غزوہ ہند کیا ہے؟
اِس امت کی تاریخ میں بے شمار فتنہ جوؤں اور مدعیانِ نبوت نے اپنے دعوؤں کی بنیاد ایسی ہی کمزور اور غلط روایات پر رکھی ہے۔ خوارج سے لے کر حسن بن صباح اور مرزا غلام احمد قادیانی سے لے کر یوسف کذاب تک سب نے یہ کام کیا ہے۔ یہ کمزور روایات قرآن مجید کی تعلیمات کے بھی خلاف ہوتی ہیں اور صحیح احادیث کے بھی خلاف ہوتی ہیں۔
حال ہی میں ’’غزوہ ہند‘‘ کے نام سے چند انتہائی کمزور روایات کو بنیاد بناکر عجیب وغریب سیاسی دعوے کیے جارہے ہیں، اور لوگوں کو ابھارا جارہا ہے۔ ’’غزوہ ہند‘‘ کے نام سے یہ روایات قرآن مجید کے بھی خلاف ہیں، دوسری صحیح احادیث کے بھی خلاف ہیں اور تاریخ کے بھی خلاف ہیں۔ ان کی بنیاد پر جو دعوے کیے جارہے ہیں، وہ بھی قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کے بالکل خلاف ہیں، لیکن محض اپنی خواہش کو دینی بنیاد فراہم کرنے کے لیے اِن کا سہارا لینے کی کوشش کی جارہی ہے
اصل میں یہ پانچ روایات ہیں۔ پہلی روایت یہ ہے:
’’میری امت کے دو گروہوں کو اللہ جہنم کی آگ سے بچائے گا۔ ایک وہ جو ہند میں لڑے گا اور دوسرا وہ جو عیسیٰؑ ابن مریم کے ساتھ ہوگا‘‘۔
دوسری روایت یوں ہے:
’’حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا تھا۔ چنانچہ اگر میں اُسے پالوں تو اُس میں اپنا جان ومال لٹادوں۔ پھر اگر میں اُس میں مارا گیا تو میں بہترین شہید ہوں گا اور اگر میں لوٹ آیا تو میں آزاد ابوہریرہ ہوں گا‘‘
تیسری روایت یہ ہے:
’’حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اس امت میں سندھ وہند کی طرف ایک لشکر روانہ ہوگا۔ اگر مجھے ایسے کسی مہم میں شرکت کا موقعہ ملا اور اس میں شریک ہوکر شہید ہوگیا تو ٹھیک۔ اور اگر میں لوٹ آیا تو میں آزاد ابوہریرہ ہوں گا جیسے اللہ نے جہنم کی آگ سے آزاد کردیا ہوگا‘‘۔
چوتھی روایت یہ ہے:
’’ضرور تمہارا ایک لشکر ہند سے جنگ کرے گا۔ اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا کرے گا، حتیٰ کہ وہ ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ اِن مجاہدین کی مغفرت فرمائیں گے۔ پھر جب وہ واپس پلٹیں گے تو حضرت عیسیٰؑ کو شام میں پائیں گے‘‘۔ اس پر حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا مال سب بیچ دوں گا اور اس میں شرکت کروں گا۔ پھر جب اللہ ہمیں فتح عطا کردے اور ہم واپس پلٹ آئیں تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو شام کے ملک میں اس شان سے آئے گا کہ وہاں عیسیٰؑ ابن مریم کو پائے گا۔ یا رسول اللہ! اُس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں اُن کے پاس پہنچ کر انہیں بتاؤں کہ میں آپؐ کا صحابی ہوں‘‘۔ یہ سن کر حضورؐ مسکرا پڑے اور ہنس کر فرمایا۔ بہت مشکل۔ بہت مشکل‘‘۔
پانچویں روایت یوں ہے:
