تارڑ صاحب کی راکھ کی طرح ۔۔ چارچیزیں ہیں ۔۔ جو مجھے لادیاں بلاتی ہیں ۔۔ ان میں ایک کھاریاں چھاؤنی سے پھولوں کی چادر چڑھانے کی فل ڈریس ریہرسل ہے ۔۔ اور کچھ کھُدےان کھُدے مورچوں سے پلٹتی کوٹلہ ارب علی خان کی اداس شام ہے ۔۔
اور منگلا کینٹ میں ایک ہم نفس کی معیت میں یادوں سے دُھل کے نکلتی رات ہے ۔۔ اور برکی کی قربت میں بی آر بی نہر ہے ۔۔
نشانِ حیدرکاتغمہ اپنی چوڑی چھاتیوں پر سجائے، ہمارے جانبازوں کی تربتوں تک، جن تک کہ ہم پہنچ پائے، خود کھوجتے ہوئے پہنچے، ماسوائے ایک شہید کے۔
میجر راجہ عزیز بھٹی شہید وہ ہیں جنہوں نے خود ہمیں بلاوہ بھیجا، ایک دفعہ کی بات نہیں، پورے چار مرتبہ۔ گجرات کے شمال اور کھاریاں کے مشرق میں ایک چھوٹا سا گاؤں لادیاں، جسکا نام شاید کھاریاں ہوتا اگر اکبرِ اعظم کے دور میں جب یہ پہلے پہل آباد ہوا قرعۂ فال کھاری گوت کے نام کا نکل آتا، مگر قسمت لادی گوت کےلوگوں پر مہربان تھی سو نام لادیاں ٹھہرا۔
گجرات سےجو روڈ بھمبرکوجاتی ہےکوٹلہ ارب علی خان سےکچھ پہلےصبور کےمقام پر مغرب کی سمت ایک ذیلی سڑک کوجنم دیتی ہے۔ یہیں تھوڑا آگےچل کرلادیاں نام کا گاؤں آتا ہےجہاں ماسٹرعبداللہ بھٹی کے فرزند میجرعزیزبھٹی شہید کا مزار ہے۔
ستمبر 1965 کی جنگ میں یہ سپوت وطن پرقربان ہوااور بہادری کا سب سےبڑااعزاز نشانِ حیدر اپنے نام کیا۔
تو صاحبو مستنصرحسین تارڑ کی راکھ کی طرح ۔۔ چارچیزیں ہیں ۔۔ جومجھے لادیاں میجرراجہ عزیزبھٹی کے مزار پر بلاتی ہیں۔
پہلا منظر کھاریاں کا ہے۔
آرٹلری سکول کےجونیئرسٹاف کورس سےفارغ التحصیل توپخانےکا کپتان ایک انفنڑی بریگیڈہیڈکوارٹرکی غلام گردشوں میں اترایا اترایا پھرتاتھا کہ وہ یہاں گریڈتھری سٹاف کرنےآیا تھا۔ یہ اوربات کہ اگلے دودن میں اپنی ہی آرم توپخانےسےتعلق رکھنےوالےبریگیڈکمانڈرسے بےعزتی خراب کرواکےاوقات ٹھکانےآگئی۔
اگلےچندماہ انفنٹری بریگیڈمیں سٹاف پرآئے توپخانےکےافسرنےاپنے شب وروزکمانڈرکاسٹینو بن پچاس بائے پچاس فٹ کےآپریشن روم میں گزارنےتھے۔ زندگی پاورپوائنٹ کی سلائیڈ بن جانی تھی اوراسی کو ’سیدھا پدھرا‘ کرتےگزرنی تھی۔ مگرقسمت نےیاوری کی اورایک غیرملکی کورس کےقرعۂ فال میں ہمارانام نکل آیا۔
توصاحبوچند مہینوں، عوامی جمہوریہ چین میں ایک ’فارن کورس‘ اور پہلے بریگیڈکمانڈرسے دو کمانڈروں کی دوری پر کھاریاں کا ہی ذکر ہےکہ زندگی کچھ روانی میں آچلی تھی۔ یہ اوربات کہ ایک برج ہیڈ فارمیشن میں انفنٹری بریگیڈ کے گریڈتھری سٹاف افسرکو اسالٹ اکراس واٹرآبسٹیکل (آبی رکاوٹ کےپارحملے)
کےفیز ٹو میں اپنےبریگیڈ کی سامنےکی پلٹنوں کی ایف یو پی (حملے کی ترتیب گاہ) مارک کرنی ابھی بھی نہیں آتی تھی، مگرآپریشن روم کےسٹینوگرافر سےبہرحال ہم ترقی پاکر اپنے موجودہ بریگیڈ کمانڈرجن کاتعلق رسالےسےتھا کےاردلی بن چکےتھے۔
