غزلیاتِ رفیق راز کا عروضی مطالعہ
از غنی غیور
نخل آب رفیق راز کی غزلوں کا بہترین مجموعہ ہے. اس میں کل ایک سو پچیس غزلیں ہیں…بے شک اس مجموعہ میں انہوں نے کئی بحور کا استعمال بڑی مہارت سے کیا ہے..مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس مجموعہ میں پینتیس غزلیں بحر مضارع کے معروف وزن پر کہی ہیں جبکہ بحر مجتث کے ایک ہی وزن پر بائیس، بحر رمل اور ہزج کے مختلف آہنگوں میں علی الترتیب ستائیس اور بیس غزلیں کہی ہیں.بحرخفیف میں آٹھ غزلیں
انکے علاوہ بحر متقارب اور متدارک کے مختلف آہنگوں میں تین تین غزلیں بھی مجموعہ میں شامل ہیں.
مضارع مثمن اخرب مکفوف محزوف/مقصور
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن/فاعلان
بحر مضارع کا یہ وزن اردو شاعری میں خوب استعمال کیا جاتا ہے اس وزن کی روانی مسلم ہے. حوالہ کے لئے رفیق راز کی ہر زیرِ بحث غزل کے مطلع کا مصرع اولی نیچے لکھ دیا ہے.یہ کتاب "نخلِ آب " ریختہ ڈاٹ کام پر موجود ہے.پوری غزلیں وہاں پڑی جاسکتی ہیں بحر مضارع میں کہی گئی غزلیں :
صیدِ ہوا رمیدہ ہے دشت غبار میں
سبزہ تو دیکھ موسمِ گل میں بھی زرد ہے
شعلہ سا نخلِ آب پہ لرزاں کبھی کبھی
آیا ہوں لوٹ کے میں ابھی دشت خواب سے
کوئی طلسم ہے یہ سفر بھی مقیم کا
باقی ابھی نشہ ہے ان آنکھوں میں خواب کا
عنواں جنوں ہے اس میں فقط ایک باب کا
کھڑکی تِرے مکان کی وا کیوں نہیں ہوئی
بوئے سکوت خانۂ افسردگاں سے آئے
فانی کہاں ہے ہستئ فانی لا شور بھی
کل رات جلوہ گہہ میں قیامت کی دھند تھی
لب تک جو آ سکی نہ وہ گم صم صدا چراغ
ڈوبا ہوا غنیم تھا لوہے میں جل گیا
تنہائیوں نے صاحبِ عرفاں کیا تو پھر
یارب سیاہ پوش نہ ہو شعلۂ سکوت
اٹھتا نہیں ہے گرکے کبھی پردۂ سکوت
پیدا کیا ہے اڑتی ہوئی خاک سے مجھے
تنہا ہوا تو ہوں میں نئی رہ نکال کے
معنی کے تن سے وہ چھین کے جامہ لے گیا
وصلت میں سیرِ ارض و سما کر نہ پاؤگے
باغ سخن ابھی نہیں ویران ایک بھی
دل میں دہک رہے تھے جو انگارے کیا ہوئے
جلتا ہوا جو چھوڑ گیا طاق پر مجھے
زخمی پرندے آکےمرے بام پر گرے
دے گی ہمارا ساتھ نہ جانے کہاں تلک
اتریں گے زینہ زینہ کرشمہ دکھاکے ہم
جو گرد کی پناہ میں ہے اس پر وار کر
دیکھو تو کیا کمال ہوا انہدام سے
جلتا ہوں تیرے در پہ بڑے اہتمام سے
اللہ رے وہ جمال جلال سحاب کا
گرمی کوئی حروف کے بازار میں نہیں
آوارگانِ دشت ہیں دیوار و در زدہ
خوناب ہی سہی پہ فروزاں سا کچھ تو ہے
مژگاں نہ کھول آنکھ کو حیرت سرا نہ کر
یارب ہمارے شہر میں رقص ہوا نہ ہو
یہاں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ رفیق راز کو زبان و بیان پر مکمل کمانڈ ہے.
بحر مضارع انکی پسندیدہ ترین بحر ہے اس کے بعد انہوں نے زیادہ تر غزلیں جو کہ اس مجموعہ میں شامل بحر مجتث میں کہی گئی غزلوں کی تعداد اکیس ہے
بحر مجتث مخبون محزوف/مقصور/محزوف مسکّن/مقصور مسکّن
مفاعلن فعلات مفاعلن فعِلن /فعِلان /فعْلن/فعْلان
کمال کی بات یہ ہے اس مجموعہ میں شامل تمام زمینیں رفیق راز کی طبع زاد ہیں وہ کسی کی زمیں میں شعر کہنا پسند نہیں کرتے میرے خیال میں نہ انکا اسلوب ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے . غزل گوئی کی صنف میں وہ یکتائے روز گار ہیں.