’’بیت المقدس کا ایک بادشاہ ہند کی جانب ایک لشکر روانہ کرے گا۔ مجاہدین سرزمینِ ہند کو پامال کرڈالیں گے۔ اُس کے خزانوں پر قبضہ کرلیں گے، پھر وہ بادشاہ اُن خزانوں کو بیت المقدس کی تزیین وآرائش کے لیے استعمال کرے گا۔ وہ لشکر ہند کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر اپنے بادشاہ کے سامنے پیش کرے گا۔ اُس کے مجاہدین بادشاہ کے حکم سے مشرق ومغرب کے درمیان کا سارا علاقہ فتح کرلیں گے اور دجال کے خروج تک ہند میں قیام کریں گے‘‘۔
درج بالا پانچ روایات میں پہلی روایت حضرت ثوبانؓ سے روایت کردہ بیان کی جاتی ہے۔ تین روایات حضرت ا بوہریرہؓ سے روایت کردہ بیان کی جاتی ہیں اور آخری روایت ’’کعب‘‘ سے بیان کی جاتی ہے۔ اگر غور سے جائزہ لیا جائے تو یہ درحقیقت ایک ہی روایت ہے جس کے مختلف حصوں کو اِن پانچ روایات میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ روایات مسند احمد بن حنبل اور نسائی کی’’کتاب الفتن‘‘ میں آئی ہیں۔
ان روایات کے راویوں کی صورت حال
یہ ساری روایات راویوں کے ایسے سلسلوں سے بیان کی گئی ہیں جن کے ہر سلسلے میں کمزور اور ناقابل اعتماد ر راوی موجودہیں۔ چنانچہ اِن کو دلیل کے طور پر پیش کرنا نہایت غلط ہے۔ واضح رہے کہ اگرروایت کے کسی سلسلے میں ایک راوی بھی ناقابلِ اعتماد ہو تو وہ روایت ضعیف اور کمزور بن جاتی ہے۔ مثلاً پہلی روایت میں اسد بن موسیٰ نامی ایک راوی موجود ہے۔ اِس شخص کو محدثین نے ناقابل اعتماد فرد قرار دیا ہے۔ اس میں ایک اور راوی کا نام ’’بقیہ‘‘ ہے۔ اِس کو بھی حدیث کے ماہرین نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ اِس میں ایک اور راوی کا نام ’’یحییٰ بن معین‘‘ ہے۔ محدثین کے نزدیک یہ بھی بالکل ایک ناقابل اعتماد شخص ہے۔ روایت کے اس سلسلے میں دو مزید افراد بھی ہیں۔ ایک ابوبکر زبیدی اور دوسرے عبدالاعلیٰ بن عدی البرانی۔ محدثین کے نزدیک یہ دونوں ’’مجہول الحال‘‘ ہیں۔ یعنی ہمیں کچھ نہیں معلوم کہ یہ کون ہیں، ان کے اساتذہ کون ہیں۔ یہ کب پیدا ہوئے اور کب فوت ہوئے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص حضورؐ کی کوئی بات براہ راست کسی فرد سے سن کر آگے سناتاہے، اُسے ایک مشہور ومعروف اور عالم آدمی ہونا چاہیے۔
گویا اس روایت کا سارا سلسلہ بہت ناقابل اعتماد ہے اور بس آخر میں ایک صحابیؓ کا نام لگادیا گیا ہے۔ ایسی روایت پر بھلا کیسے اعتماد کیا جائے اور دین کے معاملے میں اسے بطور ثبوت کیسے پیش کیا جائے؟
باقی چاروں روایات کا بھی یہی حال ہے۔ اِن راویوں میں ایک شخص کا نام زکریا بن عدی ہے جس کو حدیث کے علماء ناقابلِ اعتماد سمجھتے ہیں۔
اِن راویوں میں عبیداللہ بن عمر اور زید بن ابی انیسہ بھی شامل ہیں۔ اِن دونوں کے متعلق محدثین کا یہ بیان ہے کہ اِ ن کے معاملے میں احتیاط کرنی چاہیے اس لیے کہ اِن دونوں کے اندر خامیاں پائی جاتی ہیں۔
ایک اور راوی کا نام جبیر بن عبیدہ ہے۔ اِس شخص کے متعلق محدثین کی رائے بہت ہی بری ہے۔ اور اِس کو ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔
