قسط اول
غزلیاتِ غالب کے بحور کا مطالعہ
از غنی غیور
غالب دنیا کے ایسے عظیم شعرا کی فہرست میں آتا ہے جو کسی زبان کے علاقہ میں کئی سو سالوں کے بعد پیدا ہوکر اسے نئی بلندیوں سے ہمکنار کرتے ہیں . غالب کی زبان و بیان کی بکارت اور انچھوا پن کبھی نہیں ختم ہونے والا اسکی وجہہ اسکے خصائص ہیں اور صنائع و بدائع علامتوں استعاروں کی رنگا رنگی، تنوع اور آفاقیت جسکی مثال پوری اردو شاعری میں نہیں ملتی.غالب نے میر کے سخن کو معیار مانا اور اسے پھلانگ کر جو نیا بلند و بالامعیار قائم کیا وہ ابھی تک ناقابل رسائی ہے..ممکن ہے آیندہ کوئی بلند پرواز شاعر اس مقام سے گزر کر نئی معنوی دنیائیں تلاش کرنے میں کامیاب ہو..
تو مگو ما را بدان شه بار نیست
با کریمان کارها دشوار نیست
غالب کا ایک شعر ہے.
آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
بقول گیان چند"جو شخص عروض میں بالکل گنا اور رچا نہ ہو وہ اس غزل کاوزن نہیں بھانپ سکتا میں نے کئی مدعیان عروض دانی سے اسکا وزن پوچھ کر انہیں مات دی ہے.اس غزل کا وزن بحر منسرح میں ہے.
مفتعلن فاعلات مفتعلن فع(/فاع)
یہ اردو کے مشہور وزن مفتعلن فاعلات فاعلات کا قصر ہے.
اسی سے ملتا جلتا وزن بحر بسیط مطوی کاوزن مفتعلن فاعلن مفتعلن فاعلن ہے.
بسیط میں تحدید یہ ہے کہ فاعلن کی جگہ فاعلات نہیں آسکتا جب کہ منسرح میں جائز ہے"
غالب نے کچھ مخصوص اوزان استعمال کئے جنہیں عروض کی معمولی واقفیت رکھنے والا شخص پوری طرح سمجھ نہیں سکتا بعض لوگ ایک آدھ شعر کی تقطیع پر کفایت کرتے ہیں جو غلطی کا موجب بنتی ہے میرے ساتھ ایسا کئی بار ہوا بعض غزلیں اسی قسم کی چوک کی نزر ہوگئیں
یاد رہے کسی نظم یا نظم کاوزن اسکے دوچار مصرعوں کو دیکھ کرتعین نہیں کیا جاسکتا بلکہ تمام مصرعوں کو دھیان میں یا ملحوظ کرکے ہی ایسا وزن دریافت کرنا ہوتا ہے.
غالب نے کل نو بحور یا انکے مضاحف آہنگوں کا استعمال کیا ہے:ان بحور کے بنیادی اوزان یہ ہیں
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
مفاعیلین مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن
فاعلاتن مفاعیلن فاعلاتن مفاعیلن
مستفعلن فاعلاتن مستفعلن فاعلات
مفعولات مستفعلن مفعولات مستفعلن
مستفعلن مفعولات مستفعلن مفعولات
فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن
فاعلاتن مستفعلن ماعلاتن مستفعلن
بحر کا مقصد موسیقیت و غنایت پیدا کرنا ہے غالب کی شاعری میں اعلی تخیل آرائی کے علاوہ جدت طرازی بدیع الاسلوبی اور موسیقت اور ترنم بھی انتہا ئی درجہ کا ہے.
غالب نے سب سے زیادہ غزلیں بحر رمل میں کہی ہے بحر رمل کو اردو شاعری کی ماں کہا جاتا ہے اور اسکے بعد مضارع اور ہزج اور دیگر بحور میں اشعار کہے.
آسانی کے لئے ترتیب وار اوزان لکھ رہاں ہوں .
وزن اول
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن/فاعلان
نقش فریادی ہے کس کی شوخئ تحریر کا.نیز اس وزن میں
ہم سے کھل جاؤ بہ وقت مے پرستی ایک دن
دل مرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا
سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں
سادگی پر اسکی مرجانے کی حسرت دل میں ہے
وغیرہ مشہور غزلیں ہیں :
وزن دوم
فَعِلاتُ،فاعلاتن،فعلات،فاعلاتن
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
وزن سوم
فاعلاتن ،فَعِلاتن فَعلاتن فعْلن/فعْلان
شوق ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا
جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
نقشِ نازِ بتِ طناز بہ آغوشِ رقیب
وزن چہارم
فاعلاتن ،فَعِلاتن فَعلاتن فَعِلُن/فعْلن/فعِلان فعْلان
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
وسعتِ سعیِ کرم دیکھ کہ سر تاسرِ خاک
مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالب
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا
گرمِ فریاد رکھا شکلِ نہانی نے مجھے
در خورِ* قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
(خور بروزن خُرِ)
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میعے بعد
باغ پاکر یہ خَفَقانی ڈراتا ہےمجھے
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہوجانا
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
مانعِ دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
وزن پنجم
فاعِلاتن ،فاعلاتن فاعلن /فاعلان
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
جور سے باز آئیں پر باز آئیں کیا
چاہئے اچھوں کو جتنا چاہئیے
وزن ششم
فاعلاتن فَعِلاتن فعِلان/فعِلن /فعْلن/فعْلان
کیوں کر اس بت سے رکھوں جان عزیز
پھر مجھے دیدۂِ تر یاد آیا
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
عشق تاثیر سے نومید نہیں.
جاری
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“