اس بحر میں کہی گئی غزلیں :
اگر چٹان کی یہ چپ کلام ہے سائیں
بجھا چراغ ہواؤں کا سامنا کرکے
غضب کی کاٹ تھی اب کے ہوا کے طعنوں میں
ادھر وجود کی آواز سے وہ دشت پر افشاں
کبھی ہے برق کبھی تو رعد سنّاٹا
پرندے پھر سے بہت چہچہانے لگ گئے ہیں
چٹان پر ہی ازل سے لکھا رکھا تھا میں
بجھا تو جسم سے اپنے اٹھا دھواں سامیں
دلوں میں ہو کاوہ عالم ہے غار ہوگئے ہیں
ہوا کےدوش پہ ہم بھی سوار ہو گئے ہیں
یہ پل سکوت کےآواز میں ہے ڈھلنے کا
یہ دشت ہے کہ کوئی نقش پائے سبزہ و گل
سیہ سحاب ابھی رن میں کامیاب نہیں تھا
تمہارے کانپتے ہاتھوں میں اک گلاس لکھوں
گلے پہ خاک تمہارے سُر اور تال پہ خاک
بجھائے بجھتی نہ تھی آگ تھی وہ سینوں میں
سدا بہار ہے کتنا یہ شاخسانۂ درد
کہاں سے لاؤں گا لاغر بدن میں اتنا خوں
عجیب خامشی ہے غل مچاتی رہتی ہے
میں آگیا ہوں کہاں سے بتا نہیں سکتا
کیا ہے عشق یہ مجرم ہے اور عادی ہے
زمیں پہ کرتے ہیں سجدہ طویل ہی ہم لوگ
بحر رمل کے تین مختلف آہنگ:
رمل مثمن سالم ،رمن مثمن محزوف مقصور،رمل مخبون محزوف مسکن /مقصور/مقصور مسکّن نیچے تیسرے نمبر پر دیا گہا وزن )
رمل مثمن سالم میں بہت کم شعرا نے طبع آزمائی کی ہے رفیق راز کی نخل آب میں اس وزن پر تین مثالیں ملتی ہیں
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
وہ قیامت کا ہے فتنہ اور نہ ہی آفت وغیرہ
آخرِ شب یہ زباں کھولے بنا کِس نےصداکی
سانپ سا سنسان رستہ لیٹا ہوا سامنے تھا
بحر رمل محزوف مقصور مشہور وزن ہے اس میں چار مثالیں ملاحظہ کریں
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
یہ مِرا آنگن ہے یاصحرا ہے میرے سامنے
منظروں کے رنگ سے رنگِ نظر ہے مختلف
میں نے خوشبو خامشی کی اتنی پھیلائی کہ بس
میں ابھی اک بوند ہوں پہلے کرو دریا مجھے
ناؤ میرے تن کو میرے ہاتھ کو پتوار کر
بحر رمل کا تیسرا جس میں مرزا غالب نے چند مشہور غزلیں کہی ہیں رفیق راز نے اس وزن پر سولہ غزلیں کہی ہیں ایک سے ایک غزل بڑھ کر ہے. اشعارمیں ندرت بیاں اپنی مثال آپ ہے.. رمل کا تیسرا وزن یہ ہے
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فاعلن/فعلان/فعْلان
مثالیں
یہ جو ہر سمت ترے نیزے کی شہرت ہے بہت
ہم تو اندر سے کوئی غار تھے اب گھر ہوئے ہیں
جوئے کم آب سے اک تیز سا جھرنا ہوا میں
اپنے ہونے کا ذرا میں بھی تو قائل ہوجاؤں
چند حرفوں نے بہت شور مچا رکھّا ہے
ابر ہوں اور برسنے کو بھی تیّار ہوں میں
دل میں اس آگ کو بیدار کِیا جائے گا
ایک ہی شعلہ تھا اقلیمِ ہوا میں روشن
ہے رواں بہتی ہواؤں پہ کس آسانی سے
آنکھ میں دید کی حسرت ہے کہ حیرت ہے یہ
بوند بھر روشنی آلودۂ ظلمت ہے ابھی
اب یہ تنہائی میاں کام میں لاتی ہے مجھے
آگ لگتی ہے درختوں کو جہاں پانی سے
پوپھٹےخاک پہ سجدوں کے نشاں دیکھئے گا
جسم کے دشت سے معمورۂ جاں دور نہیں
جسم کے دشت میں ویرانئ جاں بولتی ہے
سرتوکیا اپنی نظر تک بھی اٹھا سکتے نہیں
رمل کا چوتھا وزن مسدس مخبون محزوف مسکّن/مقصور مسکّن
فاعلاتن/ فاعلاتن، فعِلاتن فعِلن/فعْلن فعِلان/فعْلان
