پروفیسر پیٹرک ہولفورڈ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے غذائی تھراپسٹ ہیں۔ چالیس کتابوں کے مصنف اور ان کی ہر کتاب انتہائی مقبول ہوئی ہے۔ بیس زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ ٹی وی اور اخباروں میں آتے رہتے ہیں۔ ان کی باتوں کا بڑا اثر لیا جاتا ہے۔ ان سے لی گئی معلومات شئیر ہوتی ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ تمام کی تمام غلط ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک کتاب “بہترین غذا کی نئی بائبل” پڑھنے کا اتفاق ہوا جو پانچ لاکھ کی تعداد میں فروخت ہو چکی تھی۔ اسے اٹھا کر سب سے پہلے کینسر اور ایڈز کو سرچ کیا۔ اور حسبِ توقع، ان پر بھی مواد مل گیا۔
صفحہ 208 پر لکھا تھا، “ایچ آئی وی کے لئے دی جانے والی دوا اے زی ٹی نقصان دہ ہے۔ اس سے بہتر علاج وٹامن سی سے ہو جاتا ہے”۔
اس پر ہونے والی تحقیق کا ریفرنس بھی دیا تھا۔ (جی، وہی ریفرنس جس کو کوئی بھی نہیں دیکھتا)۔ اس ریفرنس کو دیکھا۔ آن لائن مل گیا۔ ڈاکٹر راکشٹ جڑی والا کا لکھا گیا پیپر تھا۔ سب سے پہلے اس پر اے زی ٹی پر سرچ کیا۔ اس کا اس میں ذکر ہی نہیں تھا۔ یعنی یہ پیپر اس موازنے پر نہیں تھا۔ اس سے آگے دیکھا تو یہ کسی انسان پر کی گئی سٹڈی ہی نہیں تھی۔ اس میں ایک ڈش میں کچھ خلیے لئے گئے تھے، ان پر وٹامن سی ڈالا گیا تھا اور کچھ پیمائشیں کی گئی تھیں۔ زیادہ وٹامن سی کی موجودگی میں سنکٹیا فارمیشن ہو جاتی تھی۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔ اچھی سٹڈی تھی۔ اچھی سائنسی تحقیق اور اچھا پیپر جس میں طریقہ اور نتائج واضح طور پر لکھے گئے تھے۔ لیکن اس کو بنیاد بنا کر مصنف نے جو دعویٰ کیا تھا، اس کا کوئی تعلق اس سے نہیں تھا۔
انٹرنیٹ پر سرچ کیا تو متبادل طریقے سے علاج کرنے والے ان پروفیسر کی کمپنی اس کی کمی کو پورا کرنے کے لئے امیون سی کی ڈبی 30 پاوٗںڈ میں بیچتی ہے۔ ڈبی پر ان کا مسکراتا چہرہ بھی بنا ہے۔ (بالکل ویسا ہی جو اس مضمون کے ساتھ لگی تصویر میں ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“وٹامن ای کے ذریعے ہارٹ اٹیک کے امکان میں 75 فیصد کمی”، “جو وٹامن سی لیتے ہیں، وہ کینسر کے ساتھ بھی چار گنا زیادہ زندگی گزار لیتے ہیں” “وٹامن اے کی مدد سے آٹزم کے اثرات میں کمی” اور ایک لمبی سیریز جس میں اسی طرح کے غیرمعمولی دعوے یا تو بلاریفرنس کے یا اسی طرح اپنے دعوے سے ملتی جلتی کسی سٹڈی کی بنیاد پر کئے گئے تھے۔ 558 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ٹیکنیکل الفاظ کی ہیرا پھیری سے غذاوٗں اور سپلیمنٹ لینے کے مشوروں سے بھری پڑی تھیں۔ میڈیکل سائنس اور فارماسیوٹیکل اداروں سے خبردار کیا گیا تھا اور ہاں، اتفاق یہ ہے کہ ان کی اپنی کمپنیاں “بائیوکئیر” اور “ہائی نیچر” یہ تمام وٹامن اور سپلیمنٹ بنا کر بیچتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب ایک اور طرح کا غیرمعمولی دعویٰ کرتی ہے۔ صفحہ 104 پر لکھا ہے کہ “جدید طریقوں سے اُگنے والے مالٹے اب وٹامن سی سے خالی ہیں”۔ وہ لوگ جو غذائی سپلیمنٹ بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں یا جو خودساختہ غذائی ماہرین ہیں، ان کی طرف سے پھیلائی گئی ایک پاپولر غلط فہمی یہ ہے کہ جدید دور میں غذائیت کم ہو رہی ہے۔ حقیقت اس سے اتفاق نہیں کرتی لیکن یہ پراپیگنڈہ ان فوڈ سپلیمنٹس کی فروخت میں بہت معاون ہے۔ کیونکہ اگر غذا سے ٹھیک غذائیت نہیں ملے گی تو پھر ہمیں ان کی گولیوں کا سہارا لینا پڑے گا۔ فوڈ سپلیمنٹ کی اس انڈسٹری کا سائز اب پچاس ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہو چکا ہے۔ اور دوسری طرف جہاں پر میڈیکل سائنس کو جانچ پڑتال سے گزرنا پڑتا ہے، یہ کہنا کہ “مالٹوں میں وتامن سی ختم ہو گیا ہے” کے لئے کسی پڑتال کی ضرورت نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ تو ہر قسم کے جھانسے میں آ جاتے ہیں، اس کو سائنسی الفاظ میں بیان کر کے اپنا مال بیچنے والوں کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے، جس کے پیچھے کوئی سائنس نہیں۔ ان کی کتابوں سے لئے گئے “نسخے” سوشل میڈیا پر بھی مقبول ہیں۔ صحتمند رہنے کے لئے کوئی جادوئی نسخہ یا دوائی نہیں۔ متوازن غذا، ورزش اور اچھے لائف سٹائل کا متبادل کوئی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میڈیکل سائنس آسان نہیں کیونکہ انسانی جسم آسان نہیں۔ اکثر عارضوں کے علاج آسان نہیں۔ ادویات ساز کمپینیوں، صحت کے اداروں، ڈاکٹرز اور میڈیکل سٹاف کی نالائقئ، لالچ، لاپرواہی، سسٹم کی کمزوری، نااہلی وغیرہ کی کہانیاں بے شمار ہیں۔ ان کے طریقوں پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ان پر چیک رکھنے کے لئے، طریقوں کی پڑتال کرنے کے لئے سسٹم پایا جاتا ہے۔ اور اس کا متبادل؟ مقبول کتابوں والے، متبادل ادویہ بنانے والے، بے بنیاد دعووں کا بزنس کرنے والے پروفیسر پیٹرک ہولفورڈ کی طرح کے بہت سے شعبدہ باز ہیں۔