ایک اور راوی ’’ھیشم‘‘ ہے۔ اِ ن کے متعلق بھی محدثین کی رائے بہت بری ہے۔ یہ صاحب ایسے لوگوں سے حدیث روایت کرتے تھے جن سے ان کی کبھی ملاقات ہی نہیں ہوئی۔
درج بالا روایات میں دوسری روایت میں کہا گیا ہے کہ ’’صفوان بن عمرو‘‘ نے حضورؐ سے یہ روایت بیان کی ہے۔ ’’صفوان بن عمرو‘‘ ایک تبع تابعی تھے۔ یعنی حضورؐ سے کسی صحابی نے یہ بات سنی ہوگی۔ پھر اُن سے یہ بات کسی تابعی نے سنی ہوگی۔ اور پھر صفوان نے سنی ہوگی۔گویا اِس روایت میں کچھ نہیں معلوم کہ کس نے یہ بات حضورؐ سے سنی۔ پھراُس صحابی سے کس نے سنی۔ گویا نہ صحابی کا نام معلوم اور نہ اُس تابعی کانام معلوم۔ جب کہ صفوان کے نیچے باقی راوی بھی جھوٹے اور ناقابلِ اعتماد ہیں۔ اب ایسی روایت کو دین کے طور پر کیسے قبول کیا جائے۔
درج بالا روایات میں تیسری روایت کے راویوں کے ضمن میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ حدیث حسن بصری نے ابوہریرہؓ سے سنی ہے۔ حالانکہ محدثین کے مطابق حسن بصری نے ابوہریرہؓ سے کبھی ملاقات ہی نہیں کی۔
اسی طرح درج بالا روایات میں چوتھی روایت کا ایک راوی ’’نعیم بن حماد مروزی‘‘ ہے۔ اس شخص کو محدثین وعلماء نے جھوٹا قرار دیا ہے۔ اسی سلسلے میں ’’بقیہ بن ولید‘‘ بھی شامل ہے جس کو محدثین ناقابلِ اعتماد قرار دیتے ہیں۔ اِسی طرح اِس روایت میں ایک صاحب صفوان بن عمرو کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں نے اپنے ایک استاد سے سنی ہے۔ اب یہ استاد کون تھے؟ قابلِ اعتماد تھے یا نہیں تھے؟ یہ کچھ نہیں معلوم۔ چانچہ ایسی کسی بے اصل بات کو صحیح روایت بیان کرکے اُس سے دلیل پیش کرنا بہت بڑی جسارت ہے جس کا ارتکاب کسی منصف مزاج آدمی کو زیب نہیں دیتا۔
اسی طرح پانچویں روایت کے سلسلے میں بھی نعیم بن حماد موجود ہے جیسے محدثین نے جھوٹا قرار دیا ہے۔ اِسی روایت کے سلسلے میں ایک صاحب ’’حکیم بن نافع‘‘ کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں نے اپنے ایک استاد سے سنی ہے۔ اب یہ استاد کون ہیں اور اُن کی کیا صورت حال ہے، اس کے متعلق کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ یہ روایت منقطع بھی ہے۔ یعنی اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ حدیث ایک صحابی ’’کعب‘‘ سے کس نے سنی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہ ’’کعب‘‘ کون ہیں۔ کیا یہ کوئی صحابی ہیں؟ اگر یہ کوئی صحابی ہیں تو کون ہیں۔ اگر یہ ’’ابو مالک کعبؓ بن عاصم اشعری‘‘ ہیں، تو اِن کا پورا نام یہاں کیوں درج نہیں کیا گیا؟ کیونکہ محدثین یہ التزام کرتے ہیں کہ جہاں بھی کسی صحابی کا نام آتاہے تو وہ پورا نام درج کرتے ہیں تاکہ کوئی غلط فہمی نہ ہو اور ساتھ میں ’’رضی اللہ عنہ‘‘ بھی لکھتے ہیں، جب کہ یہاں نام بھی صرف ’’کعب‘‘ درج کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ رضی اللہ عنہ بھی نہیں لگایا گیا۔ پھر کیا یہ ’’کعب الاحبار‘‘ ہے جو ایک تابعی تھا۔ لیکن امام بخاریؒ ؒ ؒ ؒ ؒ کے مطابق وہ ایک ناقابل اعتماد شخص تھا۔