بریگیڈیئررضانواب کی اردل میں ایسی ہی ایک دوپہرکاذکر ہے۔
گیارہ بھائیوں کی اکلوتی بہن بھادوں کا نک چڑھا موسم تھا اور کیموفلاج اپر سےبے نیاز زیتونی رنگ کی ٹی شرٹس پہنے سمر ڈریس میں ہم ایک پلٹن کے سی او آفس میں بیٹھے نگاہ پاور پوائنٹ سلائیڈ پر جمائے ٹھنڈے سے شغل کررہےتھے۔
پلٹن کو دیے گئے ٹریننگ سٹور جو کہ خاردار تاروں پر مشتمل تھا کے وزن کم ہونے پر کمانڈنگ افسرکااصرار تھاکہ زنگ لگ جانےکےباعث ایساہوا ہے۔ کمانڈر زیرِ لب مسکراکر یہ سمجھانےکی کوشش کررہے تھے کہ زنگ لگنے سے لوہے کا وزن بڑھ جایا کرتاہے، بندۂ خدا بہانہ ہی بنانا ہے تو کوئی ڈھنگ کا بناؤ۔
اتنے میں ڈویژن ہیڈکوارٹر سے پیغام موصول ہوا کہ فارمیشن کمانڈرکی غیر حاضری میں سب سےسینیئر بریگیڈکمانڈربریگیڈیئر رضانواب اس یومِ دفاع پرمیجرعزیزبھٹی شہید، نشانِ حیدر کےمزار پر پھولوں کی چادر چڑھائیں گے۔ چونکہ دن تھوڑےرہ گئےہیں اس لیےمناسب ہےکہ جلدازجلد تقریب کی ریہرسل کرلی جائے۔
تقریب کی جگہ دیکھنے اس شام جب کھاریاں کینٹ سے گلیانہ کے راستے لادیاں کےلیے نکلا تو یہ پہلی دفعہ تھا کہ میں میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کو سلیوٹ کرنے ان کی آخری آرام گاہ پر حاضر ہورہا تھا۔
دوسرا منظر کوٹلہ ارب علی خان کا ہے۔ میں ان دنوں پاکستان ملٹری اکیڈیمی میں پلاٹون کمانڈر تھا اور ہم کیڈٹس کے ساتھ ایک فوجی مشق پر گجرات اور کھاریاں کے درمیانی علاقے میں خیمہ زن تھے۔ وہیں ایک غروب ہوتی دلوں کو اداس کرتی شام جب ہم کیڈٹوں کے مورچوں سے کوٹلہ کے فیلڈ میس کو لوٹتے تھے تو مجھے لگا جیسے یہیں کہیں قربت سےکسی نے آواز دی ہو۔ راستے کچھ جانے پہچانے سے لگے اور میں نے فوجی جیپ کے ڈرائیور سے کہا تھا یار ذرا میجرعزیز بھٹی کے پاس سے ہوکر آتےہیں اور اس نے چھاتی مزید چوڑی کرتے ہوئےصبور سے گاڑی لادیاں کو جاتی سڑک پر موڑ لی تھی۔ یہ میجر صاحب سے میری دوسری ملاقات تھی۔
تیسرا منظر منگلا کینٹ کی ایک یادوں بھری صبح کی سپیدی میں ڈھلتی رات کا ہے۔
میں فوج سے ریٹائرمنٹ لے چکاتھا اور اسلام آباد سے جہاں ایک پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی میں ملازم تھا، ایک مائل بہ ریٹائرمنٹ میجر قیصر کو ملنے منگلا چھاؤنی آیا تھا۔ میجرصاحب بیک وقت ہمارے سینیئر اور ہمدمِ دیرینہ ہیں اور فوج میں یہ ایک غیرمعمولی کامبینیشن ہے۔
نوشہرہ کے آرٹلری سکول میں اس شناسائی کی داغ بیل پڑی، جہاں سے ہم اکٹھے کھاریاں پوسٹ ہوئے۔ ایک برج ہیڈفارمیشن کے آپریشن رومز میں کپتانی کا سٹاف کاٹتے، سٹڈی پیریڈزکے دھوکے میں اللہ بھلاکرے بل گیٹس کے پائرٹڈ مائیکروسافٹ پاورپوائنٹ کی سلائیڈیں ’سیدھی پدھری کرتے‘ آدھی رات کا تیل جلاتے اور ’ماؤنٹین ڈیو‘ سے شغل کرتے سب حجاباتِ من وتو اُٹھ گئے
