایک ثانیے کو رکی، ہلکی سی دستک کے جواب میں اس نے ہمیشہ کی طرح آنے والے کو اندر آنے کی اجازت دی۔ یہ اس کی نوعمر پوتی ندا تھی، جو اس کے لیے مگ میں چائے اور ایک پلیٹ میں اس کے پسندیدہ بسکٹ لے کر آئی تھی۔ نائس کے چینی والے تین بسکٹ۔ ندا نے مگ اور پلیٹ بیڈ کے سائڈ ٹیبل پر رکھ کر انھی قدموں واپسی کی راہ لی۔ شروع جاڑے کے دنوں میں شام کی چائے معمول سے زیادہ اچھی لگتی ہے۔ امیر عالم چائے پینے کے لیے ٹانگیں لٹکا کر بستر ہی پر بیٹھ گیا۔ اس نے پہلے تو چائے میں بسکٹ ڈبو کر کھائے، پھر اپنی عادت کے عین مطابق آنکھیں بند کرکے گھونٹ گھونٹ چائے پینے لگا۔ ہر گھونٹ اسے گزری زندگی کی کسی نہ کسی یادگاہ میں پہنچا دیتا۔ وہ ایک ایک گھونٹ سے لذت کشید کرتا ۔۔۔۔ لذت ۔۔۔ اسے اپنی دوسری محبوبہ سے اپنے گرم بوسوں کی یاد آئی۔ جنھیں وہ چائے پینے کے دوران بے تحاشا لیا کرتے تھے، حدت بھرے لذیذ بوسے۔ اس کی محبوبہ کا خیال تھا کہ یہ ان دونوں کے ورجن بوسے ہیں، جبکہ وہ جانتا تھا کہ ایسا نہیں تھا۔ وہ بند آنکھوں سے مسکرایا جیسے یہ لمحہ ابھی ابھی اس پر بیتا ہو۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...