اِن روایات کا چند اور پہلوؤں سے جائزہ
ہماری درج بالا بحث سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ غزوہ ہند سے متعلق یہ سب روایات انتہائی کمزور اور ضعیف ہیں اور اِن سے کوئی دلیل پیش کرنا غلط ہے۔ تاہم کوئی آدمی کہہ سکتا ہے کہ بہر صورت میں تو اِن کو ٹھیک مانتا ہوں۔ ایسے لوگوں کے لیے ہم اِن روایات کے کچھ مزید پہلوؤں کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں۔
O ایک یہ کہ اِن روایات میں ’’ایک لشکر‘‘ (بعث کا لفظ نکرہ استعمال ہوا ہے) کا ذکر آیا ہے۔ لیکن اِس روایت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے اس کا ترجمہ غلط طور پر ’’لشکروں‘‘ کررہے ہیں۔ یہ مغالطہ جس کے تحت یہ لوگ غزوہ ہند کو ’’ایک لڑائی‘‘ کے بجائے تا قیامت برصغیر ہند میں ہونے والی تمام لڑائیوں پر اِس کا اطلاق کررہے ہیں، خود اِس روایت کے الفاظ کی رو سے یہ غلط ہے۔
O اِن میں سے ایک روایت میں ’’سندھ‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔جب کہ سندھ تو اس وقت بھی مسلمانوں کے قبضے میں ہے۔ چنانچہ اِس پر فوج کشی کا کیا مطلب ہے؟۔
O اِن سب روایات کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اِن میں مستقبل کے ایک ایسے زمانے کا ذکر ہے جب قیامت کے آثار بالکل واضح ہوں گے۔دنیا کے موجودہ سیاسی حقائق بالکل تبدیل ہوچکے ہوں گے۔ اسرائیل فنا ہوچکا ہوگا۔ بیت المقدس مسلمانوں کے قبضے میں آچکا ہوگا۔ فلسطین ، شام، اردن، عراق،وسط ایشیا کے ممالک، ایران وافغانستان سب ایک مملکت بن چکے ہوں گے۔ پھر ایک عظیم لشکر ہند کی طرف روانہ ہوگا جو اِس سرزمین کو فتح کرکے اِن کے حکمرانوں کو قید کرکے لائے گا۔ اِس فتح سے جو مالِ غنیمت حاصل ہوگا، وہ بیت المقدس کی تزیین وآرائش کے لیے استعمال ہوگا۔ یہی وہ وقت ہوگا جب حضرت عیسیٰؑ فلسطین میں نازل ہوچکے ہوں گے۔ گویااِن روایات کے مطابق یہ ضروری ہے کہ ہند پر حملے سے پہلے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی عالمی حکومت وجود میںآجائے اور اسرائیل پر مسلمانوں کا قبضہ ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ فی الوقت یوں نہیں ہے۔ اِس وقت تو اسرائیل کے خاتمے اور مسلمانوں کی ایک عالمی حکومت کے قیام کا دوردور تک امکان نظر نہیں آتا۔ گویا ہمیں پہلے مسلمانوں کی ایک عالمی حکومت بنانی ہے اور اسرائیل کو ختم کرنا ہے، اس کے بعد ہندپرجو حملہ ہوگا، وہ ان روایات کا مصداق ہوگا۔
اِن روایات میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ لشکر جب واپس بیت المقدس پہنچے گا تو حضرت عیسیٰؑ نازل ہوچکے ہوں گے۔ صحیح احادیث کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کے نزول سے پہلے دجال ظاہر ہوگا، سورج مغرب سے طلوع ہوگا اور یاجوج ماجوج ہر بلندی سے نکل پڑیں گے۔ دجال کے پاس اتنی بڑی طاقت ہوگی کہ وہ کچھ بھی کرسکے گا، حتیٰ کہ ایک مُردہ شخص کو زندہ بھی کرسکے گا۔صحیح احادیث میں اِس کے علاوہ بھی بہت ساری علامات ذکر کی گئی ہیں۔