آپ سے پھر تم ہوئے پھر تو کا عنواں ہو گئے
اور پھر کچھ یوں ہوا کہ فوج کی نوجوانی کے طلسماتی شہرت رکھتے عہدے، پی ایم اے پلاٹون کمانڈر کی تقرری کا پروانہ بھی یکے بعد دیگرے اکٹھا ہی ہمارے ہاتھ لگا۔ نوشہرہ، کھاریاں اور پھر ایبٹ آبادکی سنگت نےکچھ گُل توکھلاناتھا۔ تادمِ تحریردونوں افسر ریٹائرڈمیجر، حال مقیم کینیڈااورگُوڑھےدوست ہیں۔
توصاحبو تیسرامنظر جہلم گھاٹوں، پربت پاسے، میرپورےدی دکھن کھڑی ملک کےپہلو سےلگتی منگلاچھاؤنی کاہےجہاں مائل بہ ریٹائرمنٹ میجرقیصرکوملنےچکلالہ سے ایک ریٹائرڈ میجر آیا تھا۔
وہاں جب یادوں بھری ایک رات ڈھلنے کو آخری ہچکیاں لیتی تھی توہم نے ایک بے ثبات دنیا میں ایک ناپائیدار دوستانے کو یاد کیا اورہمیں میاں محمد بخش یاد آئے
سَدا نہ باغیں بُلبُل بولے ، سَدا نہ باغ بہاراں
سدا نہ ماپے حُسن جوانی ، سدا نہ صحبت یاراں
کچھ ہی دیر میں جبکہ دور کہیں صبح کا ستارہ بیدارہونے کو پر تولتاتھا ہم کھڑی شریف میں فجرکی نماز کے بعد میاں صاحب اور ان کے پہلو سے لگے انکی والدہ کے مزار کے سامنے کھڑے فاتحہ پڑھتے تھے
ماں منیں تے رب منایا، پہلا مرشد مائی
اور وہیں کہیں جبکہ ہم دونوں کے دلوں میں ایک ہی سوال کلبلاتا تھاکہ یہاں سے کہاں، تو مجھے لگا جیسے وہیں کہیں قربت سے اٹھتی کسی سانس کی آنچ نےکوئی نام لیاہو اور میں نےبے دھڑک کہا کہ سر لادیاں چلتے ہیں۔ وہ تیسری مرتبہ تھا جب میجر عزیز بھٹی شہید نے مجھے اپنے پاس بلایا تھا۔
سورج طلوع ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ ہم لادیاں میں ماسٹر عبداللہ بھٹی کی حویلی کے احاطے میں داخل ہوئے۔ روڈ پر ایک سائن بورڈ میجر عزیز بھٹی کی آخری آرام گاہ کی اطلاع دیتا تھا۔ شہادت کے بعد جب میجر عزیز بھٹی شہید کا جسدِ خاکی لادیاں میں ان کے آبائی گھر میں آیا
تو یہ ان کی والدہ کی خواہش تھی کہ انکے شہید بیٹے کو لادیاں کے قبرستان میں نہیں بلکہ حویلی کے پائیں باغ میں ہی دفن کیا جائے۔ یہیں شہید کی قبر پر اب ایک سادہ چھتری ایستادہ ہے جہاں ہر سال فوج کا چاق وچوبند دستہ سلامی کو حاضر ہوتاہے، جہاں اسی سالانہ سلامی کی ریہرسل کےانتظامات دیکھنے
میں پہلے پہل کھاریاں سے آیا تھا۔ اس روشن سویر جب سورج کی روپہلی کرنیں کتبےکو منورکرتی تھیں میجرقیصر اورمیں ہوشیارباش فاتحہ پڑھتےتھے۔
غازۂ رُوۓ شھا د ت زینتِ قوم و وطن
سرفروش و غازی و شدّاد کُش مرحب فگن
سرخرو ہـو کے جہـادِ فی سبیل اللّـہ سے
مردِ مومن لے رہا ہے خوابِ شیریں کے مزے
صاحبو تارڑ ہی کی زمین میں، ’جیسا کہ آغا حشر کے ڈراموں میں منظر بدلتاہے، تو منظر بدلتاہے‘۔ ہمارا چوتھا منظر لادیاں سے متعلق نہیں، بلکہ بی آربی نہر کا ہے۔ لاہور کی کسلمندانہ زندگی میں اسوقت ہلچل مچی جب واہیات کمپنی کا رحمان ارشد المعروف راشد منہاس ملنے آیا۔
