غزل
حضرت فریدالدین عطار
ترجمہ
احمدمنیب
رہِ عشاق راھی بی کنار است
ازین رہ دور اگر جانت بہ کار است
عاشقوں کی راہ کا کوئی کنارہ نہیں اور اگر تیری جان اس سے دور ہے تو کسی کام کی نہیں ہے
وگر سیری ز جان درباز جان را
کہ یک جان را عوض آنجا ھزار است
اگر تو اس جذبہ میں سرشار ہے تو اپنی جان اس راہ میں نثار کر دے کہ اس رستے میں ایک جان قربان کرنے سے ہزار جانیں عطا ہوتی ہیں۔
تو ہر وقتی کہ بھیجانی برفشانی
ھزاران جان نو بر تو نثار است
جتنی جلدی تو اپنی جان اس راہ میں قربان کرے گا اُسی نسبت سے ہزاروں جانیں ایسی پائے گا جو تجھ پر قربان ہونے کو کمربستہ ہوں گی۔
وگر در یک قدم صد جان دھندت
نثارش کن کہ جان ھا بی شمار است
جس رستے پر چلتے ہوئے ایک قدم پر سو جانیں قربان کی جائیں تو یاد رکھ ایسے رستے میں جانوں کی کبھی کوئی کمی نہیں ہوتی
چہ خواھی کرد خود را نیم جانی
چو دائم زندگی تو پیار است
خود کو ہلکان مت کر کیونکہ یہ رستہ دائمی حیات کا ضامن ہے۔
کسی کز جان بود زندہ درین راہ
ز جرم خود ھمیشہ شرم سار است
جو اس راہ میں جان قربان کرنے کی توفیق نہیں پاتا وہ ہمیشہ شرمندہ رہتا ہے کہ مجھے جان قربان کرنے کی توفیق کیوں نہ ملی؟
درآمد دوش در دل عشق جاناں
خطا ہم کرد کامشب روز بار است
کل رات میرے دل میں محبوب کے عشق نے جوش مارا تو میں نے عرض کی کہ آج کی رات مجھ پر بہت گراں بار ہے۔
کنون بی خود بیا تا بار یابی
کہ شاخِ وصل بی باران بہ بار است
میں نے یہ بھی عرض کی کہ اے مرے محبوب! اب تو خود اس رستے پر چل کر دیکھ تا تجھے معلوم ہو کہ عشق بے فائدہ کام نہیں ہے۔
جوشد فانی دلت در راہِ معشوق
قرار عشق جانان بی قرار است
جب تجھے عشق میں فنا ہونے کا درجہ حاصل ہو جائے گا تب کہیں تیرا عشق جان پائے گا کہ بے قراری ہی اصلِ قرار ہے۔
تو را اول قدم در وادی عشق
بہ زارش کشتن است آنگاہ دار است
عشق کی وادی میں تیرا پہلا قدم ہے پس تو جان لے کہ عشق جان لیوا ہی ہوتا ہے۔
وزان پس سوختن تاھم بوینی
کہ نور عاشقان در مغز نار است
انانیت اور خواہشات کو عشق کی نار میں جلانے سے ہی عاشق نور حاصل کر پاتاہے
چو خاکستر شوی و ذرہ گردی
بہ رقص آیی کہ خورشید آشکار است
کندن بن جانے کے لیے خاکستر ہو کر جب تک عاشق مکمل طور پر فنا نہیں ہو جاتا تب تک آفتاب کی طرح روشن نہیں ہو سکتا۔
تورا از کشتن و وزسوختن ہم
چہ غم چون آفتابت غم گسار است
تجھے اس راہ میں مارے جانے یا فنا ہونے کا کیا غم جبکہ اس راہ میں مر کر ہی تو نشانِ منزل بن سکے گا۔
کسی سازد رسن ازنور خورشید
کہ اندر ھستی خود ذرہ وار است
جس نے سورج کی کرن کو ہی اپنے لیے پھانسی کا پھندا بنا لیا تو یاد رکھ کہ اس کی اپنی ذات ہی اس کے لیے تختہء دار ہے
کسی کو در وجود خویش ماندست
مدہ پندش کہ بندش استوار است
ایسے کسی شخص کو نصیحت کرنے کا چنداں فائدہ نہیں جو بیضہء بشریت یعنی اپنی ہی ذات کے خول میں مقید ہو
درین مجلس کسی باید کہ چون شمع
بریدہ سر نھادہ بر کنار است
اس محفل میں جو شخص اپنا سر جھکائے شمع کی مانند روشن اور فروزاں تر ہے وہ تو گویا ایک کنارے کا مکین ہے۔
شبان روزی درین اندیشہ عطار
چو گل پُرخون و چوں نرگس نزار است
میں یعنی عطار تو اسی غم میں غلطان ہوں کہ گلاب خون میں کیوں تر بہ تر ہے اور نرگس کی قسمت میں ہمیشہ کے رونا ہی کیوں لکھ دیا ہے