ظاہر ہے کہ اس وقت ابھی نہ تو دجال ظاہر ہوا ہے، نہ سورج مغرب سے طلوع ہوا ہے، نہ یاجوج ماجوج نکلے ہیں۔ چنانچہ حضرت عیسیٰؑ کا مستقبلِ قریب میں نزول بھی ممکن نہیں ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اِن روایات والے غزوہ ہند کا بھی ابھی کوئی امکان نہیں۔
گویا اگر یہ روایات صحیح بھی ہوں تو اِن میں بیان کردہ شرائط والے غزوہ ہند کا ابھی دور دور تک امکان نہیں ہے۔ان روایات میں قیامت کے قریب ترین زمانے کا ذکر ہے۔ ان کے مطابق پہلے مسلمانوں کی عالمی مملکت بنے گی، اسرائیل کا خاتمہ ہوگا، دجال نکلے گا، سورج مغرب سے طلوع ہوگا، حضرت عیسیٰؑ کی آمد بالکل قریب ہوگی یا وہ تشریف لاچکے ہوں گے، تب کہیں غزوہ ہند ہوگا۔ چنانچہ موجودہ زمانے کے کسی سیاسی تنازعے پر غزوہ ہند کا اطلاق بالکل غلط ہے۔
تاریخی اور جغرافیائی مغالطے:
دنیا میں مختلف ملکوں کے نام اور اُن کا جغرافیہ بدلتا رہتا ہے۔ سرحدیں بدلتی ہیں اور نئے حقائق وجود میں آتے ہیں۔ اِسی کے ساتھ ناموں کے معنی بھی تبدیل ہوتے ہیں۔ مثلاً آج سے پندرہ سو برس قبل صرف جزیرہ نمائے عرب کو ’’سرزمینِ عرب‘‘ کہا جاتا تھا۔ آج کی عرب دنیا اُس سے دس گنا زیادہ آبادی اور رقبے پر مشتمل ہے۔ اُس زمانے کے چین اور آج کے چین میں بہت بڑا فرق ہے۔ یہی حال ہر جگہ کا ہے۔
مگر ’’غزوہ ہند‘‘ سے سیاسی معنی لینے والے کچھ حلقے حدیث تو آج سے پندرہ سو برس پہلے والی سناتے ہیں، مگر اُس میں ’’ہند‘‘ کے لفظ سے آج کا بھارت مراد لیتے ہیں۔ اُس زمانے میں ’’ہند‘‘ کے لفظ سے کیا معنی مراد لیے جاتے تھے۔ اس کے متعلق ’’اردو دائرہ معارفِ اسلامی۔ جلد23۔ صفحہ 173‘‘پر تحریر ہے۔
’’مصرِ قدیم کے مسلم جغرافیہ دان لفظ ’’ہند‘‘ کو سندھ کے مشرقی علاقوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ہند سے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک بھی مراد لیے جاتے تھے۔ چنانچہ جب ’’ہند کے بادشاہ‘‘اور ’’ہند کے علاقے‘‘ کہا جاتا تھا تو اس سے صرف ہندہی مراد نہ تھا، بلکہ اس میں انڈونیشیا، ملایا وغیرہ بھی شامل سمجھے جاتے تھے اور جب ’’سندھ‘‘ کہا جاتا تھا تو اس میں سندھ، مکران، بلوچستان، پنجاب کا کچھ حصہ اور شمال مغربی سرحدی صوبہ بھی شامل سمجھے جاتے تھے۔ ایسا کوئی ایک نام نہ تھا جس کا اطلاق پورے ہندوستان پر ہو۔ ہند اور سندھ مل کر ہی ہندوستان کو ظاہر کرتے تھے۔ عربی اور فارسی میں ہندوستان کے جغرافیائی حالات بیان کیے جاتے تھے تو اس میں ہنداور سندھ کے حالات شامل ہوتے تھے۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد سے پہلے کوئی نام ایسا نہ تھا جس کا اطلاق پورے ملک پر ہو۔ ہر صوبے کا اپنا الگ الگ نام تھا۔ اہل فارس نے جب اس ملک کے ایک صوبے پر قبضہ کرلیا تو اس دریا کے نام پر جسے اب سندھ کہتے ہیں، ’’ہندھو‘‘ رکھا کیونکہ قدیم ایران کی پہلوی زبان میں اور سنسکرت میں ’’س‘‘ اور ’’ہ‘‘ کو آپس میں بدل لیا کرتے تھے، چنانچہ فارسی والوں نے ’’ہندہو‘‘ کہہ کر پکارا۔ عربوں نے سندھ کو تو سندھ ہی کہا، لیکن اس کے علاوہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں کو ہند کہا اور آخرمیں یہی نام تمام دنیا میں پھیل گیا۔ پھر ’’ہ‘‘ کا حرف ’’الف‘‘ میں بدل کر یہ نام فرنچ میں اِنڈ(Ind)اور انگریزی میں انڈیا (India)کی صورت میں مشہور ہوگیا‘‘۔
اِس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حضورؐ کے زمانے میں جب یہ لفظ استعمال ہوتا تو ’’ہند‘‘ سے مراد صرف بھارت نہیں بلکہ برما ،تھائی لینڈ، لاؤس، کمبوڈیا، ویت نام، ملایشیا، انڈونیشیا وغیرہ یہ سب ممالک اس میں آجاتے تھے۔ چنانچہ اِس لفظ کو صرف موجودہ بھارت کے لیے استعمال کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔
یہی حال لفظ ’’سندھ‘‘ کا ہے۔ اگر اِسے آج کے معنی میں لے لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ ’’سندھ‘‘ تو سارے کا سارا مسلمان ہے اور پاکستان کا حصہ ہے۔ کیا اِس کو دوبارہ فتح کرنا مقصود ہے؟۔
دین کی باقی تعلیمات سے تضاد:
اِن روایات کے اکثر حصے سے دوسری دینی تعلیمات سے بھی ٹکراتے ہیں۔ مثلاً اِس میں ایک جگہ حضرت ابوہریرہؓ، کی زبانی یہ کہا گیا ہے کہ وہ غزوہ ہند کے لیے جانے والے لشکر اور اِس کے بعد حضرت عیسیٰؑ سے ملاقات کے آرزومند تھے۔ یہ آرزو ہر اعتبار سے بالکل ناممکن تھی۔ حضرت عیسیٰؑ کا نزولِ ثانی تو قیامت کی نشانیوں میں سے ہوگا، تو کیا یہ ممکن تھا کہ حضرت عیسیٰؑ حضورؐ کے بعد اتنی جلدی تشریف لاتے کہ ایک صحابی اُن سے ملاقات کرتے؟۔ یہ بات تو قرآن مجید کی آیات اور بہت سی صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت گھڑی گئی ہے اور اِس میں نمک مرچ ڈالنے کے لیے ایک محترم صحابیؓ کا نام استعمال کیا گیا ہے۔
یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ اب قیامت تک کے لیے قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل کرنا ہمارے لیے لازم ہے۔ جنگ کے لیے دین کی اہم شرطوں میں یہ شامل ہے کہ جنگ کا اعلان صرف ریاست کرسکتی ہے، جنگ صرف ظلم کے خلاف ہوسکتا ہے۔ امن معاہدے کی موجودگی میں جنگ کی اجازت نہیں، اور جنگ صرف اُسی وقت لڑی جائے جب اتنا اسلحہ اور سازوسامان موجود ہو کہ جنگ جیتی جاسکے۔
یہ ہدایات ہمارے لیے قیامت تک لازم ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی ’’غزوہ ہند‘‘ برپا ہوگا تو اُس میں بھی یہی ساری شرائط لاگو ہوں گی۔ یہ نام لے کر عوام میں سنسنی خیزی پھیلانا، مختلف مسلح تنظیمیں کھڑی کرنا، اپنے بل بوتے پر مسلح کاروائیاں کرنا، ریاستی معاہدوں کو توڑنا اور پھر اِن سب کو ’’غزوہ ہند‘‘ کا نام دے کر اِن کو جواز دینا صحیح نہیں ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“