ہمیں اس دن ایکسل لیب کی پیشہ ورانہ مصروفیت کےسبب ایوی سینا (بوعلی سینا) میڈیکل کالج جانا تھا۔ کالج ہڈیارہ نالےکےعین اوپر واقع ہے، راشد منہاس بھی ہمارےساتھ ہولیا۔ دفتری ملاقات سے فراغت پاکر جب ہم کالج سےباہرنکل رہےتھے تو ہم نےفوجی علمیت جھاڑتےہوئےکہاکہ لڑکےیہ سامنےہڈیارہ ڈرین ہے۔
یہاں سے اگر شمال مشرق کی سمت دیکھو تو وہ جگہ بہت دور نہیں جہاں 6 ستمبر کی صبح میجر شفقت بلوچ کی ایک پلاٹون جتنی نفری نے ایک ہندوستانی بریگیڈ کو روکے رکھاتھا۔ میجر شفقت 17 پنجاب سے تھے، اپنے میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کی یونٹ 17 پنجاب۔ راشد منہاس کی آنکھوں میں ایک چمک لہرائی۔
سر بی آر بی چلیں، میجر عزیز بھٹی کی جائے شہادت۔ لاہور کی اس جوبن پر آئی شام لادیاں کے میجر کو یہ ہماری چوتھی حاضری تھی مگر اس دفعہ ہم مقامِ شہادت کے مسافر تھے۔
وہی مقامِ شہادت جو برکی روڈ سے شمال کی سمت تھوڑا ہٹ کر بی آر بی نہر کی پٹڑی پر واقع ہے۔
یہیں ماسٹر عبداللہ بھٹی اپنے شہید بیٹے کو دفنادینے کےلگ بھگ دو ماہ بعد نومبر 1965 میں جب اس کی جائے شہادت دیکھنے کو آئے تو اینٹوں سے حد بندی کیے گئے مقدس مقام کو پدرانہ شفقت سے بے اختیار ہو کر ایک عقیدت کےعالم میں چوم لیا تھا۔
ماسٹر عبداللہ بھٹی کے فرزند عزیز بھٹی نے جن کی تعلیم میٹرک تھی، اور جو ہنگامی حالات میں ہانگ کانگ سےلادیاں ہجرت کےبعد انڈین ایئرفورس میں کارپورل کےعہدےپربھرتی ہوگئے تھے، ابھی لیاقت کےنئےریکارڈ قائم کرنےتھے۔ پاکستان بننےکےبعدعزیز بھٹی نےایئرفورس سےآرمی میں کمیشن کےلیے امتحان دیا
اور جنوری 1948 میں شروع ہوئے پہلے ریگولر لانگ کورس جو جوائن کرلیا۔ عزیز بھٹی نے کمیشن لیتے وقت نہ صرف یہ کہ شمشیرِ اعزاز اپنے نام کی بلکہ یونیورسٹی گریجوئٹوں کے مقابلے میں تعلیمی قابلیت میں اول آنے پر نارمن گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔
فرسٹ پی ایم لانگ کورس کی پاسنگ آؤٹ پر یہ دونوں اعزازات عطا کرنے اور وصول کرنے والوں کو علم نہیں تھا کہ قدرت نے ان دونوں کو شہادت کے بلند مرتبے کےلیے چُن لیا تھا۔ ایک شہیدِ ملت کہلائے گاتو دوسرا نشانِ حیدر کا حقدار شہیدِ وطن۔
ہمارے شہید افسر کی پہلی پہل تصویر جو ہمیں یاد ہے وہ آفتاب ظفر کی ڈرائنگ ہے جو نشانِ حیدر کا اعزاز حاصل کرنےوالے شہداء کی تصاویر کا حصہ تھی۔ یہ وہی تصویر ہے جس کی شبیہ میجر عزیزبھٹی پر جاری کیے گئے پاکستان ڈاک کے اعزازی ٹکٹ پر بھی ہے۔