اس وزن پر کہی گئی ایک مثال
جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے
رمل مسد سالم
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
چھا گیا موسم گھنی خاموشیوں کا
بحر ہزج کے چار اوزان پر اٹھارہ غزلیں کہی ہیں.۔
ہزج سالم کی مثال
وزن:
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
لرزتی ہیں یہاں دستک سے دیواریں مکانوں کی
ہزج مسدس سالم کی مثالیں
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
چمکتی دھوپ صحرا کی ہو یا پانی
زمیں کا بوجھ دوشِ ناتواں پر ہے
ہزج مسدس مقصور
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
خلا میں گونجتی عریاں صدا ہوں
بپا کردیں قیامت ہی چٹانیں
یہ کچھ ذرے جو رقصاں لگ رہے ہیں
بحر ہزج اخرب مکفوف/ محزوف/مقصور
مفعولُ مفاعیل مفاعیل مفاعیلُ/ فعولن
آجاؤں گا میں پھر سے مگر روپ بدل کر
لایا تھا مجھے منظرِمہتاب تہہ آب
جاتی ہے جو دستار تو مر کیوں نہیں جاتا
پھیلے ہوئے سے عرصۂ امکان میں کچھ ہے
یہ دشتِ مسافت کہ ہے رفتار سے روشن
بحر ہزج کا ایک اور آہنگ
مفعول مفاعلن فعولن
وہ خود بھی نہاں درونِ لا تھا
بحر خفیف
فاعلاتن مفاعلن فعْلن /فعْلان
خاک سجدوں سے کھل ہی جاتی ہے
ہاں میں دریا ہوں رائیگانی کا
ایک ہلچل تھی اک تماشا تھا
ڈھنگ کا کوئی کام کر بھی کبھی
یہ زمیں اور یہ لاشۂِ بے کفن
آبِ زر ہے یہ کس قیامت کا
تو ہی عالم کی جان ہے تاحال
گونج میری ہے ان خلاؤں میں
رفیق راز نے ان معروف اوزان کے علاوہ چھ سات اوزان اور بھی بھی استعمال کئے ہیں. ان میں ایک ایک دو دو غزلیں ہیں کچھ مثالیں یوں ہیں .مرکب بحر مضارع ہی کے ایک آہنگ میں ایک مثال…
مفعولُ فاعلاتن مفعول فاعلاتن
اک داغ مہر سا ہے روشن جبینِ دل پر
چٹان پر ہورقم تو پھر بھی وہ باحفاظت نہیں رہے گی
فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعَل (سولہ رکنی متقارب کا آہنگ)
تری اس زمیں پر سبک بار مجھ سا بھی کوئی قلندر نہ تھا
متقارب مقبوض مخنق/محزوف کی ایک مثال
فعولن فعولن فعولن فعَل
ہوا میں جو یہ ایک نمناکی ہے
بحر متقارب مضاحف
فعولُ فعْلن ،فعولُ فعْلن، فعولُ فعْلن، فعولُ فعْلن
چٹان پر ہو رقم تو پھر بھی وہ باحفاظت نہیں رہے گی
متدارک مثمن سالم
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
شعر
زیرِ پا راستہ ہی گریزان تھا
گامزن میں نہیں یہ بیابان تھا
متدارک سالم مضاحف
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن،فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
زہر آلود سورج کی پہلی کرن
شب پرستوں پہ یلغار کرتی ہوئی
متدارک سالم مضاحف
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
شب کٹی رنگ مٹی کے ان آسمانوں میں بھرتے ہوئے
نوٹ یہ مضمون فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے فقط دو تین گھنٹے میں مرتب کرکے پیش کردیا گیا ہے. اگر
کوئی ٹائپو گرافیکل غلطی ہو یا بحور کے تعین میں چوک ہوئی ہو تو تو ضرور مطلع فرمائیں…
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“