گھات!
اپنی دانست میں بڑے اوور سمارٹ بنے اور فنگر پرنٹ سنسر والا فون خرید لیا۔ میں مسکرا کر رہ گئی۔
اسی رات میں نے Twin App انسٹال کی اور اپنی "ایشال علی" والی آئی ڈی سے انھیں انباکس کر دیا۔ جواب نہیں آیا۔
اگلے دن آفس ٹائم میں جواب آیا "وعلیکم السلام"
میں ایک بار پھر مسکرا کر رہ گئی اور میسج کیا "سر میں نے فیشن ڈیزائننگ میں ماسٹرز کیا ہے لیکن جاب نہیں مل رہی"
اپنی سیفٹی کرتے ہوئے پوچھنے لگے "آپ کو میری طرف کس نے گائیڈ کیا؟"
میں ان کے دفتر کے عملے کو جانتی تھی۔ لکھا "آپ کی کمپیوٹر آپریٹر عالیہ حیات کی چھوٹی سسٹر میری دوست ہے۔" میں نے جان بوجھ کر "چھوٹی" لکھا تھا
کہنے لگے "آپ صبح اپنا سی وی میرے آفس ڈراپ کر دیجیے"
میں نے چال چلی "اچھا کل چھوٹے بھائی کو دے بھیجوں گی"
ایک سیکنڈ میں جواب آیا "نہیں آپ خود آئیں"
میں ایک بار پھر مسکرا کر رہ گئی
"ابھی فری ہوں میں ویسے" میں نے پتہ پھینکا۔
"میں بھی فری ہوں۔ آ جائیں" بے تابی ظاہر تھی۔
"لیکن مجھے گلبرگ سے آنے میں بہت دیر لگے گی۔ تب تک آفس ٹائم ختم ہو جائے گا" میں نے گھیرا تنگ کیا۔
"اور میں تھوڑی دیر میں اسی طرف جا رہا ہوں" ہائے اللہ۔۔۔ کتنے کمینے ہیں۔۔۔
"گلوریا جینز میرے گھر کے بالکل پاس ہے" میں نے سب سے مہنگے کیفے کا نام لیا۔
"ارے میری میٹنگ وہیں پر ہے۔ آپ کتنی دیر میں وہاں پہنچ سکتی ہیں؟" ہائے میں مر جاواں۔
"جی سر میں دس منٹ میں پہنچ سکتی ہوں" میں چوتھی بار مسکرا کر رہ گئی۔
"ٹھیک ہے اپنا سیل نمبر سینڈ کر دیں" میاں جی نے اپنی طرف سے گھیرا تنگ کیا۔
"جی سر" میں نے اپنا "ڈبل نمبر" والا نمبر بھیج دیا۔
پتا نہیں وہ لالہ زار سے دس منٹ میں کس جہاز پر سوار ہو کر گلوریا جینز پہنچ گئے۔ کمال ہے۔ ٹھیک دس منٹ بعد ایس ایم ایس الرٹ ملا "کہاں ہیں؟"
میں اس وقت ساتھ کے فلیٹ پر رہنے والی اپنی دوست ماریہ کا برقع اور نقاب پہنے اسی سے لیا ہوا آئی شیڈ لگا کر اسی کی نظر والی عینک پہن رہی تھی۔ ٹشوز لپیٹ کر ناک کی شیپ دے کر نقاب کے نیچے ناک اونچی کرکے لائنر سے آنکھیں لامبی کر چکی تھی۔ گلوریا جینز پہنچتے مزید آدھ گھنٹہ لگ گیا۔ اپنی گاڑی کی بجائے آٹو لیا تھا۔ اس دوران میاں جی سترہ میسج کر چکے تھے۔ اور میں ہر میسج پر مسکرا کر رہ جاتی۔
"کیسی ہیں آپ؟" بیٹھتے ہی پہلا سوال۔ ہائے کیا سٹائل تھا۔ گھر میں تو ایسا سٹائل کبھی بھول کر بھی نہ مارا انھوں نے۔
"جی سر میں ٹھیک" میں جو پیروڈی کی ماہر تھی رانی مکھرجی کی آواز اور انداز میں بولی۔
"کیا لیں گی؟" مجھ سے کبھی نہ پوچھا تھا کمینے۔۔۔ دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہی تھی میں۔
"کریم برُول" میں نے فرنچ چلر کی فرمائش کی۔
"ٹو کریم برُول لارج" میاں جی نے ویٹر کو آرڈر کیا۔ حد ہے میٹھا کھانے سے مکمل پرہیز کرنے والا انسان اور فل سائز سخت میٹھا ڈیسرٹ
اندر ہی اندر سانپ لوٹ رہے تھے میرے۔ جب بھی کہا باہر لے چلیں تب بہانہ "اس مہینے بجٹ ٹائٹ" اور آج نوکری دینے گلوریا جینز پہنچے ہوئے اوپر سے کریم برُول۔۔۔ مر جانیا خصماں نو کھانیا
میرے صبر کا پیمانہ الٹ کر نیچے جا گرا لیکن سوچا کریم برُول کیوں چھوڑوں۔ جونہی آرڈر سرو ہوا میں نے مسکراتے ہوئے نقاب الٹ دیا۔
میاں جی پر سکتہ سا طاری ہو گیا۔ میں مسکراتی ہوئی اپنا ٹمبلر خالی کرنے میں مصروف رہی۔ وہ چپ سادھے بیٹھے رہے۔
"گاڑی کی چابی دیں" کپ خالی کر کے میں نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ انھوں نے چپ چاپ چابی نکال کر میز پر رکھ دی۔
"آٹو سے آ جانا" یہ کہہ کر میں چابی اٹھاتی "گلوریا جینز" سے باہر نکل آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ:آگے آپ کو پتہ ہی ہو گا۔۔۔۔۔
مقتول
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