ایک ملکوتی حسن اورنشیلی نیم بازآنکھوں والےافسر کا پورٹریٹ ہے اور پس منظر میں خاکی وردی پہنے ایک جسم بائیں کندھے پر ایک گہرا زخم کھائےاسی جانب گرنےکو ہے۔ ہم یہی پڑھتےآئےہیں کہ میجر راجہ عزیزبھٹی لاہور فرنٹ پر برکی کےگاؤں کےپاس بی آر بی نہر کے دفاعی بندپراپنی جان کی پرواہ کیےبغیر توپوں کے فائر کو درست کروارہے تھےجب ہندوستانی ٹینک کا فائر کیا گولہ سیدھا آپکی چھاتی پر آلگا اور آپ نے موقع پر ہی جامِ شہادت نوش کرلیا۔
میجر صاحب کا اصل کارنامہ بی آر بی کے دفاعی بند سے آگے برکی گاؤں کے سب سے اونچےمکان کی سب سےاوپری منزل کی شہ نشین پر رہتے ہوئے توپخانے کے کیپٹن انور کے ساتھ ہڈیارہ اور پڈھانہ کی سمت سے آتی ہندوستانی فوج کو پیش قدمی سے روکے رکھنا تھا۔ 6 ستمبر کی صبح سے 10/11 ستمبر کی درمیانی رات تک نیند اور خوراک کی کمی سے ہلکان اور نڈھال میجر بھٹی نے سب سے اونچی شہ نشین سے دشمن پرلگاتار کارگر فائر گرایا تھا اور جان کی پرواہ کیے بغیر ہندوستانی سپاہ کےزمینی اورہوائی فائر کی زد میں آنےکےباوجود اپنی جگہ پر ڈٹےرہےتھے۔
لیفٹیننٹ جنرل ہربخش سنگھ نے، جو ستمبر کی جنگ میں ہندوستانی سپاہ کی مغربی کمان کے کمانڈر انچیف تھے، اپنی کتاب وارڈسپیچز میں لکھا ہے کہ 4 سکھ بٹالین کےبرکی گاؤں پرحملے میں میجر عزیز بھٹی مارے گئے تھے۔
دس گیارہ ستمبرکی رات پہلے مرحلے میں جب 4 سکھ بٹالین نے برکی پر حملہ کیا تو تاخیری لڑائی لڑتی یہ پلاٹون نہر پارکرکے بی آر بی کے اپنی طرف کے بند پر کھدے مورچوں میں آگئی تھی اور ان کے ساتھ میجربھٹی بھی۔
___
photo courtesy
@leftofthepincer
برکی پر واقع بی آربی نہر کا پُل تو چھ ستمبر کی شام کو ہی اڑادیاگیا تھا۔ 12 ستمبرکی دوپہر جب میجر عبدالحبییب خان نے 12 پنجاب کی بچی کھُچی نفری کو جمع کرکےبی آربی کےپار ہندوستانی 16 پنجاب پر دھاوا بول دیا تھا تو نہر پر سے اس حملے کو فائری امداد مہیا کرتےمیجرعزیز بھٹی زندہ تھے۔
12 پنجاب کے انتہائی دلیرانہ مگر ناکام حملے میں میجر حبیب اور سات جوان کام آگئے۔ جنگ کی دُھند میں میجر حبیب اور انکے سپاہیوں کا یہ انتہائی دلیرانہ اقدام گم ہوگیا۔ نہ تو انہیں کوئی بہادری کا تغمہ ملا اور نہ ہی کسی نے ان کی شجاعت کی کہانی کہی۔
بہرکیف، ہندوستانی جنرل ہر بخش سنگھ کا 4 سکھ بٹالین کا میجربھٹی کو برکی پر کیےحملے میں شہید کردینے کا دعویٰ درست نہیں۔
میجر جنرل تجمل حسین ملک ستمبر 1965 کی جنگ میں لیفٹیننٹ کرنل تھے اور لاہور سیکٹر میں بلوچ رجمنٹ کی ایک پلٹن کو کمانڈ کررہے تھے۔
انہوں نے اپنی کتاب ’سٹوری آف مائی سٹرگل‘ میں میجر بھٹی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میجر عزیز بھٹی کی شہادت ہندوستانی توپخانے کا گولہ ان کے پاس پھٹنے سے ہوئی تھی۔ اسوقت وہ بی آربی نہر کے دفاعی بند پر شیشم کے ایک درخت کو مچان بنائے نہر کےپار سامنے کی زمینوں میں میجر حبیب کی قیادت میں 12 پنجاب کے حملے کو فائر سپورٹ مہیا کررہے تھے۔
