غزنی کا لٹیرا
ایک ھی صف میں کھڑے ھو گئے محمود ؤ ایاز
پھر نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
جھوٹ اور منافقت سے بھری تاریخ لکھنے والوں سے کیا گلہ کریں . ہمارے قومی ہیرو بھی اس مرض کا شکار رهے کہ جھوٹ اور سچ کا ایک ملغوبہ آج کے پاکستان میں نظر آتا ہے . جب قوموں کے پاس اصلی ہیرو موجود ہوں اور وہ اپنی منافقت سے ان کو عوام سے چھپائیں تو پھر مانگے تانگے اور ادھاری لوگوں کو پیش کر کے وقت گزارا جاتا ہے .
محمود غزنوی بھی ایک ایسا ھی تاریخی کردار ہے جو ھم کو ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا اور اصرار ہے کہ اس کو ہیرو مانا جاۓ . کیوں کہ اس نے ہندوؤں کا قتل عام کیا . سترہ سومناتی حملے جن میں ھر دفعہ کروڑوں کا سونا لوٹا گیا اور ھزاروں لوگوں کا قتل ھوا .
بس یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ حملے ہندو کے مندر پر ہوے . اور یہ بت شکن اسلام کی خاطر ھر دفعہ پلٹ پلٹ کر وار کرتا تھا . محمود کو پاکستان میں اسلامی ولی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور بن قاسم کے بعد اسلام کا بڑا جنگجو منوانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے حالانکہ دونوں ہماری کوئی بھی مادری زبان تک نہیں جانتے تھے . جب بیرونی حملہ آور ہیرو ہوں گے تو دھرتی سے جڑے لوگ ولن ھی ٹھرتے ھیں .
محمودغزنی سے مندر توڑنے ہندوستان آتا تھا تو اس بت شکن کے راستے میں بامیان کے پہاڑوں میں بدھہ کے بت موجود ہوتے تھے مگر چونکہ ان میں سونا نہیں تھا اس لیے ھر مہم میں ان کو چھوڑ دیا جاتا . وہی بت بعد میں ملا عمر کی اسلامی خلافت میں گراۓ گئے اور پوری دنیا کی جگ ہنسائی سمیٹی گئی .
ایاز جو کہ بعد میں لاہور کا گور نر بنا . ترک غلام تھا اور محمود کا یار خاص تھا ایک دفعہ محمود نے کامیاب یلغار کے بعد اپنے درباریوں سے پوچھا کہ اس وقت دنیا میں کون سب سے طاقتور بادشاہ ہے ؟
ایاز نے کہا …. میں
سب سہم گئے . محمود نے کہا تم کیسے ھو سکتے ھو ؟
ایاز بولا .پوری دنیا میں اس وقت محمود بڑا بادشاہ ہے اور محمود کے دل پر میرا قبضہ ہے .
ان دونوں کے غیر فطری عشق پر سعدی جیسے شاعر بھی نظمیں لکھ چکے ھیں .یہ وہی عشق تھا جس پر لوگ قتل کئے جاتے ھیں مگر ہماری تاریخ نے اس رشتے کو پاکیزہ قرار دے کر جان بچائی ہے .
وقت آ گیا ہے کہ اب ھم لوطی اور لٹیروں سے اپنی جان چھوڑائیں اور سچے دھرتی کے ہیرو تلاش کریں . یقین کریں ہماری تاریخ سچے اور کھرے ہیروں سے بھری پڑی ہے .
یہاں پر بھگت سنگھ . احمد کھرل اور بابا بلھے شاہ جیسے بڑے نام موجود ھیں جس پر ھم فخر کر سکتے ھیں .
بس منافقت اور چند خاندانوں کی مصلحت راہ کی رکاوٹ ہے .
سچی تبدیلی کے لیے سوچ بدلنا ھو گی . نئی نسل کو بابا فرید . بلھے شاہ۔ رحمان بابا ۔ مست توکل بلوچ . شاہ لطیف اور قلندر لعل شہباز کی تعلیمات پھر سے یاد کرانا ہوں گی . پیار اور برداشت کا بھولا سبق ھی پاکستان کی اصل منزل ہے . جنگجو ہیرو والے معاشرے بانجھ ھو جاتے ھیں . وہاں وارث شاہ اور بلھے پیدا نہیں ھوا کرتے۔۔
اے بت تراشو ۔۔ اک تخلیق سونے کی کرو
امنڈ کے آئیں گے غزنوی ہزاروں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