نومبر 1965 کی ایک خاموش صبح جب ماسٹر عبداللہ بھٹی اپنے بیٹے کی شہادت گاہ پہلے پہل دیکھنے آئے تو برکی ابھی تک انڈیا کے قبضے میں تھا۔ جنگ بندی کا عمل تھا اور نہر کے پار سکھ سپاہی ٹہل رہے تھے۔
محمد ایوب خان اس دن ماسٹر بھٹی کے ساتھ تھے اور عقیدت کے اس سفر کی روداد بتاتےہیں۔ شہادت گاہ پٹڑی کے اوپر تھی جہاں میجر بھٹی گولہ لگنے سے پہلے پہل گرے تھے۔ وہاں سے اٹھا کر جب جسدِ خاکی کو بند کے اپنی طرف رکھا گیا تو زخم سے بہت سارا خون بہہ کر جمع ہوگیا تھا۔
اس مقام پر جہاں خون گراتھااینٹوں سےحدبندی کردی گئی تھی۔ اسی جگہ کوماسٹرعبداللہ بھٹی نےایک پدرانہ شفقت اورایک شہیدی عقیدت سےچوماتھا اورکچھ مٹی تبرکاً اپنے پاس رکھ لی تھی۔ ایوب خان بتاتےہیں کہ یہیں ساتھ ہی وہ شیشم کا درخت بھی ادھ جلا کھڑا تھا جہاں ٹینک کا پہلا گولہ گرکر پھٹا تھا۔
اس دھماکے سے میجر صاحب محفوظ رہے تھےاور پائےاستقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی تھی کہ و ہ دوبارہ پٹڑی پرکھڑےایک نئےولولے سےفائر درست کروا رہےتھے۔ ٹینک سےدوسرا فائر ہونےوالا گولہ ٹھوس شاٹ تھا جو آناً فاناً میجر بھٹی کی چھاتی کی بائیں سمت سے پار ہوگیا تھااور وہ موقع پر شہید ہوگئے تھے۔
میجر عزیز بھٹی کا جسدِ خاکی بٹالین ہیڈکوارٹر سے کیپٹن حکیم، صوبیدارغلام محمد اور لانس نائیک قطب الدین کی ہمراہی میں رات کو سی ایم ایچ لاہور لایا گیا۔ ایم آئی روم انچارج ڈاکٹر محمد رفیع چوہدری کی رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ میجرراجہ عزیز بھٹی کی چھاتی پر سامنےکی طرف نوانچ لمبا، چارانچ چوڑااورچھ انچ گہراگھاؤ تھاجو کسی ٹھوس گولےکی چوٹ کوظاہرکرتاتھا۔ 12ستمبرکی دوپہربی آربی نہرکی پٹڑی پراپنی جان کی پرواہ نہ کرتےہوئےسامنےکےدشمن پرگرنے والافائردرست کرواتےہمارےمیجرراجہ عزیزبھٹی کی شہادت ہندوستانی ٹینک کاٹھوس گولہ براہِ راست لگنےسےواقع ہوئی تھی۔ انہیں نہ تو برکی کی جنگ میں 4 سکھ کے جوانوں نے شہید کیا نہ ہی توپخانے کا پھٹنے والا گولہ وجۂ شہادت بنا۔ وجۂ شہادت واضح ہونے کی وجہ سے پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا۔
بعد ازاں سی ایم ایچ کے مردہ خانے سےہمارے شہید کا جسدِ خاکی لانس نائیک قطب الدین جو فوج کی نوکری سے پہلے میجر عزیز بھٹی کا ذاتی ملازم بھی رہ چکا تھا، لےکررات گئےلادیاں پہنچا، جہاں اپنے گھر کے باغیچے میں ہمارا تیسرا جانباز پینسٹھ کی جنگ کا اکلوتا نشانِ حیدر ابدی نیند سورہا ہے۔
غازۂ رُوۓ شھا د ت زینتِ قوم و وطن
سرفروش و غازی و شدّاد کُش مرحب فگن
سرخرو ہـو کے جہـادِ فی سبیل اللّـہ سے
مردِ مومن لے رہا ہے خوابِ شیریں کے مزے
___